Japan aur Japani
پتہ نہیں یہ الٹے پلٹے خیالات میرے ذہن میں کون ڈالتا ہے کہ میں نے ایک ویب سائیٹ پر دنیا بھر میں ہونی والی کانفرنسوں کو دیکھنا شروع کر دیا۔ اور میری نظر انتخاب جاپان پر جا ٹھہری۔ میں نے سوچا اگر ادھر مقالہ قبول ہو جائے تو آگے میزبان بھی مل جائے گا اور جاپان کی سیر بھی ہوجائے گی۔
اگلے بھی شاید میری ہی انتظار بیٹھے تھے کہ انہوں نے مقالہ قبول کر کے اس کو پڑھنے کی دعوت دے ڈالی۔
اب اگلا مرحلہ ویزے کا تھا اور میں جاپانی سفارت خانہ کی کہانیاں کئی لوگوں سے سن چکا تھا کہ پاکستان میں پروفیسروں کو ویزے دینے سے انہوں نے انکار کر دیا۔ میں نے بھی سوچا اگر ویزا دے دیں گے تو اچھا ہے، ہم وہاں جا کر زرمبادلہ خرچ کریں گے، جاپانی صیب کا خرچہ کرائیں گے معیشت پر اچھا اثر پڑے گا واپس آ کر بلاگ لکھیں گے جاپان کی شہرت میں اضافہ ہو گا نہ دیں گے تو نہ دیں ہم کونسا جاپان جانے کے لیے مرے جا رہے ہیں۔
ایمیسی کو ویزے کے لیے چاہیے کاغذات میں ایک اوقات کار بھی تھا کہ بتائیں فلاں دن کیا کیا کروں گا کس کس وقت کروں گا۔ میں نے وہ کاغذ کا پڑھ کر سوچ لیا کہ ویزا نہیں ملنا کہ بندہ کیا لکھے کہ بھائی میں 8 بجے اٹھوں گا، آٹھ بج کر دس منٹ پر بیت الخلا کا دورہ کروں گا نہاؤں گا اور 9 بجے ناشتہ کروں گا اور ادھر آپ نے اٹھنے میں دیر کی ، بیت الخلا سے نکلنے سے دیر کی پولیس کا سپاہی لگا دروازہ کھڑکانے کے چل بھائی تو نے ویزے میں جھوٹ لکھا تھا آپ نے غسل خانے میں دو منٹ زیادہ لگا دیے اب چلو جیل یا ملک سے باہر۔
میں نے آدھا اوقات کار کانفرنس کا لگایا اور باقی آدھا جاپانی صیب نے کچھ جاپانی میں لکھ کر بھیج دیا اللہ جانے کیا لکھا؟ مجھ سے کیا کیا کروانا مقرر کیا۔
میں نے کہا اب سر پر آئی نبھانی تو ہے تو چل بھائی اور میں جاپان کے تالن سفارت خانہ پہنچ گیا۔ سفارت خانہ پہنچ کر دروازے پر میں کسی دربان، کسی پولیس، کسی فوجی کو ڈھونڈنے لگا کہ تلاشی کرلے تو اندر جائیں لیکن سوائے کیمروں کے کچھ نہ ملا۔ میں نے ہمت کی اور آگے کو چل پڑا اور ویزا کاؤنٹر پہنچ گیا۔ میں نے سوچا جوتے کھانے کا وقت آ گیا ہے کہ نہ کوئی تلاشی نہ کوئی پوچھ گچھ نہ کوئی پہلے سے ملنے کا وقت، وہ کہیں گے کدھر منہ اٹھا کر آ گئے ہو۔ پھر سوچا ان کا ثقافتی مرکز یعنی کلچرل سنٹر Cultural center بھی ہے تو شاید ادھر آ گیا ہوں لیکن آگے خاتون نے تصدیق کی یہی ویزا سینٹر ہے۔ اس نے ایسے جھک جھک کر بات کی گویا ویزا وہ لینے آئی تھی اور باہر نکل کر میں ویزا ملے بغیر ہی جاپان جانے کی تیاری کرنے لگا۔
فن ائیر Fin Air پر سوار ہو کر پہلے میں ہیلسنکی Helsinki اور پھر جاپان Japan میں اپنی منزل ناگویا Nagoya پہنچ گیا۔ جاپانی صیب نے کہا کہ وہ ذرا ناگویا سے دور رہتے ہیں لہذا میں ہوائی اڈے سے شہر آجاؤں۔ ہوائی اڈا ایک جزیرے پر تھا اور وہاں سے ٹرین پر بیٹھ کر میں ناگویا سٹی سنٹر پہنچ گیا اور انتظار کرنے لگا کہ کب جاپانی صیب کا دیدار ہو۔
