kahani : phurtion ka anjaam
پیارے بچو روز روز کی کہانیاں پرچوں میں لکھ لکھ کر آپ بھی بور ہو چکے ہوں گے لہذا اگلے پرچوں کے لیے ایک نئی قسم کی کہانی یہاں تحریر کر رہے ہیں تاکہ غیر اخلاقی نتیجہ بھی خاطر خواہ نکل سکے اور پڑھنے والے اور لکھنے والے بور بھی نہ ہوں۔
واقعہ فقط اتنا سا ہے کہ ایک لڑکی گھر سے بھاگ گئی تھی۔لیکن کہانی خاصے مزے کی ہے۔ویسے بھی ہمارا قومی کردار ہے کہ پرائی مصیبت پر تماشہ دیکھنا ہمارا پسندیدہ مشغلہ ہے اور جب تک اپنے سر پر نہ پڑے تب تک تمام لوگ چٹخارے لے لے کر کہانیاں بیان کرتے ہیں اور بطور بلاگر یہ ہمارا فرض بھی ہوا گویا کہ ہماری مثال اسی بچے کی ہے جس کے بارے میں ایک شخص نے کہا اس کا باپ شاعر ہے ، اس کا دادا کمنٹیٹر تھا اور اسکی والدہ "خاتون" ہے۔ گویا ہم میں بھی نمک مرچ لگانے کے تمام لوازمات پورے ہیں تو کہانی یوں ہے کہ ایک گاؤں میں حسب معمول دو طبقے کے لوگ تھے۔ ایک امیر جو چوہدری ہیں اور دوسرے غریب جو نائی ، میراثی ، موچی ، بھنگی سب کچھ ہیں۔ اب اس گاؤں میں کچھ ایسے ذات کے چوہدری بھی تھے جو تھے تو چوہدری مگر تھے غریب اور غریب کی کوئی ذات اور عزت نہیں ہوتی۔
تو ایسے ہی غریب چوہدریوں کی بڑی بیٹی اور کمہاروں کے بیٹے کے درمیان آنکھ مٹکا چلنے لگا۔دونوں کی اپنے اپنے گھروں شادی ہو گئی لیکن سننے میں آتا رہا کہ انکی میل ملاقات جاری ہے۔ یہ کہانی تب شروع ہوئی جب چھوٹی چوہدرائن صاحبہ گھر سے فرار ہو گئیں۔ گھر والوں نے سابقہ ریکارڈ کھنگالا تو کمہار صیب کا نام منظر عام پر آیا کہ موصوف بڑی چوہدرائن کے معاملے میں بھی نیک نامی کما چکے ہیں لہٰذا امید واثق ہے کہ چھوٹی کے معاملے میں بھی یہی ملوث ہوں گے۔باقی لاکھ باگ ڈور کے باوجود بھی گھر والوں کو کوئی سرا نہ ملا۔اب دیہی معاشرے میں لڑکیاں بھاگ جانا کوئی ایسا برا امر نہیں لیکن مسئلہ تب بنتا ہے جب لڑکی برآمد نہ ہو۔ گویا بھاگ کر مل جائے تو جوتے تھپڑ کھا کر معاملہ صاف ہوجاتا ہے لیکن اگر لڑکی نہ مل سکے تو عزت پر حرف آتا ہے اور بھگانے والے کے خاندان پر بازو یعنی لڑکی کے بدلے لڑکی دینا لازم ہو جاتا ہے۔
چوہدریوں نے پنچائیت بلائی اور کمہاروں سے بازو کا مطالبہ کر دیا۔ کمہار صاحب کی اپنی بیٹیاں جوان تھیں لہٰذا ان کے پاؤں تلے زمین نکل گئی۔انہوں نے ان کیمرہ سیشن کا مطالبہ کر دیا جہاں انہوں نے ان صاحب نے چھوٹی چوہدرائن سے کسی بھی قسم کے جائز و نا جائز تعلقات سے انکار کر دیا البتہ انہوں نے بڑی چوہدرائن سے اپنے عشق کی تفصیلات چھپانا مناسب نہ سمجھا۔ انہوں نے سوچا کہ اچھا ہے ڈکیٹی کا الزام سر پر لے کر قتل کے الزام سے بچا جائے۔
