July 11, 2015

یادوں کا گاؤں



پیش تحریر: سنجیدگی ، بے ربطگی اور طوالت کے لیے پیشگی معذرت

نو نمبر چونگی چوک ایک طرح کا ملتان شہر کا داخلی دروازہ ہے۔ اندرون شہر کے پانچ دروازے جو کبھی قدیمی دروازے ہوا کرتے تھے اب اندرون شہر سے بھی زیادہ سمٹ گئے ہیں اور اندرون شہر ان دروازوں سے باہر نکلا لگتا ہے۔ 9 نمبر چونگی نئے ملتان کا دروازہ ہے جیسے عزیز ہوٹل چوک ، چوک کمہاراں والا اور چوک بی سی جنہوں نے دولت گیٹ، دہلی گیٹ، پاک گیٹ، حرم گیٹ، بوہڑ گیٹ اور لاہوری (لوہاری) گیٹ کی جگہ لے لی ہے۔

9 نمبر چونگی سے بوسن روڈ پر آئیں تو لا سال سکول کے ختم ہوتے ہی احساس ہوتا ہے کہ شہر کے مضافات پہنچ چکے ہیں۔ کھوتوں والی تحصیل جو کہ گدھا ریڑھی کا اڈا ہے سے گلگشت کالونی شروع ہو تی ہے۔گلگشت کالونی ابھی تک بھی پوری آباد نہیں ہوئی جہاں بڑے بڑے گھر ہیں جن کی بیرونی دیواروں کے طور پر قد آور سبز بیلیں ہیں ۔ اس نباتاتی دیوار کے اندر ایک چھوٹا سا باغیچہ اور اندر برآمدہ۔ اس کالونی میں خال خال گھر آباد اور اس بھی خال خال دکانیں ہیں۔ شام ہوتے ہی ایک رویہ سڑکوں پر ایسا ہو کا عالم طاری ہوتا ہے کہ گویا کوئی پارک ہو جس کو رات کو تالہ لگا دیا جاتا ہو۔

چھ نمبر چونگی پر اکادکا دکانیں ہیں اور یہ آبادی کا آخری سرا ہے۔ اب اس سے تھوڑا آگے جا کر زکریا ٹاؤن اور شالیمار کالونی کے منصوبے زیر تکمیل ہیں۔ شالیمار کالونی سے آگے نکلتے ہیں سیداں والا آتا ہے جس کو شنکر والا باغ ابھی تک پکارا جاتا ہے جبکہ باغ کے نام پر اکا دکا درخت رہ گئے ہیں اورجہاں سے احساس ہوتا کہ شہر ختم ہو چکا اور دیہی حدود شروع ہو چکی- ایسا کسی بورڈ سے پتہ نہیں چلتا بلکہ ہوا کے اثر سے پتہ چلتا ہے جو چھ نمبر چونگی تک تو لو سی لگتی ہے لیکن شالیمار کالونی سے گزرتے ہی ٹھنڈی خوش گوار ہوا میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

اس سے آگے نیل کوٹ اور محمود کوٹ کے نام کے چند کچے پکے گھروں کے علاوہ بہاالدین زکریا یونیورسٹی تک کچھ نہیں۔ یونیورسٹی بھی بوسن روڈ کو تکلیف دیے بنا ہی وہاں قائم ہے کہ بوسن روڈ پر اس کا گیٹ ہے اور گیٹ سے اندر داخل ہوں تو ایک کلو میٹر اندر جا کر یونیورسٹی شروع ہوتی ہے۔ بس یوں سمجھیں باغات کے درمیان ایک گیٹ ہے اور پھر سے باغات۔ اتنی خاموشی سے یونیورسٹی گزرتی ہے کہ اگر رات کو جب یونیورسٹی کی تمام شہر میں دندناتی بسوں کو آرام ملتا ہے تو آپ شاید جان ہی نہ سکیں کہ یہاں جنوبی پنجاب میں پاکستان بننے کے بعد قائم کی گئی واحد یونیورسٹی قائم ہے۔

آگے بچ خسرو آباد ہے جس کو عرف عام میں "بُچہ یا بُچے" بلاتے ہیں اور موضع ہے گٹھ برابر یعنی مٹھی برابر۔ تینوں نام عجیب سے ہیں اور ہم جب بھی ان کا تذکرہ کرتے ہیں تو ایک مسکراہٹ چہروں پر آ جاتی ہے۔ باغات کے لا محدود سلسلے میں ایک بنک نے دڑاڑ ڈال رکھی ہے جو قبرستان کے سامنے ایک چھوٹے سے مکان نما عمارت میں قائم ہے جس میں بہت سے کسانوں نے اکاؤنٹ کھول رکھے ہیں۔ ویسے تو زمیندار بھی بنکی لین دین کو سود سمجھتے ہیں لیکن قرضہ جس کی زمیندار، کسان، کاشت کار کو اکثر ضرورت پڑتی ہے لینے کے لیے بنک خود چل کر ان کےے دروازے پر آ گیا ہے تو کون کفران نعمت کرے۔

