October 24, 2019

ایران مشاہدات وتاثرات



 علامہ اقبال فرماتے ہیں

 اگرچه زادهٔ هندم فروغِ چشمِ من است
 ز خاکِ پاکِ بخارا و کابل و تبریز 

 یعنی کہ اگرچہ میں ہند میں پیدا ہوا ہوں، لیکن میری آنکھوں کی چمک بخارا، کابل اور تبریز کی پاک خاک کے سرمے سے ہے- تو چونکہ میرا سلسلہ نصب بھی بخارا، تبریز سے جا ملتا ہے اس لیےسفر ایران میں ایسا ہی محسوس ہوا جیسے گرمیوں کی چھٹیوں پر کسی رشتہ دار کے گھر جایا کرتے تھے- اپنے ہی بچھڑے بھائیوں دوستوں سے ملکر کیا محسوس ہوا اب بھی پڑھییے- 


 جب دو ماہ قبل میں ایران گیا تھا تو تب جنگ کا شہرہ تھا، آج ہوئی یا کل ہوئی- آج کل صلح صفائی کی باتیں چل رہی ہیں – اللہ خیر کرے مسلمانوں کے اعمال اتنے اچھے لگتے تو نہیں کہ بھائی بھائی نہ سہی انجان اجنبی کی طرح ہی ساتھ رہنے لگیں- بہرحال ایران جا کر مجھے بہت سی حیرانیوں کا سامنا ہوا کچھ مثبت کچھ منفی جو میں بیان کرنے جا رہا ہوں۔ 

٭ ہم سب جانتے ہیں کہ ایران پر مختلف قسم کی تجارتی و معاشی پابندیاں عائد ہیں- لیکن ان سب پابندیوں کے باوجود زندگی مثبت ہے- معاشرہ خوشحال ہے-لوگوں کے پاس نوکریاں ہیں، کاروبار ہیں، زندگی معمول کے مطابق رواں دواں ہیں-جیسے آٹھ، دس پرائیوٹ فضائی کمپنیاں پائی جاتی ہیں، ہر بڑے شہر میں میٹرو ہے اور ہر شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کا سسٹم کارگر ہے- سڑکیں کشادہ ہیں اور ان پر ایسا ہی رش ہے جیسا ہمارے ہاں حالانکہ اس وقت کوئی بھی کار بنانے والی کمپنی ایران میں کام نہیں کر رہی- بازاروں میں رش ہے، ٹورسٹ عام ہے اور زائرین ایک خاص علاقہ میں تو پوچھیں ہی مت- امن و عامہ کا کوئی مسئلہ نہیں، عوام ملک سے مخلص ہے- الغرض وہاں زندگی ایسی ہی ہے جیسے ہمارے ہاں ہے- اقتصادی پابندیوں کا سوچ کر اور ایرانی ریال کی قدر جان کر (1 پاکستانی روپیہ برابر ہے 270 ایرانی ریال) میں یہی سمجھا تھا کہ وہاں زندگی نہایت مشکل ہوگی لیکن مجھے وہاں جا کر پاکستان کی بجائے یورپ زیادہ یاد آیا یعنی کہ کہہ سکتے ہیں ان سب مشکلات کے باوجود وہ اچھی زندگی گزار رہے ہیں- 

٭ ایران کی سب سے بڑی خوبی مجھے یہ نظر آئی کہ یہاں تعلیم کارگر ہے- لوگ ہماری طرح فقط نوکریوں کے لیے نہیں پڑھ رہے بلکہ علم کے لیے تعلیم حاصل کرتے ہیں- ان کے اساتذہ و پروفیسر حضرات کا موازنہ با آسانی یورپی و امریکی معیار کے پروفیسرز سے کیا جا سکتا ہے-تعلیمی معیار بہت بلند، جدید دور سے ہم آہنگ ہے- مزید آسانی کے لیے ہر شے فارسی میں میسر ہے- نئی کتب کے ترجمے ہوتے ہیں، یونیورسٹیوں میں فارسی زبان کے اچھے معیار کے جرائد و جرنل شایع ہوتے ہیں، یونیورسٹیاں دوسرے ممالک کی یونیورسٹیوں سے معاہدے کرنے میں پیش پیش رہتی ہیں، ریسرچ کو اہمیت دی گئی ہے، یونیورسٹیاں شہری حکومت یعنی بلدیہ اور مقامی انڈسٹری سے تعلق میں رہتی ہے اور اپنے نصاب و مضامین کو ان کے مشوروں کی روشنی کے مطابق تبدیل کرتی رہتی ہے- ہمارے یہاں کی ناقص و فضول تعلیم نہیں کہ اکنامکس میں ایم فل کی ہوئی ملکی معاشی صورتحال کی معلومات فیس بک سے متاثر شدہ ہے- 

