ہماری خواتین بھی ہمارے عوام کی طرح ہیں یا ہمارے عوام ہماری خواتین پر گئے ہیں کہ سارا سال حکمرانوں اور
سیاستدانوں کو گالیاں نکالیں گےمگر الیکشن کے آنے پر دوبارہ انہی کو ووٹ ڈال دیں گے۔ ایسے ہی ہماری خواتین خواہ کتنی ہی الو کے پٹھے قسم کے صفحے فیس بک پر لائک کر تی رہیں لیکن شادی کے خواب وہ کسی الو کے پٹھے کے شہزادے کے ہی دیکھتی ہیں۔
لیکن ہمیشہ سے ایسا نہ تھا بلکہ پہلے نکاح اس لیے ٹوٹا کرتے تھے کہ اللہ کو کیا منہ دکھاؤں گی اور اب اس لیے ٹوٹتے ہیں کہ دنیا کو کیا منہ دکھاؤں گی یعنی پہلے گناہگاروں سے طلاق لی جاتی تھی اور اب ایمانداروں (چونکہ ایماندار بےچارہ غریب ہی ہو گا) سے طلاق لینے کا رواج ہے۔ پہلے خواتین سوچتی تھیں ان کا خاوند حرام کماتا ہے لہذا یا تو وہ طلاق لے لیں گی یا کم از کم حرام کا نہیں کھائیں گی تو بیویوں کو خوش کرنے کے لیے خاوندوں کو کوئی چھوٹا موٹا مجبوراً حلال طریقہ سے بھی کمانا پڑتا تھا اور بیگم ہیروں کا ہار تب ہی قبول کیا کرتی تھی کہ "بیگم تمھاری قسم یہ تو میں نے اپنی پرچون کی دکان کے پیسوں سے لیا ہے رشوت، ناجائز منافع خوری یا دیگر حرام کاری سے نہیں"۔
لیکن وقت کم بدلا ہم زیادہ بدلے اور اکثر گناہ کے کام ثواب میں بدل گئے اور جن ماؤں نے خود حلال کی دو وقت کی روٹی میں تمام عمر گزار دی یہ سوچنے لگیں کہ بیٹی نے رونا تو ہے تو بجائے اس کے کہ لکڑیوں کا چولہا جلاتے روئے اچھا نہیں کہ اے سی میں بیٹھ کر روئے تو وہاں کسی بہتری کی توقع عبث ہے۔ اور اس بی بی نے اے سی میں بیٹھ کر وہ وہ فرمائشیں کی کہ قارون کے خزانے بھی کم پڑ گئے لیکن اس بی بی کی خاندان میں ناک اونچی نہ ہو سکی اور بیچارہ خاوند لاکھوں خرچ کر کے بھی اپنی بیگم (جو کہ بیگم کم اور بے غم زیادہ ہوتی ہے) کی پھوپھو کا یہ سوچنا ختم نہ کرا سکا کہ ان کی بھتیجی تو کسی غریب کے گھر میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہے۔
نیکی کے لیے ایسے حالات آ گئے کہ فیس بک پر ایک کہاوت کافی پھرتی رہی ہے کہ اگر آپ چاہتے ہیں آپکا جوان بیٹا نمازیں نہیں پڑھتا تو محلے کی کسی جوان لڑکی سے کہلوائیں نمازیں کیا روزے بھی نہیں چھوڑے گا لیکن اس پر ہمارا تحفظ یہ ہے کہ نمازیں تو پڑھ لے گا لیکن بھلا لڑکی اپنے ایزی لوڈ پر لات کیوں مارے گی؟
اللہ پوچھے اسٹار پلس کے ڈرامے چلوانے والوں سے کہ لڑکیاں تو لڑکیاں ان کی مائیں بھی فقط سازشوں تک محدود رہ گئی ہیں اسی لیے نوجوانوں میں سازشی پکوڑوں کی مانگ بھی دن بہ دن بڑھتی جار ہی ہے اور قطع نظر اس سے کہ وہ اصلی گھی میں تلے گئے ہیں یا کسی غیر قانونی فیکٹری کے بنولے والے تیل سے دھڑا دھڑ بک رہے ہیں۔
لیکن آج ہم ایک نیا بغیر سازشی مفروضہ پیش کرنے جا رہے ہیں کہ اگر خواتین سدھر جائیں اور یہ ٹھان لیں کہ انہوں نے ملک سنوارنا ہے تو یقین مانیے 90 فیصد عوام سدھر جائےگی۔
