دسمبر 2011میں جب میں وارسا Warsaw میں رہتا تھا تب پہلی بار تالِن Tallinn آیا تھا۔ یہ سفر میں نے بذریعہ بس سے کیا تھا۔ وارسا سے تالِن جس بس میں گیا تھا وہ وارسا سے لیکر تالِن چار ملکوں کے ہر چھوٹے بڑے شہر رکتی گئی تھی۔ تب جوانی تھی گھومنے کا شوق تھا کام وام تھا نہیں اور پیسے جیب میں برائے نام ہوا کرتے تھے تو سفر بڑے شوق سے طے کیا تھا۔ تب ہر شہر بارے سوچتا گیا تھا کہ بس ایک بار سیٹ ہو جاؤں پھر دیکھنا یہ ایک ایک شہر گھوموں گا ویسے یہ ایک ایک شہر تو پاکستان کا بھی سوچا تھا لیکن آج تک وہاں کا خواب پورا نہیں ہوا یہ تو پھر یورپی خواب ہے جو یورو سے ہوروا ہوتا ہے اور پھر سیٹ ہونا بذات خود ایسی مبہم حالت ہے کہ مارک زرگ برگ بھی سوچتا ہے بس ایک بار سیٹ ہوجاؤں پھر فیس بک کی آمدنی خیراتی اداروں کو دے دوں گا۔
بہرحال مقصد اپنی غریبی بیان کر کے چندہ لینا نہیں بلکہ یہ بتانا ہے تب میں نے یکے بعد دیگرے تین چکر بس پر وارسا سے تالِن لگائے تھے اور راستے میں آئے بہت سےشہروں میں لیتھوانیا Lithuania کا شہر کاؤناس Kaunas بھی آیا تھا جس کی واحد یاد ذہن میں دریا کے اوپر نارنجی رنگ کا پل رہ گیا- جب بھی کاؤناس کا نام سنتا وہی پل دماغ میں آجاتا جس میں جمے دریا کے اوپر صبح صبح بس گزر رہی تھی اور سردی حال احوال کے علاوہ پچھلی سات نسلوں کا شجرہ بھی پوچھ رہی تھی –
اگر میرے پرانے بلاگ کھنگالیں تو ولینیوس Vilnius پچھلے سال گیا تھا لیکن لیتھوانیا کا واحد چڑیا گھر کاؤناس میں ہونے کی وجہ سے کاؤناس میری فہرست میں خاصے اونچے مقام پر تھا۔ بہرحال سبب بن گیا اور سبب تھی حسب معمول تعلیمی کانفرنس۔ ہم نے مقالہ بھیجا انہوں نے قبول کر لیا اور ہم سے کانفرنس کی فیس وصول کر لی۔ ویسے یہ کانفرنس کی فیس سے مجھے بچپن میں کھیلے گئے کرکٹ ٹورنامنٹ یاد آجاتے ہیں جس میں بڑے شوق سے ساری ٹیم پیسے جمع کر کے انٹری بھرا کرتے تھے اور بس ایک آدھ میچ کھیل کر ہی اگلے ٹورنامنٹ کا چندہ شروع ہوجاتا تھا بس یہی حال کانفرنسوں کا ہے کہ پیسے بھرو مقالہ بھیجو دس منٹ کی پریزنٹیشن دو اور اگلی کانفرنس کی بچت شروع۔
کانفرنس 27 کو تھی اور 24 تاریخ کو میں نے ٹکٹ خریدی- کاؤناس کی نہیں بلکہ تالِن کی کیونکہ تب تک میں پاکستان میں تھا- اب تین دن قبل خریدی گئی ٹکٹ کا حال آپ سوچ سکتے ہیں- ایسے موقع پر ٹکٹ خریدنے کا نقصان 18 گھنٹے کراچی میں گزارنا ہوا- 25 کو ملتان تا کراچی ، 26 کو کراچی تا تالِن کا سفر ہوا- رات کو پہنچا اور صبح صبح بس پر سوار ہو کر تالِن سے کاؤناس روانہ ہو گیا۔