جاپانی صیب نے آنے میں دیر لگا دی اور میں ناگویا کا جائزہ لینے لگا۔ حالانکہ تالن Tallinn سے چلتے وقت سے ہیلسنکی میں جہاز میں سوار ہونے تک سب نے جاپان کا نام سن کر رال ٹپکائی کہ اچھا جاپان جا رہے ہو لیکن مجھے پہلی نظر میں ایسی کوئی چیز نظر نہ آئی جس پر رال ٹپکائی جا سکتی۔ لیکن میرا پہلی نظر کا ریکارڈ تو آپ بھی جانتے ہوں گے اب تومیں نے سوچا جاپان کو مزید وقت دیا جائے۔
اپریل میں کانفرنس منعقد کرانے کا مقصد یہ بیان کیا گیا کہ حالانکہ موسم ابھی صیح کھلا نہیں لیکن اسی ماہ میں ایک ہفتے کے کے لیے جاپان کی پہچان چیری بلاسم کے درختوں پر پھول کھلتے ہیں جو کہ ایک ہفتہ تک رہتے ہیں بشرطیکہ بارش نہ ہو جائے اور ہم بھی ان خوش نصیبوں میں شامل ہو گئے جنہوں نے جاپان جا کر چیری بلاسم چمکے ہر دم والی نہیں بلکہ اصلی تے وڈی چیری بلاسم کو کھلتے دیکھ لیا اور نہ صرف دیکھ لیا بلکہ تصاویر بھی اتار لیں۔
|
چیری کے پھول |
|
پھول کھلے ہیں گلشن گلشن |
|
ناگویا کا مشہور محل |
|
چیری بلاسم کھلے سال میں ایک بار |
جاپانی صیب آ گئے اور میں ان کی راہنمائی میں ہوٹل چل پڑا۔ پروگرام یوں بنا کہ وہ آج رات یہاں رہیں گے ، کل رات کو واپس اپنے گھر روانہ ہو جائیں گے اور میں کانفرنس بھگتا کر ان کے پاس چلا جاؤں۔ خدا جانے انہوں نے میری سادہ دلی سے فائدہ اٹھایا یا میرے سفری تجربے کو دیکھتے ہوئے مطمئن ہو گئے کہ مجھے انگریزی نہ سمجھنے والے جم غفیر کے حوالے کر کے واپس چل دیے۔
آنے سے پہلے میں ان سے کہہ چکا تھا کہ اگر میں پہنچ گیا تو فلاں فلاں جا گھومنے جائیں گے انہوں نے بھی وعدہ کر لیا کہ قرین قیاس ہے کہ انہوں نے سوچا ہوگا کہ اس کو کونسا ویزا ملنا ہے لیکن جب مل گیا تو اوساکا کا چڑیا گھر و مچھلی گھر ، کیوٹو کے باغات، ٹوکیو کی سیر، ہیروشیما کا ایٹم بمپ اور ماؤنٹ فیوجی سب دکھانے سے انکاری ہو گئے اور مجھے بہلانے کو ناگویا کے چڑیا گھر لے گئے اور میں بھی ایسا سیدھا کہ وہاں کوالا ریچھ koala bear دیکھ کر ہی خوش ہو گیا اور باقی تمام جگہوں پر جانا ملتوی کرکے وعدہ کر لیا کہ جیسے ہی کانفرنس ختم ہو گی میں ان کے پاس تویاما Toyama آ جاؤں گا۔
|
چڑیا گھر میں- کالا راج ہنس |
|
ملایا کا تائپر |
|
کینگرو صاحب لوٹنیاں مارتے ہوئے |
|
جاپانی بکرا |
|
اداس بلبل کے بعد اداس بھالو |
|
یاری ہو تو ایسی |
|
آگیا تے چھا گیا۔ کوالا |
|
کوالا ریچھ |
|
لڑ نہیں رہے مذاخ کر رہے ہیں |
|
قطبی ریچھ |
|
فلیمنگو |
|
اج تے بڑا ای کم کیتا جے |
|
جھولے |
|
بادشاہ پینگوئن۔ حرکات سے بھی نام سے بھی |
|
کہاں مر گئے سارے؟؟ |
جاپانی صیب چلے گئے لیکن تب تک میں جاپانیوں کے اخلاق کا گرویدہ ہو چکا تھا۔ مجھے پتہ لگ گیا کہ ہر بندہ آپ سے اخلاق سے بات کرے گا، کوئی شرابی نہیں ملے گا، کوئی چوری نہیں، کوئی سر عام تعصب نہیں، کوئی بے ایمانی نہیں، کوئی جھگڑا نہیں اور میں نے شہر گھومنے پر زور دیا۔ جاپانیوں کو خوش اخلاقی کا خبط ہے ایسے ہی قطار بنانے کا خبط ہے۔ دو جاپانی کھڑے ہوں گے تو قطار بنا کر ٹھہر جائیں گے۔ جاپانیوں کی قطار بنانے کی عادت سے مجھے دبئی یاد آگیا جہاں مسجد میں ناممکن ہے کہ آپ اکیلے نماز پڑھ سکیں آپ نماز پڑھ رہے ہوں گے پیچھے کوئی کندھے پر آ کر ہاتھ رکھے گا اور لیں جی اب آپ امامت شروع کردیں۔ بھلے آپ سنتیں ادا کررہے ہوں یا نفل۔ اب آپ گئے تو جس نے آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھا اس کی باری ہے کوئی اس کے کندھے ہر یاتھ رکھے گا اور اب وہ امامت شروع کردے گا۔ ایسے ہی جاپانی دوست اور خاندان والے بھی قطار میں آگے پیچھے چل رہے ہوتے ہیں خدا جانے وہ ٹی وی لاؤنج میں قطار کے بنائے بغیر کیسے اطمنان سے ٹی وی دیکھتے ہوں گے۔ میٹرو ٹرینوں میں ہر ڈبے میں بوڑھوں، حاملہ خواتین، معذوروں کے لیے خاص نشستیں مخصوص کی گئیں تھی اور وہاں پر نشان بنا تھا کہ یہاں ٹھہر کر موسیقی سننا بھی ممنوع ہے بھلے ہی آپ نے کانوں میں ٹونٹیاں لگائی ہوں یا کھوپے چڑھائے ہوں۔
اگلے روز کانفرنس کے ختم ہونے کے بعد میں مچھلی گھر چلا گیا جہاں ڈالفن Dolphen ,اورکا Orca اور وہیل Whale نے کرتب دکھائے. اس سے اگلے روز میں سائنس پارک میں چلا گیا جہاں خلا میں جانے والے راکٹ رکھے تھے اور ستم یہ ہوا کہ میرے کیمرے کی بیٹری ختم ہو گئی اور سوئچ کا مختلف ہونا آڑے آیا اور ہمیں کوئی سستا کنورٹر convertor نہ ملا جس پر جاپانی صیب نے کیا کہ ان کے گھر دو پڑے ہیں لہذا جب میں آؤں تو وہ مجھے ایک دے دیں گے۔ میں نے حسب عادت ین بچاتے ہوئے حامی بھر لی۔
|
سائینس پارک میں |
|
چلو چاند پر چلیں |
|
فوارہ |
|
فوارہ اور نظارہ |
|
مچھلی گھر میں |
|
کرتب بازی |
|
سمندی پودا |
|
سمندری گھاس میں مچھلی |
|
ستارہ مچھلی |
|
جیلی مچھلی |
|
مچھلی کہ مکڑی؟ |
|
پینگوئین گھر |
|
مچھلیوں کے کرتب |
|
Add caption |
|
بازیگری |
کھانے کا حلال حرام کا بڑا مسئلہ رہا لیکن ناشتے میں حلال چیزیں اچھی طرح کھا کر سارا دن گھومتا رہا اور رات کو اگر بھوک لگ بھی گئی تو ایک آدھ چاکلیٹ یا سینڈوچ سے پیٹ بھر کر سو گیا کہ ہم تو ویسے ہی ایک وقت کھانے کے عادی ہیں اور اس سے بڑھ کر پیسے بچانے پر ایمان رکھتے ہیں کہ خرچ کرنے ہی ہیں بندہ کسی اور کام پر کر لے لازمی کھانے پر کرنے ہیں۔
کانفرنس ختم ہوتے ہی تویاما کی بس پکڑی اور ٹکٹ والے سے لیکر ڈرائیور تک سے جاپانی بمقابلہ اردو کا مقابلہ کرتے کرتے پہنچا اور چار گھنٹے کے سفر کے بعد بس میں سکون سے بیٹھا ہوا تھا کہ جاپانی صیب آ گئے اور بولے بھائی یہیں اترنا ہے اور میں نے جواب دیا ہاں اتر ہی رہا تھا کہ کیوں بتاتا کہ مجھے پتہ نہیں چلا کہ مطلوبہ مقام آ چکا ہے۔
جاپانی صیب کی میزبانی مہنگی پڑی کہ میرے والد صاحب کی طرح ان کو بھی صبح خیزی کی عادت ہے اور چاہے وہ رات کو دو بجے اللہ حافظ کہہ کر سونے جائیں صبح چھ بجے اٹھ جاتے لیکن مجال ہے جو کبھی مروت کے مارے مجھے سات بجے سے پہلے جگایا ہو۔ اس سے اگلے دن بھی مجھے ساڑھے سات بجے جگا کر پروگرام سنایا حالانکہ رات پوچھ کر گئے تھے کہ کب نکلیں اور میں مروت کے مارے گیارہ کی بجائے نو کہہ چکا تھا۔
