March 4, 2014

من کہ ایک اردو بلاگر

Man keh aik Urdu Blogger

میں ایک بلاگر ہوں۔

 بلاگر کیا ہوتا ہے؟ بلاگر کیا نہیں بلاگر کون ہوتا ہے اور بلاگر ہوتا ہے وہ شخص جو بلاگ لکھے۔

 بلاگ اس چڑیا کا نام ہے جس کے دور کے ڈھول ہی سہانے لگتے ہیں۔

نہیں میں اخبار میں نہیں لکھتا ، نہیں کسی رسالے میں بھی نہیں لکھتا، نہیں نہیں کوئی کتاب بھی نہیں لکھ رہا، انٹر نیٹ پر لکھتا ہوں۔

نئے لوگ میری تحریروں بارے کیسے جانتےہیں؟؟؟؟ یہ بہت اچھا سوال پوچھا آپ نے۔ میرے خیال میں گوگل سرچ سے۔۔۔۔یا پھر جب وہ خود بلاگر بنتے ہیں تب۔۔۔۔


آپ تو پڑھے لکھے ہیں پر جب ایک عام آدمی پوچھتا ہے آپ کیا کرتے ہیں تو میں جواب دیتا ہوں میں لکھتا ہوں۔ کہاں اخبار میں؟ رسالے میں ؟ شاعری؟ افسانہ؟ نہیں اب بلاگ کیا بتائے بندہ۔ انٹرنیٹ پر لکھتا ہوں اور اس کو مزید آسان بنانے کو کہتا ہوں کہ یہ کمپیوٹر ہوتا ہے ناں اس پر۔ اگلا سوال ہوتا ہے کیا میں اس کو پڑھ سکتا ہوں؟ اس موقع پر اس کو پہلے کمپیوٹر چلانا سکھانا، پھر انٹرنیٹ چلانا سکھانا اور پھر براؤزنگ سکھانے کے چھ ماہ کورس سے بچنے کو سوائے اس کے کوئی جواب نہیں بچتا کہ چھوڑو یار اویں ہی فضولیات ہوتی ہیں حالانکہ اس وقت درد کی شدت سے کلیجہ منہ کو آرہا ہوتا ہے اپنے تحریر کردہ الفاظ کی توہین پر شدت جذبات سے آواز رندھ جاتی ہے لیکن کم از کم سننے والے کے ذہن میں کوئی سوال باقی نہیں رہتا۔


یوں تو میں کسی طور خود کو پھنے خان قسمی کالم نویسوں سے کم نہیں سمجھتا اور اپنے لکھے بلاگوں کو خواہ خود ہی پیج ری فیرش کر کر کے پڑھنا پڑے سوشل میڈیا کی آواز سمجھتا ہوں لیکن کیا کروں اس کمبخت مارکیٹ میں کاغذ پر لکھا حکیم کا اشتہار تو بک جاتا ہے لیکن مجھ سے عظیم بلاگر کو پڑھنے ماسوائے ساتھی بلاگروں کے جن کا واحد طمع ان کے بلاگ پر جوابی تبصرہ ہوتا ہے کتا بھی رُڑنے(آوارہ گردی کرنے) نہیں آتا۔

جب کبھی کسی حوالے سے اخبار میں یا ٹی وی پر سوشل میڈیا کا نام آتا ہے تو میں خوشی سے اچھل پڑتا ہوں اور اپنے قریبی دوستوں کو ایسے فخر سے بتاتا ہوں کہ اب پتہ چلا تم جاہلوں کو سوشل میڈیا کی اہمیت کا لیکن میں جانتا ہوں کہ میری خوشی ایسی ہے جیسے کوئی ایکسٹرا فلم میں کسی ایک ناچ کے منظر میں ہیرو کے پیچھے پانچویں قطار میں کھڑا خود کو سنیما کی سکرین پر دیکھ کر اپنے آپ کو ہیرو سمجھتا ہے۔البتہ جب کبھی ایسے بلاگر کا نام آتا ہے جو میرے لیے ناواقف ہے تو میں اس کو سراسر میڈیا کی سازش قرار دیتا ہوں جو وہ ہماری (خصوصاًمیری) شہرت سے جل کر ایک مصنوعی بلاگر کو شہرت دلانے کو پراپگنڈا کر رہے ہیں اور میڈیا کو تو آپ جانتے ہیں اس صدی کا سب سے بڑا فریب ہے مگر یاد رہے سوشل میڈیا نہیں وہ تو حق کا علمبردار ہے مانا کہ اس میں بھی اکثر دو موقف ہوتے ہیں لیکن آپ مجھے فالو Followکریں ناں۔

میں اپنی زبان سے بڑی محبت کرتا ہوں اور کوئی خواہ مجھے کسی بھی شے کی پشکش کرے میں کبھی اپنی قومی زبان کو چھوڑ کر اور زبان میں بلاگنگ نہ کروں گا- مانا کہ مجھے انگریزی نہین آتی لیکن ہمارے میڈیا کو کونسی ہندی اور ترک آتی ہے۔

اگرچہ میں اردو بلاگر ہوں بلکہ مزاحیہ اردو بلاگر ہوں اور سیاست پر بھی نہیں لکھتا اور کبھی کبھار کچے پکے افسانے کا تڑکہ بھی لگا چکا ہوں لیکن اس کے باوجود میرے بلاگر پر آنے والوں کی تعداداس بات کا ثبوت ہے کہ انٹرنیٹ پر سب سے زیادہ خوار اردو زبان ہے ۔ اب آپ کے دل میں اردو کی محبت جاگ رہی ہے تو اردو بولنے والوں کا تناسب اور ان کی انٹرنیٹ پر اردو سرگرمیوں کا تناسب دیکھ لیں۔ لیکن میں بھی سیانا واقع ہوا ہوں کہ بہانے نہانے سے اپنے سنجیدہ بلاگوں میں ایسے الفاظ کا تڑکا لگاتا رہتا ہوں کہ گوگل پر پاکستانیوں کی پسندیدہ تلاش کسی بہانے ان کو میرے بلاگ پر بھی لے آئے۔ الفاظ البتہ میں نہیں بتا سکتا کہ ایک تو آپ مانیں گے نہیں دوسرا کہیں گے یہ ہمارے اسلامی ملک کے مسلمان شہریوں کے خلاف بین الاقوامی سازش ہے۔

