March 5, 2016

درشن چھوٹے نام بہت


جب میں نے پہلی بار 'شہاب نامہ' پڑھی تھی تو میں اتنا چھوٹا تھا کہ سمجھ بوجھ کے بغیر بس اردو پڑھ لیتا تھا۔ کتاب کے ٹائیٹل صفحے پر قدرت اللہ شہاب کی باریش تصویر اور آخری باب میں وظیفے دیکھ کر جب کتاب کے درمیان میں ان کی جوانی کی بے ریش اور پتلون کوٹ والی تصویر دیکھی تو دل کو دھچکا سا لگا کہ ایک سیدھے سادے دین دار گھرانے میں اس وقت پتلون صرف خاص مواقع پر پہنی جاتی تھی۔ میں رہ نہ سکا اور والدہ سے پوچھ بیٹھا کہ شہاب صاحب پینٹ بھی پہنا کرتے تھے۔؟


کئی سال گزر گئے عقل اس مقام سے اتنی دور نکل آئی ہے کہ اگر اپنے آپ کو رعایت بھی دوں تو ساٹھ کے پیٹے کے آس پاس گھوم رہی ہے (سرائیکی میں ایک کہاوت ہے کہ فلاں شخص ساٹھ کا ہوگیا ہے یعنی اس کی عقل خبط ہو چکی ہے) لیکن دل وہیں کہیں رہ گیا کہ ہر شخص کی تحریر پڑھ کر، ذکر سن کر دل ایک ایسی ہستی کی تصویر بناتا ہے جس کو پورا کرنا ایک عام انسان کے بس کی بات نہیں اور ہر بار ایسی ہی کسی ملاقات کے بعد اپنے بنائے بت کے ٹکڑے چنتے یہ عہد کرتا ہوں کہ اب ایک تو کسی سے ملنا نہیں اوردوسرا جب تک مل نہ لوں کسی بارے رائے قائم نہیں کرنی لیکن ہم بھی اپنی نوعیت کے واحد ہی ہیں کہ جلد ہی پھر کسی بت کی ٹھیکریوں سے شیدن کھیل رہے ہوتے ہیں۔

ایک سوچ کے بے زین و بے لگام گھوڑے اوپر سے اندازوں کی انتہائی ناقص نشانہ بازی ۔ انجنیرننگ کی تیاریوں کے سلسلے میں لاہور میں ایک اکیڈمی میں داخلہ لیا تو پڑھنا وڑھنا کیا تھا بس دو تین باتیں پلے باندھیں ایک یہ کہ جس ریاضی کے سوال کا جواب نہ آئے اس کا جواب صفر یا ایک نکال دیں تو امید واثق ہے کہ کام چل جائے گا اور دوسرا یہ کہ اگر کسی ایسے سوال میں جس میں چار یا پانچ میں سے ایک جواب چننا ہو تو جو سب سے پہلا خیال ہواسی کو چن لیں۔ ریاضی کے فارمولے بارے ہمارا رزلٹ یہ بتاتا ہے کہ امکان واثق ہے کہ جہاں صفر جواب تھا وہاں ہم ایک لکھ آئے اور جہاں ایک تھا وہاں صفر۔ ادھر پہلی نظر کےگمان کے بارے ہمارا اندازہ اتنا برا ہے کہ سو میں سے ایک سو ایک بار اندازہ غلط ثابت ہوا۔ غلط جگہوں پر کیا تکا لگنا تھا ایسے جوابات جو آتے تھے ان پر کبھی نشان غلط لگ جاتا، کبھی جلد بازی میں دو پر نشان لگ جاتا۔  یہ انداوں کی غلطیاں صرف کتابی معلومات تک محدود نہیں بلکہ پہلی سوچ، پہلی نظر، پہلا اندازہ، پہلی پسند، ہر چیز بغیر کسی ہچکچاہٹ کے غلط ثابت ہوئی۔ یہی حال دوسروں بارے گمان کا بھی رہا کہ جن بڑے ناموں مثلاً ادیبوں، کھلاڑیوں، پروفیسروں ، سیاستدانوں سے ملاقات کا متمنی رہا یا تو ملاقات سے پہلے ہی ان کے بارے ایسی باتیں پتہ چلیں کہ شکر ادا کیا کہ ملاقات نہیں کی یا ملاقات پر ایسی مایوسی ہوئی کہ شک پڑا جو کام سن رکھے ہیں وہ یا تو کسی اور کے ہیں اور اگر انہی کے ہیں تو اس نام کو زیب نہیں دیتے۔