آموں کے باغات کا سلسلہ جہاں سے ٹوٹا وہاں سے دوبارہ چل پڑا اور نہالے والا پر آ کر ٹوٹتا ہے کہ باغات اور بوسن روڈ تو بند بوسن سے بھی آگے تک چلے جاتے ہیں لیکن ہم نے یہاں پر دائیں مڑنا ہوتا ہے۔ نہالے والا ایک اڈا ہے جس سے کوئی بس کوئی کار رکے بغیر نہیں گزر سکتی ہے کہ آبادی اور دکانوں کا پھیلاؤ اکثر سڑک کے بیچوں بیچ آجاتا ہے۔ کبھی کبھار کوئی بڑا نام رکھنے والا زمیندار گزرتا ہے تو لعن طعن کر کے ناجائز تجاوزات وگزار کرا کر سڑک کو کچھ سکون پہنچاتا ہے لیکن وہ ایسی ہوتی ہے جیسے حبس کے موسم میں ایک آدھ ہوا لی لہر جس کو ہماری طرف ہیل کیتے ہیں۔

نہالے والے سے اینٹوں والی سڑک شروع ہوجاتی ہے اور نہالے والے آکر کاروں والے ہوشیار ہوجاتے ہیں ۔ بیبیوں کے پردے مزید سخت ہو جاتے ہیں اور کار چلانے والی کی کوشش ہوتی ہے کہ اس آبادی کی موج سے جتنا جلدی ہو سکیں گزرے کہ نہالے والا مدتوں کمی رہنے والوں کی بستی ہے جو سیدوں اور دیگر سرداروں جن کی سرداری کم اور نام زیادہ رہ گیا ہے کی بی بیوں کو گھور کر اپنی نسلوں کی پستی کا بدلہ لینا چاہتے ہیں ادھر سرداروں کو اپنی کم ہوتی زمین سے زیادہ اپنی بی بیوں کی کم ہوتی عزت کی پرواہ ہے۔

نہالے والا کب ختم ہوتا ہے کب بستی ہراوٹ شروع ہوتی ہے پٹواریوں اور ان سیدوں کے علاوہ جنہوں نے یہ زمین بیچی ہے کوئی نہیں جانتا تاہم جیسے ہی یہ آبادی کا سیلاب ختم ہوتا ہے دوبارہ آم کے باغ آجاتے ہیں جو دن کو خوش کن اور رات کو خوفناک لگتے ہیں کہ اینٹوں کی سڑک بھی ختم ہونے والے اور روشنی کا نام و نشان نہیں کیا پتہ اس مہیب اندھیرے میں آموں کے جنگل میں درختوں پیچھے کیا چھپا ہو کہ چور ڈاکو اور جن بھوت بھلے یہاں کسی نے دیکھے نہیں لیکن ان کے وجود سے تو انکار نہیں-

اینٹوں والی سڑک جو سولنگ کہلاتی ہے ختم ہوئی اور ایک چھوٹی نہر کے ساتھ کچی سڑک کا آغاز ہو گیا۔ مٹی اتنی ہے کہ کبھی کبھار کار یا ٹریکٹر گزرتا ہے تو پیچھے آنے والے پانچ منٹ مٹی کے بیٹھنے کا انتظار کرتے ہیں۔ ایک سڑک نہر کے کنارے کے ساتھ ساتھ ہے اور ایک سڑک 4،5 فٹ نیچے اس سڑکے سے متصل چلی آتی ہے۔ نچلی سڑک پر صرف ٹریکٹر چل سکتے ہیں حالانکہ مٹی تو اوپر والی سڑک پر بھی ٹخنوں ٹخنوں ہے۔

