March 10, 2014

میرے کرکٹ کیرئر پر ایک نظر اور آٹھ سال بعد کھیل میں واپسی

mere cricket career per aik nazar or aath saal bad khail main wapsiii



میں کہا کرتا تھا کہ اگر میں کبھی قومی ٹیم یا کسی فرسٹ کلاس ٹیم کی طرف سے کھیلتے ہوئے ٹی وی پر آ بھی گیا تومیرے پروفائل بارے کچھ یوں سکرین پر ابھرے گا
علی حسان۔ دائیں ہاتھ سے کھیلنے والے سست رفتار بلے باز اور دائیں ہاتھ سے تیز سے ہلکی رفتار کے تیز گیند باز۔


جب میں باقاعدگی سے کرکٹ کھیلا کرتا تھا تو اپنی دوستی یاری کی بنا پر اوپنر Opener  کھیلا کرتا تھا کہ دس دس یا آٹھ آٹھ اوور کے میچ میں میرے جیسے بلے باز کے لیے اوپنر کے سوا کوئی پوزیشن نہیں بنتی تھی اور میری کارکردگی ایسی تھی کہ کہنے والے کہتے تھے اور مجھے بھی یقین تھا کہ اگر مجھے کسی انہونی کی بنا پر چانس ملا تو وجے منجریکر (سنجے منجریکر کے والد) کے 32028 رنز کا ریکارڈ بچ بھی گیا تو کم از کم پاکستانی صادق محمد کے 2579 کا بغیر چھکا لگائے رنز بنانے کا رکارڈ تو توڑ کر رہوں گا اور دسواں ایسا بلے باز بنوں کا جنہوں نے 2 ہزار رنز بغیر چھکا لگائے بنائے ہیں کیوں کہ بین الاقوامی چھوڑ ہمیں تو بین المحلے کرکٹ میں کوئی ایسا بندہ نہیں نظر آتا تھا تو ہمارا چھکے نہ لگانے مقابلہ کر سکے۔

اسی دوستی کی بنا پر ایک آدھ اوور بھی مل جایا کرتا تھا اور عرف عام میں حلوہ بولی جانے والی گیندیں دیکھ کر اکثر لوگوں کا پیمانہ لبریز ہو جاتا اور وہ ہوا میں شاٹ مارنے سے نہ رک سکتے لیکن اس تیز رفتار باؤلر کے ایکشن سے کرائے جانے والی آف سپن نما گیند کو کم لوگ چھکے تک پہنچا سکتے اور زیادہ تر گیندیں فیلڈروں کے اردگرد گر جاتیں کہ اتنی بلند و بالا کیچ کو پکڑنا کونسا کرکٹ کا کھیل ہے؟ اور ہر اوور کے اختتام پر میں فاتح کی شکل میں فیلڈنگ پر واپس آتا کہ اگر دو کیچ پکڑ لیے جاتے تو میں ایک چھکا اور ایک چوکا نہ کھاتا۔حالانکہ میرا خود کا خیال تھا جو مجھے اوور میں چار چھکے نہیں لگا سکتا وہ بلے باز کہلانے کے قابل ہی نہیں لیکن جب کبھی لمبی باؤنڈری والے میدان میں میچ ہوتا تھا بیچارے فیلڈرز پاگلوں کی طرح ادھر ادھر گرنے والی گیندوں کے پیچھے بھاگ رہے ہوتے تھے جو مس ہٹ Miss Hit کا نتیجہ ہوتے تھے۔

جہاں تک میری فیلڈنگ کا معاملہ تھا تو سب کو پتہ تھا کہ میرے ہوا میں اونچے اٹھنے والے کیچ پکڑنے اور آفریدی کی سنچریوں کا تناسب ایک ہی ہے۔ البتہ سیدھے آنے والے کیچ اور نہیں تو آدھے میں پکڑ ہی لیا کرتا تھا۔ لیکن یاری دوستی نے معاملہ حل کیا اور میں وکٹ کیپر بن گیا جہاں کبھی کبھی جست لگا کر کیچ پکڑ لیا کرتا تھا اور کبھی کبھی سیدھا کیچ بھی زمین چاٹ رہا ہوتا۔ خاصی کوشش کی معین خان سی اداکارانہ صلاحیت پیدا ہو سکے کہ کیچ چھوٹ جانے پر ایسے ظاہر کرنا کہ بیچارہ گیند باز بھی شش و پنج میں مبتلا ہو جائے کہ گیند نے بلے کا کنارہ لیا بھی تھا یا نہیں پر وہ بات پیدا نہ ہوسکی اور ہر کیچ چھوٹنے پر شرمندگی سی چہرے پر ظاہر ہو کر رہتی۔
اس منحوس گیند کو میری طرف ہی آنا تھا


