October 20, 2014

میڈرڈ- آخرکار

Madrid Aakhirkaar

میڈڑڈ سے محبت کی وجہ کی تمام کہانی آپ پڑھ چکے ہیں لہذا یورپ آنے کے بعد ان چند جگہوں پر جہاں جانے کا دل کیا ان میں سے ایک میڈرڈ بھی تھی اور بڑی خواہش تھی کہ ریال میڈرڈ Real Madridکے اسٹیڈیم سانتیاگو برنباؤ Santiago Bernabeu کے سائے تلے ایک تصویر کھچنوائی جائے لیکن میڈرڈ کوئی سیاحتی مقام تو ہے نہیں جہاں کوئی سستی پرواز مل جاتی۔

اسی دوران میڈرڈ کے دیرنہ حریف بارسلونا اور ان کے اسٹیڈیم کا چکر لگا آیا۔ جرمنی میں بائرن میونخ اور اسٹوٹ گارٹ کلب کے اسٹیڈیموں کا بھی دیدار ہو گیا۔ اٹلی انٹر اور اے سی میلان کے سان سیرو کی بھی زیارت ہو گئی لیکن میڈرڈ کا نمبر نہ آیا۔

ایک وقت ایسا آیا کہ مجھے لگا کہ شاید مجھے یورپ چھوڑ کر واپس جانا پڑ جائے ۔ تب میں نے اپنے دوست سے کہا کہ ایسا ہوا بھی تو میں اپنی پرواز میڈرڈ سے لوں گا کہ ریال میڈرڈ کی زیارت ہو جائے لیکن نہ ہی یورپ چھوٹا نہ ہی براستہ میڈرڈ جا سکا کہ جب بھی ٹکٹ خریدتا خود بخود کم پیسوں والی پر کلک ہوجاتا۔

جب میری سپروائزر نے مجھے پرتگال جانے کی نصحیت کی اور وہاں ایک اور سپر وائزر ڈھونڈ دیا تو نئے پروفیسر صاحب نے ہدایت کی کہ ہماری Sport management یا Sport marketing کی دو بڑی کانفرنسیں ہوتی ہیں ایک ہے اگلے سال کنیڈا میں اور ایک ہے اکتوبر میں اسپین میں ان دونوں میں سے ایک میں لازم جاؤ اور نئی چیزیں سیکھو اور اپنے شعبے کے لوگوں سے ملو۔ میں نے دل میں سوچا کہ کون جیتا ہے کنیڈا جانے تک لہذا اسپین والی دیکھی تو پتہ لگی وہ تو میرے خوابوں کے شہر میڈرڈ میں تھی۔ میں نے وہاں اپنا مقالہ بھیجا اور انہوں نے کمال مہربانی کرتے ہوئے قبول کر لیا بس اب کیا اس بے وفا کا شہر تھا اور ہم تھے دوستو۔ ویسے میں نے اسپین کے راستے میں سوچا ہےکہ کنیڈا والی کی کوشش کرنے میں کیا ہرج ہے کیا پتہ ویزا مل ہی جائے دیکھیں اب کنیڈا والے کیا کرتے ہیں۔

تالن سے میڈرڈ کا ٹکٹ بھی براستہ برسلز (بیلجئم) ملا گویا ایک ٹکٹ میں بے تحاشا مزے۔ میرے جن دوستوں نے اسپین کی سیر کی ہوئی تھی نے مجھے پہلے ہی کہا تھا کہ بارسلونا خوبصورت شہر ہے جبکہ میڈرڈ انتہائی فضول۔ ویسے بھی عام طور پر دارالحکومت فضول شہر ہی ہوتے ہیں تو ان کی بات دل کو لگتی تھی لیکن کیا کیا جاتا کہ وہ بھی دل ہی تھا جو ریال میڈرڈ کے ہاتھوں مجبور تھا۔

لیکن ایک بات یہ بھی ہے کہ میں طبعیت کے لحاظ سے ابو شاہ بھی واقع ہوا ہوں۔ ابو شاہ ہماری گھر کی زبان میں ایسے بچے کو کہا جاتا ہے جس کو جس کام سے منع کرو وہ وہی کام کرنا چاہتا ہے اور اس کو Anti-brand بھی اچھے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ لوگوں کو ایپل پسند ہے اور میں ایپل کو ناپسند کرتاہوں۔ لوگ امریکہ ، برطانیہ جانا چاہتے ہیں اور اگر میری پسند سے ہو تو یہ دو دنیا کے سب سے آخری ملک ہوں گے جہاں میں جاؤں گا لہذا مجھے پکا یقین تھا جیسے لوگوں کی اکثریت کے برعکس میں بارسلونا کا دیوانہ نہیں بن سکا ایسے ہی میڈرڈ مجھے پسند آئے گا۔

