November 21, 2015

پینتالیس سے صفر تک کا سفر


 وقت کتنی جلدی گزرتا ہے کسی ایسے شخص سے پوچھیں جو چھٹیاں گزارنے گھر آیا ہو یا کسی غیر محرم لڑکی سے ساتھ ہوٹل یا پارک میں۔ چونکہ صنف نازک کو مجھ سے علاقہ نہیں اور میرے علاقہ غیر میں ان کا گزر نہیں تو میں چھٹیوں کے بارے کماحقہ روشنی ڈال سکتا ہوں کہ گھر آنے سے پہلے الٹی گنتی چل رہی ہوتی ہے کہ باقی دس دن رہ گئے، چار دن رہ گئے۔۔۔ اور وہ الٹی گنتی گھر پہنچ کر اسٹاپ واچ سی اندھا دھند بھاگنے لگتی ہے کہ یار یہ کل آیا ہوں دو ماہ گزر گئے باقی چھ دن رہ گئے۔

اب گھر سے واپسی پر بندہ ویسے ہی بیزار ہوتا ہے تو جب چھوٹے تھے تو اچھے تھے کہ اسکول جاتے وقت پیٹ درد، سر درد، اسہال کا بہانہ مار کر چھٹی کر لیتے تھے یہاں جانے کا دل بھی نہیں ہوتا اور جانا بھی ہوتا ہے تو بس بندہ سرائیکی محاورے کے مطابق "تھوک لگے مکوڑے" کی مانند دوسروں کو خاٹتا پھر رہا ہوتا ہے اور ان کے ذمے لگ رہا ہے اور مجھے ذمے لگنے کے لیے میرے ٹکٹ کے ایجنٹ ملے۔

جتنی مجھے ترکش ائیر لائن ناپنسد ہے اتنی ہی میرے ایجنٹ صاحب کو ترکش ائیر لائن سے محبت ہے۔ ان کا بس چلے تو وہ دبئی کی ٹکٹ بھی براستہ استنبول بنا دیں ۔ لیکن خیر میں بھی ضد میں اتنا مشہور ہوں کہ ایک ٹیرھی دم والے چوپائے سے نسبت دیا جاتا رہا ہوں تو میں نے بھی جیسے تیسے کر کے قطر ائیر لائن کی ٹکٹ لے لی جس میں ایک تو وہی ترکش ائیر لائن والی نا پسندیدگی اور دوسرا نقطہ نظر یہ تھا کہ قطر نے ستمبر 2015 سے ملتان سے پروازیں شروع کرنا تھیں اور میں نے سوچا کہ یہ لاہور اور کراچی کی تکلیف سے بچ جاؤں گا۔

لیکن میرا ایجنٹ بھی میرے جیسے نکلا اور میرے بے انتہا اصرار کے باوجود ملتان سے ٹکٹ نہ کرا سکا اور میں نے اپنے جانے کا سارا غصہ غائبانہ طور پر اس پر نکال دیا کہ گھر والوں کو کہا کہ یہ جانے کی اداسی نہیں ہے بلکہ لاہور براستہ ڈائیو جانے اور 20 گھنٹے کا سفر تیس گھنٹے کا ہونے کا غصہ ہے۔ آئی تو نبھانی پڑتی ہے اور منہ اور تھیلا اٹھا کر پہنچ گئے ڈائیو ٹرمینل ملتان کہ چل بھائی کبیرا- اچھا نہیں یہ وطیرہ۔

بس نے ڈیرہ غازی خان سے آنا تھا اور ٹکٹ خریدتے وقت ٹکٹ کاؤنٹر پر بیٹھے شخص نے بتا دیا کہ بس لیٹ ہے۔ میں نے دل میں سوچا لیں جی سفر کی بنیاد سبز قدمی پڑی ہے اب آگے اللہ ہی خیر کرے۔ بس آدھا گھنٹہ تاخیر سے آئی اور میں بوجھل قدموں سے بس پر بیٹھا تو میرے ساتھ والی نشست پر ایک صاحب پہلے سے بیٹھے تھے۔ میں چپ کر کے ساتھ بیٹھ گیا۔ چپ کر کے اس لیے کے وہ سو رہے تھے اور ترچھے لیٹے تھے یعنی بارہ بجے والی پوزیشن کی بجائے دو بجے والی پوزیشن میں تھے اور میری آدھی نشست پر انہوں نے قبضہ کر رکھا تھا۔ میں نے اپنے پتلے ہونے کا شکر ادا کیا اور سوچا کہ چلو جب آنکھ کھلے گی تو اپنی اوقات یعنی نشست کی حدود میں لوٹ جائیں گے

