اگلا روز یعنی تیسرا روز سمر اسکول کا آخری روز تھا۔ ناشتا میں نے حسب معمول سو کر گزارا اور جب نیچے ہال میں پہنچا تو پتہ چلا کہ آخری روز کا پروگرام یہاں نہیں بلکہ تبریز کے ساتھ ایک انڈیسٹریل پارک یا فری زون / free zone/ Industrial park میں ہو گا کہ انہوں نے اس پروگرام کو سپانسر بھی کیا تھا- بسوں ویگنوں میں بیٹھ گئے (بسوں میں طلبہ اور ویگنوں میں مقررین)- وہ صنعتی پارک تبریز سے ڈیڑھ دو گھنٹے کی مسافت پر تھا- وہاں پہنچتے پہنچتے راستے میں کھانے کا وقت ہو گیا تو راستے میں کھانے کا انتظام بھی کیا ہوا تھا- کھانا کھایا اور پھر چل پڑے-
صنعتی پارک کے دفاتر بڑے عمدہ انداز میں بنے ہوئے تھے- وہاں پر کانفرنس ہال، میٹنگ ہال، نمائش ہال الغرض ہر قسم کی سہولیات موجود تھیں- طلبا کی بس ذرا پیچھے تھی تو جب تک وہ آتے اور کانفرنس ہال میں بیٹھتے تب تک ہمیں صنعتی پارک کا دورہ کرایا گیا- نمائش ہال میں انڈوں پر پینٹنگ کی نمائش چل رہی تھی-
تبریز کے پہاڑی اور دشوار گزار علاقوں میں بہت سے قدیمی کلیسا ملتے ہیں اور ایک کہانی یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ حضرت عیسی کے ایک حواری یہودی مظالم سے تنگ آ کر ایران کے ان علاقوں میں آن بسے تھے اور یہاں انہوں نے مسیحیت کی تبلیغ کی- اس علاقے میں بہت سے قدیمی کلیسا اس کہانی کو تقویت دیتے ہیں- ایسے ہی انڈوں پر پینٹنگ کرنا بھی مسیحیت کے ایک تہوار ایسٹر سے ماخوذ ہے جہاں ایسے رنگ برنگے انڈے بنائے اور سجائے جاتے ہیں-
یہ انڈے مٹی سے بنائے گئے تھے اور سائز میں ایک بڑے چا کے کپ چتنے تھے جبکہ کچھ لوگوں نے اصلی انڈوں پر طبع آزمائی بھی کی تھی- منتطمین نے اعلان کیا کہ تمام مہمان گرامی ایک ایک اپنی پسند کا انڈہ اٹھا لیں وہ ہماری طرف سے بطور تحفہ دیا جائے گا- اب مہمانان جس میں میں بھی شامل تھا ایک نئے مرحلے سے دوچار ہو گئے کہ ونڈو شاپنگ اور خریداری میں بڑا فرق ہے کہ بظاہر تو سب اچھے لگ رہے تھے لیکن جب ایک چننے کا مرحلہ آیا تو سینکڑوں میں ایک الگ کرنا زندگی کے مشکل ترین فیصلوں میں ایک لگا کہ ایسا ہو آپ کی بھی اچھا لگے اور دوسرے بھی واہ واہ کریں۔
انڈہ پسند کر کے لے تو لیا لیکن اب مسئلہ یہ آیا کہ اس کو رکھا کہاں جائے کہ اس کے ٹوٹنے کا خدشہ تھا اور یہ بھی ڈر تھا کہیں کسی شے سے رگڑ کھا کر رنگ نہ اتر جائیں- انڈوں سے فارغ ہوئے تھے کہ ہال میں پہنچا دیا گیا- ہال میں پروگرام شروع ہونے میں تھوڑی سی تاخیر تھی تو مہمانان یعنی ہمیں ایک میٹنگ روم میں لے جایا گیا جہاں مشروبات سے تواضح کی گئی اور وہاں پر تقریب کے مہمان خصوصی ایران کے کھیلوں کے وزیر ، صنعتی پارک کے سربراہ اور بلدیہ تبریز کے سربراہ سے ہم سب کا تعارف کرایا گیا- مہمان خصوصی نے اس بات پر زور دیا کہ ہم اپنی اپنی یونیورسٹیوں کے تبریز یونیورسٹی کے ساتھ مختلف اقسام کے معاہدے (طلبا کا تبادلہ، اساتذہ کا تبادلہ، مشترکہ تحقیق وغیرہ) طے پانے میں اہم کردار ادا کریں تاکہ ایران اقتصادی پابندیوں کے باوجود پنپ سکے- ابھی بھاشن جاری تھا کہ پروگرام سے بلاوہ آ گیا-
