October 6, 2014

ایک دن کراچی کے ساتھ

Aik din Karachi ke sath



بندہ جہاں نہ گیا ہو یا جہاں کے بارے دوسروں سے سنے تو اس جگہ بارے اسے دوسروں کی بات پر اعتبار کرنا پڑتا ہے اوپر سے ہمارا میڈیا ، پورا شادی بد خبر ہے ہمیشہ چن چن کر بری باتیں ہی سنائے جاتا ہے اسی لیے کراچی ہمیشہ سے میرے لیے نوگو ایریا No go area بنا رہا ہے۔ میرا خیال تھا تمام دنیا گھوم لوں کراچی نہ جا پاؤں گا۔ لیکن قدرت کے کاموں پر کس کا دخل ہے کہ اب کی بار تالن Tallinn جاتے واپسی براستہ کراچی تھی اور جو میں نے خاص طور پر پیر کی ٹکٹ لی تھی کہ اتوار رات کو دس بجے ملتان سے کراچی کے لیے پرواز چلتی ہے تو کم سے کم انتظار کرنا پڑے گا لیکن ہوا یوں کہ پی آئی اے نے سوچا کہ ایک تو میرا پاکستان دیکھنے کابھی حق بنتا ہے اور دوسرا میں پی آئی اے کی اور برائیاں کر لوں، انہوں نے پرواز ہی ملتان کراچی کی ختم کردی۔ اب واحداختیار شاھین ائیر تھی جس نے اتوار کی صبح آٹھ بجے چلنا تھا گویا کراچی میں چوبیس گھنٹے رکنا قرار پایا۔

میرے میزبان کا گھر نارتھ ناظم آباد میں تھا اور جس جس نے سنا اس نےمزید ڈرا دیا کہ بھائی وہ تو بھائی لوگوں کا علاقہ ہے۔ وہاں جانا تو خطرے سے خالی نہیں اب ان کو کیا بتاتا خطرے سے خالی ہو نہ ہو جہاز خالی نہ تھا۔ میں نے سوچا کہ بس دوست کے ہمراہ ہوائی اڈے سے سیدھا گھر جاؤں گا اس کے اور صبح تک اگر زندہ رہا تو جب پرواز کا وقت ہوگا تبھی گھر سے نکلوں گا۔ لیکن میزبان صاحب کو ہمارا سکون نہ بھایا اور انہوں نے مجھے اطلاع دی کہ انہوں نے کچھ اردو بلاگروں کو بتادیا ہے لہذا باہر نکلیں گے اور آپ کا کراچی گھومنے کا پروگرام بھی تیار ہے۔

میں نے سوچا ہنوز کراچی دور است بندے پہنچ تو سہی باقی وہاں کی وہاں دیکھیں گے۔ ملتان سے پرواز وقت پر چلی اور وقت پر کراچی پہنچ گئی اور کیوں نہ پہنچتی کوئی فرینکفرٹ Frankfurt تھوڑی تھا جہاں پرواز تاخیر کا شکار ہو کر ہمارے چڑیا گھر کے پروگرام کو لات مارتی۔ یہ تو کراچی تھا ان کا بس لگتا دو چار گھنٹے قبل ہی پہنچا دیتے۔ ہوائی اڈے پر اترا اور سامان کا انتظار کرنے لگے۔ تھوڑی دیر بعد اعلان ہوا کہ کچھ مسئلے کہ وجہ سے سامان کی آمد میں تاخیر ہو گئی ہے اور تکلیف کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ پہلی بار ایسا ہوا میری سفری عمر میں کہ سامان دیر سے آیا- اسی دوران میزبان نے فون پر اطلاع دی کہ لینے والوں کو اندر نہ آنے دینے کا حکم ہے لہذا آپ ہوائی اڈے سے نکل کر موٹر سائیکل اسٹینڈ کی طرف نکلیں۔