تالِن سے کاؤناس کا سفر 8 گھنٹے کا ہے- کاؤناس پہنچے تو شام ہو چکی تھی یعنی وقت کے اعتبار سے تو شام ہو چکی تھی کہ سات بج رہے تھے لیکن دن کے اعتبار سے ابھی شام کے امکان نہ تھے کہ دن بالٹک ممالک میں دیگر شمالی کرے کی طرح بھیانک حد تک لمبے ہو چکے تھے۔ مئی کے اختتام تک تو ہم اندھیرا دیکھنے کو تڑپ جائیں گے بس رات کو جھٹ پٹا سا ہو گا اور بس۔
بس کا سفر اچھا رہا - اس طرح اچھا رہا کہ بہار یہاں پہنچ چکی تھی اور پرندے بھی ہجرت ختم کرکے وپس یورپ آچکے تھے اور راستے میں وہ تمام پرندے جن کے پیچھے پاکستان میں خوار پھرا کرتا تھا یہاں ایسی بے اعتنائی سے بیٹھے تھے کہ نہ پوچھیں۔ کونجین، سارس، شکاری پرندے سب ایسے پھر رہے تھے جیسے کراچی میں کوے اور چیلیں۔
بس کا سفر ختم ہوا اور ہوٹل ریسپشن پر پہنچے- تو ایک گوری نے ہمارا استقبال کیا، حساب کتاب کر کے کمرے کی چابی ہمیں تھمائی۔ ہم نے منہ پھیرا ہی تھا کہ پیچھے سے آواز آئی "آخ تھو"۔۔۔
اٹھتے قدم جم گئے۔ یقین مانیں آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ اب کوئی گورا ہوتا تو اس کو جچتا بھی تھا، عربی ہوتا، بھارتی ہوتا، جاپانی ہوتا تو چلیں برداشت بھی کر لیتے لیکن ایک گوری کے ہاتھوں؟؟دل کیا کہ پوچھوں بی بی تمھارے والدین نے نہیں بتایا اجنبیوں اور پردیسیوں سے پیار سے بات کرتے ہیں؟ جی چاہا کہ بس سب تیاگ کے جوگ اختیار کر لیا جائے- ابھی اسی سوچ میں گم تھا کہ کاؤنٹر پر کھڑے دوسرے بندے کو بھی بی بی نے "آخ تھو" کہہ ڈالا۔
میں نے غور کیا تو احساس ہوا کہ آخ تھو نہیں بلکہ" آں چھو" کہہ رہی ہے۔ اچھا تو بی بی کو چھینکیں لگی ہیں- میں نے وہیں ٹھہرے ٹھہرے بستے کو ٹتولنا شروع کیا کہ جناب کی خدمت میں چھینکوں کی دوا پیش کروں یا اور نہیں تو ٹشو ہی دے کر انسانیت کی خدمت کر لوں لیکن جب اس نے تین چار بار یہ آواز دوہرائی تو مجھے احساس ہوا کہ اس میں قدرتی چھینک والی کھنک غائب ہے بلکہ آنٹی یعنی لڑکی بناوٹی چھنک پیدا کررہی ہے۔ دنیا کی بے ثباتی سے مایوس ہو کر میں کانفرنس کا سوچنے لگا۔ کمرے میں آکر بورڈ وغیرہ دیکھے تو پتہ چلا لتھونوی زبان میں شکریہ کو Ačiū کہتے ہیں جس کا تلفظ اچھو سے ملتا جلتا بنتا ہے-