میڈرڈ پہنچا اور ہوٹل حسب معمول ڈھونڈتا ڈھنڈاتا، پوچھتا پوچھاتا پہنچا ۔ عام طور پر جب میں ایسی کانفرنس میں جاتا ہوں تو شام کو شہر دیکھنے نکل جاتا ہوں لیکن اس بار میں نے ایک روز زیادہ قیام رکھا تھا اور میں نے شہر گھومنا اور گھومنا اس روز کے لیے موخر کر دیا۔ اور ویسے بھی جس یونیورسٹی میں کانفرنس تھی وہ ریال میڈرڈ فٹ بال کلب نے بنا رکھی ہے اور ادھر بہت سے کھیلوں کو نہ صرف کھیلنا سکھاتے ہیں بلکہ ان کے کوچ اور منیجر بننا بھی سکھاتے ہیں لہذا دوسرے روز انہوں نے ریال میڈرڈ کلب بھی لے جانا تھا اور وہاں نہ صرف اسٹیڈیم کی سیر تھی بلکہ وہاں اختتامی عشائیہ بھی تھا۔

ریال میڈرڈ - سنتیاگو برنباؤ اسٹیڈیم






صبح کانفرنس والے لے جاتے شام کو چھوڑ جاتے اور دوسرے روز کانفرنس کے اختتام کے بعد ہم نے جانا تھا ریال میڈرڈ فٹ بال کلب۔ کلب پہنچ کر ایسی خوشی ہوئی کہ بیان کے قابل نہیں۔ بارہ پندرہ سالوں کی خواہش بر آئی تھی اور میں یورپ میں اپنے چند پسندیدہ ترین مقامات میں سے ایک پر موجود تھا۔ عشائیے میں کھانے میں سالومن مچھلی تھی اور نہ بھی ہوتی تو کیا پرواہ تھی میں ریال میڈرڈ پہنچ گیا تھا اور کیا چاہیے تھا اور کھانے سے پہلے ہم اسٹیڈیم سارا گھوم چکے تھے۔ اب تک میں نے جتنے فٹ بال اسٹیڈیم دیکھے تھے ان کو میں نے باہر سے دیکھا تھا کیوں کہ اندر جانے کی ٹکٹ ہوتی ہے لیکن یہاں تو تکٹ کانفرنس والوں نے بھری اور نہ بھی بھری ہوتی تو بیس تیس یورو تو ریال میڈرڈ سے اب پیارے نہیں۔

اگلے روز پہلی بار میں ہوٹل کے ناشتے میں پہنچا کیوںکہ ہماری کانفرنس کی بس ہمیں ناشتے سے قبل ہی لینے آجاتی تھی۔ ناشتے میں پنیر، انڈوں، جوس اور کافی کے علاوہ میرے کھانے کو کچھ نہ تھا لہذا میں نے انہی سے انصاف کیا اور چل پڑا شہر کی سیر کو۔

قدیم شہر میں قدم رکھے اور پہلے چل پڑا میں کتھڈرل دے المدینہ دیکھنے۔ گرجا خاصا ہیبت ناک تھا۔ اس کے ساتھ ہی بادشاہی محل تھا۔ ان کے پیچھے پارک دے مور یعنی مسلوں کا پارک تھا وجہ یہ بیان کی گئی کہ مسلمان حملہ آور یہاں پڑاؤ ڈالتے تھے لہذا اس کو مور پارک قرار دے دیا گیا۔ کتھیڈرل کے دوسرے طرف پارک دے امیر محمد تھا۔ جو کہ اندلس کے پہلے مسلمان حکمران تھے۔ پارک کیا تھا بس ایک احاطہ تھا بس وہاں سے مسلمانوں کے بنائے شہر کی باقیات ملی تو انہوں نے سوچا کہ یہاں پر پارک بنا دیا جائے۔ تاہم پارک دے المور بہت وسیع عریض ہے۔ اور کتھڈرل اور محل سے ملحق ہے اور اس وقت کے بادشاہوں کے ذوق کی وکالت کرتا ہے۔

