December 20, 2016

عرب بہار کی شام


 اپنی دانست میں تو ہم سال کا آخری بلاگ لکھ چکے تھے لیکن اسی دوران دو ایسے واقعات ہوئے جنہوں 
نے ہمیں مجبور کیا کہ ہم ایک آدھ بلاگ اور لکھ دیں جس میں ایک حلب کی خانہ جنگی اور دوسرا پی آئی اے کے کارنامے ہیں۔ تو قارئین کی آسانی کے لیے شام جنگ کا آسان زبان میں احوال لکھنے کی کوشش ہے-


 تب میں پولینڈ میں تھا جب شمال افریقی عرب ممالک میں احتجاجی تحاریک کا سلسلہ شروع ہوا تھا- ہماری ایک استانی جو ہر قسم کی آزادی کی تحاریک خواہ وہ روس میں ہوں کہ کیوبا میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھی سے تبادلہ خیال کے دوران میں نے کہا ایک تو یہ سلسلہ زیادہ دن چلنا نہیں دوسرا جس دن کسی بھی مسلم ملک میں عوام کی اصل نمائندہ حکومت آ گئی اس دن امریکہ اور مغرب نے اپنا منہ سر پیٹ لینا ہے- پہلی بات تو خیر ہماری غلط ثابت ہوگئی کیونکہ تب تک ہم جانتے نہ تھے کہ امریکہ کو جمہوریت کی بحالی کا دورہ پڑا ہے اور لیکن دوسری بات تب درست ثابت ہوئی جب مصریوں کی نمائندہ حکومت مرسی کو پہلی ہی فرصت میں چلتا کیا گیا- 

بہرحال خلیج جنگ کے بعد امریکہ بہادر نے جہاں جہاں قدم رکھا وہاں وہاں تباہی کا در کھولا- صدام اور قذافی کو جتنا برا کہہ لیں کم از کم انہوں نے چھوٹی موٹی دہشت گرد تنظیموں کو قابو میں رکھا ہوا تھا- کہتے ہیں کہ اس سارے جمہوریت کے ڈرامے پیچھے ہیلری کلنٹن کا ہاتھ ہے جو اس وقت امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ تھیں اور سب ہتھیار اور فنڈز انہوں نے جاری کرائے جس سے عرب ممالک میں ایسی بے چینی کی لہر شروع ہوئی جو آج تک ختم نہیں ہو پائی۔ 

باقی علاقوں میں منہ کی کھا کر امریکہ نے شام میں قدم رکھا- جہاں اس کا حمایتی سعودی عرب تھا جو شام میں علوی حکمرانوں کا خاتمہ چاہتا تھا ادھر بشار الاسد کا حامی ایران تھا جو کہ عراق سے اپنے قدم مزید آگے بڑھانا چاہتا تھا لیکن جب دولت اسلامی المعروف آئی ایس یا اسلامک اسٹیٹ نے زور پکڑا تو سعودی اتحاد کو خیر آ گئی اور سعودی عرب کی حامی ملیشیا کو ایک طرف اسد فوج کا سامنا کرنا پڑ گیا دوسری طرف دولت اسلامی نے زور پکڑ لیا- 

اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ روس جو کب سے بالٹک ریاستوں (اسٹونیا، لیٹویا اور لیتھوانیا) پر نظر جمائے بیٹھا ہے کو موقع ملا اور اس نے کرائیمیا پر قبضہ کر کے اس کو یوکرائن جس کو اوکرائن بھی کہتے ہیں سے آزاد کر اکے روس سے ملحق کر لیا- یورپی یونین جو کہ یوکرائن کی کی معاشی اور اخلاقی حالت کی وجہ سے اس کا یورپی یونین سے الحاق منظور نہیں کر رہی تھی کو امریکہ کے دباؤ میں جو کہ یوکرائن کا روس مخالفت میں خاصا ہمدرد بنا پھر رہا تھا آکر روس پر پابندیاں لگانی پڑ گئیں اور یورپی یونین کے خود کے بھی کان کھڑے ہوگئے کہ بالٹک ریاستوں پر قبضہ جس کو مذاق سمجھا جاتا تھا حقیقت بن کر سامنے آ گیا کہ کرائیمیا میں روسی نژاد لوگوں نے روس کا استقبال کیا اور بالٹک میں بھی روسی نژاد لوگ ایک تہائی تک پائے جاتے ہیں اور اب تک وہاں ان کو نا پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ 

ادھر ترکی جو کہ ہمیشہ سے امریکہ اور یورپ کا ساتھی رہا ہے کو امریکہ نے شام میں شروع میں تو شامل کیا لیکن بعد میں اس نے کردوں کی حمایت بھی شروع کر دی جو کہ اسد، دولت اسلامی، سعودی حامی ملیشیا اور ترکی سب کے مخالف تھے۔ اس مقام پر آ کر ترکی اور امریکہ کے تعلقات میں دڑاڑ آ گئی کیوں ترکی کا خیال تھا کہ شام کے تمام معاملات اس کے ذریعے کنٹرول کیے جائیں گےاور کردوں کو بڑھاوا دینے کا مقصد خود ترکی کو مشکل میں ڈالنا ہے کیونکہ کرد گاہے بگاہے ترکی میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث رہے ہیں۔ 

