October 1, 2012

انتہائی معذرت کے ساتھ (معذرت نامہ)

(Inthai Muazrat ke sath (Muazrat nama

 پچھلے دنوں پاکستان کے ایک پھیرے میں موبائل پر موصول ہونے والے پیغاماتSMS کے سیلاب میں ایک عجیب سا پیغام موصول ہوا کہ "اب پہلے سے ہی بتا رہا ہوں کہ میرے ساتھ تمیز سے رہنا اور مجھے تنگ نہ کرنا ،پھر بعد میں معافی مانگتے پھرتے ہو"۔ پیغام جب بار بار غور کرنے کے بھی سمجھ نہ آیا تو ایک بندے سے پوچھا یہ کیا بلا ہے کیا کسی نے نیند میں پیغام بھیجا ہے یا کسی اور کی جگہ مجھے بھیج دیا ہے کہ میرے ذاتی خیال میں میں ایک بے ضرر بندہ میں نے کیا کسی کو تنگ کرنا ہے۔جواب ملا کہ کہ شب برات اور 27 رمضان کے وقت ایسے پیغامات آتے ہیں کہ اگر میں نے آپ کا دل دکھایا ہو یا آپ کو تنگ کیا یا آپ ناراض ہوں تو مجھے آج رات معاف کردیں۔تو یہ پیغام اسی بارے ہے کہ بعد میں ناک رگڑنے سے اچھا ہے ابھی سے انسان کے بچے بن جائو۔

بات آئی گئی ہوگی لیکن ایک دن بیٹھے بیٹھے مجھے یاد آیا کہ کچھ عرصہ پہلے تک اکثر رسائل میں مجھے شکایت ہے کے عنوان سے مضمون پڑھنے کو ملتا تھا

 جس میں ہوتا تھا کہ مجھے شکایت ہے ان استادوں سے جو بچوں کو مارتے ہیں مجھے شکایت ہے ان انسانوں سے جو انسان نہیں بنتے وغیرہ وغیرہ تو کیوں نہ اسی کی تقلید میں ایک مضمون لکھا جائے جو ہو میں معذرت کرتا ہوں ان سے جو۔۔۔

لہذازندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ،آج ہے کل نہیں تو مرنے سے پہلے اس بلاگ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں ان تمام لوگوں سے معذرت کرنا چاہوں گا جو اکثر ہماری زبان کی زد میں آ کر اپنی نیکیوں میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔کیونکہ ہم نے سنا ہے کسی کو برے الفاظ سے بلاؤتو اسکی نیکیوں میں اضافہ اور آپ کے گناہوں کے کھاتے میں مزید کارنامے لکھے جاتے ہیں۔یاد رہے یہ معذرت نامہ تقریباً زمانی ترتیب سے ہے۔

تو سب سے پہلے میں معذرت کرنا چاہوں گا سابقہ پاکستانی ہاکی کھلاڑی قمر ابراھیم سے۔قمر ابراھیم اگر آپ کو یاد ہوتو پاکستانی ہاکی ٹیم میں رائیٹ آؤٹ Right Outکے طور پر کھیلتے تھے۔جب ہم نے ہوش سنبھالا تو ہمیں ہاکی کا خاصا شوق ہوتا تھا کیونکہ ہمارے گھر میں ہاکی اور کرکٹ خاصے شوق سے دیکھا جاتا تھا۔تب طاہر زمان رائیٹ انRight in ہوتے تھے۔شہباز سینئرلیفٹ انLeft in اور وسیم فیروزلیفٹ آؤٹ left out کھیلا کرتے تھے۔بائیں طرف سے تو ہمارا اٹیک لاجواب ہوا کرتا تھا لیکن جیسے ہی گیند داہنی طرف یعنی قمر ابراھیم کی طرف جاتی گیند اکثر آخیر میں مخالف ٹیم کے پاس ہی پائی جاتی جس پرہمیں اکثر خاصا غصہ آتا۔ہمیں سمجھ نہیں آتی تھی کہ کیا پاکستان میں رائیٹ آؤٹ کوئی اور نہیں یا انکے تعلقات اتنے اچھے ہیں کہ میدانی کارکردگی ان کے کھیلنے نہ کھیلنے کا فیصلہ نہیں کرتی(یوں تو اکثر شعبوں میں میدانی کارکردگی پاکستان میں اہمیت نہیں رکھتی لیکن تب میں بچہ تھا اور یہ بات نہیں سمجھتا تھا)۔گیند جیسے ہی قمر ابراھیم کے پاس آتی ہم کہتے اوہ قبر ابراھیم یا مانجھی پھوسی (سرائیکی میں مانجھی ،منجھ یعنی بھینس اور پھوسی گوبر کو کہتے ہیں یعنی بھینس کا گوبر۔ لیکن سرائیکی میں یہ محاورتاً استعمال ہوتا ہے جو کہ انتہائی سست بندے کو کہا جاتا ہے ، قبر بھی اسی نسبت سے کہا جاتا تھا کہ وہ زمین جنبد نہ جنبد گل محمد ہی بنے رہتے تھے)۔ تو آج میں ان سے معذرت کرنا چاہوں گا ویسے بھی میں تب سات آٹھ سال کا تھا اور تب ہمیں کیا پتہ تھا کہ آنے والے سالوں کے حساب سے تو آپ لاجواب کھلاڑی ہیں لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ اس ٹیم کے حساب سے آپ کا کھیل تھا بہت برا۔

