October 13, 2014

میڈرڈ جانا ہے تو فٹ بال میں آ

Madrid jana hai to football main aa



میڈرڈ Madrd جس کو آزاد دائرۃالمعارف یعنی وکی پیڈیا Wikipedia میں میدرد بھی لکھا گیا ہے اور جو اکثر مقامات کے ناموں کی طرح انگریزی اثر کے تحت میڈرڈ بن گیا ہے اسپین Spain کا دارالحکومت ہے اور میرے سمیت ہر فٹ بال کا شوق رکھنے والے کے لیے اہم مقام ہے۔ لیکن اس سے قبل کے میڈرڈ کے سفر کا احوال لکھا جائے بہتر ہے کہ آپ میرے فٹ بال کے کارناموں سے بھی واقف ہوں جائیں تاکہ میڈرڈ سے میری وابستگی آپ کی سمجھ میں آ سکے۔


1990 کے فٹ ورلڈ کپ میں میں پہلی بار میں فٹ بال سے متعارف ہوا۔ ہمارے گھر میں تقریباً ہر کھیل کرکٹ، ہاکی ، فٹ بال ، اولمپکس دیکھا جاتا تھا اور میں والد اور چچاؤں کے پسندیدہ میراڈونا کا معترف بن گیا۔ حالانکہ 1990 کے ارجنٹینا کو تاریخ کی بری ترین کامیاب ٹیموں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے کہ ان کا مقصد یہ تھا کہ بس مخالف ٹیم کو گول نہ کرنے دو اور جب میچ برابر ہو جائے تو پنلٹی کک پر میچ جیت لو مجھے تو لگتا ہے کوچ نے تمام کھلاڑیوں کو دفاع کی اور پنلٹی پر گول کی ہی تربیت دی۔ لیکن تب بھی ڈھلتی عمر کے باوجود ایک دنیا ارجنٹینی کھلاڑی میراڈونا Maradona کی دیوانی تھی ۔

یوگوسلاویہ کے خلاف کواٹر فائنل میں میرا ڈونا نے جب پنلٹی ضایع کردی تو مجھے آج بھی وہ منظر یاد ہے اور میرے چچا کے الفاظ میں میراڈونا گول ضایع کر کے ایسے بیگ اٹھا کر ٹھہر گیا جیسے چلو واپس چلیں ہم ہار گئے۔تاہم اس کے باوجود ٹیم سیمی فائنل میں پہنچ گئی جہاں اس بار میرا ڈونا نے بڑے ہی اطمینان سے پنلٹی پر گول کر کے ٹیم کو فائنل میں پہنچا دیا۔ فائنل میں آخری لمحات میں ریفری نے ارجنٹینا کے خلاف جرمنی کو پنلٹی دے دی اور ایسے فاؤل پر دی جو عام طور پر فاؤل بھی نہیں دیا جاتا جس کو ماہرین نے مکافات عمل قرار دیا کہ تمام ٹورنامنٹ پنلٹیوں پر جیتنے کے بعد آخر کار ارجنٹینا کو فائنل میں پنلٹی کی وجہ سے شکست ہوگئی۔

تب میں اتنا چھوٹا تھا کہ اکثر ملکوں کے نام پہلی بار سن رہا تھا کجا کجلاڑیوں کے نام لیکن ایک میراڈونا ، دوسرا ارجنٹینا اور تیسرا جرمنی یاد رہا اور اگلے دس سال میں نے میرا ڈونا کی محبت میں پہلے راؤنڈ میں ہی باہر ہونے والے ارجنٹینا کی حمایت میں گزار دیے اور جرمنی سے میراڈونا کو ہرانے کی وجہ سے مخالفت کرتا رہا۔

پھر زیڈان Zidane  آیا اور لوگوں سے سن سن کر کہ وہ مسلمان ہے ، اس کا پورا نام زین الدین زیڈان ہے آہستہ آہستہ اس کی طرف دل کھنچتا چلا گیا اور جب اس کا کھیل دیکھاتو دیکھتا ہی رہ گیا کہ ایسے خوبصورت پاس اور سنگل ٹچ کھیل شاید ہی کسی نے کھیلا ہو۔ حالانکہ اس کی شکل دیکھ کر مایوسی ہی ہوئی کہ نوجوانی میں ہی بیچارے کے بال جھڑ گئے۔ (گنجا اس لیے نہیں لکھا جا رہا کہ کہیں کوئی سیاسی مشابہت نہ ڈھونڈ لیں)۔

