October 1, 2015

ایک آخری تقریر


یہ جو میں نان اسٹاپ اناپ شناپ بولتا رہتا ہوں تو مجھے ایک لطیفہ یاد آجاتا ہے کہ کسی نے کہا "فلاں شخص بولتا بہت زیادہ ہے" تو جواب ملا "اس کا والد کمینٹیٹر، چاچا مقرر اور والدہ ایک عورت ہیں"۔ تو گرچہ میرے والد صاحب اور چچا ایسے کسی شعبے سے منسلک نہ سہی میری والدہ ایک عورت تو بہرحال ہیں ہی ہیں اور میں خود بھی ماشا اللہ سے مقرر رہا ہوں ۔

ملتان پبلک اسکول کی بد قسمتی کہ ایف ایس سی کے سال دوئم تک پہنچتے اسکول میں سب سے بہترین مقرر میں بچا تھااور انکو مجھے ہی موصول ہونے والی تقریری و مباحثے کی دعوتوں پر بھیجنا پڑتا۔ حالانکہ میرے ذاتی خیال میں میں ایک اوسط درجے کا مقرر ہوں البتہ یاد رہے میرا یہ خیال اسکول چھوڑنے کے بعد پیدا ہوا وگرنہ اسکول میں تو پہلی پوزیشن سے کم آتی تو مجھے اساتذہ کی نیت میں فتور نظر آنے لگتا۔

میری تقریر کرنا نہم جماعت میں شروع ہوئی جب میرے اسکول میں پہلے سال میں مجھے پتہ چلا کہ یہاں ہر سال باقاعدہ تقریری مقابلے ہوتے ہیں- چونکہ ہم منہ مارنے کے عادی نہیں تھے لہذا کوئی گھاس بھی نہیں ڈالتا تھا اس لیے کہ کسی نہ پوچھا کہ تقریر وقریر کرنی ہے نہ کسی نے بتایا لیکن ایک جمعے کو ہونے والے بزم ادب پیریڈ میں جب ایک لڑکے نے لڑکھڑاتی تقریر کی اور میڈیم کوثر یونس ترین نے اس کو کہا "شاباش بیٹا آپ تیاری کریں اگلے ماہ ہونے والے تقریری مقابلے میں آپ حصہ لیں گے" تو مجھے غصہ آگیا اور اگلے ہی جمعہ میں نے ایک دھواں دھار تقریر کر ڈالی جس میں اصل حصہ میری آواز کا تھا جو بنا لاؤڈ اسپیکر کے ہی تمام اسکول والے بخوبی سن سکتے تھے۔ میڈم نے کہا "شاباش" ، میں تقریری مقابلے کے لیے نامزد ہو گیا اور میری آواز سن کر پچھلے ہفتے والے لڑکے نے اپنا نام واپس لے لیا۔

اگلے ہفتے تقریری مقابلوں میں حصہ لینے کا پہلا انعام یہ ملا کہ پتہ چلا اب ہمیں جب تک مقابلے ہو نہ جائیں آدھی چھٹی کے بعد والے پیریڈ نہیں پڑھے ہوں گے۔ ہم سب کلاسوں والے پندرہ بیس مقرر اکٹھے ہو جایا کرتے اور ایک خالی کمرے میں خوب دھما چوکڑی مچاتے۔ اور چونکہ ان پیریڈ میں میرا سب سے قابل نفرین مضمون کیمسٹری بھی تھا لہذا اگلے چار سال میں نے اسکول کے ہر تقریری مقابلے میں حصہ لیا اور ہر سال ایک آدھ مہینہ قانونی طور پر پیریڈ نہ پڑھتےاور سکون کا سانس لیتے (ہم بھی اور ہمارے اساتذہ بھی جو ہماری نااہلی و نکمے پن سے انتہا درجے بیزار تھے) جہاں پہلی بار میری حوصلہ افزائی کی پوزیشن یعنی چوتھی اور آخری بار پہلی پوزیشن آئی اور میں نے اس کے بعد بہاولپور میں صادق پبلک اسکول میں آل پاکستان تقریری مقابلوں میں بھی حصہ لیا۔