نقشہ دیکھا تو پتہ لگا کہ ہوٹل سے چار کلو میٹر دو چڑیا گھر ہے اور چار کلو میٹر دوسری طرف پرانا شہر ہے- جیسا کہ میں بارہا لکھ چکا ہوں کہ یورپ میں گھومنے کو بس پرانا یا قدیم شہر ہی کافی ہے- اس طرح کافی نہیں جیسے ہمارے ملک میں ہوتا ہے کہ اس کے بعد آپ کا بٹوہ غائب ہو جاتا ہے، کپڑے وغیرہ پھٹ جاتے ہیں، ٹکڑ کھا کھا کر آپ خود کو انسان کی بجائے بکرا سمجھنے لگتے ہیں، نکل کر ایسا احساس ہوتا ہے جیسے کوئی خطرناک کرتب دکھا کر صاف بچ آئے ہیں۔بلکہ اس لیے کہ تمام شہر کی خوبصورتی وہاں جمع ہوتی ہے اور پرانی عمارتیں اور یادگاریں خوب سجی سجائی ہوتی ہیں۔
اب یہ چار چار کلو میٹر دیکھے تو فیصلہ کیا کہ فی الحال پڑھائی اور کانفرنس پر توجہ دی جائے کہ پڑھائی سے بڑھ کر کچھ نہیں کیونکہ اتنے اچھے ہم ہیں نہیں کہ اس چھوٹے سے سفر کے لیے بس یا ٹیکسی والوں کو پیسے دیکر لیتھوانیا کے زرمبادلہ میں بڑھوتی کراتے- پیدل چلنے کا مسئلہ یہ تھا کہ ابھی تقریباً سیدھا پاکستان سے آئے تھے جہاں چار ماہ کے قیام کے دوران چلنا دور کی بات ہم نے خود سے اٹھ کر پانی نہیں پیا تھا۔
بہرحال اگلی صبح کانفرنس پہنچے اور ہماری کانفرنس میں پہلی دلچسپی یہ تھی کہ کب کافی بریک ہو۔ اب دو دن کانفرنس والوں نے بیڑہ اٹھایا تھا کھانے پینے کا تو ہم ان کو کیوں مایوس کرتے۔اور ویسے بھی اس بار ہمارے پاس پیسوں کی جو صورتحال تھی اس سے ہمیں وہ سفر یاد آگئے جو ہم نے پولینڈ میں رہتے ہوئے کیے تھے کہ پلے نہیں دھیلا تے چل پڑی دیکھنے میلہ۔
اللہ اللہ کرکے کافی بریک آئی کہ ناشتا نہ کرنے، بور قسم کی پریزینٹیشنیں presentations سننے اور اسفار کی تھکاوٹ کی وجہ سے ہم نیم بےہوش چکے تھے۔ بھاگم بھاگ پہنچے اور یکے بعد دیگرے دو کپ چڑھائے تو دنیا نظر آنے لگی۔ ہوش واپس آیا تو احساس ہوا کہ ایسے بھوکے ہیں کانفرنس والے کہ کافی کے ساتھ کوئی بسکٹ ہوتا ہے کوئی پیسٹری ہوتی ہے اللہ پوچھے بس ایسے دلبرادشتہ ہوئے کہ دو کپ ہی اور پی سکے اور دوبارہ پہنچ گئے واپس پریزنٹیشن سننے۔
اب کی بار کھانے کی امید پر وقت کٹا لگے کہ اگلا وقفہ لنچ کا تھا۔ پانی پی پی کر جو کہ مفت تھا وقت گزارا اور پہنچ گئے دوپہر کے کھانے پر۔ کھانے میں کوئی دس بیس اقسام کے کھانے تھے اور ہم جس کو ہاتھ لگاتے اسی میں گوشت منہ چڑانے لگتا۔ آخر ایک بیری یعنی مادہ بیرا (اب خاتون بیرا کو اور کیا کہا جائے ہماری اردو خاموش ہے) کو پکڑا کہ ماسی اللہ تیرا بھلا کرے کوئی بغیر گوشت والی ڈش بتا جس پر اس نے سلاد کی طرف اشارہ کیا- اب سلاد میں ہم صرف پیاز کھاتے ہیں وہ بھی اس صورت میں جب وہ سرکے یا لیموں سے ڈوبے ہوں- اور ویسے بھی اگر ہم پتے گھاس کھاتے ہوتے تو ہمارا ماہانہ بجٹ کنٹرول میں نہ ہوتا؟
