January 1, 2017

میرے دوستوں کو مجھ سے بچاؤ


آپ نے کئی بار پڑھا ہو گا کہ مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ- اس میں مضمون نگار یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ تو معصوم، عیبوں سے پاک، دودھ سے دھلا کوئی فرشتہ نما انسان ہے لیکن کسی خرکار گروہ یعنی اپنے دوستوں کے ہتھے چڑھ گیا ہے اور جو خطا کے پتلے کیا خطا کی مشینیں ہیں اور جن کی کوئی دماغی کل پرزہ ٹھیک کام نہیں کرتا اور جن کا واحد مقصد اس کی زندگی تباہ کرنا ہے- 

لیکن جیسا کہ آپ جانتے ہیں ہم ہمیشہ سے مظلوم کی آواز اٹھاتے آئے ہیں اس لیے آج کا بلاگ ان دوستوں کے نام جنہوں نے مجھ سے نباہ کیا اور جن کو طوعاً و کرھاً ، بادل ںخواستہ اور دیگر ایسی مجبوریوں کی وجہ سے میرے ساتھ رہنا پڑا اور مجھے برداشت کرنا پڑا۔ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ اپنے گریبان میں جھانکنا کتنا مشکل ہے کہ بندہ جانتا ہے کہ اندر سے کیسے تعفن کے بھبھکے اٹھ رہے ہیں - لیکن ہم نے ہمت کر کے ، ناک دبا کر، سانس روک کر گریبان میں جھانکنے کی جرات کی ہے اور اس مختصر سے دورانیے میں جو کچھ بھی نظر آیا پیش خدمت ہے۔

چونکہ اللہ کے فضل سے میں خود کئی افراد پر بھاری ہوں اس لیے جیسا کہ میرے دوستوں سے بچاؤ والے مضمون میں مختلف دوست اور ان کی خصوصیت کی بنا پر ان کی عرفیت رکھی جاتی تھی ایسے ہی اس مضمون میں آپ میری مختلف خصوصیات سے آگاہ ہوں گے اور ان لوگوں کو داد دینے پر مجبور ہو جائیں گے جن کو کبھی میرے ساتھ رہنا پڑا، میرا دوست ہونا پڑا یا اس امتحان سے مستقبل میں گزرنا ہوگا۔ 

سڑی ہوئی ساس - اپنے علاوہ مجھے ہر چیز پر تنقید کی عادت ہے- مجھے آپ بس وہ ساس سمجھ لیں جس کا بیٹا اسکے ہاتھ سے پھسل کر بہو کے قدموں میں جا پڑا ہو اور اسکی زندگی کا واحد مقصد اپنی بہو کے عیب تلاش کرنا رہ گیا ہو- بس میرے ساتھ رہنے والے مجھے سڑی ساس ہی کہتے ہیں کہ یار ہر ہر وقت کنگھی نہ بالوں میں پھیرا کرو، 
یار تم میں یہ بڑی گندی عادت ہے کہ تم شاپنگ پر بڑی دیر لگاتے ہو۔ 
یار چیز کو دیکھ بال کر لیا کرو 
یہ کیا کہ گئے اور چیز لے لی۔ بس ایسے ہی تنقید کر کر کے اگلوں کا جینا دوبھر کیا ہوتا ہے۔

ڈیجیٹل کھٹ بڑھئی: کمپیوٹر میری گندی عادات میں شامل ہے اور حال یہ ہے کہ لیپ ٹاپ استعمال کرنے کے باوجود پرانے زمانے والا ماؤس الگ لگا کر استعمال کرتا ہوں کہ لیپ ٹاپ کا نفیس سا ماؤس ہمارے ہاتھ پر نہیں چڑھتا- اوپر سے دن کے چوبیس میں بیس گھنٹے کمپیوٹر استعمال کرتا ہوں تو جب بھی میرے کمرے میں آئیں ماؤس کی ٹک ٹک کی آواز گونج رہی ہوتی ہے جس کی وجہ سے میرا نام میرے چند دوستوں نے ڈیجیٹل کھٹ بڑھئی یا ڈیجیٹل وڈ پیکر رکھ چھوڑا ہے کہ اس پرندے کی طرح میں بھی ہر وقت کھٹ کھٹ کرتے سکون برباد کرتا رہتا ہوں۔ 