پروگرام میں آخری لیکچر واحد کاظمی صاحب کا تھا جو بنیادی طور پر ایرانی ہی ہیں لیکن پی ایچ ڈی اٹلی سے کرنے کے بعد پرتگال میں پڑھاتے ہیں- مجھے البتہ وہ اس لیے پسند آئے کہ وہ اسی یونیورسٹی ( یورپا یونیورسٹی، لزبن- European University of Lisbon یا Universidade Europeia de Lisboa) میں پڑھا رہے ہیں جہاں میں ایک سال کے لیے بسلسلہ ریسرچ رہا تھا- لوگ تو وقت گزرنے کے بعد رقیب سے محبت کرنے لگتے ہیں کہ دونوں کا ایک باہمی تعلق رہا ہوتا ہے اور یہاں تو مادر علمی کا معاملہ تھا۔
لیکچر کے بعد منسٹر صاحب کی تقریر ہوئی، سربراہ صنعتی پارک کی تقریر ہوئی، بلدیہ کے سربراہ کی تقریر ہوئی، شعبہ سپورٹ منیجمنٹ کی تقریر ہوئی اور سربراہ سمر سکول کی تقریر ہوئی- تاہم اسی دوران ترجمہ انگریزی سے فارسی اور فارسی سے انگریزی ساتھ ساتھ چلتا رہا – آخر میں تمام مہمانان کو اسٹیج پر بلا کر تحائف سے نوازا گیا جس میں ایک بھاری بھرکم (قیمتاً بھی اور جسامتاً بھی) پرفیوم تھا، ایک تمغہ تھا، ایک سرٹیفیکٹ تھا اور ایک چرمی فائل فولڈر تھا-
آخری تقریب |
یہاں سے تحائف سمیٹ کر ہم واپس ہوٹل کو چل دیے۔
ہمارے ساتھ آئے مہمانان میں ایک صاحب روائیتی کھیلوں کے پروفیسر تھے- ان کے شوق کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہمیں شام کو ایک دیسی زور خانہ یعنی اکھاڑہ میں لے جایا گیا- ہم ابھی تک روائیتی طریقوں پر اٹکے ہوئے ہیں جیسے ہمارے ہاں اکھاڑے ابھی تک مٹی سے بنے اور میدانوں میں پائے جاتے ہیں جبکہ ایران میں کشتی بھی ترقی کر کے یورپی و امریکی طرز پر جمنازیم میں منتقل ہو چکی ہے- یہاں پر زور خانہ کے ممبران کی جانب سے ورزش کا مظاہرہ کیا گیا – ورزش کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک صاحب ڈھول اور ایک صاحب آواز کا جادو دکھا رہے تھے – حمد، نعت، منقبت حضرت علی و امام حسن و حسین اور نوحہ کی تان نے نہ صرف پہلوانوں بلکہ سامعین کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور اختتام پر پولستانی پروفیسر صاحب بولے یہ میری زندگی کا سب سے منفرد تجربہ رہا ہے- میں نے بھی وعدہ کیا کہ میں پاکستان جا کر دیسی کشتی کی ویڈیو ارسال کروں گا لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے-
زور خانے میں |
