October 11, 2015

خوف زدہ اور شوق زدہ


روایت ہے کہ ایک بار دو اشخاص میں شرط بد گئی- شرط یہ لگی کہ اگر ایک شخص قبرستان میں رات کو جا کر گوشت کی دیگ پکائے تو اس کو انعام میں دوسرا شخص سو اونٹ دے گا۔ ایسی نامعقول شرط سے ہی آپ شرط کے حرام کیے جانے کی وجہ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ کہتے ہیں اگر اونٹ پالو تو دروازے اونچے کرنے پڑتے ہیں اور خود اندازہ لگا لیں سو اونٹ پالنے کے بعد دروازے بلند کرتے کرتے ایفل ٹاور نما کچھ چیز رہ جائیں گے دروازے نہیں رہیں گے- اب اتنے بڑے صرف معدے ہو سکتے ہیں دروازے نہیں- دوسرا یہ بھی ہے کہ ایسی شرط لگا کر کوئی اپنا پرانا بدلہ اتارے تو الگ بات وگرنہ اس میں تو فائدہ تو سنانے والوں کا اور سننے والوں کا ہے-

 بہرحال شرط طے ہو گئی اور وہ جناب جو کہ "میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں" والے معقولے کے مبلغ تھے اونٹ پر دیگ کا گوشت لادے قبرستان کو چل پڑے۔ قبرستان پہنچ کر انہوں نے آگ جلائی اور گوشت پکانا شروع کر دیا- یہاں پر سوال یہ بھی کھڑا ہوتا ہے کہ کیا وہ خاندانی باورچی تھے جو دیگ پکانا شروع کر دیا اور اگر نہ تھے تو کیسے پکائی کہ ہم سے تو گیس کے چولہے پر گھر میں انڈا نہیں بنتا انہوں نے کہاں سے لکڑیاں جمع کیں ہوں گی ، سالن پکایا ہوگا، وغیرہ وغیرہ- یہاں تک تو اس بات کی گواہی ملتی ہے کہ وہ پکویے ہی تھے لیکن بعد کے حالات اس بات کی نفی کرتے ہیں کہ انہوں نے ایسا بے لذت گوشت پکایا کہ جن بھوتوں نے بھی کھانے سے انکار کر دیا کہ گوشت پک گیا اور ان کو آس پاس ڈراونی آوازیں سنائی دیتی رہیں (امکان غالب ہے کہ آوازیں خوفناک راوی نے پیدا کی ہوں گی وگرنہ وہ ایسی آوزیں ہوں گی جیسی کچا گوشت کھانے کے بعد آپ کے معدے سے آوازیں آتی ہیں) اور ایسے چلتے پھرتے سائے دکھائی دیتے رہے کہ اگر آپ یہ قصہ اندھیرے میں سنائیں تو جیسے آپ کو نظر آنے لگیں گے۔

لیکن موصوف میری طرح جانوروں سے محبت کرنے والے واقع ہوئے کہ اونٹوں کی خاطر انہوں نے ساری باتیں نظر انداز کرکے دیگ پکا کر دم لیا کہ آخر سو اونٹوں کا سوال تھا۔ اب گوشت کا کیا ہوا یہ بتانے سے راوی قاصر ہے جس سے قیاس واثق ہے کہ خود ہی ہاتھ صاف کر آئے ہوں گے تاہم جب گوشت پکا کر فارغ ہوئے تو دیکھا کہ ایک کی بجائے دس اونٹ کھڑے ہیں۔ ہم ہوتے تو خوش ہو جاتے اور مخالفِ شرط کی ایمان داری کی داد دیے بغیر نہ رہ سکتے لیکن وہ گھاک نکلے اور لگے اونٹوں کے منہ سونگھنے ( روای کے الفاظ میں گھاک اور ہمارے الفاظ میں غلیظ کہ کبھی کسی جانور کے منہ کی بو سونگھ کر دیکھیں نہ چودہ طبق دھندلا جائیں تو پیسے واپس) – جس اونٹ کے منہ سے انہیں کیکر کے پتوں کی خوشبو آئی وہ اس پر بیٹھ کر خراماں خراماں گھر کو چل پڑے تو پیچھے سے آواز آئی بیٹا آج تو بچ گئے ہو آئندہ ایسی چول ماری تو ہمارا ذمہ نہ ہو گا-اس پر ہمیں جن بھوتوں کی کم عقلی پر رونا آتا ہے کہ ایسے کیوں منصف بن گئے کہ دس اونٹ لا کھڑے کیے سیدھی طرح اٹھا کر مارو کہ قبرستان کیا خبرستان سے توبہ کر لے بندہ لیکن ساتھ یہ بھی پتہ لگا کہ انصاف انسانوں سے اٹھ کر کہاں گیا کہ موقع پورا دیا کہ بچتا ہے تو بچ جائے ، انسان ہوتے تو دیگ بھی اپنی، بندہ بھی اپنا اور اونٹ تو پھر مجبوراً اپنانا ہی پڑتا۔