اب کی بار اس سے مچھلی کا پوچھا۔ حالانکہ پولینڈ کے تجربے سے مجھے پتہ ہے کہ بالٹک میں اکثر مچھلی بس نام کو پکتی ہے اور کھانے پر اس میں مچھلی کی باس بدستور آ رہی ہوتی ہے لیکن کچھ تو کھانا تھا آخر کو پیسے نہیں بھرے تھے کانفرنس کے۔ اس نے مچھلی کی طرف اشارہ کیا اور میں نے تین ٹکڑے پلیٹ میں ڈالے اور ڈرتے ڈرتے کھانے لگا۔ اصل ڈر اسوقت بھوک سے زیادہ گزشتہ روز کے چار یورو کا تھا جو دوران سفر کھانے پر نکل گئے تھے اور غربت میں تو چار روپے بڑی دولت لگتے ہیں چار یورو تو پھر چار یورو ہیں۔
بہرحال مچھلی کھائی اور مچھلی مزیدار تو تھی کیونکہ مزے والی میری حس بہرحال ہر حال میں کام کرتی ہے لیکن بو تھی کہ نہیں اس بارے میں کچھ کہہ نہیں سکتا کہ چار یورو کی خاطر میں رو پیٹ کر سلاد بھی کھا سکتا تھا- میں مزید مچھلی لینے اٹھا تو لگا کہ شاید سب ہی کل چار یورو کا نقصان اٹھا کر آئے ہیں کہ سارا مال لٹ چکا تھا اور ہماری قسمت میں فقط ابلے آلو پڑے تھے۔ کھائے ، اچھے خاصے کھائے بڑے مزیدار تھے۔ کبھی ٹرائی کریں نہ آپ۔
کانفرس کا پہلا روز ختم ہوا حالانکہ رات کے کھانے کا بھی دعوت نامہ تھا لیکن دن کو کونسا انہوں نے خاطر کی تھی جو رات کو تکے کباب کھلاتے بس یہی سوچ کر دل کو دلاسہ دیتے آگیا کہ میں تو ویسے بھی ایک وقت کھانا کھاتا ہوں۔
سیانا تو میں اتنا ہوں کہ آتے وقت میں کیمرے کا چارجر اٹھانا بھول گیا۔ اب شام کو میں سیر کو نکلا تو سوچا کہ کیمرہ بس چڑیا گھر جا کر نکلے گا شہر کو موبائیل کے کیمرے پر گزارہ کرنا ہوگا- تصاویر کھینچتے کھینچتے دور ایک چرچ نظر آیا تو اس کے پاس گیا- پتہ لگا کہ یہ مسجد ہے- وہ مسجد یورپ کی ان چند مسجدوں میں سے ایک تھی جو باقاعدہ مسجد کی شکل میں تھیں وگرنہ یہاں فلیٹ ہی مسجد قرار پاتے ہیں۔ چونکہ ہم بھی پاکستانی ہیں لہذا نماز پڑھیں نہ پڑھیں لیکن تمام دنیا کے اسلام کا ٹھیکہ ہمیں بھی ملا ہوا ہے لہذا ہم خوش ہوگئے، لتھوانیوں کو جی بھر کے دعائیں دیں اور گھر آ کر سو گئے۔
|
پہلے روز کی موبائیلی تصاویر |
|
شہر میں ایسی پرانی عمارتیں عام ہیں |
|
اگر آپ میں حس لطیف یا حس لطیفہ ہے تو ایسی عمارتیں خوبصورت لگتی ہیں |