اب تقریر کیا ہوا کرتی تھی بس ایک انیس صد ستر کی لکھی اردو گرائمر کی کتاب ہاتھ لگ گئی تھی جس میں مضامین پر بڑی آسانی سے صاف کیا کرتا تھا۔ اب ظاہر ہے اس زمانے میں اردو میں فارسی کا تڑکہ زیادہ ہوتا تھا تو تقریر بھی متاثر کن بن جاتی- اس کے بعد اس کو ایسا رٹا مارا جاتا کہ عام گفتگو میں تقریر کا کوئی لفظ آجاتا تو میں تقریر شروع کر دیا کرتا تھا۔ باقی تقریر کرنے کا انداز بس یہ تھا کہ آواز ہلکے سے شروع ہوتی تھی اور اونچی ہوتے ہوتے یہاں تک پہنچ جاتی کہ اگر آج اونچا سنتا ہوں تو شک پڑتا ہے انہی دنوں اپنی ہی کسی تقریر کے دوران کان کا پردہ پھٹا تھا۔ ویسے بھی اپنی آواز کے پیش نظر میں سوچا کرتا تھا میرا قدرتی پیشہ قوال ہی ہونا چاہیے کہ اتنی اونچی پھٹے ڈھول والی آواز کسی قوال کو ہی زیب دیتی ہے اوپر سے ہماری شکل و صورت – گویا کسی سانچے میں ڈھل کر آیا تھا لیکن بھلا پاکستان میں ٹیلنٹ کی کیا قدر ، کرنی پڑ گئیں مجھے تقاریر-

 بلکہ پہلی تقریر تو ایسی تھی کہ اردو کے استاد صاحب نے کہا شروع ہی حتی الوسیع اونچی آواز سے کرنا ہے اور جب میں نہم میں پہلی بار اسکول میں اسٹیج پر آیا تو حتی المقدور اونچی آواز میں چیخا
تقدیر کے غازی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

تمام اسکول چونک کر تالیاں پیٹنے لگا کہ انکو پتہ لگ گیا کہ اگلے چار سال اپنے کانوں کی خیر منا لیں اور اس کو واحد طریقہ یہی تھا کہ مجھے بولنے نہ دیا جاتا اور میں سوچنے لگا کہ بھلا اگلا جملہ کیا تھا؟؟

یوں تو کئی مقرر ایسے تھے کہ ان پر الگ بلاگ لکھا جاسکتا ہے کہ جو بھول گئے تو ایسی جگہ سے تقریر شروع کر دی جہاں سے کوئی سر پیر کا سرا نہ ملتا تھا، اساتذہ کو کھڑے ہو کر کئی تقاریر درمیان سے ہی ختم کرانی پڑیں، کچھ بھولنے کے باوجود ڈائس چھوڑنے پر راضی نہ تھے اور گھنٹی بجنے پر ہی ڈائس سے ہٹے، ایسے جو شعر پڑھتے تو لگتا کہ گانے گا رہے ہیں وغیرہ وغیرہ لیکن یہ ہمارے بارے ہے اور ہماری آخری تقریر بارے ہے کہ اسکول کا بہترین مقرر بن کر آل پاکستان تقریری مقابلوں میں شرکت کر کے جب جب اسکول کو کسی مقرر کی ضرورت پڑتی ان کی ضرورت پوری کر کے اچھی بھلی عزت کی ریٹائرمنٹ کی سی زندگی گزار رہا تھا کہ نجانے کس قابل استاد صاحب کو خیال آیا کہ سینئر اسکول Senior school جو کہ نہم سے ایف ایس سی تک تھا کا پریپ اسکول Prep school جو کہ پانچویں سے آٹھویں تک تھا کا مقابلہ کرایا جائے۔