اصل میں یہ قصہ بیان کرنے کا مقصد یہ جنوں کی ایمانداری اور انسانوں کی بے ایمانی بتانا نہیں بلکہ ان سینکڑوں قصوں میں سے جن کو سن سن کر ہم پیشاب کرنے بھی اکیلے نہ جایا کرتے تھے یہی یاد رہ گیا- بلکہ یہ حال ہو گیا کہ ایک بار رات کو کھلونا فوجیوں سے کھیلتے کھیلتے ہم نے جو تازہ تازہ داستان ایمان فرشوں کی پڑھی تھی چھاپہ مار جنگ لڑنے کی خاطر بتی بجھا دی اور زیرو والٹ کا بلب جلا دیا- جس زمانے میں ایل ایڈ ی LED بلب نہ آئے تھے اکثر گھروں میں بجلی کی بچت کی خاطر زیرو کا بلب لگا ہوتا تھا جو رات کو سوتے وقت جلا دیا کرتے تھے اور وہ مختلف رنگوں میں آیا کرتا تھا۔ اب وہ بلب نارنجی سے رنگ کا تھا- تھوڑی دیر تو ہم کھیلتے رہے اور پھر ہم سارے ہی اٹھ کر باہر بھاگے کہ کمرے کا ماحول ایسا ہو گیا تھا کہ جیسے آندھی آئی ہوتی ہے گویا ہم خود ہی اپنے چھاپوں کا شکار ہو گئے-

لیکن ایک بات یہ بھی ہے کہ ہمارے جنوں بھوتوں میں بڑی اوریجنلٹی Originality ہے- ان کی خلائی مخلوق کا بغور جائزہ لیں تو ان کی اشکال ٹڈوں سے ملتی ہیں یقین نہ آئے تو کسی بھی ٹڈے کی نزدیک سے کھینچی تصویر دیکھ لیں وہی کی وہی شکل ہے جس سے یہ پتہ لگتا ہے کہ یہ انسان کی ہی کارستانی ہے کہ انسان بیچارے کی اوقات ہی نہیں کہ جس عقل کے ڈبے میں اسکو مقید کیا گیا ہے اس سے باہر نکل کر سوچ سکے- اور پھر بیچارے خلائی مخلوق کرتے بھی کیا ہیں کہ اٹھا گئے ، مفت کی جہاز کی سیر بھی کرا دی اور آپریشن واپریشن بھی کردیا کہ یہ کام تو عطائی ڈاکٹر بھی کر دیتے ہیں کہ وہ تو خلائی مخلوق سے اس طرح ایک قدم آگے ہیں کہ آپریشن میں گردہ وردہ بھی نکال لیتے ہیں، اب کون ڈرے بھئی- گورے کبھی پاکستانی عطائیوں کے ہتھے چڑھ گئے تو خلائی مخلوق کے نظریے نے ٹھس ہو کر رہ جانا ہے- اور دوسرے نمبر پر آگئے زومبیZombies - جو انسانوں کی شکل کے آدھے زندہ آدھے مردہ لوگ ہیں اور انسانوں کو چچوڑتے ہیں اور جس کو کاٹتے ہیں وہ بھی زومبی بن کر نشیوں سا جھومتا جھامتا اگلے شکار کو نکل پڑتا ہےتو یہ بھی کوئی ایسی نئی بات نہیں کہ ان کی باتیں تو کہانیوں تک محدود ہیں ہمارے سیاستدان تو کب سے ہمیں نچوڑ نچوڑ کر کھائے جارہے ہیں اور ان کے کاٹے یہ وائرس آگے پھیلا کر ساری قوم کو ہی ماشا اللہ سے زومبی بنا چکے ہیں-

اب ذرا ہمارے کرداروں پر غور کریں پچھل پیری، پری، دیو، شیش ناگ۔ خود بتائیں دنیا میں کوئی جاندار ایسا دیکھا جس کے پاؤں پیچھے ہوں، جن بھوت پریت جو کوئی بھی روپ دھار سکتے ہیں۔ اب بتائیں ہمارا ڈرنا بنتا ہے کہ نہیں۔