|
ہم یہاں پہنچے تو سمجھے یہ ہے سٹی سنٹر لیکن وائے خواہش |
|
فوجی کتھیڈرل |
|
ایسا سبزہ دیکھ کر کسی کا منہ مارنے کو دل کر سکتا ہے |
|
مسجد تو کاؤناس میں بھی بنا دی ایماں کی حرارت والوں نے |
|
مسجید کے پہلو میں صلیب بھی موجود تھی |
|
مسجد سے گرجے تک کا راستہ |
|
گرجا |
|
پارک کے ایک کونے پر مسجد اور دوسرے پر یہ گرجا تھا |
|
یہ اونچی عمارت ہمارا ہوٹل تھا |
|
کچھ ٹیڑھی ترچھی عمارت |
|
ٹیشن والی سواریاں اتر جائیں- کاؤناس ریلوے اسٹیشن |
|
ایک اور پرانی عمارت |
|
ایک اور سہی |
|
اس تصویر میں گاڑی کے نیچے مجھے یہ سمجھ نہیں آئی کہ بادل بنا ہے یا مثانہ؟ |
|
ایک خوبصورت رنگ کی عمارت |
دوسرے روز میری پریزینٹیشن بھی تھی جس کا عنوان کرسٹیانو رونالڈو بطور کھلاڑی برانڈ تھا۔ میرے بعد ایک ہندوستانی بی بی جو کہ لیٹویا سے پی ایچ ڈی اسپورٹس منیجمنٹ Sport management میں کر رہی تھیں کی بولنے کی باری تھی جنکا تمام وقت یہ ثابت کرتے لگا کہ آئی پی ایل، انڈین کبڈی لیگ وغیرہ وغیرہ دراصل اولمپکس سے بھی مقبول کھیل ہیں۔ ان کی تمام غپ بازی میں مزیدار مرحلہ وہ تھا جب ایک پروفیسر صاحب نے پوچھا کہ کبڈی کیسے کھیلا جاتا ہے۔ اب وہ بتانے کا نہیں بس یہی ہے آپ تب ہی سمجھیں کہ آپ خود کبھی آپ کسی کو انگریزی میں سمجھا کر دکھائیں جس میں آپ نے یہ بھی بتانا ہے کہ کھلاڑیوں نے مستقل سانس توڑے بغیر کبڈی کبڈی بھی کہنا ہے (گویا وہ چپ ہوا نہیں اور پوائینٹ گیا نہیں) اور یہ نہیں بتانا کہ اس میں پوائینٹس بھی ہوتے ہیں کہ نہیں۔
بہرحال اختتامی مرحلہ آیا، کھانا کھایا گیا اور آج میں نے دھوکہ نہیں کھایا بلکہ پہلی باری میں ہی پلیٹ بھر کر مچھلی کی اٹھا لی اور ابھی لوگ پہلی باری اٹھا کر آتے پھر رہے تھے میں نے دوسری باری چھاپہ مارا اور جتنا ممکن تھا پیٹ کو بھرا اور چل پڑا کاؤناس کی سیر کو۔
نقشے کو دیکھ کر چلے اور ایک پارک سا نظر آیا جو کہ چڑیا گھر جانے کا شارٹ کٹ تھا بسم اللہ کر کے چل پڑے۔ چل تو پڑے تھے لیکن جب آخیر تک پہنچے تو حال اٹھائے جانے والا تھا کہ سیدھا دو سو اڑھائی سو سیڑھی تھی۔ سڑک سے جاتے تو چڑھائی ہوتی لیکن نقشے کی اس شارٹ کٹ نے ستر اسی کے زاویے پر بنی سیڑھیاں عبور کرا دیں- چڑیا گھر کے لیے یہ قربانی بھی دی۔
