November 6, 2010

ایک اقتصادی کانفرنس کی روئیداد

aik iqtasadi confrence ki ruidad


پچھلے دنوں (پچھلے دن اب تو خاصے پچھلے ہو گئے ہیں کیونکہ کانفرنس مارچ 2010 میں ہوئی تھی) وارسا میں ایک کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا۔ویسے تو ہم خاصے رنگین مزاج واقع ہوئے ہیں اور ایسی بلیک ایند وائیٹ مجلسوں سے پرہیز کرتے ہیں ہیں لیکن ہماری اکنامکس کی استانی کو اس زمانے میں گمان تھا کہ ہم اکنامکس میں کچھ کمال رکھتے ہیں اور باقی لوگوں کی نسبت کچھ ذہانت کے مالک بھی ہیں ۔اب تو یہ فعل ماضی بعید کی باتیں لگتی ہیں خیر بات ہو رہی تھی کانفرنس کی تو ہم اتنے ڈرپوک ثابت ہوئے ہیں کہ استادوں کو منہ پر نہ نہیں کہہ سکے کجا استانی۔

حکم حاکمہ مرگِ مفاجات اپنے قیمتی فارغ وقت سے ہاتھ دھو کر ہم اس کانفرنس میں چلے گئے۔ کانفرنس پولینڈ کی مشہور ترین یونیورسٹیوں میں سے ایک وارسا اسکول آف اکنامکس میں تھی۔وارسا اسکول آف اکنامکس کو پولش میں SGH ایس گے ہا بولتے ہیں۔  جہاں جب میں پہنچا تو پتہ چلا کہ کانفرنس کسی اور بلاک میں ہورہی ہے جو اس عمارت سے کچھ فاصلے پر ہے۔استقبالیے پر موجود لڑکی نے اگرچہ وہاں کا پتہ خاصی تفصیل سے سمجھایا لیکن کچھ اس کی انگریزی سے پوری صوری واقفیت اور کچھ اس کی خوبصورتی کی وجہ سے میں راستہ بالکل نہ سمجھ پایا اور راستے میں دس بارہ لوگوں سے پوچھنے کے بعد جب وہاں پہنچا تو کانفرنس شروع ہو چکی تھی۔


ہال جدید طرز کا تھا جس میں پچھلی نشستیں بتدریج اگلی نشستوں سے اونچی ہوتی جاتی ہیں۔اس طرح سب سے پیچھے بیٹھا بندہ نہ صرف سامنے اسٹیج پر دیکھ سکتا ہے بلکہ اپنے سامنے والے حاضرین پر بھی بھرپور نگاہ رکھ سکتا ہے۔پنڈی میں فوجی گاؤنڈیشن یونیورسٹی میں کمپیوٹر انجیئرننگ نہ پڑھنے کے دوران اور کچھ حاصل کیا ہو یا نہ کیا ہو تجربات خاصے حاصل کیے تھے جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ایسے ہال میں پیچھے بیٹھنے میں بہت فائدہ ہوتا ہے ،آزما کر دیکھ لیں۔لہذا میں پیچھے جا کر ایک نشست پر بیٹھ گیا اور تمام توجہ مقررین پر مرکوز کر لی جنکا بنیادی نقطہ تحقیق پولینڈ کی معاشی نمو میں تمام یورپ کے بر عکس بڑھوتی تھااور وہ اس میں مستقبل میں مزید اضافہ اور پائیداری کے لیے تجاویز دے رہے تھے۔ 

جب مقررین کے دلائل وزنی اور تقاریر طول کھینچتے چلے گئے تو میرے سے دو قطاریں آگے بیٹھے ایک جوڑے نے تمام اقتصادی و معاشی معاملات اور ان کو درپیش مسائل کو پس پشت ڈالتے ہوئے ایک دوسرے کوچومنا چاٹنا شروع کر دیا۔وہ اس بری طرح بوسے لینے میں مصروف تھے کہ نظر تو نظر ان سے توجہ ہٹانا بھی مشکل ہو گیا۔ اب خاک پلے پڑنا تھا میں نے جسمانی اکنامکس سے توجہ ہٹانے کے لیے ادھر ادھر دیکھنا شروع کر دیا۔میرے ساتھ بیٹھے ایک انکل نما شخص کانفرنس شروع ہونے سے اب تک آٹھ مرتبہ اپنا فون سائلنٹ پر لگانے کی کوشش کر چکے تھے نہ انکو کسی کی کال یا پیغام آتا تھا نہ ان کا فون سائلنٹ پر لگتا تھا۔میں نے عہد کیا کہ کبھی کسی اور کا فون اٹھا کر لوگوں کے سامنے شو خی مارنے نہیں جاؤں گا۔ کہ آئی فون کے بغیر بھی لوگوں کو کانفرنس میں آنے دے رہے تھے۔