لیکن ہم پاکستانی بے اوقاتے ہونے میں اپنی مثال آپ ہیں تو تمام راستہ میری تمام دانستہ و غیر دانست کوششوں کے باوجود ( جس میں کھانسنا، کندھا مارنا، ٹانگ مارنا، کہنیاں مارنا وغیرہ شامل ہیں) وہ صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے اور جب میں لاہور اترا تو میری چال میں ایک ترچھا پن آ چکا تھا کہ اچھا بھلا انسان شطرنج کے فیلے کی چال چل رہا تھا۔ تھوڑی محنت کرلیتا تو کسی کیٹ واک کا مردانہ ورژن کتا چال (ڈاگ واک) اچھی بھلی کر سکتا تھا۔

اب راستے میں ایک وہ صاحب ہی تکلیف دہ نہیں تھے بلکہ بس نے بھی بس کرا دی کہ راستے میں خراب ہو گئی۔ اب خراب ہو جاتی تو شاید نئی آ جاتی لیکن ہوا یہ کہ بس کا پہلا گیر نہ لگتا تھا اور ڈرائیور صاحب بھی چونکہ پاکستانی تھے اور جگاڑ لگانے ہم ایسے ماہر ہیں کہ ملک ہی جگاڑ پر چل رہا ہے تو بس کس مرض کی دوا تھی وہ کسی طرح براہ راست ہی دوسرے پر پہنچتے اور اسپیڈ پکڑ کر تیسرے چوتھے پر جاتے لیکن ادھر بریک لگتی اور بس کی بھاں بھاں پھر شروع ہو جاتی۔اور جسم کے ساتھ ساتھ وقت پر نہ پہنچنے کی پریشانی سے دماغ بھی آڑھا ترچھا سا ہونے لگا۔

لاہور میں اچھی بات یہ ہوئی ہمارے میزبان ابو عبداللہ صاحب پہلے سے بلکہ کافی پہلے سے بس اڈے پر موجود تھے اور ہمارے دو گھنٹے تاخیر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کھانا شانا ، دفتری کام، اڈے کے تفصیلی چکر نمٹا چکے تھے۔ انہوں نے مہربانی کر کے ہوائی اڈے پر اتارا اور ہم ان کا زبانی کلامی شکریہ اور جھوٹے سچے وعدے کر کےآگے چل پڑے۔

یوں تو ذہنی طور پر جب میں پاکستان سے سفر کر رہا ہوتا ہوں تو "کھول دو" والی کیفیت میں ہوتا ہوں کہ کسی نے کہا نہیں اور ہم نے سامان کی زپ کھول کر اس کے سامنے پیش کر دیا۔ لیکن بس اور بس کے ہم سفر کے باعث ذہنی تھکاوٹ ہو چکی تھی اور میں دعا کر رہا تھا کہ اللہ میاں آج تو تلاشی نہ ہی ہو۔ لیکن اللہ میاں ہمارے کم نیک اعمال کی وجہ سے ہماری اکثر دعائیں اگلے جہان کے لیے سنبھال کر رکھ لیتا ہے تو ہم اپنا بیگ کھولے پاکستانی ہوائی اڈے کے مستعد عملے کے ہاتھوں اپنے زیر جامے اور بنیان کا معیار چیک کر ا رہے تھے۔

