February 24, 2014

بننا فوٹو گرافر ہمارا- پہلے کیمرے سے آج تک

Banna hamara photographer- pehly camery se aaj tak


تصویر جانے نہ پائے
سنہ 97 میں میں پہلی بار مری گیا تھا اور پہلی بار ایک کیمرے کا بلا شرکت غیرے مری رہنے تک مالک بنا تھا۔ تب کیمروں میں ریل یا رول ڈلا کرتا تھا اور ایک ایک تصویر سوچ سمجھ کر کھینچنی ہوتی تھی کہ 32 یا 31 یا 30 تصاویر کل ہماری صوابدید میں ہوتی تھیں تاہم رول لینا اور تصویر کھینچنے سے بھی مشکل مرحلہ تصاویر کی دھلائی ہوا کرتا تھا اور ہماری کئی ریلیں دوالیہ ہونے والے فوٹو گرافروں کے ساتھ ہی کباڑ برد ہوئی ہوں گی۔ وہ نائیکون کا کیمرہ تھا جس میں فلیش کیمرے سے الگ ہو سکتا تھا اور پہلی بار فصیل مسجد دیکھنے کی خوشی میں میں فلیش اور کیمرے کا کور وہیں بھول آیا تھا اور واپسی پرخالہ جن سے کیمرہ لیا تھا خاصی عزت افزائی کرانی پڑی۔ 



فوٹو مار بھیجے میں
اگرچہ وہ میرا پہلا تجربہ تھا اور میں تب خاصا چھوٹا تھا لیکن اب دیکھنے پر احساس ہوتا ہے کہ تب بھی مجھ میں حس لطیف موجود تھی کہ کچھ کچھ سبزہ نما تصاویر میں آج بھی موجود ہے۔

لچکتی ہوئی تصویر کے لیے خود بھی لچکنا پڑتا ہے
سنہ2000 میں میں ایک بار پھر مری گیا لیکن اب کی بار دوست ہمراہ تھے اور مری پہنچ کر ہمیں احساس ہوا کہ تصاویر کے بغیر سفر کا کوئی فائدہ نہیں۔ لہذا ہم نے ایک کرایہ پر ملنے والا کیمرہ ادھار لیا حالانکہ ہمارے ایک دوست میاں صاحب چند روز قبل ہی ایک ہینڈی کیم کا تاوان بھر چکے تھے جو ان کے ایک جاننے والے نے ان کے توسط سے کرایے پر لیا تھا اور واپسی پر اسکا انجر پنجر ڈھیلا ہوچکا تھا۔تاہم اس بار ایسا کچھ نہ ہوا البتہ ج چندہ کر کے تصاویر دھلوائی گئیں تو دیکھنے والوں نے یہ ضرور کہا کیا قلوں پر گئے تھے یا مری گئے تھے۔کہ ہم نے شلوار قمیص اور سر پر ٹوپی پہنے تصاویر کھنچوائیں تھیں اور جمعے کے بعد شلواریں بھی ٹخنوں سے اوپر لہرا رہی تھیں۔

فوکس میرے دوست فقط فوکس
انہی میاں صاحب نے چند روز بعد ایک چینی مارکہ ویب کیمرہ لیا جس میں سیل ڈال کر آُپ بے شمار تصاویر کھینچ سکتے
تھے۔ یہ تین اعشاریہ دو میگا پکسل کا کیمرہ تب جو دیکھتا تھا دانتوں تلے انگلی دبا لیتا تھا کہ دو سیل ڈالیں اور ہزار ہا تصاویر کھینچیں۔ اب ہم دونوں نے ایک دوسرے کی تصاویر کھینچیں اور اکثر تصاویر کھینچ کر میں میاں صاحب سے ڈانٹ کھاتا کہ تصاویر آؤٹ آف فوکس کرنا تو میرے بائیں ہاتھ کا کام تھا۔میاں صاحب اکثر ایسا لگتا غلطی سے تصویر میں آگئے وگرنہ میں تصویر تو دیوار کی یا دیوار پر لٹکے تولیے کی یا میاں صاحب کے قدموں میں پڑے آوارہ شاپر کی کھینچ رہا تھا۔ تب میاں صاحب نے نصحیت کی کہ جب تصویر کھینچو تو کوشش کرو کہ جس کی تصویر کھینچ رہے ہو وہ عین درمیان میں ہو۔ شکر ہے تب تک انٹرنیٹ اتنا عام اور گوگل اتنا خوار نہ تھا وگرنہ میں ماڈلنگ کی تازہ مثالوں سے ثابت کردیتا کہ بھائی سر کا کچھ حصہ کاٹ دینا بھی ایک انداز گرفتاری تصویر ہے۔تاہم اس نصحیت سے میری تصویر کشی اور عکس بندی پر بہت مثبت اثر پڑا 
واہ کیا خوبصورت تصویر آ رہی ہے

