October 14, 2016

امریکی صدارتی الیکشن


امریکی الیکشن کی آمد آمد ہے تو ایک جیسے وہ ہمارے ہر معاملے میں پنگے بازی کرتے ہیں تو وہ ہمارے بلاگ کی مہمان نوازی سے کیوں محروم رہیں دوسرا ہمارا کچھ اچھا لکھنے کو دل بھی نہیں چاہ رہا ان دنوں اس لیے امریکی الیکشن کا جائزہ ہی پیش خدمت ہے۔ 


امریکی صدارتی امیدواران ایسے ہی اٹھ کر نہیں آجاتے کہ ہمارے ابا جان اور دادا جان کی پارٹی ہے اس لیے ہم امیدوار ہیں بلکہ ہر پارٹی کے اندر اصلی والی پولنگ ہوتی ہے کہ کس کو امیدوار بنایا جائے اور اس میں جیتنے والا صدارتی امیدوار قرار پاتا ہے- ویسے تو امریکہ میں کئی پارٹیاں ہیں لیکن اصل دو ہی ہیں ڈیموکریٹ اور ریپبلکن۔ ایمان کی بات ہے مجھے تو ہمیشہ بھول جاتا ہے کون ڈیموکریٹ ہے کون ریپبلکن تو بس یوں سمجھ لیں ڈیموکریٹ موجودہ صدر اوباما والی ہے اور ریپبلکن سابقہ صدر بش والی۔ 

عام طورپر ریبلکن کو کٹرقدامت پسند اور ڈیموکریٹ کو اعتدال پسند پارٹی سمجھا جاتا ہے- اسی لیے پرانے بابے اور گورے ریبلکن کو پسند کرتےہیں ساتھ ہی ریپبلکن پارٹی دنیا کے قدیم ترین سیاسی جماعتوں میں سے ایک ہے- کچھ عرصہ پہلے تک کہا جاتا تھا کہ ریپبلکن بھارت نواز جبکہ ڈیموکریٹ پاکستان نواز پارٹی ہے لیکن حالات میں اتنی تبدیلی آچکی ہے کہ اب ہر کوئی اپنا مرغا بغل میں دبائے پھرتا ہے اور اس سے قطع نظر کون حکمران ہے، کون دوست ، کون دشمن اپنی ترجیحات کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ 

جب پارٹی الیکشن شروع ہوئے تو سب کا خیال تھا کہ ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار تو ہیلری کلنٹن پکی ہے شاید کوئی اس کے مقابلے میں ہی نہ آئے اور ریپبلکن میں زیادہ اہمیت بش خاندان کے نئے سپوت جیب بش کو دی جارہی تھی کہ باپ اور بھائی کا تجربہ کا کام آئے گا اور ایک اور بش صدراتی دوڑ میں شامل ہو سکے گا۔ لیکن پہلی ہی ریاست کے پرائمری (صدارتی امیدوار کے الیکشن کو پرائمری کہا جاتا ہے) نے دونوں طرف کے اندزے غلط کر دیے اور جیب بش صاحب فقط تین فیصد ووٹ لے سکے اور نتیجہً تین چار ریاستوں میں مٹی پلید کرا کے ایک اور امیدوار ٹیڈ کروز کے حق میں دستبردار ہو گئے- بش سے امریکہ والے بھی بیزار ہوچکے تھے کہ بس دو ہی کافی ہیں- خیر ہم مومن تو تیسری کیا بار بار ڈسے جانے میں برائی نہیں سمجھتے ۔ 

اب ادھر مقابلہ سب سے غیر متوقع ڈونلڈ ٹرمپ جو اپنی بیش بہا دولت، پلے بوائے امیج اور خواتین کے مقابلہ حسن کروانے کے لیے جانے جاتے تھے کا ٹیڈ کروز سے آن پڑا جو کہ نسبتاً بہتر امیج کے حامل پرانے سیاستدان تھے۔ دوسری طرف ڈیموکریٹکس پارٹی میں ہیلری کلنٹن جو اپنی صدارتی امیدوار کی تقاریر بھی تیار کرچکی تھیں کو ٹکر دینے برنی سینڈرز آن کودے۔ اب برنی سینڈرز جو کہ ورمونٹ سے سینیٹر تھے باقاعدہ ڈیموکریٹ کے رکن بھی نہ تھے لیکن انکی عوام دوست پالیسیوں جس کو سوشلزم کی پالیسی بھی کہا گیا کو لوگوں کی پذیرائی ملنا شروع ہو گئی۔ 

 ہوا کیا کہ عوام سسٹم سے تھک چکی تھی- برنی سینڈرز اور ڈونلڈ ٹرمپ دونوں روایتی سیاستدانوں کے مخالف تھے- ڈونلڈ ٹرمپ سے امید تھی کہ وہ معیشت میں بہتری لائیں گے کیونکہ وہ خود ارب پتی کاروباری ہیں بھلے شخصی اعتبار سے انتہائی برے کردار کے حامل ہوں دوسری طرف برنی سینڈرز نے وہ نعرے لگائے جو ہر اوسط امریکی کا خواب ہیں کہ تعلیم مفت کی جائے، صحت سب کے لیے، ماحول کا خیال رکھا جائے، امیروں پر زیادہ ٹیکس اور غریبوں پر کم ٹیکس لگایا جائے جس کا نتیجہ یہ نکلا سارے امریکہ کا مڈل کلاس نوجوان برنی سینڈرز کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔ 