جب مقررین کا خطاب ختم ہو ا میرے سمیت بہت سے لوگوں نے سکھ کا سانس لیاکہ چلو بوریت ختم ہوئی لیکن بوریت تو اب شروع ہوئی تھی۔کیونکہ سلسلہ سوالات میں پہلا ہی سوال کرنے ایک مشکل نام والے پروفیسر صاحب نے سوال پوچھنے کی بجائے لیکچر دینا چالو کر دیاجب انکا لیکچر پر محیط سوال ختم ہوا تو اسٹیج پر موجود اور نیچے بیٹھے لوگوں کے دماغ میں ایک ہی سوال تھا کہ سوال تھا کیا؟منتظمیں نے نجانے پروفیسر صاحب یا نجانے خود کو شرمندگی سے بچانے کے لیے اعلان کیا پہلے سب سوالات پوچھ لیے جائیں پھر جوابات دیے جائیں گے۔ ایک کے بعد دوسرا ،دوسرے کے بعد تیسرا جب وہاں پر موجود پروفیسرز نے باری باری سوالات کی بجائے تقاریر چالو کر دیں تو مجھ جیسے لو گ جو درمیاں میں بیٹھے تھے نے اطراف میں بیٹھے لوگوں کو حسرت سے تکنا شروع کر دیا جو سینہ تان کر بیٹھے تھے کیونکہ وہ جب چاہتے اٹھ کر باہر چلے جاتے تھے اور میرے جیسے بیچاروں کو پانچ چھ بار شپ راشم(پولش معذرت) کہنا پڑتا تب کہیں جا کر وہ پنجہ استبداد سے آزاد ہو سکتے تھے۔

سوالات کی طوالت سے تنگ آکر میزبان خاتون نے اعلان کیا کہ سوالات مختصر پوچھیں کیونکہ پانچ بجے کانفرنس نے ختم ہونا ہے اور مہمانوں نے کسی اور کانفرنس میں لوگوں کو بور کرنے جانا ہے تو سب کی خوشی سے باچھیں کھل گئیں اور بے اختیار سب گھڑیوں کو دیکھنے لگے، جن کے پاس گھڑیاں نہ تھیں انہوں نے فٹا فٹ موبائل نکال کر دیکھا کہ باقی کتنا وقت بچا ہے۔

جب میرے ساتھ بیٹھی ہوئی لڑکی جو تھوڑی تھوڑی دیر بعد کن اکھیوں سے مجھے دیکھ لیتی تھی اور میں اس کو مزید متاثر کرنے کے واسطے اپنے نوٹس جو آپکے سامنے ہیں اردو میں بڑے بڑے لکھنے شروع کر دیے تھے اٹھ کرمجھے شپ راشم کہہ کر چلی گئی تو کانفرنس کی رہی سہی دلچسپی بھی ختم ہو گئی۔ خدا خدا کر کے پانچ بجے تو اکثرنے کانفرنس ختم ہونے پر سکھ کا سانس لیا اور باہر کا رخ کیا۔جب باہر نکلے تو احساس ہوا کہ دنیا کتنی خوبصورت اور رنگین ہے۔

کانفرنس تو ختم ہو گئی لیکن استانی صاحبہ کو رپورٹ آج تک جمع نہیں کرا سکا اب جو کچھ لکھا ہے وہ بلاگ میں تو چھپ سکتا ہے یونیورسٹی کے اقتصادی رسالے میں نہیں۔بہرحال ایک فائدہ ضرور ہوا ہے اس روز کے بعد دوبارہ کہیں جانے کی ہدایات نہیں ملیں۔کسی نے سچ کہا ہے ایک نہیں اور سو سکھ اور نہیں تو کسی بھی شکل میں بھی ہو سکتی ہے۔