تاہم جب تک یہ مثبت اثر پڑا تب تک ہم ایک دوسرے کی تصاویر کھینچنے کے مرحلے سے کہیں آگے نکل چکے تھے۔ 2006
میں والد صاحب ایک کیمرہ لائے کیمرہ تھا کاسیو Casio اور جب سونی اور نائیکون 10 میگا پکسل پر نہ پہنچے تھے تب وہ 10 میگا پکسل کا کیمرہ تھا۔کاسیو ایگزیلم زیڈ ایک ہزار آ تو گیا لیکن ہمارا واحد مقصد یہ ہوا کرتا تھا کہ ہر گلی ہر دکان ہر مکان کے آگے اپنی تصویر کھینچی جائے۔ تاہم تب تک خود کی (selfie) کا رواج نہ تھا لہذا ہر بار کسی کی تصویر کھینچ کر اس کو خوش کر کے پھر اس کو کہا جاتا یار اب میری بھی تصویر کھینچ دو۔ اس کیمرے کا حال وہی ہوا جو پاکستان میاں صاحب کے کرائے والے ہینڈی کیم اور اپنے ویب کیم اور اکثر کیمروں کے ساتھ ہوتا ہے کہ کسی نے مانگا اور جب ملا تو کسی اور کے مانگنے کے قابل نہیں رہا۔ جب میرا کاسیو واپس آیا تو اس کے لینز کے کھلنے میں تکلیف ہونے لگی اور یہ تکلیف ایسی جان لیوا ثابت ہوئی کہ کیمرہ ہمیں عکس کشی کے کشٹ سے نجات دلا کر الیکٹرانکس کی دکان کے فصلہ جات کے حصے جا سویا۔


میں تڑین میں
اب کی بار لینز کا دھکا کھا کر ہم نے سونی ٹی 90 خریدا جس میں لینز کھلنے اور بند ہونے کا تکلف نہ تھا یوں اس کے خراب ہونے کا امکان کم سے کم تھا۔دوسرا ہمارے فوٹو گرافی گرو میاں صاحب نے مشورہ دیا کہ بھائی سونی سونی ہے اور جتنا بھی برا ہو اس کے رنگ باقیوں سے بہتر ہی ہوں گے۔یہ کیمرہ جب لیا تو کچھ دنوں بعد ہی میں دبئی چلا گیا اور جب 2009 میں پولینڈ گیا تو یہ کیمرہ ہمراہ تھا۔کیمرہ تو ساتھ نبھاتا رہا تاہم فوکس بدستور اپنی ذات رہی اور خود کی تصاویر کھینچ کھینچ کر اپنے نادیدہ دشمنوں کو دل ہی دل میں جلاتے رہے اور اس جلانے کو مزید مہمیز فیس بک کی آمد نے دے دی۔فرق البتہ یہ ضرور پڑ گیا کہ ہم خود کی عکس کشی میں ایسے ماہر ہو گئے کہ چار پانچ بندوں کے ساتھ تصویر کھینچنے میں بھی ذرا مشکل نہ ہوتی اور ہم بیرونی امداد سے بے نیاز ہو گئے۔

