November 17, 2010

سو میں بھی آدمی ہوں

So main bhe admi hoon


یوں تو ہم ہزارہا بار بے وقوف بنے ہیں کبھی مذہب کے نام پر، کبھی زبان کے نام پر،کبھی صوبائیت کے نام پر،کبھی اس کے نام پر کبھی اُس کے نام پرلیکن ایک چیز ایسی بھی ہے جس کے نام پر ہم انتہائی خلوص اور صدق دل سے بے وقوف بنے اور خوشی خوشی بنے اور بننے کے بعد بھی خوش رہے۔جی ہاں وہ شے صنفِ نازک کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ لیکن اب سوچتا ہوں کہ ایسے دوستوں کے نام تحریر کر دیا جائے کہ بھائی اب میں اس کھیل سے تھک گیا ہوں لہذا آئندہ بے وقوف بنانے سے گریز کیا جائے اور آپ لوگ بھی عبرت پکڑیں اور عقل سے کام لیں۔

تو یہ ان تمام دوستوں کے نام ہے جنہوں نے ہمیں صنف مخالف کے نام پرحسب توفیق بے وقوف بنایا۔ اس بات کو صیغہ راز میں رکھنے کی خاطر کہ کس کس نے ہمارے جذبات سے کھیلا یہ لکھ رہا ہوں کہ کہانی کے سب کردار فرضی ہیں اگر کوئی اپنی مطابقت بے وقوف بنانے والوں سے پائے تو لازم ہے وہ شرم کرے اور دوسروں کو گدھا بنانے سے باز آئے اور کسی کی بے وقوف بننے والے سے ہو تو وہ اس کہانی سے پڑھ کر صبر کرے کہ وہ تنہا نہیں اس جیسے اور بھی گدھے ہیں۔


شکل صورت خواہ کسی نے کیسی ہی کیوں نہ پائی ہو پر دل تو سب رکھتے ہیں۔تو دل تو میرا بھی جو اکثر یہ سوچا کرتا تھا کہ کوئی تو ہو گی جو ہم کو دیکھ کر سوچتی ہو گی آہ کاش۔۔۔۔چلو دیکھ کر نہ مل کر ہی سہی۔ جب یونیورسٹی پہنچا تو بظاہر بے پرواہ بنا رہنے کے باوجود توجہ درپردہ لڑکیوں پر ہی مرکوز رہی۔جب دوست چنے تو وہ بھی انسان تھے،لڑکے تھے اور پاکستانی تھے لہذا انکا مقصد بھی متفقہ طور پر ایک ہی تھا ۔ایک لڑکی۔یا ایک سے زیادہ۔

عورت تو صاحب پتھر کو بھی پگھلا سکتی ہے ہم تو سراپا موم تھے۔اب دل کو بہلانے کے واسطے ہم اکثر یوں گفتگو کیا کرتے کہ یار آج وہ لڑکی تیرا پوچھ رہی تھی۔اب میرا دوست جسکا نام ہم یہاں فلاں فرض کر لیتے ہیں تو فلاں بھی خوش ہو جاتا اور ہم بھی خوش کیونکہ جوابی وہ بھی ہمیں کسی لڑکی کا نام بتاتا جو بظاہر سرسری میرا پوچھ رہی تھی پر اصل میں اندر اندرمجھ پر مری جا رہی تھی اور رات کو دونوں خوش کن خیالوں اور خوابوں میں مصروف رہتے۔

