November 1, 2015

خون آشام چمگادڑ کا شاہ کار


 اصل میں اپنی خوف کی کہانی بیان کرنے کا مقصد یہ اگلی کہانی تھی لیکن بیچ میں آگئی دوسویں پوسٹ۔ تو سلسلہ وہاں سے ہی جوڑتے ہیں جہاں سے ٹوٹا تھا۔

اتفاق سے کچھ دن قبل عمیر لطیف جو پانچواں درویش کے نام سے لکھتے ہیں نے مجھے ایک ویڈیو میں ٹیگ گیا اور پوچھا کہ میں اس بارے اپنی رائے دوں۔ اب جانوروں پرندوں پر اردو بلاگ لکھ لکھ کر بہت سے لوگ ہمیں حیوان نہیں تو کم از کم حیوانات کا ماہر سمجھنے لگ گئے ہیں اور اگر میں کتے بلوں کا ڈاکٹر بن جاؤں تو امید واثق ہے کہ کام چل پڑے گا بہرحال ویڈیو تھا کہ سرگودھا میں کسی مخلوق نے باغوں پر حملہ کر دیا اور تمام پھل چٹ کر گئے اور بیچارے مالکان روتے پیٹتے رہے اور جب انہوں نے محکمہ زراعت اور جنگلی حیات والوں کا انٹرویو کیا تو وہ بھی ادھر ادھر کی اڑاتے رہے اور کچھ ٹھوس بتانے سے قاصر تھے۔

اس سے بھی مزے کے تبصرے تھے چونکہ ویڈیو ڈان ٹی وی والو ں نے شئیر کی تھی تو تبصرے بھی اچھے خاصے تھے اور لوگوں نے یہاں تک کہہ ڈالا کہ یہ امریکی سازش ہے اور ایسی حرکتوں کے ذریعے وہ پاکستان کو نیست و نابود کر دیں گے اور انہیں گولی یا بم چلانے کی بھی ضرورت نہیں۔ حیرت اس بات کی ہے کہ گوگل کے زمانے میں رہنے والے لوگ ہیں اور منہ اٹھا کر بول دیتے ہیں تو ہم نے بھی گوگل انکل کی مدد لی اور پوچھا کہ انکل بتائیں تو پتہ لگا کہ یہ چمگادڑوں کی ایک نسل ہے جس کو انگریزی میں fruit bat یعنی پھلوں کا چمگادڑ کہا جاتا ہے۔ اور یہ کہیں باہر سے نہیں آیا بلکہ برصغیر پاک و ہند کا ہی رہائشی ہے اور چونکہ درختوں کا بے دریغ قتل عام ہو رہا ہے اس لیے ان کے گروہ نئی پناہ گاہوں کی تلاش میں ایسے الٹے پلٹے کام کر رہے ہیں اور ہماری طرف اہم باتوں پر تحقیق نہیں تو ایسی باتوں پر کون تحقیق کرتا لہذا کسی کو پتہ نہیں کہ کیا کریں کہ یہ گولی بم سے قابو نہیں آنے والا کیونکہ ان کا گروہ دو ہزار تین ہزار پرندوں پر مشتمل ہوتا ہے کہ تم کتنے چمگاڈر مارو گے۔

چمگاڈر اصل میں دو طرح کے ہوتے ہیں ایک چھوٹے جن کو مائیکرو بیٹ Micro Bat کہتے ہیں دوسرے یہ بڑے جن کو فروٹ بیٹ کہتے ہیں کیونکہ یہ پھل کھا کر پیٹ بھرتے ہیں اس لیے پھلوں کے چمگادڑ کہلاتے ہیں اور دنیا میں انکی ہزاہا اقسام ہیں۔ ہمارے ہاں چھوٹے چمگادڑ تو دیہاتوں میں عام نظر آجاتے ہیں لیکن بڑے چمگادڑ عمومی طور پر آبادی سے دور رہتے ہیں لیکن جیسے پہلے کہا کہ اب وہ آبادیوں کے نزدیک ہوتے جارہے ہیں۔

ابھی یہ قصہ چل ہی رہا تھا کہ جیسے بلاگر مجھے ماہر حیوانیات سمجھتے ہیں ایسے ہی میرے گاؤں والے بھی میری پرندوں کی تصاویر کھینچنے کے باعث کچھ ایسا ویسا ہی سمجھتے ہیں تو بات پھیلی کہ ہمارے خالو کے آم کے باغٖات میں کوئی عجیب سی بلا آئی پھر رہی ہے جو رات کو آتی ہے، اڑ سکتی ہے اور آموں کو چٹ کی جا رہی ہے۔ گاؤں کا ویسے بھی ماحول ایسا ہوتا ہے کہ آپ کسی کو بتائیں کہ آپ نے خونخوار بلی دیکھی ہے تو اگلے روز تک وہ شیر نہ تو بھیڑیا ضرور بن چکی ہوگی۔