حسین منظر کی نزدیک سے عکس کشی
 اسی دوران نائیکون ڈی 3000 خرید لیا۔ اب چونکہ اس ڈی ایس ایل آر کیمرے سے اپنی تصویر کھینچنا ممکن نہ رہا دوسرا یورپ گھومنے کا آغاز بھی ہوا تو احساس ہوا کہ تصویر کھینچنے میں خود کا ہونا فقط اس حد تک ضروری ہے کہ آپ کیمرے کو تھامے ہوں۔ پہلی بار اپنی ذات سے باہر نکلا اور قدرتی مناظر پر توجہ دینا شروع کی۔ رہی سہی کسر فیس بک پر ایک فوٹوگرافر کے انسانوں کی تصاویر دیکھ کر کان پکڑ کر توبہ کی کہ بندہ جو کام کرنے کے قابل نہ ہو وہ کام نہ ہی کرے۔ اور ایسے تصاویر کھینچے کہ کئی لوگ پوچھ بیٹھے کہ اس شہر میں کوئی بندہ بشر نہیں رہتا کیا۔ لیکن پھر کبھی انسانوں کی تصویر نہیں کھینچی بس اپنے بچوں کے فوٹو کھینچ کر خوش ہو لیتے ہیں۔لیکن کبھی کبھار پاکستان ہوں اور شادی آ جائے تو شامت اعمال ساتھ آتے ہیں کہ میرے ذمے شادی کی تصاویر لگا دی جاتی ہیں اور سب سے مشکل مرحلہ تب آتا ہے جب خواتین کی طرف آتی ہے اور میری حتی الامکان کوشش رہتی ہے کہ شادی پر جاؤں ہی نہ تاکہ اس جھنجھٹ سے بچا رہوں۔ 

توں تصویر کھیچی رکھ اسی اس نوں لبھ رہے ہیں جس نے تینوں کیمرہ لے دتا
بیجنگ میں ایک سڑک پار کرتے بیچارہ نائیکون ڈی تین ہزار اللہ کو پیارا ہو گیا تو اتنی استطاعت نہ تھی کہ ایک اور ڈی تین ہزار خرید سکتے تاہم اب تک مجھے کیمرے کی لت لگ گئی تھی۔پہلے فوجی کا جے ایکس 650 آیا جو اپنے رنگ ڈھنگ اور چال چلن کیوجہ سے قیمت کی طرح سستا ہی ثابت ہوا تو اس کے بعد نائیکون کا ڈیجیٹل ایس 2700 لیا اور اس نے کافی حد تک ڈی ایس ایل آر کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔

ہاتھ میں کیمرہ ہو تو فلش کی تصویر بھی کھینچنے کا دل کرتا ہے
لیکن جیسے پانی بنا مچھلی کو قرار نہیں ایسے ہی ہمیں کیمرے کے بنا قرار نہیں تو آخر ہم نے ایک بار پھر ڈی ایس ایل آر نائیکون ڈی 3100 خرید لیا۔ اب کی بار نائیکون کا ایل 320 ساتھ مفت ملا جس میں 26 ایکس زوم ہو سکتا ہے اور جب وہ ہاتھ لگا تو پرندوں کی تصاویر کھینچے کا شوق لگا۔ اگرچہ اس کے رزلٹ کا مقابلہ کسی طور اصلی تے وڈے کیمرے یعنی ڈی ایس ایل آرسے نہین لیکن زوم نے کمی پوری کردی اور ہم نے پرندوں کی ایک پوری البم بنا لی اور اب زندگی کا واحد مقصد ایک بڑے زوم والا لینز خریدنا ہے۔

ہمارے ہٹلر انکل تک فوٹو گرافی کے شوقین نکلے بس فوٹو شاپ ہو تے سب جائز
نااہلی کہیں ، کام چوری کہیں کبھی فوٹو شاپ سے تصویر پر پالش نہیں کی اور ہم تو ایسے باکمال ہیں کہ واٹر مارک لگاتے ہمیں تکلیف ہوتی ہے کجا تصویر کی لش پش کرنی۔

کیمرے چلانے سے زیادہ اہم کیمرہ ہونا ہے
بہرحال دس کیمرے اور بیس ملک گھوم کر لگتا ہے عکس کشی کی الف بے سیکھ لی ہے اور امید ہے کہ کچھ تصاویر ایسی کھینچی جائیں گی جو میرے علاوہ بھی لوگوں کو پسند آئیں گی۔ ویسے آپس کی بات ہے اگلے سال تصویری نمائش کا ارادہ بھی ہے۔ آپ سب کو دعوت ہو گئی۔

اب یہ سب پڑھ لیا ہے تو ذرا ہماری فوٹو گرافی پر بھی نظر ہو جائے۔