 زندگی ایسے ہی پرسکون گزر رہی تھی کہ ایک دن فلاں آیا اور آ کر بڑے سنسنی خیز لہجے میں بولا"تو تو لے گیا بھائی"۔میں جو اسکی رفتار سے گھبرایا ہوا تھا بات سن کر اور گھبرا گیا اور بولا "خیر تو ہے ناں۔"
فلاں بولا "یار آج وہ تیرا پوچھ رہی تھی"۔
"کون "؟
"وہ" (لڑکی کا نام وہ فرض کر لیں)
"کس سے"؟
"مجھ سے یار مجھے روک کر پوچھا"۔
خبر ایسی بارود انگیز تھی کہ میں نے مزید کچھ پوچھنا مناسب نہ سمجھا۔رات کو جب سونے لیٹا تو خیال آیا کہ تفصیل تو پوچھی نہیں پر سوچا چلو کوئی نہیں کل پوچھ لوں گا۔خدا جانتا ہے کہ وہ رات کیسے کٹی صبح ایک روز قبل ہی کرنے کے باوجود دوبارہ شیو کی اور یونیورسٹی پہنچ گیا۔ اگلے روز کلا س میں تمام تر توجہ اس لڑکی پر مرکوز رکھی لیکن اس جانب سے کسی قسم کا کوئی سگنل نہ ملا تو دل بیٹھ گیاکہ فلاں نے مجھے بے وقوف بنایا ہے۔سچ پوچھیں تو بے وقوف بننے کا اتنا غم نہ تھا جتنا اس واقعے کے سچا نہ ہونے کاتھا۔شام کو جب فلاں اور مجھے فرصت ملی تو وہ کہنے لگا" آج  تم وہ سے تو نہیں ملے"؟ میں نے کہا "نہیں کیوں؟" کہنے لگا یار وہ مجھے کہہ رہی تھی کہ مجھے اس بات سے بڑا ڈر لگتا ہے کوئی مجھے کسی لڑکے کے ساتھ نہ دیکھ لے میں نے اسکا جینوئن بہانہ مان لیا اور وہ بھی یہ سوچے بغیر کے فلاں کو اس معاملے میں استشنیٰ کیوں ہے۔ جب کچھ روز بعد تک بھی کوئی بات نہ بنی تو میرا صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور میں فلاں سے پوچھ ہی بیٹھا "یار آخر مجھے کیوں الو بنایا تھا"۔فلاں نے مجھے سمجھاتے ہوئے کہا "دیکھ یار تیرے علاوہ اسکا کوئی جوڑ نہیں ہے اور اگر تجھے مجھ پر یقین نہیں تو میں بتا دوں کہ وہ بھائی کامال ہے اور بھائی کے مال پر کوئی اور نظر بھی نہیں رکھ سکتا"۔اس نے مجھے سمجھایا "دیکھ وہ تیری بیٹنگ سے اتنا امپریس ہے کہ اس نے ڈین کودرخواست دی ہے کہ لڑکے لڑکیوں کی اکٹھی کرکٹ ٹیم بنائی جائے تو پھر تیرے ساتھ اس کے علاوہ اور کس نے اوپننگ کرنی ہے،ہر مہینے یونیورسٹی کے ادبی رسالے میں سب سے پہلے وہ تیری تحریر پڑھتی ہے ،ہر چار جملوں بعد تیرا نام پوچھتی ہے"۔اب اگر یہ سب باتیں جھوٹی بھی تھیں تو کس کافر کا جی ان پر اعتبار نہ کرنے کو چاہے گا۔

اگلے روز اس سے اگلے روز اور پھر ہر روز فلاں اور وہ کہیں نہ کہیں گفتگو کرتے ہوئے پائے جاتے تھے جو فلاں کے مطابق میرے بارے میں ہی ہوتی تھی۔اور جب میرا حوصلہ ٹوٹنے لگتا تو میں فلاں سے پوچھ بیٹھتا کہ آپ جناب تو یوں فرمایا کرتے تھے ابھی تک تو ان میں سے کچھ وقوع پذیر نہیں ہوالیکن آپ مشہور ہوتے جارہے ہیں۔فلاں ایسے ہنستا جیسے کوئی جہاں دید بوڑھا کسی نادان بچے کے بے وقوفانہ سوال پر ہنستا ہے اور بولتا کہ یہ سب باتیں کس کی ہوتی ہیں وہ تمھارے بارے پوچھتی رہتی ہے اور میں تمھارابارے بتاتا رہتا ہوں۔ ایک روز کسی تقریب ہم تینوں اکٹھے ہوگئے تومیری چھٹی حس چیخ چیخ کر کہنے لگی کہ علی شاہ تمھارا اس معاملے میں کوئی کردار نہیں لیکن اگلے ہی روز فلاں نے آکر خوش خبری سنائی کہ میرے دوست تیار ہو جاؤ؟
"کس لیے"؟
"وہ تم سے ملنا چاہتی ہے۔"
جھوٹ ہمیشہ ہی خوبصورت لگا ہے تو میں نے آنکھ بند کر کے یقین کر لیا اب یہ لکھنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ اس رات مجھے نیند نہ آئی۔لیکن مجھے جو بات کھٹکے میں مبتلا کرتے تھی وہ اس کا رویہ تھا کہ اس تقریب میں اس نے فلاں کو مسلسل مجھ پر فوقیت دی رکھی تھی ،دوسرا اس نے کبھی براہ راست مجھے درخو اعتنا نہ سمجھا تھا اور ہماری اب تک کی سب سے بڑی ملاقات کا احوال یہ تھا
میں:"کیا حال ہیں"
 وہ":ٹھیک ۔آپ سنائیں"
 میں :"الحمداللہ"
 وہ:"فلاں آج نظر نہیں آیا"
 اور میں ایک تابع فرمان کی طرح اس کو فلاں کی جملہ تفصیلات سنسر کر کے پیش کر کے آگیا۔