مقابلے میں دونوں اسکولوں کے انگریزی اور اردو تقاریر کے فاتح شریک ہوئے اور سئنیر اسکول کی نمائندگی کا بوجھ ہمارے ناتواں کندھوں پر آ پڑا۔ اب ایسا مقابلہ آن پڑا کہ ہاروں تو افسوس جیتوں تو شرمندگی – اوپر سے مقابلہ تھا بھی پریپ اسکول میں جس میں جج ان کے ، مقام ان کا، حاضرین ان کے کہ میرا ایک بھی ہم جماعت اس روز نہ آیا حتی کہ نعمان بھی نہیں جو اتوار کو بھی اسکول آجاتا اور بند دیکھ کر باہر سے ہی طواف کر کے چلا جاتا۔

تقریریں شروع ہوئیں تو پہلے انگریزی والوں کو پکارا گیا اور انہوں نے آکر اللہ جانے کیا اناپ شناپ بولنا چالو کر دیا کہ انگریزی تو ہم اب تک اندازے سے سمجھتے ہیں تب خاک آنی تھی۔ ہم مقرر لوگ الگ بیٹھے تھے تو مجھے پیچھے سے کسی نے ٹہوکا دیا میں نے مڑ کر دیکھا تو دو بچے بیٹھے تھے انہوں نے پوچھا "بھائی جان سینئر اسکول سے آپ تقریر کر رہے ہیں"؟
"میں نے کہا ہاں جی کیوں نہ کروں"؟۔
کہنے لگے "بھائی جان نہ ہی کریں تو اچھا ہے کہ آپ کی جیتنے کی امید نہیں"۔
میں نے پوچھا" امید پر تو دنیا قائم علی شاہ ہے میں تو پھر ابھی نوجوان ہوں"۔
بولے "ہمارے مقرر کو آپ نے سنا نہیں"۔
میں نے جواب دیا "بھائی کس کس کی سنی جائے کہ سب کا اپنا اپنا راگ ہے اور ویسے بھی میں دوسروں کی کم سنتا ہوں اپنی سنانے کا زیادہ عادی ہوں"،
بولے برا نہ مانیں پر سچ یہ ہے کہ اسکول کا بہترین مقرر وہی ہے-
میں مسکرا دیا اور بولا "چلو یار کوئی نہیں ہم بھی اسکول کے بہترین مقرر کو سن لیں گے"۔

 اب یہ رویہ ان دو بچوں کا نہیں تھا بلکہ ساتویں آٹھویں کے ہر بچے نے سئنیر اسکول کے لڑکوں کا سر کھایا ہوا تھا کہ ان کو اللہ نے موقع دیا تھا سینئر اسکول سے بدلہ لینے کا جہاں کے ہیڈ بوائے دن بھر ان کو سزائیں دیتے پھرتے تھے۔ دسویں کا ہیڈ بوائے محسن ارشاد میرے پاس آیا اور بولا "بھائی جان ہماری عزت آپ کے ہاتھ میں ہے۔ یہ تو بچے ہماری ناک میں دم کیے ہیں"۔ میں نے کہا "بس ایک کام کرنا جب جب میں شعر بولوں خوب تالیاں بجا دینا تاکہ میں تھوڑا سا تازہ دم ہو جاؤں"۔ اس نے جواب دیا بس تالیوں کی فکر نہ کریں۔میں نے جواب دیا "تقریر کی آپ فکر نہ کرو"-