انہی کچی سڑکوں پر جب بارش ہوتی ہے تو سڑکیں کسی اسکیٹنگ میدان کا سماں دیتی ہیں اور ہر گزرنے والی بیل گاڑی اس گارے کو مزید پھسلن زدہ بناتی چلی جاتی ہے۔ ان دنوں میں اکثر سوار گاڑیاں کیچڑ میں پھسنے پر پیدل ہی گھر کو لوٹتے ہیں اور بعد ازاں ٹریکٹر یا بیل گاڑیاں کاریں گھر پہنچا جاتی ہیں- دونوں اطراف میں آموں کے باغات ہیں جہاں دن میں پرندے اور رات میں جگنو پھرتے ہیں۔ باغات سے دور جو ہلکی سی روشنی یا دھواں اٹھتا نظر آرہا ہے وہ کوٹلہ سادات ہے۔ جہاں میرے ننھیال ہے اور جہاں ہم اکثر کزن جمع ہو کر خوب دھما چوکڑی مچاتے ہیں۔

مجھے خیالات سے میرے خالو کی آواز نے نکالا جو کہنے لگے یہ نئی کار آئی اس کی خاصیت یہ ہے کہ اس ڈرائیور کو بونٹ نظر نہیں آتا۔ میں اور میرے کزن نے اچک اچک کر دیکھا اور بونٹ نظر آنے پر کہنے لگے کہاں یہ سامنے نظر تو آرہا ہے۔ خالو نے جواب دیا ڈرائیور آپ کی طرح بندر تو نہیں بن جاتا ناں۔ ہم ہنسنے لگے۔ میں نے پوچھا یہ کونسی گاڑی ہے ویسے؟ کہنے لگے سوزوکی کا نیا ماڈل آیا ہے آلٹو، ایف ایکس اب بدل گئی ہے۔

خیالات سے نکلا تو بات بھی بدل گئی کہ 1990 کی تھی اور حالات و گرد و پیش بھی کہ میری یادوں کے سہارے قائم تھے۔ اب نو نمبر چونگی اندرون شہر کی حد بن چکی ہے اور شہر ملتان سے بھی باہر پھیل گیا ہے جیسے ہماری ہوس بڑھتی جاتی ہے۔ یونیورسٹی سے آگے کے ہزاروں ایکڑ ڈیفنس ہاؤسنگ اسکیم میں شامل ہونے جارہے ہیں اور ان سے اگلے پاک عرب ہاؤسنگ اسکیم میں اور اس سے اگلے کسی اور میں۔ پہلے جہاں درخت تھے ، باغ تھے، فصلیں تھیں، سادگی تھی اب وہاں گھر ہوں گے، کالونیاں ہوں گی ، مکر فریبیاں ہوں گی کہ ہر عروج کو زوال ہے۔ ہر عروج کا قصیدہ ہے اور ہر زوال کا نوحہ ہے- عروج کا قصیدہ لکھنے والے تو ہزاروں ہوتے ہیں مگر نہ کوئی زوال کا ساتھی ہے، نہ کوئی زوال کا ساجھے دار اور نہ کوئی زوال کو پہچاننے والا۔ جن لوگوں کو یہ صلاحیت عطا کی گئی ہے وہ تمام عمر اپنے پرائے غم میں غلطاں اپنے اندر اپنے آپ کو کند چھریوں سے کاٹتے رہتے ہیں اور ایسی ایک ہی چھری مجھے بھی عناعیت کی گئی ہے اور ایک زوال کی آخری آواز یہ بھی ہے۔

بوسن روڈ تو ویسے ہی شہر کی مظلوم ترین سڑک ہے جس پر ایک مرمت ختم نہیں ہوتی دوسری مرمت کا ٹینڈر ہوجاتا ہے۔ لیکن اس بیچارے کی جو حالت میٹرو نے کی ہے اتنی کسمپرسی تو شاید تب بھی نہ ہو جب سڑک ایک رویہ ہوا کرتی تھی۔ لیکن بوسن روڈ کی بے بسی کے تو ہم عادی ہو چکے حیرانی تو تب ہوتی ہے جب وہ بالکل درست حالت میں ہو۔ لیکن یہ کہانی بوسن روڈ کی نہیں بلکہ کوٹلہ سادات اور اس کے گرد پھیلے ان ہزاروں ایکڑوں کی ہے جنہوں نے اس گاؤں میں مستقل رہائش پذیر ہونے کے بعد میرا ساتھ نبھایا - ان راستوں کی ہے جن پر اب تک جا چکا ہوں ان سفروں کی ہے جو میں نے طے کیے ان سانسوں کی ہے جو میں نے یہاں لیے اور جو آئندہ چند سالوں میں محض یادوں اور باتوں تک رہ جائیں گے-