٭ مجھے ایران میں سب سے زیادہ ان کی خواتین نے متاثر کیا- women empowerment یعنی خواتین کو بااختیار بنانا کا جو مظاہرہ میں وہاں دیکھ آیا ہوں شاید ہی کہیں نظر سے گزرا ہو- وہ حقیقی معنوں میں ماں، بہن، بیٹی ہیں اور اس کے حقوق و فرائض دونوں سے بخوبی آگاہ ہیں- میں نے یہاں پاکستان میں مختلف یونیورسٹیوں میں پڑھایا ہے بے شک یہاں بھی خواتین طلبہ کی تعداد نسبتاً زیادہ ہوتی ہے لیکن یہاں پر اکثریت شادی کے لیے یا شادی تک پڑھتی ہیں- ڈاکٹر، انجینئر شادی کے بعد اپنی ڈگریاں نکاح ناموں پر وار دیتی ہیں لیکن ایرانی خواتین صیح معنوں میں علم اور بااختیار ہونے کو پڑھتی ہیں- اس سلسلے میں دو واقعات بیان کروں گا۔ 
سڑک پر جاتے ہوئے دیکھا کچھ نوجوان بچیاں سائیکل چلا رہی تھیں- میزبان بتانے لگے کہ والدین اور بچیاں تو ایسے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہتے ہیں لیکن حکومت ان کی حوصلہ شکنی کرتی ہے- 
 دوسرا ایک خاتون سے ملاقات ہوئی تو دوران گفتگو پوچھنے لگیں کہ آپ کے ہاں خواتین سکارف لیتی ہیں سر پر- میں نے کہا ہمارے ہاں ہر طرح کے لوگ ہیں ایسے بھی ہیں جو شٹل کاک برقعہ کرتے ہیں، عبایا بھی پہنا جاتا ہے، چادر بھی لیتے، سکارف بھی (عربی، ایرنی و ترک) عام ہے، دوپٹہ بھی لیا جاتا ہے اور ایسی بی بیاں بھی ہیں جو ہر بوجھ سے آزاد ہیں- اس پر وہ کہنے لگیں کہ ہم بڑی پابندیوں میں زندگی گزار رہے ہیں- 
میں نے کہا اگر آپ مجھ سے میری رائے پوچھیں تو یہ پابندیاں چند سالوں کی مہمان ہیں- یہاں خواتین جیسے علم حاصل کر رہی ہیں اور بااختیار ہیں چند سالوں میں یہ مذہبی راہنماؤں کو جھکنے پر مجبور کر دیں گی کہ یہاں کی خواتین ہمارے ہاں کی اکثر بی بیوں کی طرح نااہل، نکٹھو نہیں بلکہ ان کو اپنے خواتین ہونے کا بخوبی احساس ہے اور یہ سمجھتی ہیں کہ کہاں تک انکا اختیار ہے اور کہاں تک اس کو طول دیا جا سکتا ہے اور مذہبی راہنماؤں کے ساتھ یہ مسئلہ ہے کہ وہ پرانے زمانے کے لوگ ہیں اور ان کے گھر میں اختیار بھی پڑھی لکھی نئی نسل کی خواتین کے ہاتھ میں ہے- 
اس خاتون کو میری باتوں سے جزوی اتفاق تھا لیکن مجھے یہ صاف لکھا نظر آ رہا ہے کہ کل کے ایران کی مالک آج کی بیٹیاں ہیں- حال ہی میں خواتین کو اسٹیڈیم جانے کی اجازت دینا اسی کی ایک مثال ہے- 