کتھیڈرل دے المدینہ 


قدیمی دروازہ شہر میں داخلے کا


ان انکل کے بقول یہ سائیبرین ہسکی خالص نہین بلکہ مکس ہے

کتھڈرل دے المدینہ ایک اور طرف سے

شاہی محل

شاہی محل

پلازہ اسپین

ٹرین اسٹیشن

ایک اور دروازہ


پارک میں


پارک سے محل کا نظارہ






پارک امیر محمد

کتھڈرل کا ایک طرف والا دروازہ

مسلمانوں کے میڈیڈ کے باقیات کی کھدائی




وہاں سے نکل کر مصریوں کے ایک معبد میں گئے جو کہ 1970 میں مصر نے اسپین کو دیا تھا۔ پتہ نہیں اسپین کو ہی کیوں دیا تھا بہرحال سیاست چاہے مقامی ہو یا بین الاقوامی سیاہ ست ہی ہے۔ معبد بلندی پر بنا تھا اور اندر جانے کو لمبی قطار لگی تھی۔ قطار تو چلو لگ بھی جاتا لیکن آگے ٹکٹ بھی تھی اور مصریوں کے سلوک کے بعد میرا قطاً ارادہ نہ تھا کہ فرعونوں پر پیسے خرچ کیے جائیں لہذا باہر سے ہی تصویر اتار کر چلنا جاری رکھا۔

مصریوں کے معبد کو جانا

معبد

ویسے تو میں عام طور پر نقشہ کے بغیر ہی گھومتا ہوں لیکن کانفرنس والوں نے نقشہ بھی دیا تھا تو مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے مجھے پتہ لگا کہ میں اس لیے نقشہ نہیں خریدا کرتا کہ بغیر کسی سمت کے گھومنے کا اپنا مزہ ہے بلکہ اس لیے نقشہ نہیں لیتا کہ اس میں پیسے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔

میڈرڈ کا قدیمی شہر دو بڑے پارکوں کے بیچ ہے ۔ ایک طرف پارک دے المور اور دوسری طرف ریٹرو پارک اور یہ دونوں پارک کوئی پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہیں۔ نقشہ پاس تھا اور میں نے ہر چھوٹی بڑی عمارت، یادگار ، پارک دیکھنے کا ارادہ کیا۔ ابھی میرے ارادوں کو دھچکا میرے بڑۓ والے لینز نے پہنچایا جو پاکستان میں خراب ہو گیا ورنہ اس کو لے کر میں چڑیا گھر لازم جاتا اور وہاں پرندوں اور جانوروں کے کلوز اپ کھینچتا اور خوش ہوتا۔


قدیمی شہر میں




اسپین کا قومی نشان





اتفاق میں برکت


کرائے پر سائیکلیں





یہ مجسمہ میڈرڈ کی پہچان ہے










میڈرڈ کا قدیمی شہر چند بڑے قدیمی شہروں میں سے ایک ہے۔ جس میں جا بچا قدیمی عمارتیں، پارک، مجسمے اور فوارے 
لگے ہیں۔ میں نے بھی جی بھر کر دیکھے اور ان سب لوگوں پر حیرت کا اظہار کیا جنہوں نے مجھے کہا تھا کہ ان کو میڈرڈ پسند نہیں آیا بلکہ بارسلونا زیادہ اچھا لگا۔ حالانکہ بارسلونا ساحل سمندر پر ہے لیکن مجھے تو میڈرڈ نے لبھایا اور پھر موقع ملے تو میں پھر میڈرڈ جانا پسند کروں جب کہ جس وقت میں بارسلونا گیا تھا تو وہ میرے یورپ کے اولین سفروں میں سے ایک تھا تو اصولا مجھے اس شہر کو پسند کرنا چاہیے تھا لیکن تب پسند نہ آیا تو اب کیا پسند آتا۔ البتہ میڈرڈ کا نباتاتی باغ مجھے پسند نہ آیا کہ تالن میں تو نباتاتی باغ پھولوں سے لدا ہوتا ہے جس میں ہر موسم کے پھول ہوتے ہیں یعنی آپ بہار کے علاوہ بھی کسی موسم میں چلے جائیں آپ کو پھول عام ملیں گے کہ انہوں نے ایسی ترتیب کا اہتمام کر رکھا ہے کہ بارہ ماہ میں کسی نہ کسی پھول کے کھلنے کا وقت ہوتا ہے لیکن یہاں بھی اور پرتگال میں بھی پھول کم اور پودے و درختوں پر زور زیادہ تھا۔ البتہ گرین ہاؤس میں یہ مزہ تھا کہ نہ صرف پودوں کے ساتھ چلنے کی جگہ تھی بلکہ سیڑھیوں پر بھی ایک چھوٹا سا راستہ بنا دیا گیا کہ بالائی منظر سے بھی لطف اندوز ہو سکیں۔

