jeetna hamara hafta e khail main hockey ka muqabla
تو ہمارے ملتان پبلک اسکول میں ہر سال ایک اسپورٹس ویک Sports weak یعنی ہفتہ کھیل منعقد ہوا کرتا تھا جس میں تمام کلاسیں ناک آؤٹ کی بنیاد پر کرکٹ، ہاکی، فٹ بال ،والی بال وغیرہ میں ایک دوسرے کے مقابل آیا کرتی تھیں۔
دسویں جماعت میں ہماری کلاس والوں نے ہمیں کوئی خاص گھاس نہ ڈالی اور بارہویں کھلاڑی کے طور پر ہم نے ہاکی میں اپنی ٹیم کو مخالف ٹیم سے شکست کھاتا دیکھا اور ہمارے ہفتہ کھیل کا اختتام ہو گیا۔
اگرچہ ایف ایس سی میں کلاس میں ہماری خاصی چلتی تھی لیکن میری توجہ اسکول سے زیادہ تب میرے کاشت کیے ہوئے دھان (چاول) پر تھی جس وجہ سے میں محض کرکٹ کا میچ ہی کھیل پایا اوراس میں شکست کھا کر اس سال کا ہفتہ کھیل بھی گزر گیا۔البتہ ہاکی میں ایک یادگار واقعہ ضرور ہوا تھا جس کو میں اپنے بلاگ میرا دوست سلیمان عمر میں درج کر چکا ہوں اس میچ کی خصوصیت یہ تھی کہ میچ ریفری قاسم صاحب نے پندرہ منٹ بعد ہی سلیمان عمر کی زیر کپتانی کھیلنے والی ہماری سال اول کی ٹیم کو کھیلنے سے روک کر میچ کا فاتح مخالف ٹیم کو قرار دے دیا۔
سال دوئم میں ہم نے اپنی تمام تر توانائی ہفتہ کھیل پر خرچ کرنے کی ٹھانی اور ہم نے اعلان کیا کہ ہم ہفتہ کھیل میں ایک بھی ناغہ نہیں کریں گے۔ہفتہ کھیل شروع ہونے سے چند دن قبل نعمان اور نعیم میرے پاس آئے (یاد رہے کہ میں نعمان اور نعیم انتہائی گہرے دوست ہیں اور ہماری دوستی اسکول کے زمانے سے چلی آ رہی ہے۔ایک وقت میں تو ہم بھائیوں سے قریب ہو گئے لیکن بعد میں ہمارے بیگمات کے اپنے اپنے طریقے سے سمجھانے پر ہم بتد ریج دوستی کی طرف لوٹ آئے)اور بولے کہ کرکٹ کا کپتان تو نعمان خان بن گیا ہے ہاکی ،فٹ بال میں سے تم جو چاہو کپتانی رکھ لو۔میں نے سوچا نعیم فٹ بال اچھا کھیلتا ہے اور میں دونوں برے کھیلتا ہوں لہذا میں ہاکی لے لیتا ہوں ویسے بھی شہباز سینئر کے بعد سب میرے جیسے ہی کھلاڑی ہی آرہے ہیں لہذا ہاکی میری تے فٹ بال نعیم کی۔
یوں ہم جس غیر جمہوری طریقے کے تحت کھیل سے نظر انداز کیے جاتے رہے تھے اسی غیر جمہوری طریقے سے کپتان بن گئے۔