٭مجھے عمران خان کی بات سے کلی اتفاق ہے کہ امریکہ ایران کو عراق و افغانستان نہ سمجھے۔ اگر خدانخواستہ خطے میں تصادم ہوا تو امریکہ منہ کی کھائے گا- تعلیم، ٹیکنالوجی کے حساب سے ایران امریکہ کا حریف ہے- بھلے ہم دیگر شعبوں میں پیچھے رہ گئے ہو پر ہم  نے دفاعی طور پر بڑی ترقی ہے، اس میں ریسرچ بھی ہوئی ہے اور دوست ممالک کا تعاون بھی رہا ہے پر ہم دفاعی لحاظ سے اپنے پاؤں پر کھڑے ہیں- پہلی گلف جنگ میں ایک خبر پڑھی تھی کہ امریکہ کے حملے سے قبل ہی امریکہ نے عراق کا دفاعی نظام جام کر دیا تھا- یعنی کہ اب آپ کے طیارہ شکن ہتھیار فارغ ہیں گویا آپ کی چھت کھینچ لی گئی ہے- جبکہ حال ہی میں پلوامہ واقعے کے بعد جب پاکستان نے بھارتی طیارے گرائے تو یہ خبر بھی آئی کے پاکستان نے گرنے والے طیاروں کا مواصلاتی رابطہ جام کردیا تھا جس کی وجہ کنٹرول ٹاور والے انکو متنبہ کرتے رہ گئے کہ آپ پاکستانی علاقے میں چلے گئے ہیں لیکن ان تک وہ پیغام پہنچ نہیں پایا اور پاکستانیوں کا شکار بن گئے- یہی حال ایران کا بھی ہے کہ حال ہی میں اس نے امریکی ڈرون طیارے تباہ کرکے امریکہ کو دراصل اپنی ٹیکنالوجی سے آگاہی دی ہے کہ ہم آپ کی فریکونسیاں معلوم کرسکتے ہیں اور آپ ہماری نہیں کر سکتے- ٹیکنالوجی کے بعد عام آدمی بھی امریکہ سے نفرت بھی کرتے ہیں اور جنگ ونگ کو وہ بھی ایسے ہی لیتے ہیں جیسے ہمارے نوجوان جنگ کو ٹک ٹاک کی ویڈیو بنانا سمجھ رہے ہیں- بلا شبہ تباہی ہو گی کہ جنگ مذاق نہیں لیکن عوام کا مورال بہت اونچا ہے اور ابھی ایک پوری نسل زندہ ہے جو ایران عراق جنگ کی شاہد ہے- 

٭ ایرانی لوگ زیادہ تر پاکستان و پاکستانیوں سے سرد مہری ظاہر کرتے ہیں- اس کی ایک وجہ بھارت سے ایرانی تعلقات اور عربوں سے پاکستان کے تعلقات بھی ہیں کہ ایک محفل میں ایک بڑے ٹور آپریٹر Tour Operator صاحب کہنے لگے کہ ایران میں فضا عربوں کے خلاف ہے جس پر میں نے ان سے کہا کہ آپ سیاحت سے تعلق رکھتے ہیں بھلے آپ کو وہ اچھے نہ لگیں لیکن اصل ریونیو تو ان سے ہی مل پائے گا اتنا تو یورپی اور امریکی سیاح کا پورا گروہ نہیں خرچ کرتے جتنا ایک اکیلا عرب یہاں خرچ کر جائے گا- بات انکے سمجھ میں آگئی لیکن دل کا پتہ نہیں- دوسرا پاکستانیوں کا امیج اس لیے بھی ذرا برا ہے کہ وہاں اکثریت زائرین کی ہوتی جن میں غریب، ان پڑھ لوگوں کی بھہ بہتات ہوتی ہے اور ان کا تاثر اتنا اچھا تو نہیں جانا- بہرحال بہت کم جگہوں پر پاکستانی ہونے کی وجہ سے خوش دلی سے استقبال کیا گیا وگرنہ زیادہ تر اچھا پاکستانی ہے ، ٹھیک ہے، آگے چلو۔ 