کاؤناس ایک مکمل گورا شہر ہے جس میں مجھے ان تین دنوں میں اپنے علاوہ کوئی بد رنگا نظر نہیں آیا۔ اتنے گورے لوگ تو اب کسی پرانی انگریزی فلم میں ہی نظر اتے ہیں۔ اتنے گورے دیکھ دیکھ کر تیسرے دن میں اپنے آپ کو دہشت گرد سمجھنے لگ گیا- شہر دریائے نیمان کے کنارے واقع ہے- شہر غیر ہموار تھا یعنی آس پاس ہر طرف پہاڑیاں تھیں تو جیسے ہی کسی طرف جانا پڑتا پہاڑ منہ اٹھائے کھڑا ہوتا۔ شہر کی عمارتیں پرانی تھیں لیکن مرمت شدہ تھیں۔ ہوم لیس لوگ (بے گھر لوگ جو کہ مشرقی یورپ میں عام مل جاتے ہیں) اور بھوت بنگلہ نما عمارتیں نہ ہونے کے برابر تھے۔ لوگوں کی سب سے اچھی بات یہ لگی کہ انہیوں نے کہیں مجھے ایسے نہیں گھورا کہ یہ منہ پر بھوری پالش مل کر بندہ کہاں سے آگیا ہے۔
چڑیا گھر پہنچا تو بارش استقبال کو تیار کھڑی تھی۔ اوپر سے جانوروں کو دوہرے جنگلوں میں بند کیا گیا تھا جس سے سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ آپ واضح تصاویر نہیں کھینچ سکتے۔ چڑیا گھر دو حصوں میں منتقسم تھا ایک پہاڑی کی چوٹی پر ایک دامن میں۔ ایک بار پھر دو سو سیڑھیاں اتریں اور نچلے حصے میں جانوروں سے ہم تصویر ہوا۔ اب ایک مسئلہ یہ ہوا کہ میرا کیمرہ اور لینز دونوں آخری دموں پر ہیں تو انہوں نے تصویر کھینچنے سے انکار کردیا۔ اب بارش میں بندہ کہاں جائے۔ آخر میں ایک سائبان میں بیٹھا کیمرے کا آپریشن کیا جیسے پرانے موٹر سائیکلوں کی رمز ان کے ڈرائیور بخوبی جانتے ہیں اور جیسے تیسے اس کو چلا لیتے ہیں ایسے ہی ہم نے بھی کیمرہ چلا ہی لیا۔ بس نقصان یہ ہوا کہ دو چار جانور رہ گئے کہ سیڑھیاں چڑھنا اترنا اب میرے لیے رکے کیمرے کو چلانے سے بھی مشکل کام تھا۔
چڑیا گھر سے واپس نکلا اور اب موبائیل کی بجائے کیمرے سے تصاویر کھینچنی شروع کیں۔ وہاں سے اس وسط میں پہنچا جہاں ہوٹل تھا جی تو چاہا ہوٹل گھس کر سو جاؤں اور قدیم شہر کی سیر کل کی جائے لیکن بس کھسکتے کھسکتے قدیم شہر کو نکل گیا۔
موسم تمام عرصہ مہربان رہا کہ پہلے دن برف باری ہو گئی اب بھلا اپریل میں برف باری کوئی شرافت ہے لیکن ایسا پہلی بار کہاں ہوا کہ اس سے قبل میں جاپان میں بھی مئی میں برف باری کرا چکا ہوں۔ دوسرے روز بارش نے سکون سے تصاویر نہ لینے دیں اورتیسرے روز صبح صبح ایسی دھوپ تڑک گئی کہ کاؤناس نہ ہوا ملتان ہوگیا اور پہلے دو روز جس جیکٹ میں سردی لگ رہی تھی تیسرے روز گرمی کا باعث بن گئی۔