ایک جگہ پڑھا تھا کہ اندرا گاندھی الیکشن ہار گئی تو حلقے کا ریٹرننگ آفیسر سخت مشکل میں تھا کہ ایک سرکاری نوکر کس منہ سے اعلان کرے کہ وزیر اعظم اور نہرو کی بیٹی ہار گئی ہے۔وہ بیچارہ گھر گیا اور اپنی بیوی کو اپنی مشکل کا بتایا کہ اعلان کی صورت میں نوکری جا سکتی ہےبیگم صاحبہ نے فرمایا، "جاؤ وہی کرو جو جائز ہے ہم برتن مانجھ لیں گے مگر بے ایمانی نہیں کریں گے"۔ سیاہ ست اور عدلیہ کے ملوث ہونے کی وجہ سے ہم اس ریٹرننگ آفسر کے پاکستانی ہم منصب پر تو روشنی نہیں ڈال سکتے مگر اس بی بی کی ہم منصب ہماری بی بیاں بھی کچھ ایساہی کہتی ہیں کہ "جاؤ وہی کرو جو جائز ہو مگر آج رات ہمکو شاپنگ کے لیے ایک لاکھ چاہیے"۔
مجھے یاد نہیں آخری بار کسی ماں کو میں نے اپنے بچے کو چھڑکتے دیکھا ہو کہ کیاآنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہے لڑکی کو ماں لگتی ہے تمھاری۔ وہ زمانے گزر گئے جب حرام کی کمائی لانے پر بیوی طلاق کا مطالبہ کرتی تھی اب تو مال نہ آنے پر نوبت طلاق تک پہنچتی ہے۔ ماؤں نے بچوں کو حرام حلال سمجھانا ہی چھوڑ دیا ہے کہ کہیں کل کو مانگیں اور حلال حرام نہ شروع ہو جائے بیوی کی شوہر سے محبت فقط اپنے مطلب تک ہے کہ خواہشیں پوری ہوتی رہیں۔
ایسی اخلاقی گراوٹ آئی ہے کہ نہ پوچھیں، ٹھیک ہے کہ فیس بک پر نوے فیصد لڑکے ہیں جو کہ اب غلط ہوتا جارہا ہے لیکن تمام رات کالز اور ایس ایم ایس سننے والے اب صد فیصد تو لڑکے نہیں ہوتے جو لڑکی بنے ہوتے ہیں اگر لڑکیاں ہی سننے سے انکار کردیں تو لڑکے آپے ہی انسان بن جائیں گے۔ کالجوں کے سامنے رال ٹپکانے والے اب کسی کو اغوا تو نہین کرتے بلکہ لڑکیاں اپنی خوشی سے ان کے ساتھ جاتی ہیں۔
ہماری خواتین کی بھی پتہ نہیں کونسی کل سیدھی ہے اور آج تو بالکل سیدھی نہیں کہ دنیا بھر میں جہاں بھی گیا ہوں کسی بھی دفتر میں جائیں سامنے دیکھیں جہاں خاتون بیٹھی ہو ادھر چلے جائیں ادھر قطار بھی چھوٹی ہوگی کہ وہ سب کو جلدی فارغ کرتے ہے دوسرا خوش اخلاق بھی ہوگی اور ایک پاکستانی خواتین ہیں آج تک کی تاریخ میں ایک آدھ کے سوا دفاتر میں بینکوں میں جہاں بھی کام کر رہی ہوں گی آپ کو پہلی نظر میں ایسی حقارت سے دیکھیں گی کہ آپ کا دل چاہے گا کہ دنیا سے تیاگ لیکر جوگی بن جائیں لیکن کیا کیا جائے کہ جنگل بھی ان کے صحرا بھی انکے کہ وہاں بھی مین گیٹ پر کوئی خاتون ایسی بے اعتنائی سے کام کر رہی ہوگی گویا کسی کو کوڑھ کے مریضوں کے وارڈ کی صفائی کرنی پڑگئی ہو۔ اخلاق و سلوک اپنی جگہ قابلیت بھی پوری سوری۔
مجھے یاد ہے کہ جب میں اپنا انگریزی شناختی کارڈ بنوانے گیا تو وہاں بی بی کی ٹائپنگ سے تنگ آ کر میں نے اس کو پیشکش کر دی کہ بھائی میں کر دوں ٹائپ اور اگر مجھے دبئی اتنے زور سے نہ آیا ہوتا تو یقین مانیں میں تین حرف بھیج کر گھر واپس آجاتا جیسے جب میں نے یو بی ایل میں اکاؤنٹ کھلوایا اور اے ٹی ایم کارڈ ایکٹیویٹ کرانے کے لیے جب فون کیا تو آگے خاتون نے اٹھا یا اور اس کی قابلیت سے متاثر ہو کر میں نے کہا بی بی عیاشی کرو اور میرے اکاؤنٹ میں پڑے ہزار روپے واپس کرو نہیں چاہیے کارڈ۔