٭ایک حیران کن امر میں نے یہ پایا کہ ایران میں مذہب کی انتہائی شدت نہیں پائی جاتی جو ہمارے ملک میں پائی جاتی ہے- 'علم' وغیرہ وہاں مذہب کا حصہ ضرور ہوں گے زندگی کا حصہ نہیں ہیں- یاد آیا کہ ایک بار ایسٹونیا میں ایک ایرانی پی ایچ ڈی اسکالر ریسرچ پر آئے تو ان سے ہیلو ہائے رہی تو پتہ چلا کہ وہ دینی مدرسے سے بھی فارغ التحصیل ہیں- ایک روز ایک پاکستانی بھائی ان سے مخاطب ہو کر کسی اہل بیت کے فرد کی جنم دن کی مبارک باد دینے لگے تو آگے سے وہ کہنے لگے کہ اچھا؟ آج ہے؟۔ یہی حال ایران میں ہے- 

٭ ایران کا ایک بڑا حصہ ترک بولنے والوں پر مشتمل ہے جو کہ نسلاً ترک، آزر بائیجانی ودیگر وسط ایشیائی ہیں اور اس علاقے میں ایران حکومت کے خلاف اچھے خیالات نہیں پائے جاتے- کافی عرصہ پہلے پولینڈ میں آزر بائیجان کے لڑکوں سے ملاقات ہوئی تھی تو وہ لوگ ایران کو ناپسند کرتے تھے اور خود کو ترکی کے نزدیک گردانتے تھے یہی حال ایرانی ترک سپیکنگ ایریا کا ہے- یہ آزری و ترک تہران حکومت سے خاصے نالاں ہیں- تبریز کا فٹ بال کلب جب تہران کے کلب کے خلاف کھیلتا ہے تو پاکستان بھارت والے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں- حیرت کی بات یہ ہے دنیا پر تقسیم کے دم سے حکومت کرنے والے ذہنوں نے ایران میں یہ عنصر کیسے نظر انداز کر دیا؟ 

٭ ایران پسندیدگی میں میرے لیے سب سے اہم آرٹ و کلچر کا فروغ رہا ہے- ایران نے ہم لوگوں کے برعکس آرٹ کو زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے- اگر آپ نے آواز دوست فیم مختار مسعود کا لوح ایام پڑھ رکھا ہے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ انقلاب سے پہلے و بعد میں وہاں آرٹ سے متعلق شعبہ جات برابر ترقی کرتا رہا ہے- اب وہاں پر خوشخطی، پچی کاری، کاشی گری، مینا کاری، مجسمہ سازی الغرض ہر آرٹ کی صنعت لوگوں کی زندگی میں سرائیت کر چکی ہے- 

٭ ایک دوست سے دوران گفتگو میں نے کہا کہ ایک لحاظ سے ایران پر اللہ کی رحمت ہے کہ اس پر پابندیاں لگی ہیں- میرے تجربے کے مطابق وہ ایرانی جو ایران سے نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں وہ ایران و ایرانی حکومت سے بالکل باغی ہوجاتے ہیں جبکہ ایران میں موجود اکثریت محب وطن ہے- دوسرا سفری پابندیوں کی وجہ سے ایران کا برین ڈرین Brain drain یعنی قابل لوگوں کی نقل مکانی بھی نہ ہونے کے برابر ہے جس وجہ سے ایران کی ساری معاشی ترقی اس کے اپنے لوگوں کی مرہون منت ہے- بہت سے لوگ اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ کسی طرح نکل بھاگیں لیکن ایسا سب کے لیے ممکن نہیں اور چاہنےنہ چاہنے کے باوجود انہیں ایران میں رہ کر ہی اس کو لوٹانا ہوگا- یہ کہانی ایران تک محدود نہیں بلکہ ہر مسلمان و تیسری دنیا کا نوجوان مغرب و مغربی معاشروں سے اتنا متاثر ہے کہ اس کے لیے زندگی کی کامیابی اپنے ملک میں اچھا رزق، اچھے عہدے میں نہیں ہے بلکہ نیویارک کے کسی سستے شراب خانے میں برتن دھونا زیادہ بڑی دنیاوی کامیابی ہے کہ میں خود سیکٹری لیول کے لوگوں کو جانتا ہوں جنہوں نے مغرب میں سیٹ ہونے کے لیے وہاں خاکروبی تک کی ہے- باقی رہے نام اللہ کا۔

Iran mushahidat o Tasurat