کرکٹ باقی پاکستانیوں کی طرح میرے بھی اعصاب پر ایسے سوار تھی کہ ہم ہر چیز کرکٹ کے پیمانے میں تولتے تھے۔ میں سمجھتا رہا کہ فٹ بال بھی ملکوں کے دمیان کھیلی جاتی ہو گی لیکن ہمارے پسندیدہ کھلاڑیوں سعید انور، وسیم، وقار وغیرہ کے جانے کے بعد پتہ چلا کہ فٹ بال تو علاقائی بنیادوں پر کھیلی جاتی ہے۔ اب پتہ چلا کہ زیڈان صرف فرانس کا کھلاڑی نہیں بلکہ اسپینی لیگ میں ایک کلب ریال میڈرڈ Real Madrid کی طرف سے کھیلتا ہے۔ ان دنوں ہمارے گھر میں ڈش انٹینا تھا اور ایک رات چینل بدلتے جو کہ میرا پسندیدہ مشغلہ ہے فٹ بال میچ نظر آیا جس میں زیڈان کھیل رہا تھا۔ لیکن وہ میچ دیکھ کر میری آنکھیں پھٹی رہ گئیں کہ وہاں نہ صرف زیڈان تھا بلکہ پرتگال کا فیگو تھا، اسپین کا راؤل اور کاسئیس تھا، ارجنٹینی سولاری تھا، براذیل کا رابرٹو کارلوس اور رونالڈو تھا، برطانوی مائیکل اوون اور ڈیوڈ بیکھم تھے۔ پہلے تو میں سمجھا جیسے کرکٹ میں کبھی کبھار کوئی ورلڈ الیون ہوتی ہے ویسے ہی فٹ بال میں یہ کوئی نمائشی میچ ہو رہا ہے ورلڈ الیون کا لیکن بعد میں پتہ چلا کہ بھائی یہ ریال میڈرڈ فٹ بال کلب ہے اور کھلاڑی ریال میڈرڈ کے گلاکٹیکوز یعنی گلیگسی یا ستارے کہلاتے ہیں۔ اور زیڈان اور ریال میڈرڈ سے محبت کے سفر کا آغاز ہوا۔

اتنے بڑے ناموں کے باوجود ریال میڈرڈ کامیابیاں سمیٹنے میں ناکام رہا کہ کوئی کوچ اتنے بڑے ناموں کا بوجھ ہی نہ سہ سکا اور میں تو باقاعدہ دیکھتا نہیں تھا لیکن جب دیکھتا تھا کوئی نیا ہی کوچ آیا ہوتا تھا لیکن اس سب کے باوجود میڈرڈ کی محبت دل سے نہ نکلی۔

اسی دوران 2006 کا فٹ بال ورلڈ کپ آن پہنچا اور تب تک میں نے زیڈان کو اور ریال میڈرڈ کو مستقل دیکھنا شروع کردیا تھا۔ اس ورلڈ کپ کے دوران میں دبئی تھا اور جب کواٹر فائنل میں فرانس جو کہ زیڈان کے وجہ سے میرا پسندیدہ ملک تھا کا مقابلہ برازیل سے پڑا تو اتفاق سے ہم ایک ہوٹل میں میچ دیکھ رہے تھے۔ تمام عربی برازیل کے حمایتی تھے اور زور و شور سے حمایتی تھے اور برازیل والا رونالڈو ایسے مشہور تھا جیسے وہ اماراتی کھلاڑی ہو۔ ادھر میں پہلی بار ارجنٹینا کے سحر سے نکل کر فرانس کا حمایتی تھی۔ جب زیڈان کی فری کک پر ہنری نے گول کیا تو میں عربوں کے ڈر ہرے بھی نہ کہہ سکا کیونکہ مجھے ڈر تھا کہ زیڈان اور اسرائیل کا غصہ مجھ بیچارے پر نہ نکل جائے۔ تاہم تاریخ نے ایک بار پھر اپنے آپ کو دوہرایا اور میرے مبارک قدم فرانس پر ایسے پڑے کہ فائنل میں زیڈان صاحب تو ٹکر مار کر فٹ بال سے کنی کترا گئے لیکن اپنے مداحوں کو ایسا زخم دے گئے جو بھلایا نہیں جا سکتا۔ تاہم اگر موقع ملے تو زیڈان کا ریال میڈرڈ کی طرف سے آخری میچ ضرور دیکھیں۔ بلاشبہ ایسا الوداع کم ہی لوگوں کو دیکھنے کا موقع ملا ہو گا۔