اب بڑا تو ہو گیا ہوں لیکن ڈر ابھی بھی باقی ہے بس فرق یہ ہے کہ پیشاب ویشاب کرنے اکیلا چلا جاتا ہوں- لیکن بڑا لینز آیا اور پرندوں کی تصاویر کھینچنے کی لت پڑی تو پہلی بار باہر نکلنا پڑا، فصلوں میں گھسنا پڑا، درختوں کے نیچے گھات لگا کر بیٹھنا پڑا، کھنڈرات میں گھومنا پڑا- پہلے تو میں نے یہ کیا کہ کسی نہ کسی کو ساتھ لیکر جاتا لیکن ہوتا کیا کہ اس سے میرا ڈر تو دور ہو جاتا لیکن اسی دوران ہماری باتوں سے جو کہ بظاہر ہم گپ شپ کے لیے کرتے لیکن درحقیقت اندر کا خوف بھگانے کو کرتے سن کر پرندے ڈر جاتے اور اڑ جاتے (باتوں کی بے ہودگی سے نہیں اڑے بلکہ باتوں کے شور سے اڑے)-

آخر مرتا کیا نہ کرتا اکیلے جانے لگا- اب تہرا ڈر ہوتا کہ ایک تو جن بھوت کا کہ دیہاتوں میں تو ویسے ہی ہر دوسری جگہ بھاری ہوجاتی ہے گویا جگہ نہ ہوئی کسی غریب کی بیوی کا پاؤں ہو گئی کہ ہر وقت بھاری- اس کے بعد خوف سانپ اور بچھو کا کہ الرجی اور نفاست کا یہ حال ہے کہ چیونٹی کاٹ لے تو لگتا ہے ہاتھی نے کاٹا ہو گا کجا سانپ اور بچھو اور پھر گھسنا بھی الٹی سیدھی جگہوں پر اور آخر میں گاؤں کے کتی کے بچے – سچ مچ کے کتی کے بچے یعنی کتے کہ کتوں سے ہم اتنا خوف کھاتے ہیں کہ جب خوفناک کہانیاں سنتے تھے تو سنانے والا کہا کرتا تھا "اس کی شکل اتنی خوفناک تھی کہ جتنا آپ سوچ بھی نہیں سکتے" تو ہمارا تخیل فوراً کتے کی طرف جایا کرتا تھا اور ہم بقیہ کہانی اس دیو ، جن، بھوت کو کتے کے روپ میں سمجھ کر سنا کرتے تھے۔

یوں تو ہر بار جب باہر نکلا کچھ نہ کچھ دل کے ساتھ ضرور ہوا لیکن ایک واقعہ خاص ہے کہ آتے جاتے ایک جگہ تاڑی کہ ہو نہ ہو یہاں پرندے لازمی ہوں گے کہ اتنی گھنی جگہ ہے کچھ نہ کچھ تو ملے گا- اپنے نوکر کو جو کہ شام کو جب میرے پرندوں کی تصاویر کھینچنے کا وقت ہوتا تھا اسی وقت کبوتر اڑانے جاتا تھا کو ڈرتے ڈرتے کہا کہ بھائی جان آپ مجھے بس چھوڑ دیں آ میں جاؤں گا اور ہاں تکلیف کے معذرت- نوکر کسی اچھے موڈ میں تھا اس نے حاتم طائی کی قبر پر لات ماری اور کہا کہ آئیں چلیں- اس نے موٹر سائیکل پر مجھے وہاں اتارا اور چلتا بنا۔ میں نے اللہ کا نام لیا اور گھس گیا آم کے گھنے باغ میں-(باغ کو گھر کا گارڈن یا فارم نہ سمجھیں کہ آموں کے درخت جب بڑے ہوجاتے ہیں تو نام کو ہی باغ رہ جاتے ہیں کہ اتنے گھنے ہو جاتے ہیں کہ اکثر جگہوں پر تو دھوپ تک زمین پر نہیں پہنچ پاتی) پندرہ بیس منٹ وہاں گھومنے کے بعد جنگل بیبلر Jungle babbler کے علاوہ کچھ نہ ملا جو ویسے ہی عام ہے اور جہاں بھی ہوتی ہیں دس پندرہ اکٹھے ہوتی ہیں- آخر میں نے دل پر پتھر رکھا اور ادھر جانے کا فیصلہ کر لیا جہاں مشہور تھا کہ یہاں پچھلی چار نسلیں ایک ہمارے رنگ سا کالا سیاہ تاحد نگاہ بڑا سانپ دیکھتی آئی ہیں- لیکن جیسے ہی میں اس درختوں کے جھنڈ کے پاس جانے کا فیصلہ کرتا کوے کاں کاں کرکے آسمان سر پر اٹھا لیتے- میں نے سوچا ہو نہ ہو یا تو سانپ نے کووں کو رشوت دے کر ساتھ ملا رکھا ہے کہ پاکستان میں کچھ بھی ممکن ہے دوسرا یہ بھی عین ممکن ہے کہ کوے سانپ کو دیکھ کر ہی شور مچا رہے ہوں اور نیشنل جیوگرافک National Geographic دیکھ دیکھ کر، شکار کی الٹی سیدھی تین چار کہانیاں لکھ کر اتنا تو ہم بھی جانتے تھے ایسے درندوں کی آمد کا اعلان کوئی پرندے ہی کرتے ہیں کیا پتہ یہاں پر یہ کام کووں کو سونپا گیا ہو-