تو ایسے ہی جب افواہوں نے زور پکڑا تو میرے خالو کے نوکروں نے ایک روز اس پر فائرنگ کر دی لیکن اڑتے پرندے کو دن میں مارنا مشکل کام ہے رات میں تو تقریباً ناممکن ہے- اسی دن میرا کزن میرے پاس آیا اور بولا شاہ جی ہمارے باغ میں کوئی عجیب سی شے آئی ہوئی ہے جو رات کو آتی ہے، پھل کھاتی ہے، اڑ سکتی ہے، الٹی لٹکتی ہے میں جو حال ہی میں ڈان کی ویڈیو دیکھ چکا تھا بولا یار چمگادڑ ہے- چمگادڑ پر اس کو تھوڑا سا صدمہ ہوا کہ در پردہ اس کی بھی خواہش تھی کوئی جن بھوت نکلتا، کوئی حیرت ناک شے نکلتی، کوئی ایسی جنس نکلتی جو دنیا میں کسی نے نہیں دیکھی۔ لیکن جب میں نے تفصیل بتائی کہ بھائی یہ پھلوں والے چمگادڑ کی ایک نسل ہے جس کا نام ہندی اڑن لومڑی Indian Flying fox ہے اور اس کے پروں کا پھیلاؤ چھ فٹ سے بھی بڑا ہو سکتا ہے اور اسکی جسامت بس چھوٹی سی اڑتی لومڑی سمجھو تو اس کو اطمینان ہوا اور میرے جانوروں اور پرندوں سے تعلقات کا اعتبار بھی آگیا۔

اگلے روز تک چھ فٹ بڑا چمگادڑ مشہور ہو چکا تھا اور ہماری خدمات کے پیش نظر رات کو میرے کزن نے سوچا کہ اس کا شکار کروں تو ازارہ مہربانی مجھے بھی ساتھ چلنے کی دعوت دی گئی۔ میں نے کہا بھائی ساتھ چلتا ہوں بس مجھے تصویر کھینچنے دینا۔ وہ راضی ہو گئے اور ہم چل پڑے۔

رات کو بارہ بجے جب ہم باغ میں پہنچے تو میرے خالو کے گھر مہمان آچکے تھے اور شکار پارٹی فقط میرے اور میرے کزن تک محدود رہ گئی۔ میرے ایک ہاتھ میں ٹارچ اور ایک میں کیمرہ تھا جبکہ میرے کزن کے ایک ہاتھ میں پستول اور ایک میں رائفل تھا جبکہ ٹانگیں دونوں کی کانپ رہی تھیں۔

وہاں پہنچے تو آموں کے ٹھیکیدار جن کو مقامی زبان میں ہم بیخر کہتے ہیں کو چمگاڈر کی نشاندہی کرنے کو کہا تو اس نے ایک کھجور کے نیچے لا بٹھایا اور بولا شاہ جی اس درخت پر لازم آتا ہے۔ ہم نے تفصیل پوچھی تو بولا الٹا لٹکتا ہے، جب تک گولی نہیں چلی تھی روشنی پر بھی بیٹھا رہتا تھا، دانت نظر آتے ہیں جو کچکاتا رہتا ہے، آواز کتوں کے بھونکنے سے ملتی ہے اور کھجوریں اور آم کتر کتر کر کھاتا رہتا ہے اور گٹھلیاں نیچے پھینک دیتا ہے۔

میں نے سوچا غلطی ہو گئی، نہیں آنا تھا۔۔۔ اب گھنے جنگلات نما درخت، چاند کی روشنی بیچ میں تین بندے اکیلے، دور سے گیدڑوں کے چیخنے کی آوازیں۔ میں نے سوچا برے پھنسے۔ اب اس نوکر کے سامنے نہ بیٹھنے کے نہ جانے کے۔ ماحول کی خوفناکی کو کم کرنے کو میں نے کہا سیانا چمگادڑ ہے آم خود کھاتا ہے گٹھلیاں ہمیں پھینک دیتا ہے کہ دام وصول کرلو۔ کسی نے کچھ نہ کہا لیکن مجھے خود ہی اپنے جملے کے بھونڈے ہونے کا احساس ہو گیا۔