2010 کے ورلڈ کپ تک تو میں خود کو خود ساختہ فٹ بال کا ماہر سمجھنے لگا اور 2010 کے ورلڈ کپ میں میں نے اسپین کو فیورٹ اور ہالینڈ کو پسندیدہ کہا تھا اور اسکی وجہ ان میں میڈرڈ کے کافی کھلاڑیوں کا کھیلنا تھا لیکن پھر بھی ہالینڈ کے فائنل ہارنے پر افسوس ہوا جس پر میں احتیاطاً 2014 کے ورلڈ کپ میں جرمنی کو فیورٹ کہا لیکن خود کسی سے امیدیں نہیں لگائیں۔ 2014 میں میسی، نیمار اور پرتگال کے رونالڈو کا بڑا شہرہ تھا۔ میسی کو بلا شبہ میں بہترین کھلاڑی مانتا ہوں لیکن چونکہ وہ میڈرڈ کے ازلی مخالف کلب بارسلونا میں کھیلتا ہے اس لیے اس کی کسی ٹیم کی حمایت نہیں کی۔ نیمار ایک تو کھیلتا بارسلونا میں ہے دوسرا میرے خیال میں کوئی ایسا اچھا کھلاڑی بھی نہیں اس لیے برازیل ویسے ہی ناپسند تھا جبکہ رونالڈو کا پرتگال تو بس اویں ہی ہر بار کوالیفائی کر جاتا ہے۔

اب ویسے میڈرڈ اچھے کوچوں کے آنے سے سنبھل چکا ہے اور اب اس کے دیرنہ مخالف بارسلونا کا زوال چل رہا ہے اور ویسے بھی پی ایچ ڈی میں مداحوں کی وابستگی loyalty کا مطالعہ کرنے سے مجھے میڈرڈ کی مارکیٹنگ کا اندازہ بھی ہو چکا ہے کہ وہ جیتنے کے لیے کھلاڑی نہیں خریدتے بلکہ اس کے نام کی وجہ سے خریدتے ہیں لہذا بس اپنے پسند کے کھلاڑی کو دیکھیں اور جیت ہار سے بے نیاز ہو جائیں۔

یوں تو میں نے خود بھی فٹ بال کھیلی ہے۔ آپ اسکول میں کرکٹ اور ہاکی میں میرے کارنامے پڑھ چکے ہیں تو ہم نے فٹ بال بھی کھیلی۔

فٹ بال میں ایف ایس سی کے سال دوئم میں ہم اسکول میں سب سے زیادہ سینیئر تھے اور دہم بی سب سے مشکل ٹیم تھی۔ اب ہوتا تو یوں کہ ایسے قرعے نکالے جاتے کہ ہم فائنل سے پہلے سامنے نہ آن پاتے لیکن ہمارے کھیلوں کے انچارج قاسم صاحب جن کی قابلیت و ذہانت آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں نے پہلا میچ ہی ہم دونوں کے بیچ رکھ دیا۔

