December 1, 2016

پاکستان میں تعلیمی ریسرچ


پچھلے دنوں ایک پروفیسر صاحب کا اخباری مضمون پڑھنے کو ملا جس میں انہوں نے پاکستان میں تعلیمی اداروں میں تحقیق یعنی ریسرچ کے زوال و زبوں حالی کو موضوع بحث بنایا۔ چونکہ ہم خود اب پی ایچ ڈی کر چکے ہیں اور ملکی اور غیر ملکی دونوں نطاموں کی خاک چھان چکے ہیں (ویسے تو چاٹ چکے بھی ٹھیک ہیں) تو اس موضوع پر بھلا کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم اپنی ماہرانہ رائے دینے سے باز رہیں۔ 


تحقیق بارے یوں تو ہمیں ورچول یونیورسٹی Virtual Universityنے بی ایس کا تھیسز Thesis لکھوا کر آگاہی بخشی لیکن اصل واقفیت بہا الدین زکریا یونیورسٹی میں ماس کمیونیکشن Mass communicationکے ماسٹرز کے دوران ہوئی جہاں پہلی بار(طریقہ تحقیق) ریسرچ میتھذز research methodsکا کورس پڑھنے کو ملا- وہ کورس اس لیے مشہور تھا کہ اس کے استاد صاحب ایک تو سمجھ میں نہ آنے کے لیے مشہور تھے دوسرے جوڑوں کو دیکھ کر فیل کرنے کے لیے مشہور تھے۔ بس ہم نے بھی سب کی دیکھا دیکھی رٹے مار کر (جس میں ان خواتین طلبہ ہم جماعتوں کا کمال تھا جنہوں نے نوٹس ہمیں دیے) اور خواتین سے دور رہ کر (جس میں بھی خواتین طلبہ ہم جماعتوں کا کمال تھا جنہوں نے ہمیں منہ نہ لگایا) یہ کورس پاس کر ہی لیا لیکن دوران تحقیق آنے والی مشکلات سے ضرور آگاہ ہوگئے۔ 

یورپ میں نکلے تو ماسٹرز تو خیر لیکن پی ایچ ڈی کے شروع کرنے میں ہی پہلی مشکل تحقیق سے کم آگاہی ثابت ہوئی کہ جہاں داخلہ لینے کے لیے آپ کے گریڈ، ڈگری وغیرہ سے آپ کی ممکنہ تحقیق یا تھیسز کا خاکہ Research proposal زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ (تحقیقی مقالے کے خاکے بارے بلاگ یہاں پڑھییے)۔ جیسے تیسے کر کے خاکہ تحقیق لکھا جو کہ ایک پروفیسر صاحب نے پسند کیا اور پھر یونیورسٹی کی ریسرچ کمیٹی کے سامنے اس کو تفصیلی بیان کر کے داخلہ پی ایچ ڈی میں پکا ہوا۔ اب یہاں سے اصل سفر شروع ہوا جس میں آخیر تک پہنچتے نو مقالے Articles ، آٹھ کانفرنس میں آبسٹریکٹ یا خلاصہ تحقیقAbstracts اور ایک عدد تھیسز لکھا گیا جس کے بعد یونیورسٹی نے بادل نخواستہ ہمیں پی ایچ ڈی کی ڈگری عنایت کی- 

یورپ میں تحقیق پر زور کا یہ عالم ہے کہ بہت سے ممالک میں اب اسسٹنٹ تا مکمل پروفیسر ترقی نوکری کے دورانیے پر نہیں ہوتی بلکہ لکھے گئے مقالات پر ہوتی ہے بلکہ وہ اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر اب ترقی اس بنیاد پر دیتے ہیں کہ آپ کے لکھے گئے مقالے کو کتنی دفعہ مزید بطور حوالہ Reference or citation شامل کیا گیا- بلاشبہ اس میں بھی بہت سے خامیاں ہیں لیکن ان کا اصل مقصد نہ صرف تحقیق کو فروغ دینا ہے بلکہ زندہ تحقیق کو فروغ دینا ہے اور یہ کہ وہاں پی ایچ ڈی کرنے کا مطلب پڑھانے کا لائسنس دینا نہیں بلکہ تحقیق کو فروغ دینا ہے۔ 