نعمان خان کو ایک تو مجھ سے شکایت ہے کہ میں باتیں کرتا ہوں اور کام وام کچھ نہیں کرتا دوسرا اسکو بڑا بننے کا بھی شوق ہے تیسرا میری ہمدردی میں وہ مجھے ایک استاد صاحب کے پاس لے گیا کہ سر ہمیں ہاکی کی پوزیشنز Positions تو سمجھا دیں۔انہوں نے کاغذ پر ایک نقشہ بنا کر دے دیا جس پر ہر پوزیشن کا احاطہ کیا ہوا تھا۔اب مجھے ویسے ہی میچ دیکھ دیکھ کر کچھ کچھ اندازہ تھا باقی استاد صیب کے نقشے کو دیکھ کر یاداشت تازہ ہو گئی میں نے باہر نکل کر اس صفحے کے آٹھ ٹکڑے کیے اور نعمان کو تھما کر کہا ہاکی کا کپتان مجھے بنا یا ہے تو کپتانی بھی مجھے ہی کرنے دو تم کرکٹ سنبھالو میرے کام میں مداخلت مت کرو۔ اور میری ہاکی کھیلنے پر شک نہ کرو کہ میں نے تو پیدا ہونے کے بعد پہلی شے جو طلب کی تھی وہ ہاکی اسٹک تھی۔
نعمان کو غصہ بھی بڑا آیا اور چار بندوں کے درمیان بے عزتی پر شرمندگی بھی ہوئی پر چپ کر گیا کہ خود کپتانی سونپی تھی ہم نے تھوڑی ناں کہا تھا۔
پریکٹس میچ میں ہی ہم کو پتہ لگ گیا کہ ہم سب ہی نورے ہیں اور پورے ثورے ہیں البتہ ایک لڑکا احمد بہت ہی اچھی ہاکی کھیلتا تھا لیکن وہ کھیلتا رائیٹ آئوٹ Right Out تھا۔یعنی ڈی کے اندروہ نہیں آتا تھا وہ داہنی طرف سے ڈی میں کراس پھینکا کرتا تھا۔لیکن مسئلہ یہ تھا کہ گڑھوں سے بھرے ہوے اس گراؤنڈ میں کون اتنے تیز کراس کو کھیلنے کی کوشش کرے۔
اب ہم نے گیم پلان یوں بنایا کہ نعیم کو سینٹر ہاف Center Half بنا کر چار لڑکے اور دفاع اسکے حوالے کر دیا۔
نعمان جس کے لیے ایک جگہ ٹک کر کھیلنا ناممکن تھا جسکا بس چلتا تو نوے کے نوے منٹ گیند کسی اور کو نہ دیتا کو نعیم اور احمد کے درمیان رابطے کا ذریعہ بنایا اور حتمی کام ہوتا تھا گیند احمد کو دے دی جائے۔
احمد کے پاس گیند آتی تو مخالف ڈی میں گیند کو جانے سے کوئی نہ روک سکتا خواہ وہ احمد پر کتنی ہی مارکنگ Marking کرتے۔اب آخر میں میں خود بطور لیفٹ آؤٹ Left Out، ایک لیفٹ ان Left in,، ایک رائیٹ ان Right in اور ایک سینٹر فارورڈ قسم کی شے نعمان ڈی میں موجود ہوتے جو احمد کے کراس پر ہوا میں ہاکیاں گھماتے اور اکثر کسی نہ کسی کی لگ ہی جایا کرتی اور ہمارا گول ہو جاتا۔
اس سیدھے سادھے کھیل کے ساتھ ہم جیتتے چلے گئے۔
ایک میچ سے قبل ہمارے ایک ہم جماعت علی محمد صاحب بولے ویسے تو انکو کپتان ہونا چاہیے کیونکہ وہ لاجواب کھیل پیش کر سکتے ہیں جو اسکول میں کسی کے بس کی بات نہیں تاہم وہ قربانی دے کر بطور کھلاڑی بھی کھیل سکتے ہیں۔اب نعمان چاہتا تھا تمام کلاس اکٹھی چلے جس پر اس نے بھی علی محمد کی سفارش کر دی۔غصہ تو مجھے خوب آیا لیکن میں خود صفحے پھاڑنے والے واقعے پر ذرا پشیمان تھا تو میں نے سوچا چلو حساب برابر کر دیتے ہیں۔یوں علی محمد بھی ٹیم میں آگیا ورنہ میرا ارادہ پہلے اسکا ٹرائل لینے کا تھا۔(میری کمینگی)۔