رات کو ایرج صاحب یعنی دلہا صاحب کی طرف سے دعوت تھی کہ شادی والے دن آپکی تواضح نہیں ہو سکی لہذا آج دوبارہ کھانا کھائیں- کھانا ایک پنج ستارہ ہوٹل میں تھا۔ آگے پہنچے تو پتہ چلا کہ یہاں تو انکا تمام خاندان مدعو تھا- ایرج صاحب تو ہمیں اپنے ساتھ جہاں انکی بیگم صاحبہ بیٹھی تھیں بٹھانے پر مصر تھے تاہم ایک کونے میں بیٹھ گئے کھانا کھایا اور پتلی گلی نکل لیے کہ ہم جہاں ہماری رشتہ دار خواتین اکٹھی بیٹھی ہوں وہاں سے کترا کر نکل جاتے ہیں کجا ایک دوست کی رشتہ دار خواتین-
ہمارا ابتدائی پروگرام تو یہ تھا کہ دوسرے یا زیادہ سے زیادہ تیسرے دن ہی سمر اسکول سے بھاگ نکلیں گے اور سارے ایران کو چھان ماریں گے- ایک طرف شیراز و اصفحان ہمارے انتظار میں تھے تو دوسری طرف مشہد، نیشا پور و طوس ہمیں 'اڈیک' رہے تھے- ہم نے دوستوں سے ٹکٹ کا پتہ کیا، ہوٹل وغیرہ کا پوچھا تو دل ڈوبنے لگا- تبریز میں موجود دوستوں سے مشورہ کیا تو پروفیسران حضرات نے مشورہ دیا کہ جائیں ضرور جائیں اور جب ہم نے انکو 'اصفحان، نصف جہان' سنایا تو وہ مزید شد و مد سے مشورہ دینے لگے کہ ضرور جائیں- لیکن جب معاملہ دوستوں پر آیا تو انہوں نے کہا لگتا ہے آپ نے پورا محاورہ نہیں سنا- ہم نے کہا ہمارے علم میں اضافہ فرمائیں- بولے 'اصفھان، نصف جہان۔ اگر تبریز نہ باشد' (اصفھان نصف جہان ہے اگر تبریز نہ ہوتو)- جو تھوڑی بہت کسر بچی تھی وہ اس بات نے پوری کردی کہ 'اصفھان نصف جہان، تبریز کل جہان'۔ اب ہم کل جہان چھوڑ کر کہاں نصف جہان کے دھکے کھاتے- پیسوں، تبریز کی اہمیت کے علاوہ اس مسئلہ گرمی کا بھی تھا- اصفھان و شیراز میں گرمی تبریز سے زیادہ ہوتی ہے اور ہمیں بتایا گیا کہ سنگ مرمر کی وجہ سے وہاں نہ صرف سورج گرمی برساتا ہے بلکہ عمارتوں کے فرش وہ گرمی واپس زیادہ حدت سے منعکس بھی کرتے ہیں- لہذا ہم جو اب تک مفت رہتے آ رہے تھے نے فیصلہ کیا کہ بقیہ دن تبریز میں ہی گزارے جائیں- تاہم اصفھان و مشہد کی خفت کو مٹانے کے لیے بلند و بانگ پروگرام طے کیے گیے کہ ایک روز کندوان جائیں گے (جس کی تفصیل آگے آئے گی)، ایک روز ماکو جائیں گے جو کہ ترک باڈر کے ساتھ پہاڑوں میں گھر ایک شہر ہے، اردبیل جائیں گے، بحیرہ قزوین دیکھنے جائیں گے، ارومیہ جائیں گے جو نمکین پانی کا اتنا بڑا ذخیرہ ہے کہ اس کو بحیرہ ارومیہ کہا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ-
سمر اسکول ختم ہو چکا تھا اب ہمارا اور یونیورسٹی کا تعلق فقط ہوٹل تک محدود ہو گیا تھا۔ ناشتا، کھانا سب اپنا تھا آج سے۔ پروگرام آج کا کندوان کا تھا۔ میزبان حامد صاحب اور ان کے ایک دوست تھے- اس سے پہلے ناشتا کرنا تھا- آج ناشتے کے لیے کلہ پارچہ منتخب کیا گیا- یہ دراصل ہمارے سری پائے کا آزری نام ہے- تاہم پکانے میں فرق یہ ہے کہ ہمارے ہاں سالن بنتا ہے یہ لوگ بھونتے ہیں- تبریزی کلہ پارچہ تو اس لحاظ سے مزید منفرد ہے کہ یہاں مغز، زبان وغیرہ سر کے اندر ہی بھونے جاتے ہیں اور پکنے کے بعد نکالے جاتے ہیں- کھانا کھانے کے بعد ہر کھانے کے بعد کی طرح احساس ہوا کہ اب پاکستان جانے تک مزید کھانے کی ضرورت نہیں پڑے گی-