 اب پاکستان کی بات کریں تو ماس کمیونیکیشن میں دو سال پڑھنے کے دوران ایک بھی استاد صاحب کا مقالہ پڑھنے کو نہیں ملا- پروفیسر صاحبان جو کورس 2000 میں پڑھا رہے تھے وہی کا وہی کورس اسی مضامین کے ساتھ 2010 میں پڑھا رہے تھے۔ جب وہ تحقیق سے منسلک ہی نہیں وہ نیا کورس کیسے تیار کریں گے۔ اس کی ایک واضح مثال ہمارے ہاں فزیکل ہیلتھ اینڈ ایجوکیشن Physical health and educationہے جو کہ تمام یورپ میں ترقی کرتے کرتے سپورٹ منیجمنٹ Sport management بن چکی ہے جبکہ ہمارے ہاں ابھی تک ہاکی کے پول اور کرکٹ کی پچ کی لمبائی پڑھا رہے ہیں۔ 

پاکستان میں یونیورسٹیاں جو جنرل شایع بھی کرتی ہیں وہاں بھی اکثر یاری باشی چلتی ہے کہ یونیورسٹی میں عام تھا اگر آپ نے آرٹیکل شایع کرانا ہے تو فلاں پروفیسر صاحب سے یاری لگا لیں- ابھی تو اللہ بھلا کرے ڈاکٹر عطا الرحمن کا جو کم از کم پی ایچ ڈی کے لیے بیرونی ممتحن یا ریویور Reviewer لازم کر گئے کہ چلو اب اسی بہانے کچھ لکھا تو جاتا ہے وگرنہ پی ایچ ڈی کی مہارت جانچنے کے لیے اپنے شعبہ جات کے پروفیسرز کے اپنے تھیسز تلاش کرلیں- کم از کم ملتان میں تو مجھے اکثر کے نہیں ملے- ملتان میں مشہور تھا کہ یہ تھیسز ایک کھانے پر پاس ہوتے ہیں۔ 

اب دنیا اتنی گلوبلائز اور آگے جا چکی ہے کہ پوچھیے ناں- آئی ایس آئی ویب آف انڈیکس ISI web of index جو کہ کسی بھی جنرل کی اہمیت جاننے کا معیار ہے وہاں پرتگالی، اسپینی اور دیگر زبانوں کے جنرل بھی شامل ہیں تو اگر یہ کہیں کہ اردو میں تحقیق سے معیار قائم نہیں رہ سکے گا تو اگر ایستی یا اسٹونین زبان Estonianجو کہ فقط دس لاکھ افراد بولتے ہیں میں معیار قائم رہ سکتا ہے تو اردو کس مرض کی بلا ہے۔ اور انگریزی کا بھی مسئلہ ہے تو یونیورسٹیاں ایسے لوگ رکھ سکتی ہیں جو کہ تعلیمی انگریزی یا اکیڈمک انگریزی Academic English میں ماہر ہوتے ہیں اور ایسے ماہر لوگ باہر کی اکثر یونیورسٹیوں میں کل وقتی ملازم ہوتے ہیں جنکا مقصد ایسے طلبا جو کہ انگریزی میں ماہر نہیں کی مدد کرنا ہوتی ہے کہ تحقیق میں انگریزی نہیں تحقیق اہم ہے۔ 

ادھر یہ حال ہے کہ مشرقی ایشیا کے بیشتر ممالک میں ماسٹرز کی ڈگری لیے کے لیے لازم قرار دیا گیا ہے کہ ان کے تھیسز پر مشتمل مقالہ کسی جنرل میں شایع ہو یا کم از کم کانفرنس پریزنٹیشن Conference presentationہو گی تو ان کو ڈگری ملے گی اور ادھر ماسٹرز کرنے والوں کو تحقیق کے نام تک سے آشنائی نہیں ہوتی ہے اور ایم فل جو کہ مکمل تحقیقی ڈگری ہونی چاہیے میں کے تھیسز میرے اپنے ہاتھوں سے گزرے ہیں جس میں انگریزی ایسی کہ ایک سے دوسرا جملہ پڑھنے کا نہیں اور اردو میں ہے تو تمام تر چھاپہ۔ 

ہمارے پروفیسرز کو اتنا تکلف گوارا نہیں کہ گوگل کھول کر اپنے طالبعلم کے موضوع کو گوگل ہی کر لیں- کل ایک صاحب فیس بک پر پی ایچ ڈی کی مبارک بادیں وصول کر رہے تھے تو میں نے گوگل کیا تو وہی مقالہ 2006 میں شایع ہو چکا ہے تو اس میں طالب علم کا کیا قصور ۔ ان کو تو ڈگری سپر وائزر کی ہم اہنگی اور دو غیر ملکی ممتحنوں کی اجازت کے بعد ہی ملی

