February 27, 2017

بنکنگ ایوارڈ اور میرا تجربہ


کل اتفاق سے نظر پڑی تو دیکھا کہ یونائیٹڈ بنک لمیٹڈ United bank limited المعروف یو بی ایل UBL کو سال کا بہترین بنک کا انعام دیا گیا ہے – یہ دیکھ کر مجھے انعام لینے والوں کی بجائے دینے والوں کی عقل پر افسوس ہوا کہ ایک بے سرا گویا گا رہا تھا تو ہال سے تنقید سن کر جھجکا تو آواز آئی کہ سوہنڑیاں تو لگا رے اسی تے اس نوں لبھدے پئے آن جس نے تینوں سدیا سی (جناب آپ لگے رہیں کام پر ہم تو اس کو ڈھونڈ رہے ہیں جو آپ کو یہاں لایا تھا)- تو ایسے ہی یو بی ایل کی بجائے ہمیں اسٹیٹ بنک کی سمجھ بوجھ (جو کہ بوجھ کم اور بوجھ یعنی وزن زیادہ مناسب ہے) پر جو تھوڑا بہت باقی بچا تھا وہ ایمان بھی جاتا رہا۔ 


یوں تو جب ہم چھوٹے تھے تو بنکنگ سسٹم جان پہچان پر چلتا تھا کہ منیجر اکثر لوگوں کو ذاتی طور پر جانتا یا منیجر نہ جانتا تو کوئی اور اہلکار بنک اکاؤنٹ کھلنے میں گناہگار پایا جاتا (گناہگار اس لیے کہ تب لوگ سودی نظام کی وجہ سے حتی الامکان بنک سے لین دین سے گریز کرتے تھے)- وگرنہ علاوہ نوکری پیشہ اور کاروباری حضرات کے باقی تمام لوگ بنک سے بوجہ سود یا زیان دور ہی رہتے۔ 

وقت بدلا تو روپیہ پیسہ زیادہ ہو گیا اور اس کو سنبھالنے کی فکر بھی پڑی تو لوگوں نے بنکوں کا رخ اختیار کیا اور آہستہ آہستہ شہروں میں رہنے والے لوگ خوامخواہ بنک اکاؤنٹ کھلوانے لگے اور جان پہچان سے نکل کر اکاؤنٹ کھلوانا زندگی کی ایک نیم بنیادی ضرورت بن گیا۔ تاہم تب تک بھی اکاؤنٹ کھلوانے کے لیے اسی برانچ کے کسی اور اکاؤنٹ ہولڈر کا تصدیق کرنا لازم ہوا کرتا تھا۔ 

پھر میں پہلے دبئی اور یورپ چلا گیا- دبئی میں خود سے تو اکاؤنٹ نہیں کھلوایا کہ تنخواہ کیش میں ہی وصول کرتا رہا اور اگر ایک آدھ پانامہ وانامہ میں ہمارا نام بھی آجاتا تو ماسوائے اس معائدے (contract) کے جس میں لکھا تھا کہ اتنے پیسے ہر ماہ دیں گے کچھ ثبوت نہ دے سکتے کہ کمپنی ہمارے مبارک قدم کی تاب نہ لاتے ہوئے بند ہو چکی ہے۔ البتہ یورپ میں پہلے پولینڈ Poland اور پھر ایسٹونیا Estonia میں بنکنگ کے ساتھ خوب پالا پڑا- پولینڈ میں تھوڑا قدیم نظام تھا – وہاں اکاؤنٹ بیک وقت یورو اور مقامی کرنسی پولستانی زواتی Polish złoty جسکو انگریزی میں زلوٹی بولتے ہیں میں کھل سکتا تھا- چیک بک کا نظام ختم ہو چکا تھا- اگر میں نے پیسے نکلوانے ہیں تو میں کارڈ کے ذریعے نکلوا سکتا تھا یا خود بنک جا کر ایسی شناختی دستاویزات جو میں نے دی ہیں مثلاً پاسپورٹ، رہائشی کارڈ، لائسنس وغیرہ دکھا کر میں پیسے نکلوا یا جمع کرا سکتا تھا۔ برانچ اور شہر کی کوئی قید اور فیس نہ تھی۔ البتہ یورو میں پنگہ پڑتا کہ بنک ایک محدود تعداد میں یورو رکھا کرتے اور اگر آپ کو چاہیہں تو اکثر اوقات اگلے روز ملا کرتے تاہم بنک والے فون کر کے پوچھ دیتے کہ اگر کسی اور برانچ میں موجود ہیں تو ان کو کہہ دیتے کہ یہ بندے لینے آ رہے ہیں۔ 