سری پائے یا کلہ پاچہ |
نکلے تو پتہ چلا کہ گاڑی میں ایک مسئلہ ہے کہ اس کا اگنیشن جام ہوا ہوا ہے کبھی چلتا ہے کبھی پھنس جاتا ہے- کھانے کے بعد چل پڑا لیکن جب پٹرول ڈلوایا تو نہیں چلا- اب کیا کریں- بڑی کوشش کی لیکن کچھ نہ ہوسکا۔ آخر گاڑی کو دھکا لگا کر ایک طرف لے گئے اور میزبان صاحب جو حامد صاحب کے دوست سے حامد صاحب کے ہمراہ ٹیکسی پر گھر گئے وہاں سے دوسری گاڑی لی، وہاں سے مستری صاحب کو لیا اور واپس ہمارے پاس پہنچے- یہاں سےمستری صاحب ہمیں اپنے ٹھکانے لے گئے وہاں اگنیشن کی مرمت کی اور ہماری دوپہر ضایع کر کے کے ہمیں رخصت دی-
اب ہم بھاگم بھاگ کندوان پہنچے- کندوان کوہ سھند کے دامن میں واقع ایک قصبہ ہے- کوہ سھند ایک آتش فشانی سلسلہ کوہ ہے اور اسکی اسی نرم ساخت کی وجہ سے لوگوں نے پہاڑوں کو تراش تراش کر ان مین گھر آباد کر لیے ہیں- ایسا ہی ایک مشہور شہر کپادوکیا (ترکی) ہے اور کندوان اسی نسبت سے ایرانی کپادوکیا کہلاتا ہے- یہ شہر انسان کی عظمت کا کھلا ثبوت ہے کہ ہزاروں سال قبل جب انسان غاروں میں رہا کرتا تھا تب اس نے اس سلسلہ کوہ میں ایک شہر آباد کر ڈالا تھا جو آج تک قائم و دائم ہے-
کندوان میں خوش آمدید |
پہاڑوں کے بیچ میں رہتےلوگ |
کچھ لوگ چھوڑ گئے کچھ ماڈرن ازم کا شکار ہوگئے |
ہاتھ کی صفائی |
راستہ میں ایرانیوں یا شاید تبریزیوں کی یہ عادت دیکھی کہ گھر سے نکلے اور جہاں جگہ ملی کسی کھیت کے ساتھ، کسی درخت کے سائے تلے، کسی بہتے پانی کے کنارے وہاں کپڑا بچھایا اور بیٹھ گئے پکنک کرنے- نہ کسی نے انکو تنگ کرنا ہے نہ کسی نے آوازے کسنے ہیں، نہ بے پردگی کا ڈر (کہ تمام خواتین کے سر ڈھکے ہوتے ہیں)، نہ اوباشوں کا خوف – جہاں ہیں جیسے ہیں ایرانی زندگی کا خوب لطف اٹھا رہے ہیں-
کندوان سے واپسی پر ایک بار پھر ہوٹل کا رخ کیا گیا کہ اب دوپہر کے کھانے کا وقت ہوا تھا- ہوٹل میں پہنچے تو پتہ چلا دوپہر کے کھانے کا وقت نکل چکا ہے تو دوسرے ہوٹل چلے گئے- ہوٹل کیا تھا ایک مصنوعی سفاری پارک تھا۔ اندر درخت لگے تھے جنگل کا ماحول تھا بہت سے پرندے آزاد اور بہت سے پرندے پنجروں میں تھے- یہاں پر آبگوشت کا آڈر دیا گیا- آبگوشت ایک خاص الخاص آزری ڈش ہے- جب آیا تو اپنا آلو گوشت نکلا- چونکہ ایران و دیگر ممالک کے کھانے بھنے ہوئے اور بغیر شوربے کے ہوتے ہیں اور آب گوشت شوربے کے ساتھ ہوتا ہے اس لیے اس کو آب گو شت کا نام دیا گیا ہے- ترکیب وہی اپنی آلو گوشت والی ہے تاہم اس میں ایک تو چھولے بھی ہوتے ہیں دوسرا یہ عام گھی میں نہیں بلکہ بھیڑ کی چربی میں پکتا ہے- اس کے کھانے کا طریقہ یہ بیان کیا گیا کہ سب سے پہلے شوربے کو الگ کر لیں- شوربے میں روٹی کے ٹکڑے بھگو کر کھا لیں جیسے ہم دودھ میں ڈبل روٹی بھگو کر کھاتے ہیں- اس کے بعد گوشت، آلو، چھولے ایک پلیٹ میں ڈال کر اچھی طرح پیس /کوٹ لیں جس کے لیے آپ کو ایک پتھر کی ایک مُسل دی جاتی ہے- جب وہ اچھی طرح پس جائے تو اسکو چمچ کی مدد سے کھائیں –
