October 11, 2012

ایک بی بی کی تالِن چڑیا گھر میں مشکوک حرکات اور ہمارے مفروضے

Aik bibi ki Tallinn chirya ghar (zoo) main mashkook harkat or hamary mafrozy


 اتفاق سے ہمارا اپنے ہم ذاتوں یعنی انسانوں سے تعلق کوئی قابل رشک نہیں رہا لہذا ہم ایسی جگہوں پر جانا پسند کرتے ہیں
جہاں انسانی آبادی کم ہو۔یوں تو اس مقصد کے لیے جنگل بہترین ہیں لیکن جنگل ذرا دور دراز علاقوں میں پائے جاتے ہیں اور امی نے اکیلے ویران جگہوں پر جانے سے منع کیا ہوا ہے لہذا ہم درختوں سے ملاقات کے لیے پارک اور جانورں سے ملاقات کے لیے چڑیا گھر یعنی زوو zoo چلے جاتے ہیں۔

 ایسی ہی ایک ملاقات کے لیے ہم ایستونیا میں قائم واحد چڑیا گھر تالِن میں چار ٹانگوں والے جانوروں سے ملاقات کے سلسلے میں جا پہنچے۔وہاں پر دیکھا ایک بی بی ایک سفری بیگ گھسیٹے جا رہی ہیں ۔ اب ایسے بیگ لیے لوگ ہوائی اڈوں ، بس اور ٹرین کے اڈوں پر تو نظر آتے ہیں لیکن چڑیا گھر میں؟؟ ہم بڑے حیران ہوئے کہ ماجرا کیا ہے اور ہم ان کے پیچھے پیچھے چل پڑےلیکن پندرہ بیس منٹ ضایع کرنے کے بعد بھی بات نہیں کھلی اور رات کو ہم نے گھر آ کر خاصا سوچا جس سے معاملہ تو نہیں بنا یہ بلاگ بن گیا جو آپ کی خدمت میں پیش ہے۔



اب جو وجوہات اس بیگ کو ساتھ لیے پھرنے کی ہماری ناقص عقل میں آئیں وہ درج ذیل ہیں۔ اب اگر وہ خاتون مسلمان ہوتیں تو سارا مسئلہ پہلی نظر میں ہی حل ہوجانا تھا کہ کہ ہو نہ ہو بیگ میں بم ہے۔اب یہ موقع دیکھ کر خود جنت اور باقیوں کو جہنم میں پہنچائیں گی یا پھر خود جہنم میں یعنی اس پاپی دنیا میں رہیں گی لیکن دنیا کو کافروں سے پاک کر کے رہیں گی۔لیکن چونکہ وہ مسلمان نہیں اس لیے بمپ(بم) بازی بھی گئی اور یہ امکان بھی گیا کہ کسی اور کے مال پر ہاتھ صاف کر کے آئی ہیں کیونکہ دوسروں کا مال کھانابھی عام طور پر صرف مسلمانوں کو جائز ہے۔

ویسے تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ ڈان DON قِسمی خاتون ہیں جو بیگ میں ہیروئین بھرے کسی پیسے بھرے بیگ سے تبدیل کرانے پھر رہی ہیں لیکن پیچھے سے تصویر دیکھ کر مشوم سی لڑکی لگتی ہے اور میں نے تو شکل بھی دیکھی تھی میرا دل تو نہیں مانتا۔

ایک امکان یہ بھی ہے وہ کھانے پینے کا سامان بھر کر اس تھیلے میں لائی ہوں گی جیسے ہمارے ہاں پکنک پر جاتے ہیں۔لیکن اکیلی جان ، پتلی پتنگ مٹیار کتنا کھا لے گی۔اس کو تو دیکھ کر وہ ماڈل یاد آتی ہے جو ٹماٹر کھا کھا کر مر گئی تھی مگر جسم کو فربہہ نہیں ہونے دیا تھااور پھر پاکستان بھی نہیں کہ کسی حکیم سے رابطہ ہو کہ جو کھائو لکڑ ہضم پتھر ہضم اور بندہ بھی سوکھا کانگڑی۔

