Dosri Shadi
دو بیویوں میں میاں حرام |
پوچھا کہ دوسری شادی کرنے کی کیا تک ہے تو بولے بندہ خود کشی کی ایک کوشش میں ناکام ہوجائے تو دوبارہ تو کرتا ہے ناں۔یاد آیا کہ بہت پہلے کسی قابل بندے نے بتایا تھا کہ خود کشی وہ جرم ہے جس میں صرف ناکام ہونے والے کو قانونی سزا ملتی ہے دوسری شادی میں شاید یہی مسئلہ کارفرما ہو البتہ سزا قانونی کی بجائے عائلی ہو۔
دوسری شادی کرنا تب تو کوئی مسئلہ نہیں جب بیوی فوت ہو گئی ہو یا طلاق یا علیحدگی ہوگئی ہو لیکن ایک بیوی کے ہوتے دوسری بیوی لانا واقعی دل گردے کا کام ہے ایسے ہی ایک جگہ پڑھا تھا کہ خود کشی کرنے والے بزدل نہیں ہوتے کہ درحقیقت اپنی جان لینا ہر ایرے غیرے کا کام نہیں بلکہ بہادر لوگ ایسا کر سکتے ہیں۔تو ایسے ہی کچھ لوگ ہوتے ہیں جو زندگی میں ناکامی سے گھبراتے نہیں بلکہ ایک ناکامی کا ہاتھ پکڑ کر اگلے امتحان کو چل پڑتے ہیں ایسے لوگ ہی بل گیٹس، سٹیو جاب، مارک زک برگ اور دوسرے شوہر کہلاتے ہیں۔
لوگ بتاتے ہیں کہ بڑے لوگوں کی پہچان یہ ہے کہ وہ کھلے دل کے ہوتے ہیں، کسی پر اپنی رائے نہیں تھوپتے، دوسروی کی مخالفت بھی ہنس کر برداشت کرتے ہیں کیونکہ وہ شادی شدہ ہوتے ہیں تو دو شادی والے کتنے بڑے ہوتے ہوں گے یہ تو آپ خود سمجھ لیں کہ ایک شیر کا شکار تو تکا بھی سمجھا جاسکتا ہے لیکن دو شیروں کا شکار کوئی ماہر شکاری ہی کرسکتا ہے۔
ایک مکتبہ فکر کی رائے میں ہندوستان پر انگریزوں کے قبضے کے ڈانڈے دوسری بیوی کا جنجال سے جا ملتے ہیں۔ کہ جب وحشی یورپی معاشرے میں دو شادیاں کرنا جائز تھیں تو تمام ایسے یورپی جن کی دو شادیاں تھیں ایک خفیہ جگہ جس کا نام تاریخ کی کتابوں میں دوست کا گھر اور بعض میں آفس سے واپسی لکھا ہے جمع ہوئے اور لگے سوچنے کہ اس دو مونہی بلا سے کیسے چھٹکارہ پایا جائے۔ ایک ناٹا انگریز جو کس قدر ہکلاتا بھی تھا اور گنجا بھی تھا بولا شوہرو! اگر وعدہ کرو کہ مجھے تیسری بیوی ڈھونڈ دو گے تو میں تمھیں دو بیویوں کو خوش رکھنے کا گر بتا دوں گا ۔ سب نے اس کھسکے ہوئے انگریز کو دیکھا اور مزید کھسکا کھسکا کر باہر نکال دیا۔ تاہم آُپ جانتے ہیں کہ شاعروں اور بکواسیوں کا پیٹ پھٹنے پڑ جائے اگر وہ آئی بک نہ ڈالیں تو اس نے ایک بلاگ میں تمام راز کھول دیا اور تیسری شادی کی تمنا لیے مر گیا۔ ایک عالم فاضل کالم نگار جو ایک دن بلاگ سے مواد چوری کر کے اپنے کالم میں لکھ رہا تھا س کی اس پر نظر پڑی تو وہ بھاگا بھاگا ملکہ کے پاس گیا کہ آپ جانتے ہیں کہ میڈیا کے لوگ اپنی ایمانداری کا معاوضہ اکثر حکومت وقت سے لیتے رہتے ہیں اور سارا احوال ایک سانس میں بیان کردیا ۔