وہاں وہ انکشاف کرنے لگے کہ ہاں میرا تعلق تھا ، تھا کیا ہے لیکن چھوٹی بی بی سے نہیں بلکہ بڑی سے۔شادی سے پہلے بھی میل ملاقات ہوتی تھیں اور شادی کے بعد تو بڑی کے شوہر کو بھی پتہ تھا بلکہ وہ تو خود آکر مجھے کہا کرتا تھا کہ بی بی آپ سے ملنا چاہتی ہیں لیکن ان کے شوہر ایسے کنجوس ہیں کہ مجال ہے کبھی گھر والی کے حقوق کا خیال رکھتے ہوئے کوئی سو ہزار ان کی ہتھیلی پر جیب خرچی کی مد میں رکھا ہو تو میں اپنے دو تین ہزار کی قربانی دے کر مجبوراً ان سے ملنے جاتا تھا میرا دل تو نہیں مانتا تھا لیکن ان کی اور ان کے شوہر کے دل ٹوٹنے سے ڈر لگتا تھا کہ اور اوپر سے یہ ڈر کہ کوئی پتہ نہیں مجھے مار لگا دے یا کسی تگڑے بندے کو شکایت لگا دے۔اور میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ جو آپ کے گھر چوری ہوئی تھی وہ چوری نہین تھی بلکہ آپکی بیٹی اور داماد نے مجھے سارا سامان لا دیا تھا کہ بیچ آؤں۔اور اطلاعاً عرض یہ ہے کہ میں اکیلا ہی نہیں، چھیما نائی، کلو مسلی بھی بیچارے بلیک میل ہورہے ہیں ۔باقی جہاں تک چھوٹی کی بات رہی تو اس نے پینگیں بڑھانے کی کوشش کی ہے مجھ سے لیکن میں نے کبھی اسکو ایزی لوڈ کرا کر دینے سے زیادہ فری نہیں ہونے دیا۔
اب بیچارے چوہدری دل ہی دل میں غصہ پی گئے کیونکہ یہ تو معاملہ الٹ پڑتا تھا چھوٹی تو چھوٹی بڑی بی بی کے کارنامے اچھلتے تھے۔اب ویسے تو ایسی باتیں گاؤں میں سب کو پتہ ہوتی ہیں لیکن ملمع پڑا رہے تو اچھا ہوتا ہے کیونکہ ایک پرت اتارنے پر تہہ در تہہ پرتیں اترتی جاتی ہیں۔اور معاملہ اگلی میٹنگ تک ٹل گیا۔
ادھر کمہار صاحب اتنے بھی معصوم نہیں تھے جتنے وہ بنتے تھے تو انہوں نے ادھر ادھر فون کرنے شروع کر دیے کہ انکو ڈر تھا کہ امیر چوہدری غریب چوہدریوں کی حمایت ہی نہ کر دیں کہ اپنی بیٹی سب کو پیاری ہوتی ہے اور پرائی بیٹی پر سب کی نظر ہوتی ہے اور تین چار گھنٹے میں انہوں نے چھوٹی بی بی کا سراغ لگالیا۔اپنی قابلیت اور معصومیت جھاڑنے کو انہوں نے چھ سات لوگوں کو ساتھ لیا اور چھ سات لوگوں کے سامنے جا کر کہا لو جی آپکی بیٹی وہاں بیٹھی ہے جا کر لے آؤ۔
جب لڑکی کے والدین وہاں پہنچے تو بی بی صاحبہ کو مخبری ہو چکی تھی وہ وہاں سے جا چکی تھیں ۔لڑکی کے لواحقین اس بات پر متفق تھے یہ اسی کمہار بچے کے کام ہیں اس نے ہمارا مذاق اڑایا ہے۔
تاہم لواحقین کی تلاش آخررنگ لائی اور ایک بندے نے فون کر کے کہا کہ آپکی بیٹی ہمارے گھر ہے اور ہم آدھے گھنٹے سے زیادہ نہ روک پائیں گے۔ آپ آدھے گھنٹے میں آسکتے ہیں تو آکر لے جائیں۔گھر والے بھاگے بھاگے گئے اور لڑکی کو لے آئے۔
اب گھر والوں نے سوچا کہ لڑکی تو اللہ کے فضل سے آگئی تو بدلہ کیسے لیا جائے۔انہوں نے ایک اور اکٹھ کا مطالبہ کیا ۔جب ساری برادری اکٹھی ہوگئی تو کہمار صاحب سب سے آخر میں لہکتے جھومتے پنڈال میں داخل ہوئے۔ داخل ہوتے تو انکو دیکھا گیا اسکے پانچ منٹ بعد تک انکو کوئی نہ دیکھ سکا کہ لڑکی کے دس بیس رشتے دار ان پرایسے جھپٹے جیسے اقبال کا شاہین باطل مٹانے کو جھپٹتا ہے اور پانچ منٹ میں جس کے ہاتھ کمہار بچے کا جو لگا اس نے اسی کوٹھونک ڈالا۔
لمحوں کی غلطیاں صدیوں کی سزا کے مصداق اس اچانک حملے سے کمھار صیب تین ہفتے اسپتال گزار آئے اور اب تک لنگڑا لنگڑا کر چلتے ہیں اور سنا ہے آجکل لڑکیوں کو ایزی لوڈ بھی نہیں کرا دہتے کہ کیا لطف انجمن کا جب جسم ہی ٹُٹ گیا ہو۔
سچ ہے کسی اور کو دنیا میں سزا ملے نہ ملے شوخے بندے کو سزا مل کر رہتی ہے۔