اس روز عید الضحی تھی اور ایک حلال شورامے (جس کو یورپ میں کباب کہتے ہیں ) کی دکان دیکھ کر میں وہاں چلا گیا۔ویسے تو میں کباب کھانے سے پرھیز کرتا ہوں لیکن عید کی خوشی میں سوچا آج کھا ہی لیتے ہیں۔ اس سے پوچھا کہ بھائی کہاں کے ہو تو جواب ملا سوریا (شام) کا۔ جب میں نے کھانا کھا لیا تو میرے اسلامی جذبے نے زور مارا اور میں نے عید والے دن ملنے والے واحد مسلمان کو عید سعید (عربی عید مبارک کو عید سعید کہہ کر مبارک دیتے ہیں) کہا۔ اس نے آگے سے ایسے استفہامیہ لہجے میں ہیں کہا کہ مجھے وہ لڑکی یاد آ گئی جس کو ایک لڑکے نے کہا آئی لو یو اینڈ وانٹ تو میری و دیوI love you and I want to marry with you۔ اس نے جواب دیا بھائی میکوں انگریزی نی آندی) (مجھے انگریزی نہیں آتی)۔ جس پر لڑکے نے کیا باجی کچھ نہیں دعا چا کر بتی دا مسئلہ حل تھی ونجے ڈھاڈھی گرمی اے (دعا کر دیں بجلی کا مسئلہ حل ہو جائے- بڑی گرمی ہے)۔ میرا بھی دل آیا کہ کہہ دوں کچھ نہیں بھائی بس دعا کرو ڈینگی مچھر اپنی موت آپ مر جائے لیکن دوبارہ کہہ دیا عید سعید۔ وہ بولا اچھا اچھا عید سعید ہاں ہاں عید سعید۔ یوں میں عید منا کر واپس سڑک پر خواری کو روانہ ہوگیا۔

ریٹرو پارک میں







تمام قابل ذکر عمارات دیکھ کر آخر میں ریٹرو پارک پہنچا اور وہاں میلہ سا لگا تھا۔ جگہ جگہ لوگ بچوں کے ساتھ آئے ہوئے تھے اور فنکاروں کا ہجوم الگ تھا۔ کہیں کوئی گانا سنا کر مجمع اکٹھا کر رہا تھا، کوئی اسکیچ بنا رہا تھا، کوئی کیری کیچر بنا کر ہنسانے کی کوشش کر رہا تھا، کوئی چلتا پھرتا مزاحیہ شو پیش کر رہا تھا، کہیں پتلی تماشہ چل رہا تھا، ایک طرف لوگ کشتیاں چلا رہے تھے ایک طرف جادوگر کرتب دکھا رہے تھے، ٹیرو کارڈز کے ذریعے قسمت کا احوال جان رہے تھے، جوکر الٹے سیدھی حرکتیں کر کے بچوں کو ہنسا رہے تھے، کوئی ریمورٹ کنٹرول پر گاڑیاں چلوا رہے تھے، کوئی غبارے بیچ رہا تھا تو کوئی بلبلے بنانے والی اشیا، کوئی دوڑ لگا رہا تھا، کوئی پاؤں میں پہیے لگائے بھاگتا پھر رہا تھا تو کوئی سائیکل دوڑا رہا تھا۔ اتنے بڑا مجمع ایک ترتیب میں بے تریبی سے پھیلا ہوا تھا۔ کوئی لڑکیوں کو نہیں چھیڑ رہا تھا، کوئی لڑائی نہیں کر رہا، کوئی کسی کو ٹوک نہیں رہا تھا، کسی کو جیب کتروں کی پرواہ نہیں تھی جو جہاں تھا خوش تھا اور میں بھی خوش تھا کہ ہمارا مطلب فوٹو کھینچنا ہے کہ خزاں کے رنگ پھیلے تھے اور کیمرہ میرے ہاتھ میں تھا اور میڈرڈ کا شہر تھا ۔ کانفرنس پر خرچے گئے پیسے پورے ہو گئے اب اور اس سے زیادہ کیا کہوں۔