میں نے دل میں سوچا اگر میں توہمات پر یقین کروں تو یہ دو اس بات کی علامات و اشارے ہیں کہ چنگی نئی ہونی تو بھائی بھاگ لے۔ لیکن بھاگ کر کہاں جاتے باہر کراچی تھا اور اندر چوبیس گھنٹے کا انتظار تھا۔ تاہم میں نے خود کو حوصلہ دیا کہ توہمات شیطانی وسوسے ہیں لہذا ان کو اہمیت نہ دی جائے اور ویسے بھی اور نہ کوئی چارہ تھا نہ بھائی چارہ تھا۔

اتنا تو کسی شہر میں لوگوں سے راستہ پوچھا ہوگا جتنا باہر نکل کر موٹر سائیکل اسٹینڈ کا پوچھ لیا اور جس سے پوچھیں وہ جواب دیتا پتہ نہیں بھائی میں تو نیا ہوں۔ مجھے وہ یاد آ گیا کہ ایک نے دوسرے سے پوچھا کہ بھائی خوشی کیا ہوتی ہے تو اس نے جواب دیا کہ پتہ نہیں یار ایک تو میں کراچی میں رہتا ہوں دوسرا میں نے ووٹ بھی۔۔ خیر چھوڑیں المختصر میں موٹر سائیکل اسٹینڈ پہنچ گیا اور وہاں سے میزبان صاحب ایک ٹیکسی میں لے کر اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔ اب ان کی سازش ملاحظہ ہو مجھے باتوں میں لگا لیا کہ میں دعائیں اور آیت الکرسی وغیرہ بھی نہ پڑھ سکوں۔

حالانکہ بظاہر تو میں کہتا ہوں کہ میں خود اپنی مشہوری اور خود پسندی سے بھاگتا ہوں اور کوئی تعریف کردے تو شرمندہ سا ہوجاتا ہوں پر یہ امید بھی دل ہی دل میں لگائے تھا کہ بلاگر ہوائی اڈے پر ڈھول ڈھماکوں کے ساتھ استقبال کو آئیں کہ آخر اردو کا ایوارڈ یافتہ (جس کو چند لوگ جلن کے تحت ایواٹ یافتہ لکھتے ہیں) بلاگر ہوں کوئی عام گل نہیں لیکن کسی کو نہ پا کر مایوسی ہوئی کہ ویسے تو اچھا ہوا کہ مجھے شرمندگی نہیں ہوئی لیکن ویسے آپس کی بات ہے کہ آخر کب یہ قوم اپنے حقیقی ہیروؤں کو پہنچانے گی۔

گھر پہنچے تو پہلا اختلاف وہ پیدا ہوا جو میرا ہر میزبان سے ہوتا ہے اور وہ ہے کھانا۔ آتے ساتھ ہی انہوں نے کھانا سجا دیا اور ادھر ہمارا یہ حال ہے کہ اچھے دنوں میں ناشتا کر لیتے تھے تو سارا دن سانس لینا دوبھر ہوجاتا تھا اوپر سے گھی والی روٹی یا پراٹھے سے اس لیے نفرت ہے کہ اس کو کھا کر ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔ میں نے سوچا چلو دل پر جبر کر کے ناشتہ کر لوں پھر دوپہر کو کہہ دوں گا بھوک نہیں لیکن ابھی معدے کے امتحان اور بھی تھے۔ اب دوسرا اختلاف ہوا کہ عام طور پر میرے میزبان سیر سپاٹے کے کم شوقین ہوتے ہیں لیکن ادھر مدعی سست گواہ چست والا حال تھا۔ وہ کہیں چلو اور میں نہ ہاں کر سکوں اور نہ ناں۔ آخر سوچا کیا کہیں گے کوئی ڈرو بندہ ہے تو بادل نخواستہ ہاں کردیا۔