اسی دوران ایک صاحب آئے اور چھا گئے کہ ایسے چھا گئے کہ ان کے بیگ سے دس ایک کلو ہیروئن نکل آئی۔ اگر ٹی وی یا فلم والی ہیروئن نہیں بلکہ اصلی گوری تے وڈی ہیروئن۔ ہوائی اڈے کا عملہ مزید مستعد ہو گیا، ان کے سینے چوڑے ہو گئے ، ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ آ گئی اور نگاہوں میں مشکوکیت بڑھ گئی۔ ان کا بس چلتا تو اپنے پیٹی بھائیوں کی تلاشی شروع کر دیتے۔ اُدھر وہ صاحب ایسے لا پرواہ کھڑے تھے جیسے انہوں نے تلاشی کی ہو اور کسٹم والے بھائی صاحب سے ہیروئن بر آمد کی ہو۔ اِدھر میں ایسے پریشان ہو رہا تھا جیسے اس کو میں نے ہی ہیروئن دیکر بھیجا ہو اور ابھی وہ میرا نام لے گا۔ میں بےچارہ کانپتے کانپتے سوچنے لگا کہ اگر بندہ شریف ہو لاہوری شریف ہو ورنہ شرافت تیل لیتے ہی اچھی لگتی ہے۔ میں ابھی اس شخص کی کیفیت پر تعجب کر ہی رہا تھا کہ ایان علی یاد آئی اور میں نے سوچا کہ کیا پتہ کل کلاں یہ شخص بھی کسی یونیورسٹی میں پڑھاتا دکھائی دے یا کسی سرکاری عہدے پر دکھائی دے لہذا بندہ بن اور نکل یہاں سے۔

میں پچھلے صدموں سے سنبھل ہی رہا تھا کہ ایک چاچا جی میرے ہاتھ میں کتاب اور کانوں میں ٹونٹیاں دیکھ کر بھی نہ رہ سکے اور بول پڑے کہ فرانس جا رہے ہو؟ میں نہ کہا" نہ" اور کتاب پڑھنے لگا۔ وہ پھر بولے "میں پہلی بار فرانس جا رہا ہوں"۔ میں نے انکو دیکھا دنیا کی بے ثباتی پر افسوس کیا اور پھر کتاب پڑھنے لگا۔ ان کی غیر ملکی پاکستانیوں کی طرح ٹریڈ مارک نان اسٹاپ گفتگو جاری رہی، بولے "پندرہ سال پہلے گیا تھا کارڈ بنوا کر واپس آ گیا تھا اب دوبارہ جا رہا ہوں"۔ بندہ کیا کہے۔ میں پھر کتاب پڑھنے لگا۔ بولے "ناروے بڑا اچھا ملک ہے مجھے بڑا پسند ہے"۔ میں نے پوچھنا مناسب نہ سمجھا کہ وہاں پندرہ سال پہلے گئے تھے یا خواب میں گئے تھے۔ انہوں نے کہا "آؤ چائے پلاؤں"۔ میں نے دل میں کہا میرے یہ دونوں باندھے ہاتھ دیکھیں اور مجھے معاف کریں۔ لیکن اتنا ہی کہا" شکریہ! میں نہیں پیتا"۔ یہ اب تک کی گفتگو میں میرا پہلا حصہ تھا وگرنہ اب تک میں مسکرا ہی کام چلا رہا تھا۔ کہنے لگے "اچھا کرتے ہو نہیں پیتے یہاں تین سو روپے کی ہے یورپ سے بھی مہنگی جہاں ایک یورو میں مل جاتی ہے"۔ پھر گویا ہوئے "کہاں سے ہو؟" میں نے کہا "ملتان سے"۔ انہیں سن کر صدمہ سا پہنچا اور وہ جو اب تک میری ٹوٹی پھوٹی پنجابی برداشت کررہے تھے اٹھ کر چائے پینے لگے۔ میں نے وہاں سے بھاگنے میں عافیت جانی اور دم کے علاوہ سامان بغل میں دباتے وقت میں نے سوچا پتہ نہیں باہر جا کر پاکستانی کیا کھاتے ہیں کہ کچھ اور بنیں نہ بنیں بڑ بولے ضرور بن جاتے ہیں۔

