ویزوں کے متعلق میرا ایمان ہے کہ ویزا سیکشن میں ویزا جاری کرنے والا شخص "اکڑ بکڑ بمبے بو" کے مترادف اسی کی مادری زبان میں خشوع و خضوع سے پڑھ کر جس درخواست پر سو آتا ہے اس کو ویزا جاری کر دیتا ہے اور باقیوں کو یوں ہی الٹے پلٹے اعتراضات لگا کر لوٹا دیتا ہے کہ اگر جن کو ویزا ملتا ہے اور جن کو نہیں ملتا سے پوچھیں تو کچھ بھی عقل میں نہیں پڑتا تاہم اگر کوئی بات عقل میں آتی ہے تو وہ یہ کہ یا تو ان لوگوں کو ویزا مل جاتے ہے جنکے اکاؤنٹ پیسوں سے لدے پھدے ہوتے ہیں یا جن کے بارے پکا یقین ہوتا ہے کہ یہ ایک بار چلے گئے تو واپس نہیں آنا اور آپ کے اور میرے جیسے جو جانے کی بجائے واپسی پر توجہ مرکوز کیے ہوتے ہیں ٹکا سا جواب لیے اوقات میں واپس آ جاتے ہیں۔
اب "اسی نوے پورا سو" ہماری ہی درخواست پر آنے کے لیے قسمت اچھی ہونی چاہیے اور قسمت کے معاملے میں تو ہم ایسے دھنی واقع ہوئے ہیں کہ اگر آج اعلان ہو جائے کہ ایک کے سوا سارے پاکستانیوں کو کل سے کھانا مفت ملے گا تو ہم اس ایک بندے کا نام دیکھنے کا تکلف کیے بغیر ہی سمجھ جائیں گے وہ خوش نصیب ہم ہی ہوں گے کہ تاریخ بتاتی ہے کہ امتحانات میں جب ہمیں کوئی درست جواب بتا بھی دیتا تھا تو کہ "دوسرے کا بی" اس کے باوجود یا تو ہمارے سے اس دائرے میں رنگ درست نہیں بھرا جاتا تھا یا غلطی سے ساتھ والے اے اور سی آپشن پر بھی نشان لگ جاتے تھے اور نتیجتہً ہمیں ہر امتحان کے بعد نئے بہانے سوچنے پڑتے تھے جس سے گھر والوں کی ڈانٹ سے بچا جائے تو ایسی صورت حال میں ویزا تو بڑے دور کی بات ہے۔
اس ساری قسمت کی خوبی بیان کرنے کا مقصد یہ ہے ہمارے پروفیسر صاحب نے فرمایا کہ کنیڈا/کینیڈا بمطابق انگریزی Canada میں کانفرنس ہو رہی ہے اس میں مقالہ بھیجو۔ اب جو بدقسمت پاکستان سے باہر ڈاکٹریٹ کر رہے ہیں وہ یہ آرٹیکل/ مقالہ لکھنے کے عمل سے بخوبی آگاہ ہوں گے کہ اچھا بھلا بندہ مقالہ لکھتے لکھتے سیگرٹ /کافی کا عادی ہوجاتا ہے اور پھر پہلے لکھو پھر کانفرنس میں بھیجو اور پھر دعا کرو کہ قبول ہو جائے۔ اس کے بعد ادھر ادھر ہاتھ مارو کہ کسی اللہ کے بندے کی تنظیم سے مالی مدد بھی مل جائے کہ آپ ادھر کانفرنس بھگتا آئیں۔
ہم نے مقالہ لکھا، پروفیسر نے سجایا سنوارا اور کانفرنس والوں نے قبول کرلیا۔ ہم نے یونیورسٹی کی منت کی انہوں نے پیسے دے دیے۔ لیکن اصل مرحلہ اب شروع ہوا تھا وہ تھا کنیڈا کا ویزا۔
یوں تو ہم نے پروفیسر کو پہلے بتا دیا کہ استاد جی ہم پر نہ رہنا کہ ہم کو ترکی ویزا نہیں دیتا کجا امریکہ ، کنیڈا۔ لیکن یورپی ملکوں کے لوگ کیا جانیں ایمیسیوں میں خواری کا سواد۔
انہوں نے کہا بس تم پریزنٹیشن Presentation بناؤ جانے سے پہلے ہم اس کو فائنل کر لیں ۔ ہمارا کیا جاتا تھا ہم نے اگلے ہی ہفتے پریزینٹینشن بنا کر بھیج دی اور اس میں ان کی منشا کے مطابق تبدیلیاں بھی کردیں۔ اور کچھ پروفیسر صاحب کی خود اعتمادی سے متاثر ہو کر ہم نے کینیڈا میں موجود اپنے کزنوں دوستوں سے رابطہ کیا اور ان سے رہنے ، گھومنے پھرنے کی تفصیلات طے کر لیں۔