وہاں سے نکل کر انہوں نے موٹر سائیکل سنبھالی اور ہم نے سورہ یاسین جیبی اور ہمارا سفر شروع ہوا۔ اسکے بعد جب تک اندھیر نہیں چھا گیا ہم بمشکل ہی گھر بیٹھے۔ کبھی کہاں کبھی کہاں۔ البتہ ان کے اصرار پر بھی میں اپنا کیمرہ لے جانے پر راضی نہ ہوا کہ بھائی جان تو اللہ کی امانت ہے کوئی لے لے تو کوئی غم نہیں لیکن جیتے جی کیمرے سے جدائی کا غم سہنا اس بندے کے بس کی بات نہیں۔

ہماری پہلی منزل ساحل سمندر تھی۔ راستے میں میزبان صاحب ساتھ ساتھ کمنٹری بھی کرتے جاتے اور ہمارا خون بھی سکھائے جاتے ۔ اب اگر ہم لالو کھیت سے گزر رہے ہیں تو بتانا کیا ضروری ہے؟ یہ علاقہ ایم کیو ایم کا ہو یا اے این پی کا ہمارا کیا لینا دینا؟ کٹی پہاڑی ہمیں بھی نظر آرہی ہے لازمی آپ نے اس کے ماضی و کردار پر روشنی ڈالنی ہے؟ کون سمجھائے۔ اتفاق سے اسی روز وہاں اپنی تحریک انصاف کا جلسہ بھی تھا اور مجھے وہ بارہ مئی کے چیف جسٹس والی فائرنگ بھی رہ رہ کر یاد آئی کہ جہاں سے گزریں وہاں لوگ تحریک انصاف کے جھنڈے لیے کھڑے ہیں اور مجھے یقین ہو گیا کہ مخالفین ان کو کچھ کہیں نہ کہیں ہمارا نمبر لازمی لگ جائے گا۔

راستے میں مزار قائد آیا۔ کوئی پندرہ ایک سال پہلے میں کراچی آیا تھا تو مزار قائد اور ساحل پر سے ہو گیا تھا لیکن پھر بھی دل تھا کہ مزار قائد پر سلام کرتے لیکن وہاں پہلے ہی عمران خان اینڈ کمپنی قبضہ جما چکے تھے اس لیے ہم نے جیسے قائد اعظم کے افکار کو دور سے سلام بھیج رکھا ہے ویسے ہی مزار کو بھی دور سے سلام کر کے آگے چلتے گئے کہ پہلے بچپن میں سلام کر تو گئے تھے۔

ساحل پر پہنچے تو پتہ لگا کچھ روز قبل ہمارے استقبال کی خاطر کچھ لوگ سمندر میں ڈوب کر فوت ہو چکے ہیں ۔ چونکہ ہم صرف چلو بھر پانی میں ڈوب کر مرنے پر یقین رکھتے ہیں اس لیے ان لوگوں پر افسوس آیا اور غصہ بھی کہ ان لوگوں کی وجہ سے وہاں ساحل پر سختی ہوئی تھی اور کسی کو پانی تک جانے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ ہم نے کوشش کی کہ کسی طرح جانے دیں اور میں نے ان کو سمجھایا بھی کہ بھائی میں تو میری انگلی نہائی میں نہایا کے پرچاری ہیں اور دوسرا یہ کہ اگر مرنا ہی تھا تو کراچی میں آنا ہی کافی تھا ساحل کا تکلف کیا کرنا تھا لیکن وہاں کے منتظمین کسی طرح راضی نہ ہوئے اور ہمیں پانی کو کسی طرح چھونے کی اجازت نہ دی گئی۔