لیکن علی محمد کا کھیل واقعی اچھا تھا اور اتفاق سے وہ میچ پنلٹیوں پر پہنچ گیا۔ میں نے سب سے پہلے اپنا نام رکھا ، پھر علی محمد، پھر نعیم اور پھر نعمان۔
میں نے پہلی پنلٹی لگائی اور یہ سوچتا ہی رہا کہ دائیں ماروں یا بائیں اور اسی الجھ میں گیند کیپر کو دے ماری۔میرے بعد علی محمد نے با آسانی گول کر کے مجھے فاتحانہ نظروں سے دیکھا ۔آگے بھی میں ہی تھا۔ میں نے ایسے شاباش دی جیسے کوئی بزرگ کسی بچے کی معمولی بات پر فقط بچے کی حوصلہ افزائی کے لیے شاباش دیتا ہے۔اسکے بعد نعیم اور نعمان نے گول کر کے میچ ہمارے نام کر دیا۔
فائنل میچ میں ہم 2-0 سے ہارنے لگے تو میں نے سوچا اب کیا کیا جائے۔ میں نے نعیم کو کہا دفاع کو مارو گولی اور آگے آؤ کسی طرح سے احمد کو پاس پہنچاؤ۔ ویسے ہی دو گولوں سے ہار رہے ہیں یہ آخری کوشش کر کے دیکھ لیں۔ نعیم بھی اچھی ہاکی کھیلتا تھا اور یہ ترکیب اثر کر گئی اور پانچ ہی منٹوں میں احمد کے دو تین کراسوں کی بدولت ہم کو پنلٹی اسٹروک Penalty Stroke مل گیاکیونکہ جیسے ہمارے لیے احمد کے کراس سوہان روح بن جاتے تھے کہ انکو قطع کیسے کیا جائے ایسے ہی مخالف ٹیم والوں کے لیے بھی وہ وبال جان ہوتے تھے کہ روکیں تو مصیبت جانے دیں تو عذاب۔
میں نے نعیم کو اسٹروک لگانے کا کہا جس پر نعمان مطمعن نہ دکھائی دیتا تھا اور پھر نعیم صاحب نے گیند گول سے اوپر پھینک دی۔ تمام ٹیم کو مجھ پر شدید غصہ آیا نعمان نے ہاکی زور سے زمین پر دے ماری کہ کیا فارغ کپتانی کا مظاہرہ کر رہاہوں کہ اس کو کاغذ والا غصہ بھی تھا لیکن یقین مانیے مجھے ذرا بھی افسوس نہیں ہوا کیونکہ ہمارا ردھم بن چکا تھا اور مجھے پورا یقین تھا کہ ہم میچ جیت جائیں گے اور وہی ہوا میچ کے اختتام پر ہم 4-2 سے فاتح کے طور گرائونڈ سے نکلے اور یوں ہم اسکول کے چیمپئن قرار پائے۔
جب میں ہیڈ ماسٹر صاحب سے انعام وصول کرنے گیا تو وہ مجھے دیکھ کر حیران سے ہو گئے کیونکہ انہوں نے مجھے محض اسکول کی طرف سے تقریریں کرتے ہوئے دیکھا تھا اور اسکول اساتذہ کے خیال میں میں ایک انتہائی شریف پڑھائی سے کام رکھنے والا طالب علم تھا جبکہ طلبا مجھے شعلہ بیان مقرر کی حیثیت سے جانتے تھےوہ بولے آپ تھے ہاکی کپتان؟ مائیک چل رہا تھا میں نے نعمان خان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا آپ کیا سمجھتے ہیں ہم صرف تقریریں کر سکتے ہیں میں نے تو پیدا ہونے کے بعد پہلی شے دودھ کی بجائے ہاکی طلب کی تھی۔