پریکٹس میچ میں ہم خود کو اور مخالف ٹیم کو اچھی طرح جان چکے تھے اور ہمیں پتہ چل گیا تھا کہ ہماری ٹیم میں کوئی لمبی ریس کا گھوڑا نہیں۔ نہ کوئی لمبی ہٹ لگا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی سارے گراؤنڈ کے دو چکر لگا سکتا ہے۔ لہذا ایک لڑکا جس نے اس پریکٹس میچ میں اچھی ہٹیں لگائی تھیں کو مڈ فیلڈر بنایا گیا اور اس کا کام بس جیسے ہی بال آئے آگے کک لگانا تھا۔ اسٹیمنا کا یہ حال تھا کہ ایک اٹیک کے ساتھ بھاگنے میں ہی اکثر لڑکوں کا سانس پھول جاتا تھا لیکن ان کو ایک پوزیشن پر ٹھہر کر کھیلنا عذاب لگتا تھا لہذا جیسے بال آگے جاتی وہ اس کے ساتھ چلے جاتے اور آخر کار اپنے گول میں ہی واپس آ کر ٹھہر جاتے۔ ان کی منت کر کر کے واپس بھیجتے کہ بھائی چاہے تیس چالیس گول ہی کیوں نہ ہو جائیں آپ نے ہاف لائن سے پیچھے نہیں آنا۔

میں اور میرے ساتھ دو اور تجربہ کار لڑکے ہم نے دفاعی پوزیشن سنبھالی اور ایسی سنبھالی کہ آف سائیڈ کر کر کے مخالف ٹیم اور اور ریفری کی ناک میں دم کر دیا۔ ہمارے دو ہی اصول تھے جیسے ہی بال آئے اس کو کک کر دو یا آؤٹ کر دو اور جیسے ہی کھلاڑی پاس دے اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر آف سائیڈ کی اپیل کر دو اب کوئی لائن مین تو تھا نہیں تو ریفری صاحب کو ہماری ہاں میں ہاں ملانی ہی پڑتی تھی۔ مقابلہ ہمارے بس میں جا رہا تھا کہ تنگ آ کر مخالف ٹیم جو ایسے پاس کرتی تھی کہ آنکھیں بند کر کے بھی کھیل سکتے تھے نے اب لمبی ککیں لگانا شروع کر دیں کہ نہ دفاعی کھلاڑی عبور کریں گے نہ آف سائیڈ ہوگا اور ایسی ہی کک پر جو ہوا میں گھوم رہی تھی کو ہمارے گولچی صاحب نے ایسے گول میں جانے دیا جیسے انہوں نے زندگی میں پہلی بار کوئی مڑتی ہوئی کک دیکی ہو۔ اپنے گول کرنے کی صلاحیت کا ہمیں پتہ ہی تھا لہذا ہمارا دل ٹوٹ گیا اور باقی رہی سہی کسر میرے گولچی بننے نے پوری کر دی کہ ایک بال کلئیر کرتے ہوئے ہماری دفاعی کھلاڑی نے بال لے کر آنے والے لڑکے کو بلاک کیا تاکہ میں آگے بڑھ کر بال اٹھا لوں اور میں کھڑا دیکھتا رہا کہ دفاعی کھلاڑی باہر پھینکے اسی دوران ایک اور مخالف کھلاڑی نے آکر گیند گول میں پھینک دی۔

اب پلان یہ بنا کہ فاؤل گیم کریں اور مجھے آج تک سمجھ نہ آئی کہ فاؤل گیم سے ہم کیسے جیت سکتے تھے بہرحال اب کہ تیسرا گولچی آ گیا اور میں دفاعی پوزیشن پر واپس آ گیا اور میں تو فاؤل بھی نہ کر سکا کہ کیا اڑنگی دیتے یا دھکا دیتے کہ مخالف ٹیم میں ہمارے ہی دوستوں کے بھائی تھے اور یوں ہم پہلے ہی پروفیشنل میچ میں ناکامی سے دوچار ہو کر فٹ بال کھیلنے سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

فٹ بال سے محبت یورپ آنے کے بعد اور ہمارے کرکٹ کھلاڑیوں کے کارناموں کے بعد مزید بڑھی اور میں نے ساکر نامہ فٹ بال بلاگ بھی کچھ عرصہ چلائی لیکن پڑھنے والوں کے قال سے دلبرداشتہ ہو کر اس کو بھی خیر باد کہہ دیا۔

اگرچہ کھیلنے کا دل کم کم کرتا ہے لیکن اب دل کرتا ہے کہ کوچنگ کا کوئی موقع ملے تو اپنے ہنر آزمائیں کہ ویسے بھی اب کوچوں کا دور ہے کھلاڑیوں کا نہیں اور میری بھی اب کوچنگ کی عمر ہے کھیلنے کی نہیں