ویزا خواری شروع ہوئی تو سب سے پہلے یہ پتہ لگا کہ ایسٹونیا میں کناڈی ایمبسیسی نہیں لہذا مجھے پولینڈ میں کناڈی ایمبیسی میں کاغذات بھیجنا ہوں گے دوسرا یہ کہ ہم ان ملکوں کی فہرست میں ہیں جن کا دیدار کیے بغیر کناڈی ویزا نہیں دیتے لہذا ہمیں بنفس نفیس بقلم خود ایمبیسی میں جانا ہوگا۔ نوکر کی تے نخرہ کی میں پہنچ گیا۔ میں نے سوچا اسی بہانے اپنے پرانے گڑھ وارسا کا بھی دیار ہو جائے گا اور ایمبیسی میں جا کر انگوٹھے کے نشانات اور تصاویر بھی کھینچوا اؤں گا اور اس عمل سے فارغ ہو کر انتظار کرنے لگے کہ دیکھیں اب کیا ہو۔
جب ایک ہفتہ گزر گیا اور کوئی جواب نہ آیا تو میں نے ان کو ای میل کی کہ بھائی میں نے ٹکٹ لینی ہے پروگرام فائنل کرنا ہے آپ تو ایسے سکون سے بیٹھ گئے جیسے میں نے اگلے سال انا ہو جبکہ پولینڈ سے عام طور پر ایک ہی دن میں ویزا دے دیا جاتا ہے۔ ہاں ناں تے کرو۔ مجھے ایک خلش یہ بھی تھی کہ اگر میں نے یہ کنیڈا کی کانفرنس اور ویزے کا پنگا نہ ڈالا ہوتا تو میں مارچ میں ہی فارغ تھا اور میں پاکستان جا سکتا تھا لیکن اسی چکر میں مجھے تین ماہ تالن میں فارغ بیٹھا پڑا کہ میں یونیورسٹی سے کلاسیں ویسے ہی ختم کر چکا تھا اور پی ایچ ڈی کا کام صرف ریسرچ کا تھا جو کہیں سے بھی ہو سکتا تھا۔
اب ایک مسئلہ یہ تھا کہ ویزا پراسس ایک آن لائن سسٹم کے زریعے ہوتا تھا جس میں کچھ کہنے کی جگہ نہیں تھی یعنی بس کینیڈا والوں کی طرف سے ون وے ٹریفک ہے کہ جو انہوں نے بتانا ہے وہ بتا دیا اور بس چپ چاپ ان کی سنی جاؤ۔ یوں تو ہم اس معاملے میں بطور قوم ماہر ہیں لیکن کبھی کبھار بندے کو اب جلدی بھی ہوتی ہے۔ کہیں سے ای میل کرنے کے لیے ایک پتہ ڈھونڈا اور وہاں ای میل بھیج دی جہاں سے مشینی جواب ملا کہ ای مل گئی آپ اسی سافٹ وئیر میں اپ ڈیٹ کے لیے رجوع کریں۔
بہرحال المختصر ، الجامع اور عین اوقات کے مطابق ویزا منسوخ ہونے کی اطلاع ملی اور وجہ یہ بتائی گئی کہ میرے مالی حالات اس قابل نہیں کہ میں وہاں اپنا خرچہ اٹھا سکوں۔ ویسے تو میرے مالی حالات اس قابل نہیں کہ میں خود کو ہی اٹھا سکوں خرچہ دور کی بات ہے لیکن مجھے غصہ اس بات پر چڑھا کہ یونیورسٹی کی سکالر شپ کس مرض کی بلا تھی۔ اور میں بھی جانتا ہوں وہ بھی جانتے ہیں کہ میرا ویزا صرف پاکستانی پاسپورٹ کی وجہ سے منسوخ کیا لیکن کوئی اچھا بہانہ تو بتاتے بس "اکڑ بکڑ بمبے بو اسی نوے پورے سو" میں مالی حالات آئے اور اس نے اسی پر ٹِک کر دیا۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر آپ سوچ سکتے ہیں اور اس کو کاغذ پر بھی اتار سکتے ہیں تو آپ کا اندر آپ کو کچوکے لگاتا رہتا ہے تو آخر میں نے بھی تنگ آ کر ایک "کھلا" خط لکھا کینیڈی وزارت خارجہ کے نام اور اس وزارت میں جو بھی ای میل ایڈریس ملا اس پر بھیج دیا کہ کوئی تو پڑھ کر کم از کم سوچے گا تو سہی کہ ایک آدھ چول بھی پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں۔