امریکہ اور یورپی یونین کو دباؤ میں لانے کے لیے روس نے جوا کھیلا کہ اس نے شام میں بشار الاسد کی حمایت کا اعلان کر دیا اور شام میں اپنے جنگی جہازوں کے ذریعے اسد مخالف فوجوں پر فضائی حملے شروع کر دیے- ادھر دولت اسلامیہ کی وجہ سے تمام اسد مخالف ممالک باغیوں کی اس حد امداد کرنے سے گریز کرتے رہے کہ وہ روسی طیاروں کا مقابلہ کر سکتے- یوں روس نے نہ صرف کرائیمیا کا قبضہ بھی برقرار رکھا بلکہ امریکہ کو ایک اور شکست سے دوچار کر دیا جو نہ ہی براہ راست اور نہ ہی بلاواسطہ روس کا مقابلہ کر سکی- 

اس موقع پر ترکی اہم کردار ادا کر سکتا تھا روس کو روکنے کے لیے لیکن یورپی یونین اور امریکہ دونوں یہ موقع استعمال کرنے سے قاصر رہے وگرنہ بشار حکومت کا جانا روس کے لیے نہ صرف شام میں بلکہ یورپی سرحدوں پر بھی پسپائی کا باعث بن سکتا تھا۔ لیکن نئے وزیر خارجہ جان کیری صاحب طاقت کے استعمال کے کٹر مخالف اور ایک بااصل سیاستدان ہیں جس کا فائدہ بھی روسیوں کو ہوا کہ کہتے ہیں کہ امریکہ نے یوکرائن میں باغیوں کو مزید مدد فراہم نہ کرنے کے وعدے پر شام میں مداخلت سے اجتناب کیا- سچ یا جھوٹ اللہ جانے لیکن روسی باغیوں کا زور بہرحال مشرقی یوکرائن میں بہرحال کم ہو گیا- 

یورپی یونین نے روس پر پابندیاں عائد کیں جس کا سراسر نقصان یورپی یونین کو بھگتنا پڑا کیونکہ روس اور یورپی یونین کے درمیان تجارت کا حجم بہت زیادہ تھا لیکن معاملہ یورپی یونین کی ناک کا تھا اور کئی ممالک مثلاً قبرص ، یونان اور بالٹک کو خاصا معاشی نقصان برداشت کرنا پڑا- 

اسی دوران ترکی نے روس کا طیارہ مار گرایا- روسی طیارے یورپ کی فضائی اور سمندری حدود کی خلاف ورزی کرنے میں مہارت حاصل رکھتے ہیں جیسے فقط ایک ماہ کے دوران روس نے اسٹونیا کی فضائی حدود کی سو سے زیادہ بار خلاف ورزی کی-اب جب ترکی نے روسی طیارہ مار گرایا تو اصولاً امریکہ اور یورپ کو ترکی کی پیٹھ ٹھوکنی چاہیے تھی کہ کوئی تو ملا بھی سہی روسیوں کو لیکن الٹا دونوں نے اشاروں کنایوں میں ترکی کو مورد الزام ٹھہرانا شروع کر دیا- بس وہ دن حلب میں بشار افواج کے داخلے کے امکان وا ہونے کا دن تھا- 

ترکی نے امریکہ اور یورپ دونوں کو ٹھینگا دکھایا اور ایک اور ترک نواز ملیشیا کی تربیت کی اور عراق میں فوج تک داخل کردی- یہاں بھی امریکہ نے ترکی کی مخالفت اور عراق کی حمایت کی حالانکہ عراق میں شام کی طرح ہر دس بندوں نے اپنی الگ حکومت اور ملیشیا بنا رکھی تھی ایسے میں ترک فوج کی مداخلت استحکام کا باعث بن سکتی تھی- البتہ یورپی یونین کو بادل ںخواستہ ترکی سے بنا کر رکھنی پڑی کیونکہ اس کو مہاجرین کے سیلاب کا سامنا تھا جس کو فقط ترکی قابو کر سکتا تھا- اب بھی یورپی یونین جب منہ پھیرتا ہے تو ترکی دھمکی دے دیتا ہے کہ ہم مہاجرین کو آزاد چھوڑ دیں گے- 

ترکی نے جہاز واقعہ کی وجہ سے منقطع تعلقات روس کے ساتھ بحال کر لیے کیونکہ روس کی جانب سے پابندیوں کی صورت میں اسے خود خاصا نقصان اٹھانا پڑا اور اس کا خیال تھا کہ شاید یورپی یونین یا امریکہ مدد کو آگے بڑھے گا لیکن ان دونوں نے ترکی کو مایوس کیا اور یوں سعودی نواز ملیشیا اور دیگر گرہوں کے لیے آخری سہارا بھی مٹ گیا اور روسیوں، ایرانیوں اور شامی افواج میں حلب میں باغیوں کو نہیں بلکہ مغربی اتحاد کو شکست سے دوچار کردیا- 

 بہرحال اب شامیوں کے لیے بہتر یہی ہے کہ اسد حکومت جلد از جلد کنٹرول حاصل کر لے تاکہ ان کی خانہ جنگی سے نجات مل سکے باقی اسد کے جانے سے یا نہ جانے سے کیا فرق پڑنا ہے- عوام کی نمائندہ حکومت آ بھی گئی تو اسکو مغربی طاقتوں نے چلتا کرنا ہے لہذا عام مسلمانوں کو تو سکون سے جینے دیں- باقی شام میں جس دن مغربی طاقتوں نے ترکی کو سائیڈ کیا تھا اسی دن شکست کھا گئے تھے کہ حلب کی شکست روس اور ترکی کی فتح ہے- 

یہ تحریر لکھے جانے کے دوران انقرہ میں روسی سفیر کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ہے جس سے پاکستانیوں میں بڑا ہیجان پیدا ہوا کہ اب کیا ہو- میرے خیال میں کچھ بھی فرق نہیں پڑنا کہ پیادوں کا کام ہوتا ہی پٹنا ہے- اور عالمی سیاست میں چھوٹی موٹی قربانیاں تو چلتی ہیں-

Arab bahar ki sham