آخر میری آل راؤنڈ کارکردگی سے متاثر ہو کر میری ٹیم نے مجھے کپتا ن بنا دیا اور یوں میں کسی کو جوابدہ ہونے سے بچ گیا۔اور میں باری اور گیند اپنے دوستوں کو اور جو زیادہ تنقید کرتے ان کو دینے لگے۔یوں یہ معاملہ بھی حل ہو گیا۔

ویسے میں اتنا بھی نکما نہیں تھا جتنا اب تک آپ کو لگ رہا ہے ۔ کٹ شاٹ میں ایسی مہارت سے مارا کرتا تھا کہ میری باری آتے ہی پانچ چھ فیلڈر آف پر پہنچ جاتے اور بعض اوقات ان کے ہوتے بھی میں چوکا یا چھکا لگا دیتا اور ایسا اطمنان ملتا کہ ایک دو گیندوں بعد کیچ تھما کر واپس آکر پولین میں بیٹھے لڑکوں سے شاٹ کی تعریف سنا کرتا۔ہاں لیگ کی طرف ٹھہرے فیلڈر میری باری آنے پر درخت کے نیچے لیٹ جایا کرتے تھے کہ انہیں میری بلے بازی پر ایسا اطمنان تھا کہ میں بھول کر بھی لیگ پر نہیں کھیلوں گا۔ ادھر میں بلا اور ٹانگ ایسا ملا کر سٹاپ کیا کرتا کہ میرے جاننے والوں نے مہینے میں ایک آدھ کھیلے جانا والا ٹیسٹ میچ بھی کھیلنا چھوڑ دیا کہ کون ٹک ٹک برداشت کرے۔یاد رہے تب تک مصباح نے بین الاقوامی کیرئر کا آغاز تک نہ کیا تھا کہ کہیں آپ میری بیٹنگ کو اس سے انسپائر سمجھیں۔

میری باری پر فیلڈنگ کچھ ایسی ہوا کرتی تھی

اصل میں وجوہات دو تھیں کہ ایک تو ہفتے میں ایک دن کھیلا کرتے تھے اور دو میچوں میں ایک میں باری اور ایک میں اوور ملا کرتا تھا لہذا جلدی آؤٹ ہو کر اگلا سارا ہفتہ اپنی باری کا انتظار کرنا ناقابل برداشت تھا دوسرا جب چھوٹے تھے تو ہمارے ددھیالی شہر احمد پور شرقیہ میں ایک فلڈ لائیٹ ٹورنامنٹ منعقد ہوا جس میں ہمارے چچا نے بھی حصہ لیا تھا۔ اگرچہ ان کی ٹیم تین میچ کھیل کر ہی آؤٹ ہو گئی لیکن ہر میچ کے اختتام پر لوگ سوال پوچھا کرتے تھے کہ راضوان شاہ آؤٹ تھیا؟(راضوان شاہ آؤٹ ہوا؟) بس وہی بات دل میں کھب گئی اور یہی خواہش رہی کہ وکٹ نہ گنوائی جائے۔ اوپر سے میرا پہلا پسندیدہ بلے باز شعیب محمد تھا جو دھیمے انداز میں بلے بازی کرتا تھا اور وہی انداز میں نے اپنا لیا۔

میری گیند بازی بھی عجیب ڈھنگ کا شکار رہی کہ بہت زور مارا کئی دوست نما دشمنوں سے مشورہ لیا کہ یار آخر گیند پھینکنے کی رفتار کیسے بڑھائی جائے ؟ کبھی کوئی ایکشن اپنا تو کبھی کوئی انداز لیکن جب گیند کی رفتار میرے کزن جو لیگ بریک کیا کرتا تھا سے بھی نہ بڑھی تو وقار، موریسن کے انداز اپنانے کے بعد میں نے سلو باؤلنگ شروع کر دی لیکن جلد ہی عاقب جاوید سا میڈیم رفتار گیند باز بن گیا اور آخر جو اب تک قائم ہے برطانوی گیند باز کریگ وائیٹ Craig White اگر آپ کو یاد ہو جو تھوڑا سا دوڑ کر بھی خاصی تیز گیندیں پھینکا کرتا تھا بن گئے اور رفتار کو چھوڑ کر ہم میں خاصی چیزیں ایک سی تھیں کہ ایکشن ایک ساتھا، مار ایک سی پڑتی تھی وغیرہ وغیرہ۔