 اسکے بعد ہم کرکٹ کی سلکشن کمیٹی selection committee اور سابقہ کپتان اور وکٹ کیپر بلے باز معین خان سے معذرت کرنا چاہیں گے۔سلکشن کمیٹی تو اب تک الٹے سیدھے القابات کی مستحق بنی رہتی ہے اور یہ معاملہ شعیب محمد کے وقت سے شروع ہوا تھا۔اور عروج پر تب پہنچا جب راشد لطیف اور معین خان کی وکٹ کیپر بننے کی کشمکش شروع ہوئی۔ ہم راشد لطیف کی عمدہ کیپنگ کی وجہ سے ہمیشہ اس کے شیدائی رہے ہیں اور معین خان سینچری کرنےکے باوجود جب جب کیچ چھوڑتے (جوکہ اکثر ہوتا تھا) ہمارے زبان کا خود بھی نشانہ بنتے اور سلیکشن کمیٹی کو بھی ساتھ اعزازات سے نوازتے جس میں سر فہرست ٹیڑھی دم کا طعنہ ہوا کرتا تھا ۔مشہور لطیفہ تو آپ نے بھی سن رکھاہو گا جس میں ورلڈ کپ 92 کے بعد عاقب جاوید وسیم اکرم سے کہتےہیں کہ یار اگر معین خان میرے کیچ نہ چھوڑتا تو تمھاری بجائے میں اس ورلڈ کپ کا سب سے زیادہ وکٹیں لینے والا ہوتاجس پر وسیم اکرم نے جواب دیا بیٹا یہ شکر ادا کرو اس نے یہ کیچ تو پکڑ لیے ہیں۔

چونکہ ہم خود بھی لولے لنگڑے کیپر رہ چکے ہیں لہذاآج بھی ہمیں کیپر وہی پسند ہے جو کیچ پکڑے بلا بھلے اسکو پکڑنا نہ آتا ہو۔تو اب جب معین خان مستعفی ہو چکے ہیں ہم ان سے ان پر کسے گئے تمام الفاظ واپس لیتے ہوئے ان سے معافی کے طلب گار ہیں مگر سیلکشن کمیٹی کو ہم آج بھی کم از کم ایمان کے نچلے درجے پر ضرور جانتے ہیں یعنی چاہے برا کہیں نہ کہیں پر برا سمجھتے ضرور ہیں۔

 میں آج اپنے سیاستدانوں سے بھی معذرت کرنا چاہوں گا اور امید واثق ہے کہ انکے عملوں (اعمال) طفیل آئندہ بھی معذرت خواہ رہوں گاکہ جس دن اخبار پڑھ لوں اس روز ہمارے سیاستدان مجھے اپنی زبان گندی کرنے کا بھرپور موقع فراہم کرتے ہیں۔یہ تو میری خوش قسمتی یا سیاستدانوں کی بدقسمتی سمجھیں کہ ہماری گالیوں کی استعداد فقط کمینہ، ذلیل اور پاغل جیسے الفاط تک ہی محدود ہے اس لیے میرے خیال میں مجھے کم گناہ اور انکو کم ثواب ملتا ہوگا پر انہوں نے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ویسے۔

