اس ڈبے میں موجود تمام افراد کی نظر اس لڑکی پر تھی۔لیکن مجھے ان سب سے زیادہ غصہ اس لڑکی پر تھا جو سب کچھ جانتے بوجھتے بھی انجان بنی بیٹھی تھی۔بجائے اس کے وہ محتاط ہوتی ،خوفزدہ دکھتی یا سہمی لگتی وہ تو ایسے اطمنان سے بیٹھی تھی جیسے تمام اشارے کنایے اس کی بجائے کسی کھڑکی کے لیے کیے جا رہے ہیں،فضول قہقہے اور سرگوشیاں گارڈ پر کی جارہی ہوں اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر گھورا ٹرین کے ڈبے کو جا رہا ہوجس میں ہم سب سوار تھے ، ایک خوبصورت سی لڑکی کو دیکھ کرحسب معمول سب اپنی اپنی مردانگی دکھانے پر تل گئے تھے۔
کچھ دیر تو میں کڑھتا رہا کہ مرد ہونا ہی باعثِ شرم ہے لیکن جب اس لڑکی کی طرف سے کسی قسم کی جھجک دیکھنے کو نہ ملی تو میرا غصہ ساتویں آسمان پر جا پہنچا ،اچھا یوں تو یوں سہی،اگر اس کو اپنی عزت کی کوئی پرواہ نہیں تو ایسے سہی۔
دیکھنا ہمارے مہمانوں کو کوئی تکلیف نہ ہو میں جو اس کے ساتھ والی سنگل سیٹ پر بیٹھا تھااس کے سامنے والی سیٹ پر
بیٹھے ہوئے لوگوں سے بولا۔ناگواری برداشت کرتے ہوئے انہوں نے جواب دیا کون مہمان؟میں جو اب اس لڑکی کو اس کی بے فکری کی سزا دینے پر تل گیا تھا کاری وار کرتے ہوئے ہوئے کہا یہ جو اماں جی بیٹھی ہیں اور کون۔اشارہ اس کے ساتھ بیٹھی معمر خاتون کی طرف تھاجو خدا جانے اس کی والدہ تھیں یا کوئی اور۔
جیتے رہو بیٹے پر تمھارے شہر کے لوگ ہیں بڑے آنکھ پھٹ۔اس کی بات سن کر مجھے اس لڑکی کی بے باکی معصومیت لگنے لگی تھی ،جہاں ماں ایسی تھی وہاں بیٹی نے ایسا ہی ہونا تھا۔اتنے میں وہ لڑکی بولی پلیز آپ ہمارے خیر خواہ کو یہاں آنے دیں ناں۔اب تو فرار کا رستہ ہی نہ بچا تھا۔اندر سے مردانگی نے سر اٹھا یا اور دل نے کہا اچھا بی بی تم کو نہ پٹایا تو کچھ نہ کیا۔بات خیر خواہی کی نہیں ہے بلکہ عزت کرنے کی ہے۔میں جو اب پوری طرح میدان میں اتر چکا تھا اس کے سامنے بیٹھتا ہوا بولا۔پنجابی مرد لڑکی کو چھیڑے بنا نہیں رہ سکتا ،سرائیکی مرد رال ٹپکائے بغیر نہیں رہ سکتاتاہم پٹھان لڑکیوں میں اتنی دلچسبی نہیں رکھتا۔کیا اسکی وجہ اس کی لڑکوں میں دلچسبی تو نہیں اس نے ہنستے ہوئے میرے مفروضے پر سوال داغا۔نہیں کچھ حد تک تو ہے یہ لیکن زیادہ تر ان کی مردانگی اس بات کو گوارہ نہیں کرتی کہ جنسِ کمزور کو اہمیت دی جائے۔
آپ کس فہرست میں آتے ہیں ۔اس نے ہنستے ہنستے اور وار کیا۔Exceptnioal case ۔میں نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔میرے اندازے کے مطابق پہلے راؤنڈ سے با آسانی میں دوسرے راؤنڈکے لیے کوالیفائی کر چکا تھا۔لڑکی ہنس پڑی اور بولی میرا نام سعدیہ ہے اور یہ میری والدہ ہیں۔میرانام نوید ہے اور میں ذاتی کاروبار کرتا ہوں ۔چین سے موبائل کے آلات منگوا کر یہاں سپلائی کرتا ہوں۔اس کے بعد اس کی والدہ نے بھی اظہار دلچسبی کیا اور مجھ سے میرے بارے اور میرے خاندان کے بارے میں کئی سوال پوچھے۔پندرہ منٹ کی گفتگو کا حاصل یہ تھا کہ میرے مرحوم والد سعدیہ کی والدہ کے ماموں کے بیٹے کے بڑے اچھے دوست تھے اور اکثر ان کے گھر آیا جایا کرتے تھے اور میرے پرس میں میرے والد کی تصویر دیکھنے کے بعد انہوں نے بتایا کہ ایک شادی کے موقعے پر وہ خود ان سے مل چکی ہیں۔سعدیہ بھی گفتگو میں بھرپور حصہ لے رہی تھی اور گاہے بگاہے ایسا جملہ بولتی کہ ہم ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتے۔گویا میں انکو پھنسا رہا تھا اور وہ میرا شکار کھیل رہے تھے۔میں دل ہی دل میں خود کو بھرپور داد دے رہا تھا کہ بڑی بے نیاز بنی بیٹھی تھیں آخر جھکنا ہی پڑا ناں۔عورت کو عورت ہی رہنا چاہیے اور مرد کے سامنے اس کی حیثیت ہی کیا ہے۔
ٹرین نے سیٹی بجائی اور رینگنے لگی۔سعدیہ کی والدہ منہ ہی منہ میں دعائیں پڑھنے لگی۔میری چھاتی جتنی چوڑی ہو سکتی تھی اتنی ہو چکی تھی۔سعدیہ بولی ایک منٹ پلیز۔وہ کھڑی ہوئی اور برتھ سے لٹکتے ہوئے بیگ سے سکارف نکالا اور سر پر اوڑھ لیا۔میں مونچھوں کوتاؤ دینا چھوڑ کر اس کی طرف دیکھنے لگا۔اس کے بعد اس نے بیگ سے چھوٹا جیبی سائز قرآن شریف نکالا اور پڑھنے بیٹھ گئی۔میں اٹھا ،اپنا سامان کندھے پر ڈالا اور رینگتی ہوئی گاڑی سے پلیٹ فارم پر چھلانگ لگا دی۔