دماغ کی طرح میرا پیٹ بھی اکثر خراب رہتا ہے اور اسی وجہ سے میری کوشش رہتی ہے کہ گھر سے باہر پیٹ کو تکلیف کم سے کم دی جائے- لیکن شاید یہ فارسی کی ہی کہاوت رہی ہوگی کہ مہمان کے دل کا راستہ اس کے معدے سے گزرتا ہے (اگر فاعسی سے ہی نکلی ہے تو وہاں مرد کی بجائے مہمان رہا ہو گا) کہ ان کا بس نہیں چلتا کہ مہمان کو کھلا کھلا کر ماریں-اب ہو سکتا ہے کہ بعضے ملکوں کی طرح بعض مہمانوں کے حالات بھی خراب ہوں اور یہ راستہ پکی سڑک کی بجائے گارے و مٹی پر مشتمل ہو لیکن نہیں سبکو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا ہے- ذرا فہرست ملاحظہ ہو-
-صبح اٹھتے ساتھ ہی چائے یا کافی
-ناشتا جس میں دو سے تین قسم کے آملیٹ شامل ہوتے ہیں-
ناشتے کے ساتھ لیمن مالٹ-
اس کے بعد پھر چائے یا کافی۔(اگر ناشتہ ہوٹل میں ہو تو بیرے حضرات چائے کا کپ ایسے بھرتے رہتے ہیں جیسے ہمارے یہاں پانی کا جگ بدلا جاتا ہے)۔
اب آپ میں چلنے کی سکت اور آنکھ کھولنے کی ذرا بھی طاقت نہیں بچی تو آپ چلنے کو تیار ہیں-
چلتے چلتے راہ میں کوئی دیسی رہڑی والا شربت آ گیا تو لیموں، گوند کتیرا و بلنگو، فانٹا وغیرہ پیتے چلیں گے۔
لیجیے آئس کریم والا آگیا، آئس کریم کے بغیر بھی کوئی زندگی ہے۔
سبزی والے کے ٹھیلے سے چند کھیرے خرید لیے گئے ہیں جنکو راہ چلتے چباتے جائیے گا۔
ایک ڈھابے سے چپس بھی پکڑ لائے ہیں کہ زبان و منہ فارغ نہ رہیں-
چلیں جی دوپہر کے کھانے کا وقت ہوا چاہتا ہے- دوپہر کا کھانا سوپ سے شروع ہوتا ہے، سوپ کے بعد سلاد دیا جاتا ہے- سلاد کے بعد اصل کورس کی باری آتی ہے جوکہ عموماً چاولوں کی بھری ٹرے اور ساتھ میں اسی ٹرے جتنا کباب ہوتا ہے- اس کو کباب ہی بولا جاتا ہے-
کھانے کے بعد کولا یا آب جو سے جو آپ کو پسند آئے وہ پی لیں،
کھانے کے بعد دوبارہ سیر سپاٹا شروع ہوتا ہے اور ناشتے کے بعد والے لوازمات ساتھ ساتھ چلتے ہیں تاہم چند ایک جگہوں پر کچھ اسشنیات بھی تھیں جیسے ایک آدھ بار آئس کریم کے ساتھ پانی بھی پیش کیا گیا۔
رات کو کافی کے بعد دودھ پینے کو دیا گیا کہ اس ریستوران کا دودھ بڑا مشہور ہے- دودھ کے بعد مجھے خفت و بد ذائقگی مٹانے کو ایک بار پھر چائے پینی پڑی-
کندووان کے دورے پر لسی بھی پینی پڑی جو اتنی کھٹی تھی کہ اس کے ایک گھونٹ سے ہمارے پینے کو جگ بن جائے (پانی ملا کر) اور وہ پھر بھی ترش رہی-
لسی کے بعد شہد کھانا پڑ گیا کہ قدرتی شہد کے لیے کندووان سے بہتر کوئی جا نہیں-