میرے کزن نے کہا یار روشنی ڈالو تو سہی کیا پتہ بیٹھا ہو۔ میں نے کہا ہاں جی ہماری انتظار بیٹھا ہے ناں جیسے۔ ابھی میرا جملہ ختم ہوا تھا کہ بیخر نے ٹارچ کھجور پر ڈالی اور وہاں سے کچھ اڑا – بیخر گھبراہٹ سے ٹارچ وہیں روشن کر کے بھول گیا لیکن چاندنی رات دہلا دینے کے لیے کافی تھی کہ ہمارے عین اوپر پروں کی پھڑپھڑاٹ تھی اور اوپر جو دیکھا پانچ ، ساڑھے پانچ فٹ پھیلے پروں کا ایک پرندہ چاندنی میں اڑتا جا رہا تھا۔

اس میں تو کوئی شک نہیں کہ میں ڈرپوک ہوں لیکن یہ انگریزی فلموں والا خوف کبھی نہیں رہا کہ چمگادڑ انسان بن جاتے ہیں اور ویمپائر Vampire یعنی خون آشام چمگادڑیں جو دن بھر قبروں میں آرام کرتے ہیں اور رات کو باقی بچے انسانوں کو وہاں پہنچانے کا انتظام کرتے ہیں اور یہ انسانوں کا خون پیتے ہیں اور جس کو کاٹ لے وہ بھی ویمپائر۔ اور ان کا روحانی پیشوا ڈریکولا ہے۔ ادھر ہم تو ایمپائر جب جب بنے ہیں میچ لڑائی پر ختم ہوا ہے ویمپائر بن جاتے تو کیا ہوجاتا اور کولا صرف کوکا یا پیپسی ہی اچھا لگتا ہے۔  لیکن اس روز اس کو اڑتا دیکھ کر انگریزی فلم وین ہلسنگ Van Helsing یاد آگئی اور ایسا لگا کہ ابھی اڑتے اڑتے نیچے آ جائے گا اور کہے گا حال کر چاچا۔۔۔ اور ہمارے پاس تو چاندی والی گولیاں یا چاندی والے تیر بھی نہیں کہ ان سے نپٹا جاسکے۔ اس روز مجھے پتہ لگا کہ چمگادڑ بڑا ہو تو واقعی اس کے خون آشام ہونے کا خوف پیدا ہو سکتا ہے۔

لیکن مجھے ایک اور خوف بھی تھا۔ جب چھوٹے تھے تو سنتے تھے کہ شام کو باہر نہ نکلا کریں کیونکہ یہ جو چھوٹے چمگادڑ اڑتے پھرتے ہیں یہ ناک پر کاٹ لیتے ہیں۔ یہ بات ایسی دماغ میں بیٹھی ہے کہ شام کو اب بھی بے اختیار نیم اندھیرے میں اڑتے چمگادڑ دیکھ کر ہاتھ ناک کو ڈھانپ لیتا ہے حالانکہ خاندان کی ناک کئی بار کٹوا چکا ہوں لیکن اپنی بظاہر اب تک ہے پڑی تو قدر کرنی چاہیے۔ میں نے سوچا کہ اگر یہ منحوس ناک سے چمٹ گیا تو پیڈل کی خاطر پوری سائیکل والی بات ہو جائے گی اور ناک کے ساتھ ساتھ میں بھی جاؤں گا جبکہ میں قطعاً اس قبیل کا نہیں کہ ناک کٹ جائے تو گردن بھی کاٹ دی جائے۔

میرے کزن نے پوچھا یار یہ ایبولا Ebola بھلا چمگادڑوں سے نہیں پھیلا؟ میں نے کہا کاٹنے سے نہیں پھیلا ان کو کھانے سے پھیلا ہے باقی یہ چمگادڑ انسانوں کو کاٹتے نہیں ہیں۔ وہ بولا یہ ویمپائر وغیرہ جھوٹ ہیں میں نے کہا یار زیادہ سے زیادہ یہی سنا ہے کہ ناک پر کاٹ لیتا ہے پر یہ بلا ناک کو چمٹ گئی تو پورا بندہ ہی لے جائے گی۔ بس ہم نے بیخر کے سامنے کہا چلو یار کل آئیں گے اور جلدی آئیں گے بس تم نگاہ رکھنا اور جتنا تیز چل سکتے تھے اتنا چل کر گاڑی تک پہنچے اور گھر کی راہ لی۔