فیلڈنگ میں نہ کبھی قسمت نے ساتھ دیا ، نہ کبھی نشانوں نے ساتھ دیا، نہ کبھی ہاتھوں نے ساتھ دیا اور کبھی کبھار تو کیچ پکڑنے پر ساتھی کھلاڑی بھی تعجب کا شکار کرتے تھے ادھر ہماری تھرو بھی اتنی تیز رفتار تھی کہ نزدیک کھڑے ہونے کے باوجود ایک رنز بنانے کے لیے بلے بازوں کو بھاگنے کی زحمت بھی مشکل سے کرنا پڑتی۔ اگر باؤنڈری پر ہوتے تو جاننے والے بغیر کسی پریشانی کے دو رنز بنا لیا کرتے تھے اور گیند کا تھوڑا دور ہونے میں تین رنز بھی مشکل نہ تھے۔ آخر ہم نے انڈر آرم Under Arm تھرو کرنا شروع کر دی کہ رنز تو وہی بننے ہیں میں کیوں مفت میں تکلف کرتا پھروں۔

یہ ہے کرکٹ۔ ویسے کتاب کے صفحہ نمبر سے کھیلے جانی والی کرکٹ کے ہم بھی بڑے ماہر تھے


البتہ جب اسکول میں ہارڈ بال سے ہفتہ کھیل کھیلا گیا جس میں ہاکی جیتنے کی روئیداد آپ پہلے پڑھ چکے ہیں تو ہماری کارکردگی اتنی بری نہ تھی۔ بیٹنگ کے لیے دو میچوں میں بطور اوپنر میں ایک ناٹ آؤٹ پچاس رنز بھی تھے اور ایک بیس رنز تب کھیلی گئی جب چھ کھلاڑی آؤٹ ہوچکے تھے اور سیدھے بلے سے کھیلنے پر اساتذہ نے خاصی تعریف بھی کی اور اختتام ہفتہ ہم ٹرافی کے فاتح بھی ٹھہرے۔گیند بازی میں ایک اوور بھی نہ ملا اور فیلڈر کے طور پر کیپر کی پوزیشن سے ہٹاتے ہوئے ہمارے کپتان نے مجھے ایک رنز روکنے پر دائرے کے اندر معمور کیا لیکن جب ایک کیچ کے اٹھنے پر میں نے گیند کے پاس جانے کا تکلف بھی نہ کیا کہ مبادا گیند لگ جائے تو کپتان صاحب نے مجھے واپس پولین میں جانے کا اشارہ کر دیا اور باقی تمام ٹورنامنٹ میری جگہ بارہواں کھلاڑی فیلڈنگ کرتا رہا اور ہم پیڈ پر پیڈ چڑھائے اپنی باری کا انتظار کرتے رہے۔

اس تمام کہانی کی بنیاد پچھلے ہفتے کھیلے جانے والا میچ تھا جس میں میرے کزن کے انتہائی اصرار پر مجھے کھیلنے کے جانا پڑا اور میں تین ہفے ٹالتا رہا آخر اسکو کہنا پڑا کہ بھائی آٹھ نو سال سے میں نے بلا تھاما تک نہیں لیکن وہ اس کو شاید میری کسر نفی سمجھتا رہا اور کہنے لگا کہ آپ کی میدان میں واپسی کا وقت آ گیا ہے اور مجھے اوپنر کے طور روانہ کرکے دم لیا۔ نتیجہ بتانے کےلیے کوئی خاص مشکل نہیں ہونی چاہیے کہ دو سنگل چار ٹک ٹک جن میں ایک گیند سے آدھا کلو میٹر دور کٹ شاٹ کھیلنے کی کوشش بھی شامل تھی کے بعد ٹانگوں پر آنے والی فل ٹاس گیند کو پوائنٹ پر کھڑے فیلڈر کو کیچ دے کر خود کو اس اذیت سے نجات دلائی۔ اوور کوئی ملا نہیں اور فیلڈنگ میں ایک کی جگہ دو بنوانے اور گیند کو مرغا سمجھ کر ادھر ادھر ہاتھ مارنے کی پاداش میں دو چوکے لگوانے کے ایک کیچ پکڑا تو پتہ لگا کہ ہم باؤنڈری سے باہر چہل قدمی کر رہے تھے۔ بس خیر یہ رہی کہ اس میچ کے بعد کزن کے اصرار سے جان چھوٹ گئی اور میدان میں واپسی ایک میچ کے بعد ہی گھر واپسی کی ضمانت بن گئی۔