یاد آیا کہ ہمارے جنوبی پنجاب کے ایک رسہ گیر مگر انتہائی مہمان نواز مرحوم سیاستدان کسی کے پاس مہمان جا بنے تو اس نے کوئی زیادہ اچھا سلوک نہ پیش کیا- اتفاق سے کچھ دنوں بعد اسی میزبان کو انہی سیاستدان کا مہمان بننا پڑ گیا تو ملک صاحب (جاگیر دار کو اپنی آسانی کے لیے ملک صاحب ہی کہہ لیں) نے کہا ضرور کریں گے کام لیکن پہلے خدمت کا موقع تو دیں- ملک صاحب نے نوکر کو اشارہ کیا اور انتہائی پر تکلف کھانا پیش ہو گیا- مہمان نے سیر ہو کر کھایا اور بولا حضور کام! ملک صاحب نے بولا ہاں کیوں نہیں کل صبح چلتے ہیں- اگلی صبح چلنا کیا تھا رات سے بھی پر تکلف ناشتا پیش کیا گیا اور کام ظہرانے پر ٹال دیا گیا- ظہرانے پر عشایے اور عشایے پر اگلے ناشتے پر ایک ہی سلوک کیا جاتا رہا- تیسرے دن مہمان ڈیرے والوں سے نظر بچا کر وہاں سے بھاگ نکلے-جب ملک صاحب کو پتہ چلا تو پیغام بیجوایا گیا کہ کام تو آپ کا کردوں گا لیکن مہمان کی مت ایسے مارے جاتی ہے- اتنے تو آپ سمجھدار ہیں کہ ملک صاحب نے مت نہ کہا ہوگا بلکہ ماؤں و بہنوں سے متلعق کچھ کہا ہوگا-
جیسا کہ میں پہلے ذکر کر چکا ہوں کہ ایران میں علم و ادب کو بڑی عزت دی جاتی ہے اسی وجہ سے جابجا کمرشل جگہوں کر شعر لکھے جاتے ہیں- ایسے ہی ایک شعر نے میری توجہ اپنی طرف مبذول کرائی- شعر تھا کہ
ای دل غم ایں جھان فرسودہ مخور
بیہودہ نہ ای غمان بیہودہ مخور
میزبانوں کے بقول یہ فارسی نہیں ہے شاید پشتو یا کوئی اور زبان ہے تاہم میرے مطابق اس کا ترجمہ یہ تھا 'اس دل کو حالات نے خستہ کر دیا ہے کہ یہ بے ہودہ نہ تھا غموں نے بے ہودہ کر دیا ہے' (یہاں لطف کے لیے بے ہودہ اردو والے معنی میں ہی سمجھیں)۔ بد تمیز دل کے بعد بے ہودہ دل |
حامد صاحب تو اپنی بیگم صاحبہ کو وقت دینے کی غرض سے اتر گئے تاہم انکے دوست صبح کی خفت مٹانے کو ہمیں اپنے ساتھ لیے پہلے اپنی ہونے والی بیگم مریم صاحبہ کے گھر گئے انکو ساتھ لیا اور ہمیں تبریز کے ساتھ ایک چھوٹے ڈیم کی جھیل پر بنے چا خانہ میں لے گئے- جھیل بہت خوبصورت تھا، چا مزیدار نہ تھی لیکن شام کا موسم اور خنک ہوا نے سماں باندھ رکھا تھا- یہاں پر مریم بی بی سے ایرانی خواتین بارے عمدہ گفتگو ہوئی کہ انکو غم تھا کہ ایران میں خواتین کو حقوق حاصل نہیں جبکہ میرا موقف دوسرا تھا – (اس موضوع پر جلد ہی بلاگ لکھوں گا)۔ہمارے میزبان مریم بی بی سے بڑی پرانی شادی کرنے کے خواہشمند تھے اور اس سلسلے میں انکو مشکلات ہی پیش آتی رہی تھیں کہ پہلے فرمائش ہوئی کہ ماسٹرز کرو، ماسٹرز کیا گیا ، پھر حکم ہوا پی ایچ ڈی میں داخلہ لو، پی ایچ ڈی میں داخلہ لے لیا گیا، اب حکم تھا کہ نوکری ڈھونڈو اور اب ہمارے میزبان صاحب نوکری ڈھونڈنے کی تلاش میں سرگرداں تھے جبکہ اسی دوران مریم بی بی ایک شادی فرما کر ایک بیٹے کے ہمراہ والد کے گھر واپس آ چکی تھیں –ہائے عشق، وائے عشق۔۔۔