اب میرے سامنے دو ڈر آ کھڑے ہوئے کہ ایک سانپ دوسرا وہ بھی مبینہ جن گویا آیان علی وہ بھی ضمانت شدہ- بس میں نے چھلانگ لگائی اور ساتھ والے کھیت میں جہاں جوار کاشت تھی اور بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ بس یہ تین چار قدم رہ گئی آگے کاٹ لی گئ ہے - جب وہ تین چار قدم جو اپنے قد سے بھی اونچی جوار میں نو دس قدم ثابت ہوئے تو پتہ چلا کہ کھیت کے بیچوں بیچ سے جوار کاٹی گئی ہے اور کسی طرف جانے کا کوئی راستہ نہیں- اب دماغ چوروں سے ہوتا ہوا پھر جنوں پر آ ٹکا اور میں واپس اسی باغ میں دوڑ لگائی- جب واپس باغ میں پہنچا تو جس راستے سے آیا تھا وہاں سے کتوں کے زور زور سے بھونکنے کی آوازیں آنے لگیں (ویسے مجھے تو کتے کی کوں کوں بھی زور زور سے بھوکنا ہی لگتاہے) –

صورتحال یوں تھی کہ سامنے سانپ کم جن بھوت، دائیں کتے اور بائیں جوار کی قد آور فصل تھی جس میں گھسنے سے ٹانگوں پر خارش شروع ہو گئی تھی- راستہ پیچھے کا بچا تھا جہاں ویسے تو جوار ہی کاشت تھی لیکن تین پگڈنڈیاں ابھی قابل عمل تھیں جن میں جو دو درست حالت میں تھیں۔ ادھر اتنا پانی لگا تھا کہ وہ پگڈنڈیاں تک پانی میں ڈوب چکی تھیں۔ مجھے اپنے آپ پر غصہ آنے لگا کہ اگر اس روز میرے پاس موبائل ہوتا تو نوکر کی منت کر لیتا کہ صاحب آ کر لے جاؤ لیکن پاکستان آ کر تو موبائل کو میں ایسے رکھ چھوڑتا ہوں جیسے ایسٹونیا میں ٹیلی فون آپریٹر ہوں اور ٹیلی فون کی گھنٹی سن سن کر ڈیپریشن کا شکار ہو گیا ہوں- آخر ہمت کرکے آخری پگڈنڈی پر جانے کا فیصلہ کیا – جب آدھے رستے پر پہنچا تو پتہ چلا ادھر بھی دریا کا ہی سامنا تھا کہ پانی اس پگڈنڈی پر بھی چڑھ چکا تھا اور مجھے پاکستانی قوم کے پانی ضیاع کرنے کا پہلی بار احساس ہوا- کتوں کے بھونکنے کی آواز نزدیک ہوتی جارہی تھیں، کووں کی کاں کاں میں شدت آچکی تھی۔ میں نے کیمرہ دونوں ہاتھوں میں تھام کر جتنا اونچا کرسکتا تھا اونچا کیا کہ تب بھی کیمرہ کی فکر خود سے زیادہ تھی اور ایک ایک فٹ گھاس جو مکمل پانی میں ڈوب چکی تھی اور جہاں پگڈنڈی تھی وہ گارا بن چکی تھی میں اندھا دھند ایسے بھاگا کہ جیسے آگے شادی کا کھانا لگا پڑا ہو- شکر یہ ہوا کہ گھر میں کسی کو اس سے قبل میری گارے اور سبزے سے لت پت جینز نظر آتی میں نے کپڑے بدل ڈالے تاہم گھر والے اس دن سے اس بات پر حیران ہیں کہ آخر میری ایک جوتی کہاں گم ہو گئی ہے-

Khouf Zada aur Shouq Zada