سفر میں اس سے بڑی عیاشی نہیں ہوتی کہ آپ کے ساتھ والی نشست خالی ہو لیکن جہاز میں میرے ساتھ والی دونوں نشستوں پر دو مسافر تھے۔ ایک بی بی تھی اور ایک لڑکا۔ تاہم پاکستانی لڑکیوں کے نک چڑھی ہونے ایک فائدہ یہ ہوا کہ بی بی نے سارا رستہ بات نہ کی کہیں میں ان پر ڈورے نہ ڈالنا شروع کر دوں یا جہاز سے ہی اغوا کر کے نہ لے بھاگوں۔ ادھر تیسرا لڑکا بھی شاید اس بی بی کے ڈر سے مودب بنا بیٹھا رہا اور میرا سفر با آسانی کٹ گیا۔

چونکہ اوسلو کا دیدار تین چار بار کر چکا تھا لہذا میں نے دس بارہ یورو کی قربانی نہ دینے کا فیصلہ کیا آور آٹھ گھنٹے اوسلو ہوائی اڈے پر ہی گزارنے کا فیصلہ کیا۔ کسی بھی اچھے ہوائی اڈے کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہاں آپ کی تلاشی کم سے کم ہو اور اکثر یورپی ہوائی اڈوں پر یہ نظام ہے کہ آپ جہاز سے اتر کر سیدھا لاؤ نج میں پہنچ جاتے ہیں اور یوں تلاشی سے بچ جاتے ہیں۔ لیکن خراب سفر کی روایت برقرار تھی اور اندر جانے کے لیے ایک بار پھر تلاشی دینا پڑی جس میں حفاظتی گیٹ سے بیلٹ اتارنا اور پھر سب کے سامنے پہننا بھی شامل ہے جس کو میں ایک غیر انسانی و غیر اخلاقی فعل سمجھتا ہوں اور میرا بس چلے تو ہوائی اڈوں پر شرٹیں اوپر کر کے بیلٹ اتارنے و پہننے کے خلاف مہم چلاؤں جہاں سارا مجمع بیلٹ کے اوپر سے جھانکتے آپ کے پیٹ کا تماشائی ہوتا ہے۔

 ملتان سے جب چلا تھا تو اکتوبر کا مہینہ ہونے کے باوجود درجہ حرارت پینتالیس سینٹی گریڈ تھا اور اوسلو کی ٹھنڈک میں ہلکی ہلکی جسم کی ٹکور ہو رہی تھی اور سردی اچھی لگ رہی تھی لیکن آہستہ آہستہ جیکٹ اور دیگر کپڑوں کا انبار جسم پر سوار ہونا شروع گیا۔ اوسلو سے جو ہوائی جہاز ملا اس کی خاصیت یہ تھی کہ اس میں ہر قطار میں چار کی بجائے تین نشستیں تھیں۔ یعنی دو اکٹھی اور پھر ایک الگ۔ اس سے پہلے بھی ایک بار میں ایسے ہی جہاز پر بیٹھ چکا تھا اور دونوں بار خوش قسمتی سے مجھے وہ تنہا نشست ملی۔ راستے میں کیپٹن نے اعلان کیا ناظرین ہمیں خوش قسمتی سے شمالی روشنیاں نظر آ رہی ہیں اور ہم بتیاں بند کر رہے ہیں تاکہ آپ اس نظارے سے محظوظ ہو سکیں۔ میں نے اپنی کھڑکی سے باہر دیکھا۔ آسمان پر شمالی روشنیاں ناچ رہی تھیں۔ لوگ دھڑا دھڑ تصاویر لینے لگے لیکن میں نے سوچا کہ محسوس کرنے کا لمحہ ہے محفوظ کرنے کا نہیں اور میں ان کو دیکھ کر سفر کی تھکان اتارتا رہا۔

تالن پہنچے تو درجہ حرارت صفر تھا۔ جسم پینتالیس سے صفر کے سفر میں بوکھلا چکا تھا، تیس گھنٹوں کی تھکاوٹ علیحدہ۔ میں نے سوچا سفر کی واحد اچھائی شمالی روشنیاں دیکھنا ہوا لیکن فائدہ کوئی نہیں کہ شمالی روشنیوں پر کہانی تو میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں۔

pintalis se sifar tak ka safar