 سوشل سائنسز Social sciences اور آرٹس میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں ریسرچ بس موجود مواد کا جائزہ لیکر ایک مضمون نما تھیسز لکھ کر جان چھڑا لی جاتی ہے جیسا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات- یا اسلام میں جانوروں کے حقوق۔ بس اس میں پانچ آٹھ کتابیں اٹھائیں ان کا ملغوبہ بنائیں اور ریسرچ تیار- کوالیٹیٹو Qualitativeاور کوانٹیٹیٹو Quantitativeریسرچ تو خال خال نظر آتی ہے- منیجمنٹ اسٹڈیز Management studiesکو سائنسی معیار پر لانے کے لیے یورپیوں نے نفسیات/سائیکولوجی Psychologyکے طرز تحقیق کو اپنایا اور آج منیجمنٹ کو یورپ میں قدرتی سائنس Natural scienceکے بعد سب سے اہم مضمون شمار کیا جاتا ہے تو ہم اسلامیات، اردو وغیرہ کا معیار کیوں بلند نہیں کر سکتے۔ 

ضرورت فقط یہ ہے کہ ڈگری بانٹنے پر زور نہ دیا جائے- یورپ میں ایک جائزے کے مطابق پی ایچ ڈی حاصل کرنے کی مدت کی اوسط سات سال ہے کہ جب تک یونیورسٹی تسلی نہ کرلے طالب علم کو ڈگری نہیں دی جاتی- بیرونی ممتحن تو دور کی بات یونیورسٹی کی ریسرچ کاؤنسل آپکی طبعیت صاف کر کے رکھ دیتی ہے- پاکستان میں ایسا تب ہی ہو سکتا ہے جب آپ تحقیق اور مقالے/ ریسرچ آرٹیکل کی اہمیت کو اجا گر کریں گے۔ اس مقصد کے لیے ہماری تجاویز ہیں کہ 
  • یونیورسٹیوں میں تین سے چار جنرل شایع ہوں جس میں باہر کے پروفیسرز سے رابطہ کر کے ان کو اس کا ایڈیٹر اور ریویور مقرر کیا جائے۔ 
  • انگریزی کے لیے اکیڈمک انگریزی میں ماہر افراد تعنیات کیے جائیں- 
  • اردو اور دیگر زبانوں کے تھیسز کے لیے تھیسز میں انگریزی سمری پانچ تا دس صفحات لازم رکھی جائے تاکہ گوگل سے موضوع با آسانی تلاش کیا جا سکے- 
  • ایم فل کی سطح پر پاکستانی جنرل میں مقالہ اور کانفرنس میں شرکت لازم رکھی جائے- 
  • یونیورسٹیوں میں تعلیمی کانفرنسیں باقاعدگی سے منعقد کرائی جائیں۔ 
  •  پروفیسرز حضرات جو کہ کچھ عرصہ تک کسی ریسرچ پروگرام کا حصہ نہ رہے ہوں اور پی ایچ ڈی اور ایم فل کے تھیسز سپر وائز کراتے ہیں کو ہر دو تین سال بعد کورس کرائے جائے جائیں جو کہ ان کو تحقیق اور دیگر معاملات میں تازہ ترقی سے اگاہ کریں۔ 
  • پروفیسرز حضرات کی ترقی میں ایک حصہ مقالات اور ایسے کورسز کا بھی رکھا جائے۔ 


دراصل تحقیقی مقالے پر زور دینے کی اہم وجہ یہ ہے کہ تھیسز میں کوئی بھی موضوع چل جاتا ہے لیکن جب ایک مقالہ کسی اچھے جنرل میں چھپتا ہے تو اس کی ہر شے سامنے آجاتی ہے کہ وہاں صرف وہ مقالہ چھپ سکتا ہے جو موضوع کے اعتبار سے نیا ہو، جس میں تحقیق کا انداز اچھا ہو، جس تحقیق کی اہمیت ہو وغیرہ وغیرہ لیکن اصل معاملہ وہی نیت کا ہے کہ ہمارا فرض تو تھا لکھنا آگے جو نناوے فیصد چلا رہے ہیں تو بس چلاتے رہیں کہ ہماری عوام بھی بس ریسرچ اور سرچ کی باتیں سن کر ہی خوش ہے- رہے نام اللہ کا

Pakistan main talemi research