چونکہ خط کھلا ہی ہے لہذا اس کا آزاد اردو ترجمہ میرے اردو انداز تحریر میں درج ذیل ہے۔ یاد رہے اصل خط سنجیدہ طرز پر تھا۔ اگر کوئی کینیڈی پڑھ لے تو اس کو ہمارا بقائمی ہوش و حواس طعنہ و جواب سمجھا جائے۔
حضور والا،
سب سے پہلے تو مجھے پتہ ہے کہ یہ پتہ اس خط کو بھیجنے کے لیے درست مقام نہیں لیکن پہلے تو آپ نے کوئی درست مقام بتایا ہی نہیں ہوا اور اگر ہے بھی سہی تو یہ بندہ اس درست مقام کو ڈھونڈ ہی نہیں سکا اور پھر ویسے بھی کیا فرق پڑتا ہے کہ آپ نے اُس کو بھی ڈیلیٹ ہی کرنا تھا اِس کو بھی ڈیلیٹ کرنا ہے کہ جن کے پاس کینیڈا کا "مقدس" ویزا نہیں ان کی بات کا کیا وزن۔
جناب میں ایسٹونیا میں پی ایچ ڈی کا سال آخر کا طالب علم ہوں اور اپنی تحقیق کے سلسلے میں میں کینیڈا کے شہر اوٹاوہ میں ہونے والی کانفرنس میں ایک مقالہ بھیجا تھا جو انہوں نے قبول کرتے ہوئے چھ جون کو مجھے اپنی تحقیق کو پیش کرنے کے پریزینٹیشن کا وقت دیا تھا۔
اگرچہ میں اپنے پرفیسر کو بتاتا رہا کہ جناب خواہ ہم آسمان سے تارے توڑ لائیں امریکی و کینیڈی ویزے کے لیے ہم شودر ہیں لیکن ان کے اصرار پر پہلے میں نے مقالہ بھیجا جو قبول ہو گیا، پھر وظیفہ مانگا جو منظور ہو گیا اور پھر ویزے کے لیے درخواست دی اور جیسا کہ امید تھی وہ مسترد ہو گیا۔
وارسا ایمبیسی میں ویزا جاری کرنے والے حضرت نے فرمایا کہ میرے مالی حالات ایسے نہیں کہ میں کینیڈا میں پانچ دن کا خرچہ پورا کر سکوں۔ میں 2009 سے یورپ میں رہ رہا ہوں پہلے پولینڈ سے ماسٹرز کیا اور اب پی ایچ ڈی ایسٹونیا سے کر رہا ہوں اور دونوں میں سے ایک بھی یونیورسٹی خیراتی نہیں تھی۔ مجھے تصاویر کھینچنے کا شوق ہے اور اسی سلسلے میں میں بیس سے زائد ممالک (جو طاہر ہے ایشیائی اور یورپی تھے ) گھوم چکا ہوں۔ اگر محض تصاویر کھینچنے کے شوق میں اور سیاحت کے شوق میں اتنے ممالک گھوم کر بھی میں یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ میں کینیڈ میں اپنا خرچہ پورا کر لوں گا تو نجانے کونسا قارون کا خزانہ آپ میرے اکاؤنٹ میں ڈھونڈ رہے ہیں۔ اور اگر آپ سمجھتے ہیں 1400 یورو کینیڈا میں پانچ دن کے لیے کم ہیں تو ایسٹونین حکومت کو خط لکھیں اور انہیں آگاہ کریں کہ وہ اپنے طلبا کے ساتھ کتنا ظلم کر رہے ہیں کہ ان کو اتنے پیسے دیتے ہیں کہ بیچارے کینیڈا آکر بھوکے مرتے ہیں۔
وارسا ایمبیسی والے اس بات پر متفق نہیں ہو سکے کہ میں کینیڈا سے واپس آؤں گا تو اگر چھ سال یورپ میں گزار کر ، ہر چھ ماہ پاکستان کا چکر لگا کر، پی ایچ ڈی تقریباً لے کر بھی ان کو راضی نہیں کر سکا تو پھر میرا استعفا بہ حسرت و یاس۔ اگر آپ سوچتے ہیں کہ میں اپنی پی ایچ ڈی کی ڈگری فلش میں بہا کر کنیڈا میں کسی ہوٹل میں برتن دھونے لگ جاؤں گا کسی بار میں ساقی گری کرنا شروع کر دوں گا تو سلام ہی ہے آپ کی سوچ کو کہ اگر میں اتنا ہی اچھا ہوتا تو پہلے اپنے برتن تو دھو لیتا اور میرا واحد کپ سفید سے سیاہ رنگ کا نہ ہو گیا ہوتا اور جس شخص نے کبھی خود اٹھ کر پانی کا ایک گلاس نہ پیا ہو وہ دوسروں کو خاک پلائے گا۔