 اللہ کے کرم سے ہم پاکستان میں کم کم رہتے ہیں جس وجہ سے واپڈا اور ہمارا کھاتہ اتنا خراب نہیں۔ورنہ انہوں نے تو سیاستدانوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ادھر بجلی گئی ادھر ہماری زبان پھسلی۔تبھی تو کسی نے سنایا کہ بجلی جانے پر ایک شخص نے واپڈا فون کیاواپڈا والے نے کہا کہ السلام و علیکم، فون کرنے والے نے کہا ہمارے علاقے میں لائیٹ نہیں ہے۔واپڈا والےنے کہا بھائی سلام کا جواب تو دے دو۔وہ بولا ناں واپڈا والوں پر سلامتی بھیج کر میں پاکستانی عوام سے غداری نہیں کر سکتا۔لوڈ شیڈنگ کے زمانے سے پہلے ہم گاؤں میں رہتے تھے ادھر ہوا تیز چلی ادھر بجلی" گُل ٹَم" آندھی اور طوفان تو دور کی بات ہے تو واپڈا والوں سے تھوڑا بہت سہی تعلق اپنا پرانا ہے۔ویسے واپڈا کی مخالفت واحد شے ہے جس پر ہم پاکستانی متفق ہے۔

میں امریکہ سے بھی معذرت کرنا چاہوں گا کہ آپ کو ہمیشہ امبریکہ لکھتا ہوں لیکن اس میں کچھ قصور آپکی سیاست کا ہے اور کچھ بھارتی پنجاب کے تلفظ کا ہے۔باقی آپ تو دنیا کے مالک بنے ہیں پرائے معاملات میں دخل اندازی کرتے ہیں تو آپکو فوج ہلاتے تکلیف نہیں ہوتی ہماری تو فقط زبان ہلنی ہوتی ہے۔

میں آج ملتان پبلک اسکول کے استاد صاحب قاسم قریشی صاحب سے بھی معذرت کرنا چاہوں گا کہ بڑی لام کاف کی ہے آپکے بارے اور جو آخری سالانہ تقاریر میں میں نے جو کہا تھا کہ استاد ٹیوشن کی شکل میں رشوت لیتے ہیں وہ بھی آپکے بارے ہی کہا تھا اور سلیمان عمر کو آپکو فیس ادا نہ کرنے پر شاباش دی تھی۔لیکن آپ نے بھی تو کی پوری سوری تھی۔لہذا اگر آپ یہ بلاگ پڑھیں تو ہمارے تمام غائبانہ القابات جن سے ہم نے آپکو نوازا معاف کر دیں لیکن احتیاطاًبتائے دیتے ہیں کہ آئندہ بھی کوئی پوچھے گا تو ہم صاف صاف کہہ دیں گے کہ قاسم صاحب استاد اور بندے ٹھیک نہیں۔

میں یہاں پر ان انکل اور آنٹی سے بھی معذرت کرنا چاہوں گا کہ چھ سات سال پہلے جب ملتان میں شدید بارش ہوئی تھی تو نیل کوٹ میں حسب معمول گٹھنوں گٹھنوں پانی کھڑا ہو گیا تھا اور میں نے گاڑی آہستہ آہستہ چلاتے میں نے تنگ آکر ایکدم پانی سے بھرپور رفتار سے گزاری۔یقین مانیے میرے فرشتوں کو بھی گمان نہ تھا کہ ایسا پانی اڑے گا کہ آپ رکشے کے اندر بیٹھے بیٹھے نہا جائیں گے۔اور تب روکنا تو ویسے ہی کُٹ کھانے کے برابر تھا تو میں عافیت اسی میں سمجھی کہ اسی رفتار کھسک لیا جائے (حالانکہ اس رفتار پر کھسکنا کی بجائے فرار لفظ مناسب رہے گا) لہذا آج میں آپ سے معذرت کرنا چاہتا ہوں کہ میری نیت ہرگز ایسی نہ تھی بس اندازے کی غلطی مہلک ثابت ہوئی ۔مجھے کہا پتہ تھا دس دس فٹ دائیں بائیں والے بھی بغیر بارش کے بعد بارش کے پانی سے بھی لطف اندوز ہو لیں گے۔

 سب سے آخر میں میں اپنے بلاگ کے قارئین سے بھی معذرت کرنا چاہوں گا کہ جنکو جھوٹ سچ ملا ملاکر الٹی پلٹی کہانیاں سناتا رہتا ہوں ، اور سنا ہے کچھ لوگ تو ہمارے سفر نامے پڑھ پڑھ کر یورپ کا قصد کر بیٹھے ہیں تو اگر وہ یہاں پہنچیں اور ایسا نہ پائیں جیسا ہمارے قصوں میں ہوتا ہے تو بھائی معافی کا طلب گار ہوں پر کیا کروں اگر رنگینی نہ ڈالوں تو سنگینی کون پڑھے گا؟اور ان سے بھی معذرت جو میری تحریروں پر اعتراض کرتے ہیں کہ بھائی صاحبان لکھوں گا بھی سہی اور لکھوں گا بھی ایسے ہی۔ پیشگی معذرت۔