اسٹونیا آ کر یہ سسٹم بھی قدیم لگا۔ ادھر آ کر یہ نظام دیکھا کہ آپ بنک جائیں اور اپنا نمبر لیں۔ بنک میں موجود تمام کام کرنے والے افراد کے سامنے نمبر چل رہے ہیں اور پاکستان کی طرح نہیں جہاں صرف دو کیشئر ہیں اور باقی عملہ یاروں دوستوں کو بھگتانے میں لگا ہے وہاں منیجر سے لیکر ہر کاؤنٹر والا ہر کام کرتا ہے کہ آپ نے پیسے جمع کرانے /نکلوانے ہیں، اکاؤنٹ کھلوانا ہے، ادھار لینا ہے، کریڈٹ کارڈ بنوانا ہے الغرض جو بھی کام ہے وہ نمبر کے حساب سے ہر شخص کررہا ہے گویا تمام عملہ کام کررہا ہے۔ مزید یہ کہ وہاں عام اے ٹی ایم مشینوں کی بجائے ہر جگہ ایسی مشینیں لگا دی گئی ہیں جہاں سے پیسے نکلوائے اور جمع کرائے جا سکتے ہیں گویا چھوٹے موٹے کیش کے لیے بنک جانے کی زحمت ہی ختم۔ قسطیں، بل اور دیگر ضروریات آن لائن بنکنگ سے پوری کی جاتی ہیں اور آن لائن میں وہ اتنی ترقی کر چکے ہیں کہ وہاں ووٹ تک آن لائن ڈالے جا سکتے ہیں ایک ہم ہیں کہ سو احتیاط کے باوجود جعلی ووٹ کا مسئلہ نہیں حل کر سکے۔ 

اب مزید ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اسٹونیا میں بنکوں میں نمبر سسٹم کو ختم کر دیا گیا ہے ۔ اب جیسے ہی بنک میں داخل ہوں دو خواتین آپ کا استقبال کرتی ہیں آپ کا مسئلہ سنتی ہیں اسکو درج کرتی ہیں اور آپ کو بیٹھنے کا کہہ کر باری آنے پر آپ کو متعلقہ کاؤنٹر پر لے جاتی ہیں یوں اسٹونیا جہاں ایستی یعنی اسٹونین، روسی اور انگریزی تینوں زبانیں بولی جاتی ہیں کسی ایسے عملہ کے رکن کے ہونے کی صورت میں جس کی زبان دانی محدود ہو کا مسئلہ بھی حل کر لیا گیا ہے- 

اب اپنے پیارے ملک پاکستان کی طرف آتے ہیں- چونکہ ہمارے والدین کے اکاؤنٹ تب کھلے تھے جب معاملہ جان پہچان کا ہوتا تھا تو ان کے اکاؤنٹ یو بی ایل میں ہیں اور میں نے بھی ایک بار کوشش کی اکاؤنٹ کھلواؤں۔ اکاؤنٹ تو کھل گیا لیکن جب ڈیبیٹ کارڈ Debit Card ایکٹیویٹ کرانے کی باری آئی تو فون پر ہیڈ آفس سے ایسے ایسے سوالات پوچھے گئے کہ جتنے ہمیں یورپ نے ویزا دیتے وقت یا ہمارے سسرالیوں نے رشتہ دیتے وقت نہ پوچھے تھے تو ہم نے چیک بک کے ذریعے جمع شدہ پیسے نکلوائے اور اکاؤنٹ کو خدا حافظ کہہ دیا۔ اب آئے تو یو بی ایل کی ایک اور خاصیت پتہ چلی کہ یہ کسی ایسے شخص کا اکاؤنٹ نہیں کھولتے جو اردو میں دستخط کرتا ہو اور ناخواندہ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ 