ملکہ نے اس ڈر سے کہیں دو بیویاں بیک وقت رکھنے کا راز اس کے شوہر تک نہ پہنچ جائے اس شکائیتی کالم نگار کو وزیر بنا کر وہ بلاگ بحق سرکار جو انضمام الحق کے چھکوں سے بھی زوردار ہوتا ہے بند کرنے کا حکم دے دیا۔ یوں بیچارہ قسمت کا مارا بیوی سے ہارا انگریز ایک بیوی سے بھی تنگ آ کر گرل فریندی بوائے فرینڈی پر اتر آیا کجا دوسری بیوی لیکن حکومت برطانیہ نے اس تیسری شادی کے خواہشمند کے سنہری اصول لڑاؤ اور سکون کرو کو تقسینم کرو اور حکومت کرو کی شکل میں لاگو کر کے صدیوں ہم سے سوکنوں اور سوتیلی ماؤں سا رویہ رکھا۔
لیکن کچھ لوگوں کے نزدیک درحقیقت دوسری شادی کرنے والے ولی اور درویش ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ جیسے ذولقرنین نے یاجوج ماجوج کے عذاب سے دنیا کو نجات دلائی ایسے ہی ذولزوجین دنیا کو زوجہ اور دوجا (دوسرا یعنی دوسری بیوی) سے نجات دلا دیتے ہیں اور تمام عذاب پھٹکار کوسنے طعنے اپنی جان پر سہتا ہے۔
ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ بیوی طالبان کی طرح ہیں اور طالبان کو کوئی نہ کوئی جہاد چاہیے لہذا بجائے اس کے یہ پاکستان میں ہی خود کش حملے کرتے پھریں ان کے لیے ایک شام یا کشمیر کا انتظام (دوسری بیگم کی صورت) کر لیا جائے۔یوں افغان طالبان پاکستانی طالبان سے لڑتا رہے گا اور قوم سکون میں رہے گی لیکن اس میں ایک بڑا خطرہ یہ رہتا ہے کہ طالبان اتحاد نہ ہوجائے اور اگر ایسا ہو گیا تو پھر کابل کیا اسلام آباد کا بھی اللہ حافظ ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق ہمارے ملک میں زیادہ تر لوگ کاشتکار طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور کاشتکار زیادہ تر فارغ ہوتے ہیں۔ نہ صرف کاشتکار/زمیندار بلکہ دفاتر میں کام کرنے والا طبقہ بھی فارغ ہوتا ہے کہ کام شام کرتا نہیں اور مزدور طبقہ بھی فارغ ہوتا ہے کہ کام وام کی کوئی باقاعدہ تربیت تو ہوتی نہیں۔ عام طور پر ایک محاورہ ہے کہ اگر آپ کوئی غم نہیں تو بکری پال لیں۔ اس لیے ہمارے ملکی بھائی اس فراغت سے نمٹنے کے لیے دوسری بیوی گھر لے آتے ہیں۔ اور پھر اچھے خاصے مصروف ہو جاتے ہیں کبھی بیویوں کی چخ چخ کبھی ان کی فرمائشیں کبھی آپسی لڑائی کبھی آپسی صلح جو کسی طور آپسی لڑائی سے کم خطرناک نہیں ہوتی۔