ہمارے گاؤں کوٹلہ سادات سے پکی سڑک کو چھوڑ کرتین راستے ملتان کو اور ملتان پبلک اسکول کو نکلتے ہیں جہاں میں نے تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کی جو سب کوٹ والے میں ایک ہو جاتے ہیں۔ اگرچہ پچھاوڑے والے سے جائیں تو لمبا راستہ بنتا ہے لیکن سود و زیاں کی فکر ہوتی تو دیوانے بنتے ہی کیوں۔ کتنی ہی بار دس منٹ لمبے راستے پر گیا جہاں سڑک فصلوں میں گھری ہے اور آگے جا کر ایک اونچی کچی سڑک پرانی سڑک کی یاد دلاتی ہے اور جہاں جا کر موٹر سائیکل کی رفتار خود بخود آہستہ ہوجاتی ہے اور دل کرتا ہے یہاں کہیں بیٹھ کر اردگرد دیکھے جائیں۔جب بھی میں اسکول اس راستے سے گیا میرا دل اس روز وہیں رہ گیا۔

لالیوں والے تھڈے سے جائیں تو سب سے زیادہ رش ہے لیکن وہاں سنبل کے درختوں نے ایک جادوئی ماحول بنا رکھا ہے۔ ایسے ہی کجھی والے سے پکی سڑک بننے کے باوجود آج بھی وہاں اس سائیکل کے پہیوں کے نشانات میرے دل میں محفوظ ہیں جہاں نہر کے کنارے کنارے درختوں سے گھری کچی سڑک ہماری من چاہی منزلوں کا نشان ہے-

تیسرا راستہ نہر کنارے ہے جہاں پر پہلی بار میں نے سرخاب کوا دیکھا تھا جہاں سے 'یوسفا' مجھے سائیکل پر اسکول لے جایا کرتا تھا جہاں صبح صبح ایسا ماحول ہوتا کہ جیسے ابھی آنکھ کھلی نہیں اور ابھی خواب ختم نہیں ہوا-

سکول جاتے ہوئے مجھے چاچا اقبال نے روکا کہ ان راستوں سے مت جایا کریں یہاں ڈاکے پڑتے ہیں۔ میں نے سوچا چلو اچھا ہے موٹر سائیکل کھینچ جائے گا اسکول سے تو جان چھوٹے گی۔ موٹر سائیکل تو نہ چھینی لیکن اس راستے نے مجھے لوٹ لیا اور میری یادوں کو اپنے پاس گروی رکھ لیا۔ جب وہاں پر موٹر سائیکل پنکچر ہو گیا تو مجھے کچے راستے پر پانچ کلو میٹر موٹر سائیکل کھینچنا پڑا لیکن ایک خوشی تھی کہ اسکول سے چھٹی ہوگئی ، خوشی تھی کہ کچھ راستے مزید ایسے نکلے جن پر میں نے اپنے قدم ثبت کیے۔

 فضل شاہ والا واپڈا ٹاؤن بن گیا ہے لیکن وہ بڑے آم کے درخت آج بھی وہاں ہی محفوظ ہیں جو اتنے گھنے تھے کہ وہاں دن کو بھی روشنی زمن تک نہ پہنچ پاتی تھی اور جس زمانے میں گیدڑ کم کم رہتے تھے اس زمانے میں بھی وہاں گیدڑوں کا ایک بھٹ رہا کرتا تھا ۔ ٹیوب ویل کی بجائے بھلے ہی سوئمنگ پول بن جائیں گی لیکن آج بھی اس ٹیوب ویل کی بجلی کا کنکشن ہماری یادوں میں ایک برقی لہر دوڑا دیتی ہے اور ہر اس بار جب ہم وہاں نہائے ہیں جسم پر ہر پانی کے گرتے قطرے کے ساتھ یاد آجاتے ہیں۔ کینو کا باغ جس میں جب میں ایک بار نمک لے کر گیا تھا اور درختوں سے توڑ کر تازہ کینو اتنے کھائے تھے کہ اس سال اور آنے والے کئی سالوں کے لیے خواہش کا پیٹ بھر گیا تھا آج بھی میرے ذہن کے فضل شاہ والے پر قائم ہے۔

گٹھ برابر کےجس باغ سے گلگلے توڑ کر ہم نے چوری کیے تھے اور سمجھے تھے کہ کینو چوری کیے ہیں اور کھٹے ہونے کے باوجود اس لیے کھا لیے تھے کہ اتنی محنت سے چوری کیے کھائیں تو سہی اور کئی دنوں بخار میں تپتے رہے تھے یا جہاں سے اصلی کینو توڑے تھے یا فالسے چن چن کر کھائے تھے وہاں بچ ولاز بننے کے باوجود ان کا ذائقہ زبان پر آج بھی ویسے کا ویسا ہے تو اپنے گھر کا ذائقہ بھلا کیسے بھولے گا۔