وہاں سے دلبرداشتہ ہو کر نکلے تو جہانگیر کوٹھاری ایسا کھدا پڑا تھا کہ جہانگیر ہاری (سندھی ہاری) لگ رہا تھا۔ آگے پاک ٹاور آیا اور جب میزبان نے بتایا کہ یہ پاک ٹاور ہے تو پہلے میں سمجھا کہ مجھے موٹر سائیکل پر شور کی وجہ سے جیسے اکثر باتیں سمجھ نہیں آتیں ویسے ہی یہ بھی غلط سنائی دی ہے- میرے ایک دوست کچھ سال قبل کراچی گئے تھے تو انہوں نے اپنی کہانیوں سے یہ ثابت کیا تھا کہ پاک ٹاور کے سامنے دبئی اور یورپ پانی بھرتے ہیں اور وہاں پہنچ کر لگا شاید یہی پانی بھر بھر کے سمندر آباد کیا گیا ہے کہ باہر سے تو میں اس کو دس میں سے ایک نمبر نہ دوں۔ اندر حالانکہ میزبان نے کہا کہ چلیں لیکن دل مکمل ٹوٹنے کے ڈر سے انکار کردیا۔

اسی دوران میرے میزبان مجھے صدر لے گئے جہاں رینبو سنٹر بھی گئے۔ انہوں نے فخریہ کہا کہ یہاں سے جو سی ڈی چاہیں مانگ لیں مل جائے گی تاہم انہوں نے ہاکی کوچنگ کی سی ڈی لینی تھی وہ نہ ملی اور میں ایک پرانے پاکستانی ڈرامے غالب "انداز بیاں اور" کی تلاش میں تھا جس میں قوی خان غالب بنے ہیں اور مختلف گلوکاراؤں نے غالب کی غزلیں بھی گائی ہیں وہ بھی نہ ملی۔ تاہم اس چکر کے بعد میزبان صاحب نے فرمایا کہ ان دو کے علاوہ کوئی بھی سی ڈی لے لیں یہاں سے مل جائے گی۔

ویسے تو ہر شہر میں سب سے پہلی کوشش کرتا ہوں کہ یہاں کا چڑیا گھر لازم دیکھا جائے لیکن کیا ہوا چڑیا گھر نہ دیکھا ، اس کی بجائے پرندہ مارکیٹ دیکھ لی اور وہاں پانوں کی پیکوں سے خود کو بچانا جیتی جاگتی بھول بھلیاں لگیں اور ایکیورئم نہ دیکھا تو سمندری کھاڑی میں تیرتے ہزاروں شاپر اور دیگر گند بلا دیکھ کر ہی جی کو بہلا لیا۔

وہاں سے ہم آرٹیم Atrium گئے اور میں نے سوچا یہاں اگر فلم دیکھ لیں تو تین ایک گھنٹے تو سکون سے گزر جائیں یعنی محفوظ انداز سے لیکن وہاں ڈنکن ڈونٹس سے ایک آئس کافی پی جو ایسے ہی بے لذت تھی جیسے دبئی میں ہوتی ہے تو میں نے خوب مزے سے پی جبکہ میرے میزبان کو نہ بھائی۔

گھر واپس پہنچے تو کھانا تیار تھا لیکن میں تیار نہ تھا۔ پر دوسروں کے گھر کیا نخرے کرنا کہ یہ ڈر بھی تھا باہر نکال دیا تو کراچی جیسے شہر میں کہاں جائیں گے تو کھایا اور پچھتایا۔

اب کہ میں نے پوچھا یار لائٹ ہاؤس کہاں ہے وہ بولے وہ ساحل کے پاس ہے پہلے بتاتے وہاں چلتے پڑے لیکن خیال رہے وہاں کوئی لائٹ ہاؤس نہیں بس وہاں پرانے جوتے ہیں انہی سے آپ روشنی کا مینار بنانا چاہتے ہوں تو بسم اللہ۔ مجھے بھی سن کر بڑی مایوسی ہوئی لیکن گھر بیٹھنا شاید میرے میزبان کے لیے بھی مشکل تھا تو بس ایک بار پھر موٹر سائیکل کی گدی تھی اور ہم تھے۔

وہ مجھے پرانی کراچی، ٹاور، لائٹ ہاؤس، اردو بازار اور نجانے کہاں کہاں لیے پھرے۔ لائٹ ہاؤس دیکھ کر افسوس ہوا کہ مجھے امید تھی کہ وہاں پر کوئی اصلی کا مینارا نور ہوگا لیکن شاید روشنی ہماری قسمت میں ہی نہیں۔