جھیل میں تیرتا ہوٹل |
آج ہمارا تبریز میں آخری دن تھا کہ کل یعنی بروز اتوار تبریز سے تہران اور تہران سے لاہور فلائیٹ تھے- دن کا آغاز ناشتے سے ہوا- ایک میزبان سجاد صاحب پرزور اصرار کرنے لگے کہ ان کے آبائی شہر ماکو جایا جائے- ایک تجویز اردبیل کی آئی، ایک طرف سے ارمیہ کی آواز اٹھی لیکن آخر فیصلہ کیا گیا کہ بس دفع کریں سب کو یونیورسٹی آف تبریز یا دانشگاہ تبریز چلتے ہیں-
تبریز یونیورسٹی میں پہنچے، وہاں کھیلوں کے شعبے کا معائنہ کیا، دوپہر کا کھانا کھایا اور وہاں سے نکل آئے- دوپہر تا سہ پہر ہم نے تبریز بازار میں گزاری۔ یہاں ہم اس تلاش میں آئے تھے کہ یادگاری مقناطیس لیے جائیں لیکن تمام شہر کھنگالنے کے باوجود کوئی ہماری مرضی کا مقناطیس نہ ملا- آخر یہ فیصلہ کیا گیا کہ واپسی پر ہوائی اڈے سے پتہ کریں گے شاید وہاں سے مل جائے- اسی دوران ڈالر و روپے تبدیل کرانے تھے تو ہمارے میزبان پیسے لے کر گئے تو ہم وقت گزاری کے لیے بازار میں موجود ایک مسجد میں چلے گئے- یہاں پر نماز کی سہولت کے ساتھ بیٹھنے کے کرسیاں بھی پڑیں تھیں جہاں ہم جیسے اور لوگ بھی وقت گزار رہے تھے-
تبریز یونیورسٹی |
مسجد تبریز بازار |
ایک در |
اس ہوٹل میں ہم دو بار آئے لیکن دونوں بار کھانے کا وقت گزر چکا تھا |
اسی ہوٹل کا داخلی راستہ |
مغرب کے بعد ہم نے عینالی پہاڑی کا رخ کیا جہاں عینالی پہاڑ پر جھیل، چئیر لفٹ و دیگر سامان تفریح میسر تھا- تاہم اس رات اتنی شدید ہوا چل رہی تھی کہ چئیر لفٹ تو بند تھیں تاہم گاڑی کا رستہ پہاڑی تک کھلا تھا- پہاڑی پر پہنچنے کے لیے ہم نے ویگن پکڑی اور پہاڑی پر پہنچے تو وہاں جھیل کو اپنا منتظر پایا- جھیل ایل گلی کی طرز پر بنی ہوئی تھی- وہاں پر ایک نامعلوم سپاہی کی یادگار بھی تھی جس کی یادگار کے لیے ہم نے تصویر لی- وہاں بتایا گیا کہ ادھر دودھ بڑا زبردست ملتا ہے لہذا ضرور پینا چاہیے- کس کو انکار کی جرات تھی ، دودھ بھی پیا – اور کر بھی کیا سکتے تھے۔ تصاویر لیں اور واپسی کا رخ کیا-
اتوار کو واپسی تھی- تاہم واپسی سے قبل ایک بار پھر فرمائشی پروگرام پر تبریز یونیورسٹی گئے- وہاں الوداعی ظہرانہ تناول کیا اور یہاں سے تبریز ہوائی اڈے پر پہنچ گئے- تبریز ہوائی اڈے پر یادگاری مقناطیس بھی مل گیا اور یہاں پر ہمارے دلہے راجہ ایرج صاحب الوداعی ملاقات کرنے کو بھی آئے تھے اور ساتھ میں وہ بھی تحائف کا جتھہ لائے تھے- میں چونکہ صرف ایک دستی بستہ لے گیا تھا لہذا آدھا سامان میں نے ڈاکٹر مجاہد کو دے دیا کہ جب ترکی آؤں گا تب لے لوں گا – جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے کہ تہران میں ملکی پروازیں مھر آباد جبکہ غیر