الحمدللہ ابھی تک تو اپنے بارے دماغ جگہ پر ہے اور خود کو سلیبرٹی یا توپ چیز سمجھنے سے بچا ہوں لیکن نجانے کبھی کبھار دماغ پر اثر محسوس ہونے لگتا ہے جیسے جب ایسٹونیا میں جمعہ نماز پڑھتے پوری ترک فٹ بال ٹیم آئی ہوئی اور تیس چالیس لوگوں کے مجمع میں با آسانی ان سے مل سکتا تھا لیکن میں نے سوچا آپ ترک ٹیم ہوں گے تو اپنے گھر ہوں گے میں کیوں ظاہر کروں کے آپ سے ملنے کے لیے مرا جارہا ہوں - یہی مواقع کئی کرکٹرز ، سیاستدانوں، اداکاروں ، کالم نگاروں اور دیگر سلیبرٹی کے سامنے بھی آئے لیکن ہم ایسے وہاں سے چل پڑے جیسے ہم ان سے بھی اگلے درجے کی کوئی چیز ہوں بھلے گھر میں کوئی کھانا نہ پوچھتا ہو۔  

کبھی کبھار کوئی میسج آجاتا ہے کہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں تو مجھے یہ سارے واقعات یاد آجاتے ہیں اور سوچتا ہوں کہ جیسے میرا دل ٹوٹا میں کیوں کسی کا دل توڑوں اس لیے کوشش رہتی ہے کہ نہ ہی ملوں لیکن ملنا بھی پڑ جائے تو نیت نیک ہوتا دیکھ کے مصداق ایک ہی ملاقات کے بعد ملنے والے کا شوق پورا ہو جاتا ہے اور اب تک کے ریکارڈ کے مطابق جن بڑے لوگوں سے دوسری بار ملاقات ہوئی اس میں ساری کوشش میری ہی رہی ہے اور سمجھدار اور جہاں دید لوگ ایک ہی ملاقات کے بعد کنی کترا کر مصروفیت کی چھتر چھایا میں سو گئے۔

اصل میں ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ جو شخص اپنی تحاریر سے دن رات ملکی حالات پر تڑپتا دکھائی دے لازم نہیں کہ وہ آپ سے ملاقات پر مچھلی کا سا چھلانگیں مار رہا ہو ایسے ہی جو شخص اپنی تحاریر میں مذہب اور نیکی کی دعوت دیتا ہو لازم نہیں کہ وہ اپنی لمبی ریش میں انگلیوں سے خلال کرتا ہی ملے اور ہر بات پر آیت اور حدیث کا حوالہ دے۔ ایسے ہی جو شخص مزاح لکھتا ہوں وہ ضروری نہیں کہ ملنے پر بھی آپ کو ہنسا ہنسا کر مار ڈالے۔ بس سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جو لوگ لکھتے ہیں وہ ان کی سوچ ہے لیکن وہ بھی اسی بے حس اور بے ایمان معاشرے کا حصہ ہیں لہذا عملی زندگی میں وہ بھی آپ کے اور میرے جیسے ہی ہوں گے اور اگر آپ فرشتے ڈھونڈنے نکلیں گے تو مختار مسعود کی آواز دوست تو شاید لکھ پائیں لیکن آٹو گراف کاپی خالی کی خالی رہے گی۔ فرشتوں سے بہتر ویسے بھی انسان بننا ہے اور انسان تو مل جائیں گئے لیکن بندے ڈھونڈنا زرا مشکل کام ہےتو جب بھی نئے لوگوں سے ملیں جن کا آپ کے دماغ میں بڑا اونچا قسم کا امیج ہے یہ بات ذہن میں رکھیں کہ آخر کو وہ بھی انسان ہیں اور اسی معاشرے کا حصہ۔ وگرنہ وہی پیر صاحب کے مریدین والا صدمہ ہی ہوگا کہ پیر صاحب کے خلیفے نے پیر صاحب کی کرامات کی اتنی تعریفیں کیں کہ جب کسی کے پوچھنے پر انہیں پتہ چلا کہ پیر صاحب حوائچ ضروریہ سے فراغت کے لیے گئے ہیں تو وہ مایوس ہو کر اٹھ آئے کہ پیر صاحب تو انسان ہی نکلے ۔ اب جیسے میں آپکو یہ بات سمجھا رہا ہوں ضروری نہیں کہ خود بھی سمجھ پاؤں۔

 باقی رہ گئے ہم، تو ہم تو انسان بھی بس دیکھنے میں ہی لگتے ہیں کہ آج بھی والدہ آواز لگاتی ہیں" علی! انسان بنتے ہو کہ اتاروں جوتا"۔

پس تحریر: یہ بلاگ کسی بلاگر سے ملاقات کی فرمائش کے بعد یا ٓملاقات کے بعد نہیں لکھا گیا، نوٹ فرما لیں

darshan chote naam buhut