اسحاق ڈار : میری زندگی کا اصول رہا ہے کہ ادھار پر ہاتھی بھی ملے تو لے لینا چاہیے یہ بعد میں سوچیں گے کہ اس کا کریں کیا- تو اسی لیے میں کسی سے بھی بے تکلف ہو کر ادھار مانگ لیتا ہوں- یار آپ کے پاس سو روپے کھڑے ہوں تو دیں دے بڑی سخت ضرورت ہے؟ جواب ملتا ہے بھائی آپ ہیں کون؟ میں آپ کے دوست جمیل کے بڑے بھائیی کا دوست- لیکن دوست پھر دوست ہیں تو اکثر پھنس جاتے ہیں لیکن اس دریا دل کی طرح جو جانتے بوجھتے بھی کسی نشئی کو پیسے دینے سے انکار نہیں کرتا بلکہ ڈائریکٹ ہوٹل والے کو کہتا ہے کہ بھائی اس کو کھانا دے دو تو ایسے ہی میری ضرورت کو دیکھ کر میرے دوست بیچارے مان ہی جاتے ہیں لیکن ہر وقت اس کشکول کی عادت کی وجہ سے میرا نام اسحاق ڈار رکھ چھوڑا ہے اور سب اس بات پر متفق ہیں کہ مجھ میں بھی پاکستان کا وزیر خزانہ بننے کی صلاحیت موجود ہے۔ 

لٹھ رائے : میرے دوست کسی بھی معاملے میں کوشش کرتے ہیں کہ مجھ سے رائے نہ لی جائے اب میں اس کو دیانتداری سے دیا گیا مشورہ کہتا ہوں جبکہ وہ اس کو لٹھ رائے کہتے ہیں کہ وہ دس ہزار خرچ کر کے ایک شرٹ لائے اور پوچھنے پر میں بلا جھجک کہہ دیتا ہوں کیا کسی مسخرے کے کردار کے لیے لائے؟ 
یا یار کیا میں پاس ہو جاؤں گا پر میرا جواب ہوتا ہے کہ ہاں کیوں نہیں معجزے ہونا ختم تو نہیں ہوگئے۔ اس لیے عام طور پر میرے دوستوں کی کوشش ہوتی ہے کہ مجھ سے مشورہ طلب نہ کیا جائے ورنہ سر پر لٹھ پڑنے کا واثق امکان ہے

رُس پنچھی: جی آپ نے صیح پڑھا یہ رَس پنچھی جس کو انگریزی میں سن بڑد کہتے ہیں وہ نہیں بلکہ رُس پنچھی ہی ہے- رُسنا پنجابی زبان میں خفا ہونے کو کہتے ہیں اور آپ نے وہ مشہور زمانہ گانا بھی سن رکھا ہو گا کہ ایویں رُسیا نہ کر میری جان سجنا ایک دن بن جانا ہے پاکستان سجنا وغیرہ وغیرہ تو اب مجھ میں ایک عجیب عادت ہے کہ میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناراض ہو جاتا ہوں اور اسی لیے میرے دوستوں نے میرا نام رُس پنچھی رکھ چھوڑا ہے کہ جاؤ میں تم سے نہیں بولتا تم نے دروازہ زور کا بند کیوں کیا؟ 
جاؤ ہماری دوستی ختم کہ تم نے فیس بک پر میری تصویر لائیک کیوں نہیں کی۔ 

حرم گیٹ: کہتے ہیں گیدڑ کی شامت آتی ہے تو شہر کا رخ کرتا ہے اور ہمارے دوستوں کی شامت آتی ہے تو ہمیں دعوت پر بلا لیتے ہیں- بس ہمارا کیا ہے کہ ایک بار کھانا شروع کر دیں تو سمجھ نہیں آتا کہ اختتام کیسے ہو- پیٹ بھر بھی جائے تو اس کشمکش میں تین چار روٹیاں / چپاتیاں اور کھا لیتا ہوں کہ آخر نوالہ کس شے کے ساتھ لیا جائے (اس سے اندازہ لگا لیں گے کہ پیٹ کتنی روٹیوں سے بھرتا ہوگا)- بس اسی وجہ سے دوستوں نے محاروے کے مطابق "پیٹ ہے یا حرم گیٹ ہے" میرا نام حرم گیٹ رکھ دیا ہے کہ ادھر سے جتنی ٹریفک گزر جائے پتہ نہیں چلتا -

بس المختصر اور الجامع بندہ کہاں تک اپنی تعریف کرے اور وہ تمام لوگ جنہوں نے میرے ساتھ گزارا کیا کو سات سلام اور بری عادات سے تنگ کرنے پر معذرت جبکہ ایسے لوگ جو آئندہ ساتھ رہیں گے کو پیشگی انتباہ ہے کہ مشتری ہشیار باش ستارے گردش میں کبھی بھی آ سکتے ہیں پھر نہ کہنا کہ خبر نہ ہوئی۔

mere dosto ko mujh se bchao