پورٹ گرینڈ پہنچے تو پتہ چلا کہ صرف فیملی اندر جا سکتی ہے۔ میں نے کہا بھائی یورپ ہوتا تو جھوٹ بول سکتے تھے کہ ہم فیملی ہیں لیکن یہاں پر ہر دو صورتوں میں جوتے لگیں گے۔ مجھے یاد آیا جب میں نیا نیا یورپ گیا تھا تو اکثر پارکوں میں گھومتا پھرتا تھا۔ ایک روز ایک پارک میں گیا تو پولینڈ میں اکثر پارک مختلف درجوں پر پہاڑی کی طرح بنے ہیں۔ سب سے اوپر پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں بلا مبالغہ سینکڑوں خواتین گھاس پر دو کپڑوں میں لیٹی دھوپ سینک رہی ہیں۔ میرے قدموں تلے زمین نکل گئی کہ ساحل پر تو سنا تھا یہ کیا بلا ہے۔ خیال آیا کہ کہیں فیملی یا زنانہ پارک تو نہیں پھر خیال آیا ہوش کر بھائی یہ پاکستان نہیں پولینڈ ہے۔ اب ہوتا تو کہتا یہ کراچی کا گرینڈ پورٹ نہیں وارسا کا پارک ہے۔

 ٹاور ، ایمپریس اور پرانی کراچی کی تاریخی عمارتیں دیکھ کر جتنی خوشی ہوئی اتنا ہی دکھ ان کی پامالی دیکھ کر ہوا اور دل میں سوچا کہ اللہ میاں کوئی موقع بنائے کہ کسی طرح ان کی تصاویر بنا سکوں۔ جبکہ حال یہ تھا کہ کیمرہ کیا جیب سے موبائل نکالنے کی ہمت نہ ہوتی تھی۔ میں نے ان تمام بہادر فوٹوگرافروں کو دل ہی دل میں داد دی اور ان پر رشک کیا کہ انہیں یہاں تصاویر اتارنے کا موقع ملا۔

اسی دوران گھر سے فون آیا تو انہوں نے پوچھا وہاں کے حالات کیسے ہیں؟ میں نے جواب دیا کیا ہوا حالات کو؟ بعد میں میں نے خود سوچا کہ خبریں نہ دیکھ کر میں اچھا ہی کیا کرتا ہوں۔

وہاں سے ہم فرئیر ہال کی طرف نکل گئے اور اس کی خوبصورتی نے مجھے متاثر کیا لیکن زیادہ خوشی کی بات یہ تھی میرے میزبان ایک چھوٹا موٹا کیمرہ ساتھ لے گئے تھے لہذا وہاں پر ہم نے تصاویر بھی اتاریں جن میں سے چند ایک پیش خدمت ہیں۔ جب ہم گھر پہنچے تو رات ہو چکی تھی۔

فرئیر ہال کراچی




رات کو ایک بار پھر کھانا کھانا پڑ گیا اور سوچا کہ ایسی مزیدار بریانی صبح کے ناشتے اور دوپہر کے کھانے کی بجائے صرف یہی مل جاتی تو عیاشی ہوجاتی لیکن وہ ہے نا کہ کسی کے گھر جاتا تو آپ کے بس ہے لیکن وہاں کھانا میزبان کے بس۔

اگلی صبح وہ ٹیکسی والے چاچا جی جو کل ہمیں لے آئے تھے مل گئے اور میرے میزبان نے انہیں مجھے پہنچانے کا ذمہ سونپ دیا۔ چاچا جی نے بہرحال مہربانی کی اور مجھے خیر خیریت سے پہنچا دیا۔ یوں میرا ایک دن کراچی کے ساتھ خیر خیریت سے ختم ہوا اور میں نے دل میں طے کہ اگر کراچی آنا بھی پڑ جائے تو کوئی اتنا بڑا مسئلہ ہے نہیں جتنا لگتاہے۔