اب تو ہم خود دیکھ بھی چکے تھے اس کو تو اگلے دو روز تک تمام بستی میں اس کا شہرہ ہو چکا تھا۔ ہمارا نہیں چمگادڑ کا ۔ آخر تیسرے دن میرے کزن نے ہمت کی اور کہا کہ چلیں نہ شاہ جی۔ برا ہو منحوس کیمرے کا میں دل پر جبر کر کے پھر ٹارچ اٹھا کر کیمرہ لٹکا کر چل پڑا۔ میں نے پوچھا بندوق نہیں لائے؟
وہ بولا نہیں بس مارتے نہیں بس تصویر کھینچتے ہیں۔
میں نے سوچا کہ پہلے تو کزن کی عزت کا سوال تھا کہ شکار کیا کہ نہیں؟ اب تو معاملہ ہمارے کندھوں پر آن پڑا ہے کہ تصویر کھینچی کہ نہیں؟

ایک بار پھر بیخر کو پیش کیا گیا لیکن بیخر کے ساتھ پھر وہی ہوا ادھر اس نے ٹارچ ڈالی ادھر وہ یہ جا وہ جا۔ آدھا گھنٹہ فارغ بیٹھ کر آخر ہم نے طے کیا کہ اس کا پیچھا کیا جائے اور ہم نے بیخر سے پوچھا کون کون سے درخت پر وہ ہو سکتا ہے اس نے وہاں سے بتایا فلاں ایکڑ والا فلاں ایکڑ والا۔ ہم دنوں اکیلے ہی چل پڑے۔

 کبھی کبھار اس کے اڑنے کی آواز آ جاتی ہے اور ٹانگیں کانپ جاتی لیکن ہم بھی آج ارادہ پکا کر کے آئے تھے اور کزن نہ بھی کر کے آیا ہوتا میں تو کر ہی چکا تھا کہ ہماری جو تھوڑی بہت عزت بچی تھی اس کا سوال تھا۔ میں نے کہا شاہ جی بس جہاں نظر آئے وہاں سے ٹارچ نہیں ہٹانا، ٹارچ ہٹی نہیں اور یہ غائب ہوا نہیں۔ آخر باغ کے بیچوں بیچ ایک کھجور پر روشنی جو ڈالی تو کچھ ہلتا ہوا محسوس ہوا میں نے کانپتی آواز میں نعرہ مارا "شاہ جی قابو ہونا"!
 بس وہ ٹارچ روشن کر کے اس چمگادڑ پر ڈالتے ہوئے آگے بڑھتا گیا اور میں نے تصاویر لینا شروع کیں۔ وہاں جب چار پانچ تصاویر اور چار پانچ چمگادڑوں سے آشنائی ہو چکی تو میں نے کھانستی اور کانپتی آواز میں (کھانسی دراصل کپکپاہٹ چھپانے کی کوشش تھی) کہا شاہ جی چلیں نہ؟
وہ بولا یار ویسے یہاں پر ایک سانپ میں نے خود کئی بار دیکھا ہے۔
اپنی بہادری کا بھرم قائم رکھنے پر ہم نے سانپ کا شکریہ ادا کیا اور ہم نے دوڑ جو لگائی تو سیدھا سڑک پر کھڑی گاڑی کے پاس آ کر دم لیا۔

بھاگتے ہوئے پیچھے سے بیخر نے آواز لگائی شاہ جی۔۔۔ ہم نے کہا "ہا ہا چھیک گدا ہے" (ہاں ہاں کھینچ لی ہے تصویر)۔ اس نے خدا جانے جھوٹ سمجھا یا سچ لیکن اس دن کے بعد کئی دن تک لوگ آ کر کہتے رہے یار علی شاہ وہ تصویر دکھاؤ نہ۔۔۔۔اور میں تصویر دکھاتے ہوئے ایسے کمنٹری کرتا جیسے میری پی ایچ ٖڈی کی ریسرچ اسی اڑن لومڑی پر رہی ہو۔

سچ ہے خوف کے آگے بڑھکیں ہیں۔

ہندی اڑن لومڑی چمگادڑ کی تصاویر پیش خدمت ہیں- تصاویر کی کوالٹی خراب ہونے کی صورت میں ہماری بجائے چمگادڑ کو قصور وار سمجھا جائے جو پہلے ہمیں ڈرا کر ہمارے ہاتھ ہلا رہا تھا پھر خود بھی سکون سے نہیں بیٹھ رہا تھا۔











Khon asham chimgader ka shah kar