میرے لیے یہ بات اس لیے حیران کن تھی کہ ایک تو میں کافی عرصے بعد مستقل پاکستان میں آیا ہوں اور یہاں ایسے عجائبات عام بات ہے دوسرا یہ کہ یورپی ممالک میں میں کئی افراد کو جانتا ہوں جو اردو میں دستخط کیا کرتے تھے کبھی وہاں یہ نہیں کہا گیا کہ اردو میں دستخط مت کریں اور یہ تو پاکستان ہے جہاں کی قومی زبان اردو قرار پائی ہے یا شاید میں بھولتا ہوں گا۔۔ میرے ناقص خیال میں وجہ صرف یہ ہے کہ بنکوں نے چیک پر دستخط ملانے کرنے والا سافٹ وئیر لیا ہوتا ہے جو کہ ہماری قدیمی چیک بک والے سسٹم میں چیک پر کیے گئے دستخط کو صرف انگریزی میں پہچاننے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اردو سافٹ وئیر لینے یا بنوانے پر خرچہ آئے گا تو کون زحمت کرے- دفع کریں ویسے بھی ہمارے پاس بڑا بزنس ہے۔ 

اب ان میں سب سے متاثر وہ ہو رہے ہیں جو غریب لوگ خلیجی ممالک سے پیسے بھیجتے ہیں تو اکاؤنٹ نہ کھلنے کی صورت میں وہ ہنڈی یا ویسٹرن یونین western union کا سہارا لیتے ہیں لیکن خیر ہے ان لوگوں کا نے بھی تو آخر زندہ رہنا ہے۔ 

یو بی ایل کے سابقہ تجربے کی بنا پر اب کی بار آیا تو حبیب بنک میں اکاؤنٹ کھلوانے گیا تو پتہ چلا کہ اب اکاؤنٹ کھلواتے وقت آمدنی کا ذریعہ کا ثبوت دینا ہوگا – وجہ یہ بیان کی گئی کہ سیاہ پیسہ یا بلیک منی black money کو روکنے کی پیش رفت ہے – قربان جائیں ایسی سوچ و قابلیت پر- بجائے اس کے کہ آپ لوگوں کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ بنک اکاؤنٹ کھلوائیں تاکہ پیسہ زیر نگرانی آ سکے آپ لوگوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں کہ وہ سیاہ رقم کو بنکوں کے متوازی چلاتے رہیں اور ویسے بھی اکاؤنٹ کھلتا نہیں تو صرف بے بس اور عام شہری کا۔ جس کے پاس حرام کا پیسہ ہے اسکا اکاؤنٹ تو گھر آ کر منیجر صاحب کھول جاتے ہیں بلکہ ان کے بھاری بھرکم اکاؤنٹ کے ذریعے منیجر بھرتی کرایا جا سکتا ہے۔ جبکہ عام کسٹمر سے سلوک سے یاد آیا کہ میرے ایک دوست صاحب جو کہ زمیندار ہیں کو فصل سے ایک لاکھ روپے ملے لیکن وہ نوٹ دس، پانچ کے تھے تو جب وہ جمع کرنے گئے تو بنک کے کیشئر نے کہا جائیں پیلے انکو باقاعدہ گتھیاں بنا کر لے آئیں۔ اور یہ اچھے وقتوں کی بات ہے-

بہرحال اگر ایسے بنک کو جہاں اردو دستخط کرنے والوں کے اکاؤنٹ نہیں کھل سکتے کو سال کا بہترین بنک قرار دیا گیا ہے تو باقی بنکوں کا حال آپ خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں۔

Banking award aur mera tajarba