دفاتر یا پیشہ وارانہ جگیوں پر ہی مسئلہ نہیں ہماری خواتین جہاں بھی گئی داستان چھوڑ آئیں کہ اللہ نہ کرے آپ کو دوران سفر کسی پاکستانی خاتون کے ساتھ سفر کرنا پڑ جائے۔ آپ ہفتہ پہلے آن لائن سیٹ بک کر کے پہنچے اور آگے بی بی صاحبہ چھوٹتے ہی کہیں گی آپ سیٹ تبدیل کر لیں گویا آپ یہاں آئے ہی لڑکیاں اٹھانے تھے۔ خواتین پر ہی نہیں فیملی بھی ایسے ہی کرتی ہیں حالانکہ یورپ سے آرہے ہوتے ہیں پڑھے لکھے ہیں آپ پہلے ویب سائیٹ پر بک کرلیں لیکن نہیں وہ پاکستانی خاتون کیا جو باعث زحمت نہ ہو۔ آپ ہوائی اڈوں پر پاکستانی خواتین کو باآسانی پہچان سکتے ہیں کہ ان کے شوہر منوں وزنی بیگ اٹھائے قلی بنے پھر رہے ہوتے ہیں اور بندہ دل ہی دل میں ان سے بھرپور ہمدردی کرتا ہے اور دعا کرتا ہے اللہ میاں ہمیں بھی استقامت عطا کرنا کہ کل کلاں آپ نے بھی فیملی کے ساتھ سفر کرنا ہے اور منوں وزنی بستے ڈھونے ہیں۔
ادھر سفر ختم ہوتا ہے اور ایک نیا خدشہ پیدا ہوتا کہ امیگریشن پر بندہ بس یہ دعا کرتا اترتا ہے کہ اللہ کرے کاؤنٹر خواتین نہ بیٹھی ہوں پاسپورٹ اندراج کرنے کے لیے کہ بس آپ کو دیکھیں گی اور پاسپورٹ کو دیکھیں گی اور بار بار دیکھیں گی اور اتنی بار دیکھیں کہ آپ کا دل کرے گا جاتے جہاز کو آواز مار کر کہہ دوں کہ "باؤ اُچی گڈی والے آ سانوں واپس لئی چلے ہاں"۔
اس میں کوئی شک نہیں ہماری قوم بھی ہنسی تو پھنسی کی ذہنیت رکھنے والی ہےاور لڑکی دیکھی نہیں کہ رال ٹپکنی شروع نہیں ہوئی اور کوئی خاتون خوشی سے نوکری پر نہیں آتی لیکن اب اگر وقت پڑ ہی گیا ہے تو میری بیٹیو بہنو ماؤ مخلوق کے لیے آسانی پیدا کرؤ اللہ نے آپ کے دل میں نرمی رکھی ہے تو ذرا نرمی سے کام لے لو کوئی نہیں آپ کو کھاتا۔ مرد تو مرد ہیں یہی خواتین اپنی ہم جنس خواتین سے ایسا سلوک کرتی ہیں کہ وہ دفاتر سے گالیاں نکالتی نکلتی ہیں۔ لیکن سوال پیدا یہ ہوتا ہے کہ ان رال ٹپکاتے، حریص، واہیات مردوں کی پرورش بھی تو خواتین نے کی اگر پہلے دن سے ہی ایسی حرکتوں پر دو چار لگا دیے ہوتے تو آج سکون ہوتا ناں۔
بہرحال میرا ایمان ہے جس دن خواتین نے سوچ لیا کہ بس بہت ہو گیا اس دن ان کے شوہر تو سدھر ہی جائیں گے کہ بیچارہ شوہر تو ویسے ہی بیگم کے ابرو کے اشارے کا محتاج ہوتا ہے یہ جو نئی نسل کا دماغ خراب ہوا ہے انہوں نے بھی انسان کا بچہ بن جانا ہے۔ یقین مانیں پاکستان کے سدھرنے کا واحد امکان یہی ہے کہ ہماری خواتین سدھر جائیں اور یہ تعلیم سے نہیں ہونا کہ وقت گزر گیا کہ تم مجھے پڑھی لکھی ماں دو میں تمھیں پڑھی لکھی نسل دوں گا یہاں تعلیم نے کسی کا کچھ بگاڑا ہے تو اپنا ہی بگاڑا ہے لہذا ایسی خواتین جو برائی اور بھلائی اچھا اور برا جانتی ہوں وہی پاکستان کو سدھار سکتی ہیں کہ جب سگنل توڑنے پر، لڑکیوں کو گھورنے پر، بڑوں سے بدتمیزی کرنے پر، گالیاں بکنے پر، لوگوں کے لیے باعث زحمت بننے پر گردن کے نیچے لگیں گے تو ساری نسل دو طمانچوں میں ہی سدھر جائے گی وگرنہ بس رہے نام اللہ کا کہ خود سوچ لیں کہ اگلی نسل کی پرورش اس نسل نے کرنی ہے جو پچھلی نسل نے چاند چڑھا کر پال کھڑائی ہے اور جس کے اخلاق کے بارے کسی بلاگر سے اس کے بلاگ پر ان لوگوں کے لکھے لفظ پوچھ لیں جو گوگل پر اردو میں سرچ کر کے آتے ہیں۔
Khawateen jagao, Mulk bchao