اب تو ہماری نظریاتی کونسل نے بھی اعلان کیا ہے کہ دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔ اس پر کئی حلقے سیخ پا ہیں اور ہونا بھی چاہیے کہ ادھر ایک بیوی نہیں ہوتی ادھر دو دو کا منصوبہ تیار ہے۔ لیکن ایسے لوگ جو غصہ کر رہے ہیں ان کو بتانا چاہتا ہوں کہ اگر اجازت لینی بھی پڑ جائے تو بھی پہلی بیوی کی اجازت دوسری شادی کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ نہیں بلکہ دوسری شادی کے لیے سب سے مشکل کام پہلی بیوی کا ہونا ہے اور اس کے بعد اس خاتون کا ہونا جو دوسری بیوی بننے کو تیار ہو۔ کچھ حلقے جن کے دل میں خواتین کی ترقی کا درد اس زور سے اٹھتا ہے کہ ان کی رات کی نیند حرام ہو جاتی ہے اپنے تئیں پہلی بیوی کی اجازت اور دوسری شادی روکنے کی خاطر کہہ رہے ہیں کیا وہ مرد حضرات جو دوسری شادی کرنا چاہتے ہیں اپنی بیویوں کو بھی دوسری شادی کرنے دیں گے تو ایسے لوگوں کو میں کہنا چاہوں گا بھائی سب کے دل سے پوچھ لیں۔ سب راضی خوشی اجازت نہ دیں کہ بیوی سے جان چھٹ جائے تو کہنا۔
ایک دوست دوسرے کے پاس آیا جس کی دو شادیاں تھیں اور پوچھا کہ دوسری شادی کرنا کیسا رہتا ہے وہ بولا زبردست، مزے ہیں، اگر موقع ملے تو قطعاً نہ چوکنا۔ اس نے نصحیت پلے باندھ لی اور پہلی فرصت میں دوسری شادی کرلی۔ نئی کے نو دن گزرے تو اس کو سابقہ بیوی کا خیال آیا اوروہ بندہ بھی مجھ سا نرم دل تھا تو اس نے نئی بیوی سے اجازت چاہی کہ وہ ذرا اپنی پہلی بیوی سے ہوتا آئے۔ یہ سننا تھا نئی بیوی کا پارہ ساتویں آسمان پر جا پہنچا اور اس نے سارا سامان اٹھایا میاں صاحب کا اور گلی میں پھینک کر میاں صاحب کو کہا خبردار جو دوبارہ یہاں قدم رکھا جاؤ اپنی پرانی اماں کے پلو سے بندھ جاؤ۔ میاں صاحب کھسیانے کھیسانے پہلی بیوی کے پاس پہنچے اور دروازہ کھڑکایا۔ بی بی کو جب احساس ہوا کہ میاں صاحب واپس آ چکے ہیں تو اس نے دروازے سے ہی ہانک لگائی خبردار جو آج کے بعد یہاں قدم بھی رکھا تو۔ جاؤ اپنی موئی نئی امی کے پروں تلے دفعان ہو۔ دو گھروں کا مہمان بھوکا رہتا ہے جبکہ دو بیویوں کا شوہر تو بیچارہ رہتا بھی نہیں ہے۔ بس وہ دنیا کی بے ثباتی سے تنگ آکر اللہ کے گھر چلے گئے۔ تپتی دوپہر تھی مسجد ٹھنڈی محسوس ہوئی تو میاں صاحب نے ہر مومن کی طرح تمام پریشانیاں بالائے طاق رکھ دیں اور لیٹنے کا فیصلہ کر لیا۔ ایک صف ایک طرف بند ہوئی پڑی تھی انہوں نے اس کو کھولنا شروع کیا۔ جب اس کو تھوڑا سا کھولا تو کیا دیکھتے ہیں وہی مشورہ باز دوست اس میں لپٹے پڑے ہیں۔ یہ حیران بھی ہوئے غصے بھی ہوئے خوش بھی ہوئے پوچھا یہاں کیسے؟ جواب ملا جب کی دوسری شادی کی ہے مسجد سنبھالے بیٹھا ہوں انتظار میں تھا کوئی تو ہم نشینی کو آئے۔