ایک بات یہ بھی ہو سکتی ہے کہ گھر سے ناراض ہو کر آئی ہوں کہ بس اب میرا یہاں گزارا نہیں اٹھایا بیگ اور چل پڑیں۔لیکن بھاگ کر چڑیا گھر آنے کی کیا تُک؟ نہ بی بی سسرالی طرف سے نہ میکہ کی طرف سے چڑیا گھر کی لگتی ہیں اور پھر نہ دوست نہ سہیلی؟نہ والدین ہیں نہ یار (بوائے فرینڈ)؟ اور ناراض ہو کر پانچ یورو کا ٹکٹ بھر کر چڑیا گھر آنے سے بہتر یہ نہ ہوتا کہ چڑیا گھر کے بالکل سامنے سمندر کنارے چلی جاتیں مفت پارک میں گھومتی رہتیں اور اور زیادہ ہی دلبرداشتہ ہوتیں تو خلیج فن لینڈ کے ٹھنڈے یخ پانی میں غوطے لگا کر دنیا اور سامان دونوں سے نجات حاصل کر لیتیں اور ہم بھی اس بلاگ کے لکھنے سے نجات پا لیتے۔

اب اگر یہ بی بی پاکستان میں ایسے بیگ اٹھا کر گھوم رہی ہوتی تو بمپ والا فارمولا ان پر نہ لگتا تو یہ بات تو طے تھی کہ موصوفہ گھر سے بھاگ آ رہی ہیں کہ ہماری طرح ڈالے سارے زیور جو اماں نے شادی کے واسطے بنائے تھے بیگ میں اور پہنچ گئے مقرر کردہ جگہ ۔اور دو تین ہفتے خجل خوار ہو کر خاندان کی دونمبر عزت اور شادی کا ایک نمبر زیور قربان کر کے لوٹ کہ بدھو گھر کو واپس۔لیکن یہ پاکستان نہیں جہاں مائیں بیٹیاں پیدا ہوتے ہی جہیز کی تیاری شروع کر دیتی ہیں کہ لڑکی ہو نہ ہو جہیز ہونا شادی کے لیے ضروری ہےاور دوسرا یہاں بھاگنے کی کیا ضرورت ہے۔یہاں تو چودہ پندرہ سال کی لڑکی گھر آ کر کہتی ہے مام میٹ مائی نیو بوائے فرینڈMom meet my new boy friend. (اماں ادھر آ کرمیرے نئے یار سے مل۔)

 ایک آخری وجہ جو میرے دماغ میں آتی ہے یہ ہو سکتی ہے کہ بی بی میری طرح انسانوں سے ستائی ہو ہیں اور نروان کی تلاش میں میری طرح جنگل دور ہونے یا امی کے منع کرنےکے باعث چڑیا گھر چلی آئی ہیں اور سوچا ہو گا کہ کوئی خالی پنجرہ دیکھ کر وہیں ڈیرہ لگا لوں۔حالانکہ جیسے چڑیا گھر میں لوگ ہم کو حیرت سے دیکھ رہے تھے پنجرے میں قیام ہمارا بنتا ہے کہ کہ چڑیا گھر کی ٹکٹوں کی فروغت میں بھی اضافہ اور مفت میں پنجرہ بھی پُر۔ اگر بی بی کو اتنا ہی سکون چاہیے تو پہلے انسانیت کی خدمت کرے،ایک پردیسی چڑیا گھر میں مارا مارا پھر رہا ہےکچھ اس بیچارے کی دلبستگی کا سامان کرےاور اگر انسانیت سے اتنا ہی تنگ آ چکی ہے تو سامان کی کیا تک ہے؟پھینکے سامان اور لے ویرانوں کی راہ کہ کسی نے ایک بار بدھا سے پوچھا (جھوٹ سچ فیس بک شیئر کرنے والوں کا)کہ آئی وانٹ پیس I want peace (مجھے سکون چاہیے)انہوں نے جواب دیا کہ میں مارو تو کچھ ملے گا اور وانٹ تو ویسے ہی غیر ضروری ہوتی ہیں لہذا باقی کیا بچا پیس بس اتنی سی بات ہے تم لوگ اس کے لیے ٹرنکولائزرز tranquilizer(سکون آور جڑی بوٹیاں )کھاتے رہتے ہو۔

لیکن ہو سکتا ہے یہاں بھی بی بی میری طرح الٹے دماغ کی حامل ہواس کو بھی اسی خیال نے ستایا جس وجہ سے وہ سامان ساتھ لیے پھررہی تھیں کہ بدھا کو انگریزی کہاں سے آتی تھی اور دوسری بات کہ وہ سوال پوچھنے والا قبل مسیح کا پاکستانی ہو جس نے امن والے پیس کا نہیں بلکہ ککڑ یعنی مرگے(مرغے)والے بروسٹ پیس کا پوچھا ہو پھر؟ اور اگر اتنے ہی ہمارے خیالات ملتے ہیں تو پھر ایک ملاقات تو بنتی ہی ہے کیا کہتے ہیں؟مانگوں فون نمبر؟