میں چاہتا ہوں اردو بلاگروں میں ایکا ہو جائے اور وہ سب ایک ہی موقف پر راضی ہوجائیں۔ وہ موقف میرے سب سے اچھے بلاگر اور تمام بلاگروں کا سرپنچ ہونے کے علاوہ چند ایک ذیلی نکات پر مشتمل ہے۔


ہم بلاگروں میں بڑا ہی مثبت اختلاف رہتا ہے کہ ایسے بلاگر جن کی تحریر کمزور ہے بلاگ کی ظاہری شو شا پر زور دیتے ہیں اور ایسے بلاگر جو ٹیکنالوجی سے فارغ اور کچی پنسلوں سے مستقبل کے تارڈ، یونس بٹ اور مفتی بننے کے خواہشمند رہتے ہیں بلاگ کے معیار کو فوقیت دیتے ہیں اور اس مثبت اختلاف میں ہم ایک دوسرے کی قطعاً نہیں سنتے اور اپنی ہانکنےمیں مصروف رہتے ہیں۔

ہم بلاگر لوگ باقی میڈیا کی طرح شہرت کے بھوکے بالکل نہیں اسی لیے کوئی ایسا کام بھول کر بھی نہیں کرتے جس سے ہم مشہور ہوں بس مجبوری میں فیس بک کا صفحہ بھی بنانا پڑتا ہے اور اشتہار بھی پیسوں سے دینا پڑتا ہے کہ دس بارہ لائیک تو اچھے نہیں لگتے اور سو لائیک میں ایک بھی پڑھنے والا بندہ مل جائے ہمیں اور کیا چاہیے۔

سوشل میڈیا ماس میڈیا سے دور رہنا چاہتا ہے لہذا جب وہ ہمارے چوری کر کے مضامین لگاتے ہیں تو ان کی بد نیتی ثابت ہوتی ہے کہ وہ ہماری محنت پر ہاتھ صاف کرنا چاہتے ہیں اور جب وہ خود منت کر کے پوچھ کر لگاتے ہیں تو تب بھی ان کی بد نیتی ہے کہ وہ ہمیں خریدنا چاہتے ہین لیکن میں آج بتا دینا چاہتا ہوں کہ میں اور میرا بلاگ قطعاً براہ فروخت نہیں اور میں میڈیا کی اس کچھ ملی شراب کے خلاف آواز اٹھاتا رہوں گا اور اگر میرا بلاگ بھی اخبار میں چھپ گیا تو دل میں پھوٹتے سو سو لڈو اور اخبار اسکین کر کے فیس بک پر لگانے کے باوجود مجھے اس امر کا مخالف سمجھا جائے تاوقتیکہ وہ مجھے اخنبار میں ہی لکھنے لکھانے پر رکھ لیں۔۔

لوگ کہتے ہین کہ بلاگ لکھنے سے پیسے ملتے ہیں تو ایسے لوگوں کی غلط فہمی کو دور کرنے کو میں لکھ دیتا ہوں کہ بھائی کوئی پیسے ویسے نہیں ملتے۔ گوگل کا ایڈسینس Google adsense تھا وہ بھی اردو کے لیے ختم ہو گیا اور اگرنہ بھی ہوتا تو بھی آپ کبھی اتنی ٹریفک نہیں لے سکتے کہ سو ڈالر گوگل آپ کو دینے پر راضی ہو جائے۔ ہاں صورت یہ ہے کہ کوئی خود سے آکر آپ کو پیسے دے کہ بھائی یہ میرا اشتہار لگالو اپنے بلاگ پر اور مجھ سے پیسے لے لو۔ لیکن میری آپ کو نصحیت کہ کبھی ایسا نہ کرنا کہ ہم بلاگر کشادہ دل کے ساتھ تنگ نظر بھی ہیں اور ذرا ذرا سی بات میں ہم کو لگتا ہے امریکہ اور یہودی لابی ہمارے خلاف سازش کرنے لگی ہے اور سی آئی اے کو سب سے بڑا مسئلہ ہم بلاگروں کے اتحاد سے ہے کہ ہم خؒود ایک دوسرے کا بلاگ پڑھ پڑھ کر عوام میں نفرت پھیلا رہے ہین لہذا ایک کاظمی جنرل اسٹور کی خبروں کو ہمسایہ ملک فنڈڈ اور گورا کریم کے اشتہار کو دیکھ کر آپ کے ٹکنالوجی کی خبروں کو سپرپاور کے خوف کا پرچار سمجھ لیا گیا تو آپ اپنے پندرہ بیس قاری بھی گنوائیں گے۔ اسی لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں نے اپنے بلاگ پر کوئی اشتہار نہیں لگا اور میں پیسے کا لالچی نہیں بلکہ حق اور سچ کا علمبردار ہوں جب تک کوئی مجھے اشتہار دینے پر راضی نہ ہوجائے۔

پس تحریر: اس مضمون میں تمام کردار و واقعات فرضی ہیں کسی قسم کی مطابقت کی صورت میں کوئی بد گوئی وصول نہ کی جائے گی۔