March 19, 2016

ہم جیسے کہاں تم کو 'سلیقہ شعار' ملیں گے


کیا آپ نے کبھی سنا ہے کسی نے ناخن تراش سے ناخن کاٹتے وقت اپنی انگلیاں زخمی کر بیٹھا ہو؟ اگر نہیں تو آج ہی مجھ سے مل کر پرانے زمانے کی سگھڑ خواتین کی یاد تازہ کریں اور اگر مل چکے ہیں تو جگر تھام کر بیٹھیے اور ہماری داستان سنیں کہ ایسی داستان نہ ہو گی داستانوں میں (اس مصرع کو تنبیہ کی بجائے ترجیع کے معنوں میں پڑھا جاوے)۔


ہمارے گھر میں کوئی صوفہ، کوئی پلنگ، کوئی کرسی ایسی نہیں جس کے کونوں، پایوں، ٹانگوں ، بازوؤں سے میں بے دھیانی میں ٹکرایا نہ ہوں۔ اب تو یہ حال ہے آہ سنتے ہی والدہ صاحبہ فرماتی ہیں میں بھی کہوں کہ اتنے دنوں سے ہاتھ، پاؤں ٹوٹے نہیں۔ ادھر ٹکریں کھا کھا کر فرنیچر کا یہ حال ہوا کہ پرانا فرنیچر بیچنا چاہا تو خریدار نے اچھے وقتوں کے پچاس ہزار میں خریدے سامان کا پانچ ہزار لگایا۔ جب میں نے طنزیہ انداز میں کہا صرف پانچ؟ تو بولا بھائی جان یہ بڑے شاہ صاحب کا منہ ہے کہ صرف کرایے کے پیسے مانگ رہا ہوں وگرنہ اسی لولے لنگڑے فرنیچر کا میں کیا کروں گا؟اس کو تو کباڑیہ بھی نہ لے۔ جب چھوٹے تھے تو سنا تھا کہ اچانک لگنے والی چوٹوں پر کوئی دعا مانگی جائے تو قبول ہو جاتی ہے لیکن حالات ایسے بتاتے ہیں کہ ادھر بھی فرشتے دفتر پر تالے ڈال کر چل دیے ہیں کہ اچانک چوٹوں کی کوئی حد بھی ہے کہ نہیں۔

بات ںاخن سے شروع ہوئی تھی تو بتاتے چلیں کہ اصل میں ناخن تراش کو ہم نے پچھلے ایک آدھ سے ہی زحمت دینا شروع کی ہے وگرنہ اس سے قبل ہم یہ کام اپنے دانتوں سے ہی سر انجام دے دیتے تھے یہی وجہ ہے کہ ہمارے ناخن چھوٹے اور دانت مضبوط رہے ہیں۔

سلیقہ شعاری ہماری دیکھیں کہ زحمت تو ہم نے بہت سی اشیا کو کم ہی دی ہیں جن میں عقل سر فہرست ہے۔ مثلاً آج تک ہمیں گانٹھ دینا نہیں آیا۔ خواہ وہ جوتوں کے تسموں کو دینی ہو یا شلوار کے ازار بند (جس کو کچھ لوگ نالا/ ناڑا اور ہم ہزار بند کہتے ہیں) کو دینی ہو۔ آج کل کے نوجوان اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ برگری زمانے میں پیدا ہونے کی وجہ سے بچپن سے شلوار میں الاسٹک اور جوتے شِپ شپ والے (بغیر تسمے والے جو پٹے چپکنے والے ہوتے ہیں اور کھلنے بند ہونے پر شِپ شِپ کی آواز دیتے ہیں) پہنتے آئے ہیں اور عمر اور عقل سے بالاتر ہو کر مسلسل پہنتے چلے آرہےہیں ادھر ہم نے اس دور میں آنکھ کھولی جب الاسٹک والی شلوار پہننے کا مقصد گلی محلے کے لڑکوں کو دعوت دینا ہوتی تھی کہ آتے جاتے شلوار نیچے کو سرکا دیں اور ازار بند لٹکنے کا مقصد ہیلو ہیلو کی آوازیں سننا ہوتی تھیں۔ بس جیسے یہ رسی ہم نے اپنی نوجوانی سنبھالی ہم ہی جانتے ہیں اور انگریزوں کے ملک جا کر پینٹ کی افادیت کا احساس ہوا اور ایسا ہوا کہ پچھلی عید پر جب والد صاحب کے پرزور اصرار پر شلوار قمیض پہنی تو آدھ گھنٹے بعد ہی حکم صادر ہوا جاؤ وہی کینچلی دوبارہ چڑھا آؤ۔