پریپ اسکول کا لڑکا آیا اور اس نے ایسی تقریر کی جو شاید خود اس کی سمجھ سے باہر تھا۔ فلسفیانہ باتیں، موٹے موٹے لفظ، مسحور کن خیال، بے ساختہ واہ واہ کرانے والے شعر اور ترنم بھری آواز جس کا حاصل وصول دوران تقریر حاصل کی جانے والی تالیوں کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا کہ جب تقریر ختم ہوتی ہے تو سامعین کو عنوان بھی یاد نہیں ہوتا۔ لیکن جیسے مشاعرے کے شعر وہی داد پاتے ہیں جو ہم کسی کتاب میں دیکھ لیں تو وہ کتاب مفت بھی نہ لیں ایسے ہی تقاریر بھی بازاری ہی کام آتی ہیں۔ جب تالیوں کی گونج ختم ہوئی تو میرا نام پکارا گیا، تو میں بھر پور تیار ہو کر یعنی نیا کوٹ پہن کر ٹائی کی گرہ کس کر جوتے پینٹ سے رگڑ رگڑ کے چمکا کر میدان میں اترا- انہی دونوں لڑکوں نے مجھے استہزا یہ انداز سے دیکھا۔ میں نے ڈائس پر آیا اور تقریر شروع کر دی۔

اس روز میں نے تقریر بہت آسان الفاظ میں لکھی تھی اور اپنی ٹریڈ مارک گرائمر کو دور ہی رکھا تھا- تقریر ہمارے تعلیمی نظام پر تھی اور جب میں نے اپنے نقطہ عروج پر پہنچ کر کہا کہ "جناب عالی اگر برا نہ مانیں تو میں کہہ دوں کہ ہمارے اساتذہ بھی ہمارے زوال کے ذمہ دار ہیں کہ جو استاد ٹیوشن پڑھاتے ہیں وہ رشوت خور ہیں درحقیقت انہوں نے ٹیوشن کو رشوت کی شکل بنا رکھا ہے" تو ایسی تالیاں بجیں کہ الامان الحفیظ۔۔ ان تالیوں کے دوران میں نے دو بار تقریر دوہرا لی آخر کار اساتذہ کو اٹھ کر لڑکوں کو صبر کی تلقین کرنا پڑی-

اب اپنی تقریروں کے چار سالوں میں میں بھی ادبی اور چلتی کا فرق جان چکا تھا کہ مشاعرہ لوٹنا ہم بھی جانتے تھے اور اس معاملے میں تجربہ کار بھی تھے۔

بس اس کے بعد ہر ہر جملے پر لڑکوں نے جی بھر کر تالیں پیٹیں اور اساتذہ کے خلاف اپنی بھڑاس اپنے ہاتھوں پر نکالی- لیکن کیا بتائیں کون استاد ہمیں جتواتا کہ مقابلے کے ججوں میں تین میں سے دو اساتذہ خود ٹیوشن خور تھے-  یہ الگ بات کہ اگلے دن پرنسپل صاحب کے خطاب میں انہوں نے وضاحت کہ بھائی ہمارے اسکول سے کوئی ٹیوشن نہیں پڑھاتا اور ہم خود ٹیوشن کے خلاف ہیں وغیرہ وغیرہ اور اس خطاب میں لڑکوں کا مرکز نگاہ پرنسپل صاحب کی بجائے میں تھا-

جیتنے والے لڑکے کو ٹرافی ملی اور مجھے انہی دو لڑکوں نے آکر کہا "بھائی جان واقعی تقریر آپ ہی کی اچھی تھی"۔ اور ان دو بچوں اور بہت سے دوسرے بچوں کا دل جیتنے کے علاوہ مجھے پطرس کے مضامین کتاب بھی ملی جو کہ میں نے سوچ رکھا تھا کہ ٹرافی مل بھی گئی تو ہارنے والے کو کہوں گا یار آپ ٹرافی لے لو کتاب مجھے دے دو۔ یعنی مجھے ہار جیت سے زیادہ پطرس کے مضامین جیتنے کی فکر تھی---- آخر ہارنے کے بعد دل کی تسلی کا کوئی تو سبب بنانا تھا۔

Aik aakhri taqrer