حضور یاد رہے کہ میں ان میں سے نہیں جو کسی ملک میں رہنے کے لیے کچھ بھی کر گزرتے ہیں اور ہمارا بھی ایک "اسٹینڈڑ" ہے کہ میں ایک کتاب یافتہ مصنف ہوں جس کے افسانے آپ 250 روپے خرچ کر کے "شجر محبت" میں پڑھ سکتے ہیں یا اگر میری طرح ہی آپ کی مالی حالت ہے تو مفت بھی "اس طرف سے" aili22.blogspot.com میں پڑھ سکتے ہیں اس کے علاوہ میرا نیا پراجیکٹ چڑیا گھر birdsanimals.wordpress.com پر دیکھ سکتے ہیں جہاں آپ نے بیچارے ٹورنٹو چڑیا گھر کے جانوروں کو ملنے والا ممکنہ نمائندگی کا موقع گنوا دیا ہمارا کیا ہے ٹورنٹو نہ سہی میں برلن جا کر وہاں کے جانوروں کی تصویر کھینچ لوں گا۔
تو جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ میرے خیال میں اگر یہ درخواست کسی گورے ملک کے پاسپورٹ کی ہوتی تو وہ قبولیت کی سند پا لیتی۔ تو ہم جیسوں کے لیے کنیڈا آنے کے لیے یا تو اکاؤنٹ پیسوں سے بھرے ہوں خواہ وہ اکاؤنٹ جیسے بھرے گئے ہوں تو وہ اللہ میاں نے نہیں دیے یا آپ ہنر مند ہوں اور کنیڈ کا پاسپورٹ حاصل کرنے کے لیے وہاں ہر قسم کی نوکری کرنے کو تیار ہوں تو نہ ہی ہم ہنر مند ہیں نہ ہی کینیڈا کے پاسپورٹ کی ایسی محبت میں گرفتار کہ وہاں کسی بھی قسم کی نوکری قبول کرلیں – میرے جیسے لوگوں کے لیے آپ کے پاس کوئی جگہ نہیں۔
میں کئی بار اپنے دوستوں سے کہہ چکا ہوں کہ یوں تو میں دنیا بھر گھومنا چاہتا ہوں لیکن شمالی امریکہ اور بھارت وہ آخری ملک ہوں گے جہاں میں جانا چاہوں گا اور اس کی وجہ آپ کے ویزا و امیگریشن حکام کا رویہ ہے اور میں آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے میرا ویزا منسوخ کر کے مجھے میری اوقات اور میری بات یاد دلا دی اور میرے موقف کو درست ثابت کردیا۔
آخر میں مجھے یہ پتہ ہے کہ ایک خود کار ای میل جواب میں آ کر کہے گی کہ یہ درست مقام نہیں آپ سافٹ وئیر پر رابطہ کریں تو جیسا کہ میں نے پہلے کہا "کیا فرق پڑتا ہے" اور ویسے بھی آپ کو فرق نہیں پڑتا تو مجھے بھی نہیں پڑتا آپ مجھے ویزا نہ دیں میں آپ کو اہمیت نہ دوں گا اور آپ اپنا کنیڈا، ویزا، اور ترجیحی سلوک اپنے پاس ہی رکھیں ۔ اگر چھ ارب دنیا کی آبادی میں سے ایک بندہ نہیں آئے گا تو کینیڈا کو کوئی اثر نہیں پڑنے والا ایسے ہی 200 ممالک میں سے دو نہ دیکھے تو خیر ہے ہم بھی زندہ رہ لیں گے۔ رہے نام اللہ کا
جیسے پطرس صاحب ہاسٹل کی سب تیاریاں کر چکے ہوتے ہیں تو ان کو پاس کر دیا جاتا ہے ایسے ہی جب میں کینیڈا کی ساری تیار کر چکا تو فیل کر دیا گیا تاہم مجھ سے زیادہ غم میرے پروفیسر کو لگا میرے کینیڈا نہ جانے کا کم اور میری پریزینٹیشن ان کو پڑھنے کا زیادہ۔
kaha Canada ko jao. kaha visa aap dain ge