سنسر کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ میرے ضمیر نے گوارا نہ کیا کہ میں اپنے محسن اور اس کی سہیلیوں کی نجی زندگیوں کا خلاصہ پیش کرتا۔ اسی روز شام کو فلاں آیا اور آ کر مجھے گلے لگا لیاکہ" یار وہ تو تیری فین ہو گئی ہے اس کو کہیں سے تیرے سارے افسانے مل گئے ہیں وہ تو پڑھ پڑھ کر پاگل ہوئی جا رہی ہے "۔"یہ کمینگی تیرے علاوہ اور کس کی ہو سکتی ہے" میں مست آمیز غصے سے چیخا۔فلاں کمینوں کی طرح ہی ہنسا اور کمرے سے نکل گیا۔اگلے روز یونیورسٹی میں وہ کا رویہ میرے ساتھ خاصا عمدہ تھااور میں دل ہی دل میں فلاں کی دوستی کا قائل ہو چکا تھا۔اسی شام مجھے فلاں کا فون آیا کہ یار میں آج نہیں آرہا ۔کہاں جا رہے ہو ؟بس یار وہ کو ذرا کام تھا اس کے ساتھ جا رہا ہوں ۔میرا دل بیٹھ گیا میں جانتا تھا کہ یہ اور وہ کو فلاں سے کیا کام پڑتے تھے ۔الفاظ میرا ساتھ چھوڑ گئے اور میں اتنا ہی کہہ پایا اچھا۔"کل یونیورسٹی تیار ہو کر آنا"۔
"وہ کیوں"؟میری آواز روندھی ہوئی نکل رہی تھی جسکو چھپانے کے لیے میں گلا صاف کرنے لگا۔
"وہ سے ملنا جو ہے کل"۔میں مزید کچھ کہے سنے بنا فون بند کر دیا۔

جب تین چار بار میں نے ایسا فون سنا اور تین چار دوستوں نے اطمنان دلایا کہ یہ بھائی کا مال ہے اور تینوں چاروں بار بعد میں پتہ چلا کہ بھائی دوستوں کا ہی عرف تھا فرق صرف یہ تھا کہ اگلی بار فلاں کی بجائے ڈھمکاں تھا اور یہ کی بجائے وہ تھی اور میں بھی ہر بار ایسے ہی الو بنا جیسے الو بننا عین عبادت ہو تو تنگ آکر میں نے یہ تحریر لکھنے کا فیصلہ کر لیا۔تاکہ باقی لوگوں کو ہشیار کیا جا سکے۔ میں یہاں بقائمی ہوش و حواس یہ بتا نا چاہتا ہوں کہ آئندہ کوئی مجھے بے وقوف بنانے کی کوشش نہ کرے نہ ہمارے جذبات سے کھیلنے کی کوشش کرے ورنہ ہو سکتا ہے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر مجھے ایک بار پھر الو بننا پڑ جائے۔میرا اعتراض اپنی جگہ آخر الو برادری کے بھی احساسات ہیں انکا ہی خیال کر لیا جائے۔