ادھر ہیلری بی بی خود ایک نااہل اور ڈمی خاتون ثابت ہوئیں جن کی وزارت خارجہ کے دنوں کے زخم مشرق وسطی اب تک چاٹ رہا ہے لیکن اسٹیٹس کو کے لیے وہ بہترین چوائس تھیں دوسرا ان کی کمپین بل کلنٹن چلا رہے تھے – آخر کار بل کلنٹن کی محنت، سپر ڈیلیگیٹس اور کچھ سازشی پکوڑوں کے مطابق دھاندلی (جس کی وجہ سے ڈیموکریٹ الیکشن کمشنر نے اسعتفی بھی دیا تھا) کے بعد ہیلری کھینچ کھانچ کر بلآخر صدارتی امیدوار بننے میں کامیاب ہو گئیں اور بارنی سینڈرز کے سپورٹران نے ہیلری کو ووٹ نہ دینے کا اعلان کر دیا۔ جبکہ دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ کے خود کے سوا کسی نے ان کو سنجیدہ نہ لیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ ریبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ قرار پائے۔ اور اب بارنی سینڈرز کے حمایتی اس کشمکش میں پڑ گئے کہ آگے کنواں پیچھے کھائی کس کو ووٹ دیں۔ 

کئی لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ اس بار مقابلہ اس کا ہے کہ کون کم برا ہے- ای لیے پڑھا لکھا امریکی ووٹر اس کشمکش میں مبتلا ہے- ہیلری کا یہ ہے کہ جوں کی توں بنیاد پر چلتے رہنے کی امید ہے لیکن ٹرمپ کا کچھ پتہ نہیں وہ سیاست کا شاھد آفریدی ہے یا چھکا یا چل بھئی۔ ادھر ٹرمپ کے خواتین مخالف بیانات بھی اچھالے جارہے ہیں جبکہ بیچارہ ٹرمپ بار بار بل کلنٹن کے معاشقوں سے ان کی توجہ ہٹانے کی کوشش کرتا ہے لیکن کوئی اس کی سنتا ہی نہیں ۔ ویسے بھی امریکہ میں خواتین کے حقوق جو بھلے کسی خاتون کو نہ ملے ہوں باتوں کی حد تک بڑے اہم ہیں اور ٹرمپ کا رویہ خواتین کے ساتھ ایسا ہے جیسا امریکہ کا پاکستان کے ساتھ۔ 

بہرحال امریکی ووٹرز کا معاملہ ہے کہ وہ ہیلری کی نااہلی پر سمجھوتہ کرتے ہیں یا ٹرمپ کی واہیاتی پر- لیکن ایک بات طے ہے اگر ٹرمپ آگیا تو کچھ بھی ہو سکتا ہے- اور وہ پاکستانی جو مستقبل میں امریکہ کے خواب دیکھ رہے ہیں وہ تو سکون ہی کریں پھر۔ پاکستانی کیا تمام ترقی پذیر ممالک کے تارکین وطن کوئی اور ملک دیکھنا شروع کردیں- 

ابھی تک کے اندازوں کے مطابق خواتین والی بےہودگیاں سامنے آنے کے بعد ہیلری کے لیے میدان صاف ہے لیکن الیکشن میں کچھ بھی متوقع کیا جا سکتا ہے- بریڈلی ایفکٹ بھی ہے اور ٹرمپ کو نسل پرستوں کی حمایت بھی ادھر ہیلری کے پاس ٹرمپ کی بے وقوفیوں کے علاوہ کوئی سہارا نہیں۔ دیکھیں کیا ہو لیکن ہمارے لیے اہم ترین بات یہ ہے کہ ابھی برنی سینڈرز سے جیسے سیاستدان بھی دنیا میں موجود ہیں اور اس سے بھی اہم بات کہ وہ امریکی جمہوریت تک میں جیتنے سے قاصر ہیں- باقی ہیلری ہو یا ٹرمپ کرنا تو ہم نے ڈو مور ہی ہے۔

الیکشن تو جو جیتے آپ فی الحال امریکی الیکشن کے سلسلے میں چھپنے والے مزے مزے کے کارٹونوں سے آپ بھی لطف اٹھائیں جو کچھ آپ کے لیے شیئر کیے جارہے ہیں۔

دونوں کو فائدہ یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے مخالف امیدوار ہیں


کون زیادہ بدنام ہے 
 ٹرمپ کا اوباما کے امریکہ نہ ہونے پر طنز کہ وہ تو چلو امریکہ سے نہیں ٹرمپ تواس سیارے سے ہی نہیں

نہ اور نہیں میں مقابلہ

صدارتی امیدوار کے مباحثون میں کی جانے والی زبان درازیوں کی طرف اشارہ

جب میں بولتا ہوں تو اپنی بھی نہیں سنتا-ٹرمپ صاحب کا اصول

ہیلری بی بی بل کلنٹن کے ساتھ ٹھہرے پوچھتی ہیں بھلا خواتین مجھے کیوں ووٹ نہ دیں گی

برنی سینڈرز- امیروں پر ٹیکس لگاؤ---ٹرمپ: اسکی بھی شہریت چیک کرو
Amrici sadarti election