ادھر جوتے جب تک تسموں والے پہنتے رہے تسموں کا اس کے سوا کوئی استعمال سمجھ نہ آتا کہ سمیٹ کر جوتوں کے اندر ڈال لیے جائیں۔ بس صبح صبح والدہ صاحبہ تسمے باندھ دیتی اور دعا کرتیں کہ یا اللہ یہ تسمے اسکول میں نہ کھل جائیں۔ جیسے وقت کے ساتھ انسان سیکھ لیتا ہے ہم نے بھی سیکھ لیا ہے کہ اب ہم ایک نمبر بڑی جوتی لیتے ہیں جس میں تسمے جوں کے توں بند رہتے ہیں اور ہم پشاوری چپل یا سینڈل کے مصداق تسموں کو تکلیف دیے بغیر جوتے پہنتے اتارتے رہتے ہیں۔

ہماری عقلمندی یوں تو ہمارے ہر فعل سے نمایاں ہے لیکن چند ایک معاملات میں تو ہم اپنی مثال آپ ہیں جس میں سر فہرست ہمارے برتن ہیں۔ ایسٹونیا آکر ہم نے ایک کپ لیا کہ ابھی ایک کپ ہی کافی ہے کیا کرنا ہے کہ جہاں کسی کو جانتے نہیں وہاں دوسرے کپ کا کیا کرنا۔ بس وہ کپ ایسے استعال ہوا کہ اسی میں صبح صبح پانی پیتا ہوں، پھر چائے، کافی اور رات کو کوکا کولا یا پھر دودھ سوڈا (دودھ جمع کوکاکولا)۔ وہاں کے برتنوں کی کوالٹی چیک کریں کہ ماسوائے کپ کا رنگ جو اندر سے پہلے سفید ہوتا تھا اب سیاہ ہوچکا ہے ایک بھی جھری نہیں پڑی- ادھر مزیداری یہ بھی ہوتی ہے کہ کافی میں دودھ اور چینی ڈالنی نہیں پڑتی اور ماؤنٹین ڈیو بھی پھیکی لگتی ہے۔ اور اپنی کفایت شعاری سے ہم نے سبق یہ بھی سیکھ لیا کہ اگر خدانخواستہ اس کپ کو کچھ ہو بھی گیا تو اگلی بار سیاہ رنگ کا ہی لیں گے کہ کبھی کبھار ضمیر کی خلش جو جاگ اٹھی ہے اس کا بھی کماحقہ تدارک کیا جا سکے۔

یوں تو مجھ میں اور بھی سینکڑوں خوبیاں ہیں مثلاً صابن شمپو کے بغیر نہا کر کیمکل جیسے مضر صحت اشیا سے دور رہنا، گرمیوں سردیوں میں انتہائی گرم پانی سے نہا کر جسم کے جراثیم کش کرنا، کپڑے دھونے کی بجائے دھوپ میں پھیلا کر صاف کر لینا، کمرے میں صفائی کرنے کی بجائے ناک ڈھاپنے والا رومال باندھ لینا، وغیرہ وغیرہ لیکن اب میں مزید تعریف کروں گا تو آپ کہیں گے میں اپنے منہ میاں مٹھو بن رہا ہوں بس جس کو ہمارا فین ہونا ہو ہم سے پہلی فرصت میں ملاقات کر لے ویسے بھی آگے گرمیاں آ رہی ہیں ہتھ والے پکھے ہی کام آنے ہیں کرنٹ تو بس ان کو نصیب ہوناہے جن کی ماوؤں اور بیویوں نے اسٹار پلس کے ڈرامے دیکھ رکھے ہیں۔

Hum jaisy kahan tumko' saleqa shuar' milain ge