پرانا شہر کوئی ایسا خاص نہیں تھا بس ویسا جیسا اکثر بالٹک ممالک میں ہوتا ہے- نقشے پر لازم دیکنے والی اشیا میں کاؤناس قلعہ بھی تھا۔ جب کاؤناس قلعہ پہنچا تو حیران رہ گیا کہ اس قلعے سے تو بڑا ہمارا گھر تھا۔ بس یورپی لوگوں کا یہی کمال ہے کہ کوئی گندی سی شے بھی ملی تو اس کو اتنا اٹھایا کہ لوگ دیکھنے پر مجبور ہوگئے ایک ہم ہیں پچھلے پچاس سالوں سے تاریخی عمارات برباد کرنے پر تلے ہیں وہ بھی ختم ہونے میں نہیں آتیں۔
رات کو تھکا ہارا واپس لوٹا اور ہوٹل آ کر ڈھیر ہو گیا- ویسے مجھے کاؤناس بہت عمدہ شہر لگا، دارالحکومت ولینوس کے مقابلے تو لاکھ درجے اچھا لگا۔ شہر خاصا پھیلا ہوا ہے جبکہ مجھے لگتا کہ چھوٹا سا گاؤں نما ہوگا لیکن شہر کو مکمل گھومنے کے لیے کم از کم تین سے چار دن چاہییں اور پیسے بھی چاہییں کہ لوکل ٹرانسپورٹ بس و کشتیوں پر سیر کیے بغیر شہر گھومنا نا ممکن ہے۔
|
چڑیا گھر کا بیرونی دیدار- جانور پرندوں کے لیے برڈز انیمل ڈاٹ کام کی سیر کریں |
|
چڑیا گھر سے واپسی - دوسرا دن |
|
دوسرے دن بھلا پرانی عمارتوں نے کیوں نہ ملنا تھا |
|
اس راہ سے جاتے ہیں |
|
پرانی عمارت اور ایک چھوٹا سا قہوہ خانہ |
|
فوجی گرجا- کاؤناس |
|
یہ ماسی پتہ نہیں کیوں لیٹی تھیں وہاں |
|
پرانے شہر کو - پرانا شہر اس فوجی چرچ سے شروع ہوتا تھا |
|
جو بھی راہ میں ملا۔۔۔۔ |
|
فوارہ اور ایک بگوٹا جیسی عمارت |
|
ایک خوبصورت پل |
|
پل قریب سے |
|
وہ تھیٹر جس میں نرگس مارکہ ڈرامے نہیں ہوتے |
|
قدیم و جدید |
|
کچھ نہ کچھ بن گیا ہے بس |
|
مشرقی یورپ کی روائیتی تصویر عمارتیں |
|
بااداب،ولنیوس روڈ آگئی جس میں ہر نقشے میں ایسے لکھا گیا تھا کہ نہ گئے تو واپسی پر بس والے نہ چڑھائیں گے |
|
آپ بھی ولنیوس روڈ کے مزے لوٹیں |
|
عمارت کا کم از کم ایک پاسہ تو وکھرا ہے |
|
سائیکل میری چیک مچیکاں |
|
پرانے شہر کی سنسان گلیاں مجھے بڑی پسند ہیں |
|
وہ زمانے لد گئے جب پیا رنگون جا کر ٹیلیفون کیا کرتے تھے |
|
مبارک ہو سٹی سنٹر آ گیا- بس یہی کچھ ہے متاع قدیم شہر کہ ایک عمارت اور اس کے گرد پھیلا میدان |
|
میدان کے آسے پاسے |
|
ب- فوارہ |
|
آپ بھی قلعہ کا لڈو چکھ لیں |
|
دریا بھی وہاں چہیلیں کر رہا تھا |
|
تمباکو ہو تو چاچے جیسا ورنہ نہ ہو |
|
وہ نارنجی پل۔۔۔۔۔ |
|
کل قلعہ |
|
نہیں پڑھنا آتا تو نہ دماغ پر زور ڈالو ٹڈے |
|
واپسی لیکن اور راستے سے |
|
پرانی عمارتوں کے درمیاں جہاں کہیں نئی عمارتیں بنائی گئی ہیں وپ اپنی ہی دھج کی ہیں |
|
سیر ختم پیسہ ہضم |