پاکستان سے نکلنے کے بعد ہمیشہ ہوم سکنس رہی گھر کی یاد رہی ناسٹالجیا رہا لیکن وہ کبھی کسی شخص کے لیے نہیں رہا بلکہ اس جگہ کے لیے رہا جس نے رہنے کی جگہ دی، اس گھر کے لیے رہا جہاں بچپن گزرا، ان راستوں کے لیے رہا جہاں چلتے رہے، اس گاؤں کے لیے رہا جہاں عمر بیتائی، ان لمحوں کے لیے رہا جو ان درختوں، پگڈنڈیوں، نہروں کے گرد عطا ہوئے اور چاہے پولینڈ رہا، دبئی رہا یا اسٹونیا رہا وہ لمحے دل میں لیے گزرے۔ سب لوگوں نے کہا کہ کوشش کرو کہ نوکری باہر ہو لیکن اس جگہ کی کشش میں ہمیشہ یہی خواہش رہی کہ نوکری پاکستان میں ہی ہو تاکہ اس شہر تمنا سے رابطہ جڑا رہے تاہم اس بار یہ خواہش ان درختوں کے ساتھ ہی کٹ گئی جنہوں نے انسانی خواہشوں کو راستہ دیا ہے۔

کل کو یہاں بنگلے ہوں گے، پارک ہوں گے، اسکول ہوں گے لوگوں کے جمگھٹ ہوں گے، کوٹلہ سادات، گٹھ برابر، کھجی والا، سب ایک نام رہ جائیں گے۔ پی ٹی وی کے وارث ڈرامے میں چودھری حشمت آخر میں جب پانی آنے لگتا ہے تو خود کو تہہ خانے میں بند کر لیتا ہے کہ زمینداروں کی عزت ہی ان کی جگہ کے نام سے ہوتی ہے لیکن وہ پرانے لوگ تھے بے وقوف تھے اسی لیے مر گئے کہ بھلا پیسے اور عزت کا کیا مقابلہ بھلا کہاں واپڈا ٹاؤن اور ڈیفنس کہاں کوٹلہ سادات اور رتے دی وستی۔ کہاں کوٹھیاں کہاں کچے پکے آدھے ادھورے مکانات، کہاں روپے کی چکا چوند کہاں ادھار پاڑ والی زندگی کہاں فکس بنک اکاؤنٹ کہاں موسم سے لڑتی فصلیں اور باغات۔

مانا اس معاشرے میں جینے کے لیے پیسہ چاہیے، عہدہ چاہیے، تعلقات چاہیں، بڑی کار چاہیے، کوٹھی چاہیے ورنہ آپ کمی ہیں اور زمیندار اور مڈل کلاس تمام عمر اس کمی کے ٹیگ سے بھاگتا پھرتا ہے اس لیے جیسے ہی اس کو موقع ملتا ہے وہ زمین بیچ دیتا ہے کہ یہ معاشرہ کمی کو شودر سے بھی کم تر جانتا ہے لیکن لازم تو نہیں سب ہوش مند ہوں سب خرد کے پجاری ہوں سب کے دل میں بڑائی کا مرض ہو- 

کل کو جب یہاں عمارتوں کے جنگلات ہوں تو کیا وہ درخت یاد سے محو ہوجائیں گے جن کو دیکھ کر دل شاد ہوا کرتا ہے، کل کو جب یہاں لمبی لمبی گاڑیاں دوڑا کریں گی تو وہ رنگ رنگ کے پرندے کیا وقت کی گرد میں کھو جائیں گے جن کی آوازیں دلوں کو ابدی خوشی فراہم کرتی ہیں، کل کو جب یہاں لمبی چوڑی سڑکیں بن جائیں گی تو کیا وہ پگڈنڈیاں مٹ جائیں گی جن کو دیکھ کر گمان ہوتا تھا کہ یہی وہ راستہ ہے جو خوابوں کو جاتا ہے۔ فیض صاحب نے کہا تھا چاند کو گل کریں تو جانیں تو ایسے ہی پیسے والے، رتبے والے لوگ ہمارے دل کی بستی ویران کریں تو جانیں، دل کی وادیوں میں عمارتوں کا جھاڑ جھنکار اگائیں تو مانیں- عمر جہاں گزرے گی دل میں ہمیشہ کوٹلہ سادات کو لیے گزرے گی۔

Yadon Ka Gaon