ملکی پروازیں امام خمینی ہوائی اڈے پر آتی ہیں لہذا میزبان اس بابت پریشان تھے کہ میں مھر آباد سے امام خمینی کیسے پہنچ پاؤں گا- میں نے بہتیرا کہا کہ بھائی میں نے دیکھا ہے کہ دونوں کے درمیان میٹرو کنکشن موجود ہے اور میں پہنچ ہی جاؤں گا (میٹرو گھومنے کا سات سالہ تجربہ جو ہے ہمیں) لیکن ان کی تسلی نہ ہوئی- انہوں نے تہران میں موجود ایک دوست کو کہا کہ وہ مجھے مھر آباد سے امام خمینی پہنچا دیں- اس نے حامی بھر لی لیکن ان کی پھر بھی تسلی نہ ہوئی اور انہوں نے احتیاطاً مجھے ٹیکسی ڈرائیوروں سے نمٹنے کے رموز سکھانے شروع کر دیے- باقی تو مجھے کچھ خاص مشکل نہ لگا لیکن سب سے مشکل مرحلہ پیسوں کا لین دین تھا کہ اب تک تو ہمارے میزبان ہی بھاؤ تاؤ کرتے آئے تھے اور اب مجھے لاکھوں، کروڑوں خود ہی طے کرنے تھے- اپنی احتیاط کے لیےمیں نے لکھ لیا کہ اتنے تومان و ریال تک سودا طے کرنا ہے-
روانگی کا وقت آیا تو میربان ماکو کا گلہ کرنے لگے تو ان کو کہا اگلی بار انشاللہ تبریز آنا ہی نہیں سیدھا ماکو آئیں گے- ڈاکٹر مجاہد سے عہد کیا دو سال میں ایک بار ضرور ملنا ہے (ہماری یہ ملاقات چار سال بعد ہوئی تھی)- مذاقاً ڈاکٹر مجاہد کہنے لگے تبریز کل جہان میں نے کہا اصفھان، اگلے جہان – ہم دونوں ہنسے ایک دوسرے سے بغل گیر ہوئے اور دو سال کے وعدے پر میں جہاز کو جبکہ ڈاکٹر مجاہد میزبانوں کے ہمراہ ماکو کو روانہ ہو گئے جہاں سے انہوں نے بس کے ذریعے ترکی چلے جانا تھا-
تبریز سے تہران پہنچا، وہاں میزبانوں کے دوست موجود تھے، انہوں نے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر امام خمینی ہوائی اڈے پہنچایا- انکو انگریزی نہ آتی تھی میں فارسی میں کورا تھا- سلام اور خدا حافظ کے علاوہ کوئی بات نہ ہوئی- ہوائی اڈہ آتے وقت تو بڑا اچھا لگا تھا جاتے وقت وہ امیج نجانے کیوں برقرار نہ رہ سکا- کسٹم، امیگریشن سے فراغت کے بعد ایک یادگاری اشیا کی دکان دیکھی، ایک یادگاری مقناطیس پسند کیا اور پیسوں کا معاملہ آیا تو اس کے سوا کچھ سمجھ نہ آیا کہ ایک لاکھ ریال کا نوٹ دکھا کر پوچھا کہ ایسے کتنے نوٹ ہوں؟
ہوائی جہاز اب کی بار عمدہ تھا۔ دو گھنٹے کی تاخیر سے اڑا اور ایک گھنٹہ کی تاخیر سے لاہور ہوائی اڈے پر پرواز اتری- لاہور کا ہوائی اڈہ میرے ناپسندیدہ ترین ہوائی اڈوں میں سے ہے لیکن پچھلی بار ایک دوست جو اس روز مجھے ہوائی اڈے پر لینے بھی آئے ہوئے تھے نے شکایت کی یہ یہ بات کہہ کر آپ نے ہمارے دل کو ٹھیس پہنچائی ہے لہذا میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں اور یہ بات اپنے دل تک ہی محدود رکھتا ہوں کہ لاہور کا ہوائی اڈہ میرے ناپسندیدہ ترین ہوائی اڈوں میں سے ہے کہ بھائیوں کی خوشی میں ہی ہماری خوشی ہے-
Ager Tabriz na bashad- ikhtatam