Chothi saal girah aur 2013 ka behtreen Urdu blog
4 جنوری 2010 کو میں نے پہلا بلاگ شایع کیا تھا تو اس لحاظ سے آج اس طرف سے لکھتے ہوئے چار سال مکمل ہوگئے۔ چوتھی سالگرہ کا سب سے اچھا تحفہ یہ رہا کہ "اس طرف سے" کو سال 2013 کا بہترین بلاگ قرار دیا گیا۔
اللہ جانے کن 72 لوگوں نے ووٹ ڈالا اور 72 لوگوں نے ہی ووٹ ڈالے یا ایک ہی بندہ 72 ڈال کر چلتا بنا لیکن جمہوریت کا سب سے بڑا مزہ ہی یہی ہے کہ جو جیت گیا سو جیت گیا اور ایسے ہی میرا بلاگ بھی بہترین بلاگ کا انتخاب جیت گیا۔
بلاگ لکھنے کی کہانی تو آپ سینچری بلاگ میں پڑھ چکے ہیں لہذا کہی باتیں دوہرانے کا فائدہ نہیں۔ البتہ یہ چار سال بہت ہی عمدہ رہے۔ کئی عمدہ لوگوں سے ملاقات ہوئی، چند ایک اچھی تحاریر بھی لکھی گئیں، افسانوں کی کتاب شجر محبت بھی شایع ہو گئی پر کئی بار دل چاہا کہ سب کچھ تیاگ کر بلاگ کو لپیٹوں اور اپنے سر سے یہ بوجھ اتار پھینکوں، کبھی خیال آیا کہ جو 35 بلاگ تھوڑے بہت آدھے ادھورے لکھے ہیں سب ایک ہی بار پوسٹ کر دوں تاکہ جان چھوٹے لیکن ادھر بھی لکھنے کی لت لگ چکی تھی اور ہر بار ایسی لت (پنجابی والی) لگتی کہ ہم اس کی ضرب سے اڑ کر دوبارہ اسی بلاگ پر آ پڑتے اور اسی منہ سے ایک بلاگ پوسٹ کر کے آئندہ توبہ کرنے کا منصوبہ سوچنے لگتے۔
جب کتاب شجر محبت چھپی تو دماغ پر ایسا غبار چڑھا کہ پانچ چھ ماہ تک ایک بھی نیا بلاگ دماغ میں نہ آیا اور پرانے آئیڈیاز سے کام چلاتا رہا آخر کار ساٹھ کے قریب افسانے لکھ کر منکو (ٹارزن فیم) کی واپسی ہوئی اور دماغ اسی مستعدی سے بلاگ گھڑنے لگا جیسا کتاب سے پہلے تھا اور اس وقت ممکنہ اشاعت میں 40 سے زائد بلاگ مکمل یا آدھے تیار پڑے ہیں۔
دیکھیں پانچویں سالگرہ تک پہنچتے پہنچتے کیا ہو کہ پانچ سال کی عمر میں بچے لڑکپن میں داخل ہونے والے ہوتے ہیں۔
تمام تر پراگندی کے باوجود پچھلے سال پہلی بار ایک سال میں پچاس بلاگ شایع کیے اور بلاگ پر آنے والے مہمانوں یعنی وزیٹرز کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچا چاہتی ہے اور یہ ایک سو چوبیسویں پوسٹ ہے یعنی اگر بے دلی کا یہ عالم ہے تو اگر مکمل چاہت پیدا ہو گئی تو کیا ہو گا؟ توبہ کا مقام ہے صاحبان بس۔
ادھر ایوارڈ میں یہ ہوا کہ میرے لیے شروع سے ہی یہ بات سوہان روح بنی رہی کہ اگر میں کسی طرح جیت بھی پایا تو کیسے سامنا کروں گا کیسے کہوں گا کہ ہاں جی میں نے بڑا تیر مارا ۔ میں اس ایوارڈ کا حقدار تھا، میرے جیسا مزاح کون لکھ سکتا ہے یا پھر نہیں جی یہ تو آپ کی مہربانی ہے، میں عاجز اس قابل کہاں، خاکسار پر آپ نے ذمہ داری ڈال دی وغیرہ وغیرہ
اس لیے میں نے منتظمین سے کہا کہ مہربانی کر کے "اس طرف سے" کو اس طرف نہ ڈالا جائے اور ہمیں جیوری میں شامل کر لیں کہ یوں ہم خود ہی نا اہل ہو جائیں گے۔ لیکن ان کو بھی ہمارا امتحان مقصود تھا اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ ایوارڈ عوامی ووٹ پر دیا جائے گا۔ جب مقابلہ ہوا تو عمر بنگش اور ریاض شاہد ہمارے مقابل آ گئے ۔ اب بھلا ایسے لوگوں کے مقابلے بندہ کیا ووٹ مانگے شاید ان کو ایسا خیال آیا کہ ان کے ساتھ وہ والا ہاتھ ہو گیا ہے کہ کسی زیرک بندے کا کسی نادان سے مقابلہ قرار پا جائے اور وہ عقلمند جیتے یا ہارے دونوں صورتوں میں اس کا کوئی فائدہ نہ ہو اس لیے انہوں نے بھی ووٹ نہ مانگے نہ کوئی مہم چلائی۔
ان کے ووٹ نہ مانگنے سے ان کے میگا قارئین ووٹ ڈالنے ہی نہ آئے اور ہمارے کل ستر بہتر قارئین جو ہمیں شرمندہ کرانے پر تلے تھے سب ووٹ ڈال گئے اور نتیجہ یہ ہوا کہ 2013 کا بہترین بلاگ احمقوں کی جنت میں رہنے والوں کو مل گیا۔
بہرحال میں اپنے قارئین کو بلاگ کی سالگرہ کی مبارکباد دینا چاہتا ہوں کہ یہ صرف وہی ہیں جن کی وجہ سے میں نیا بلاگ پوسٹ کرنے پر مجبور ہو جاتا ہوں اور انہی کی پسند پر یہ بلاگ یہ انعام جیت پایا ہے۔ آپ لوگوں کا بہت بہت شکریہ۔ان کی نذر دعاعیں ہیں یا یہ تصویر کیک باقی غریب کیا دے سکتا ہے کسی کو۔
میں منظرنامہ والوں کو اس موقع پر کہنا چاہتا ہوں کہ اگر ممکن ہو تو آئیندہ اس بلاگ کو کسی ایوراڈ میں نامزد نہ کیا جائے تو عین نوازش ہو گی ورنہ ماریں دوسروں کا حق ہمارا کیا جاتا ہے۔