اب ہم دنیا کا ورثہ المعروف ورلڈ ہیریٹیج World heritage دیکھنے نکلے۔ جب وہاں پہنچے تو ہمارے استقبال میں پھول برسنے کی بجائے برف برسنے لگی اور بے موسم کی برف ایسی پڑی کہ صدیوں سے اس انتظار میں تھی کہ کب اردو کے دو بلاگر اس صدیوں پرانی جا کے دیدار کو آئیں۔ جاپانی صیب کی ایک خوبی تین وقت کھانا کھانا بھی ہے جبکہ ہم بُکھے رہو سُکھے رہو (بھوکے رہو سکھی رہو) کے پرچاری۔ لیکن مروت میں ہر جگہ ان کا ساتھ دینا پڑا اور برف باری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جاپانی صاحب ہوٹل میں چلے گئے اور مجھے برف پر دوہرا غصہ آنے لگا کہ ایک پیدل چلنے سے روکا دوسرا ابھی ناشتہ ہی پیٹ میں جگہ بنا کر لیٹنے کی کوشش کر رہا تھا کہ کھانا کھانا پڑ گیا۔
وہاں کے مایوس کن تجربے کے بعد اب جاپانی صیب مجھے لیکر ایک اور جگہ چل دیے جو ان کے مطابق جوڑوں کے جانے کی پسندیدہ جگہ تھی۔ میں شرافت کے مارے پوچھ نہ سکا کہ ہمارا وہاں کیا کام ہے کہ مجھے ڈر تھا کہ غصے میں آکر مجھے یہیں اتار کر ہی نہ چلے جائیں کہ مجھے تو جاپانی کا ایک لفظ بھی نہ آتا تھا بس یہی پتہ تھا کہ جو کوئی بات کرے بس تعظیماً جھک جاؤ۔ وہاں چند جوڑے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے غروب آفتاب کا نظارہ کر رہے تھے وہاں میں نے غروب آفتاب کی تصاویر بنائیں اور ہم واپس آ گئے۔
|
مندر اور گھنٹہ |
|
غروب آفتاب |
|
برفباری اور عالمی ثقافتی ورثہ |
|
Add caption |
تویاما ویسے ہی پہاڑی علاقہ تھا اور اگلے روز جاپانی صیب کی گاڑی پر ہم پہاڑوں کی چڑھائی پر روانہ ہوئے۔ ویسے تو میری پسند پیدل گھومنا ہوتی ہے لیکن گاڑی پر بھی وہاں کی سیر بری نہیں تھی۔ راستے میں برفانی پہاڑ، سبز جھیلیں، گھنے جنگلات جا بجا موجود تھے۔ آخر ایک پارک جا کر کار روکی اور ٹھنڈ میں وہاں موجود گرم پانی کے چشمے میں پاؤں ڈال کر بیٹھ گئے۔
اتنی دیر میں ایک جاپانی بابا جی آئے اور پوچھنے لگے کیا میں پاؤں ڈال لوں۔ چونکہ نہ وہ چشمہ میں ایسٹونیا سے لایا تھا نہ جاپانی صیب کی زمینوں میں تھا اس لیے ہم نے کھلے دل سے اجازت دے دی تو جاتے وقت بابا جی شکریہ ادا نہیں کرنے بھولے۔ وہاں بیٹھے بیٹھے جاپانی صیب کو اونگھ آ گئی اور تنقید کی باری میری تھی کہ دوپہر کو سونا میرے نزدیک انتہائی بری عادت ہے۔ ان کو سوتا چھوڑ کر میں تصاویر کھینچنے چل پڑا لیکن تھوڑی ہی دیر بعد وہ مجھے ڈھونڈتے آ گئے کہ چل کاکا جانے کا وقت ہو گیا اور ہم واپس تویاما کو چل پڑے۔
|
گرم پانی کا چشمہ |
اس رات انہوں نے جس بس پر وصول پایا تھا اسی پر روانہ کیا اور صبح منہ اندھیرے میں ناگویا پہنچ گیا جہاں سے میں نے ٹرین پکڑی اور ہوائی اڈے پر ہیلسنکی کا جہاز میرا انتظار کر رہا تھا۔ اور یوں جاپان کی سیر اختتام پذیر ہوئی۔
وہاں پر جتنے پاکستانیوں سے ملاقات ہوئی سب کا اس بات پر اتفاق تھا کہ جاپانی بھلے کتنے ہی خوش اخلاق کیوں نہ ہوں اندر ہی اندر انتہائی متعصب ہیں۔ اور اگر کسی کے ساتھ تعصب بھرا سلوک نہیں بھی کیا گیا تو ان کی معاشرتی خرابیاں تو ہیں ہی ہیں کہ مادر پدر آزاد ہیں، عورت کو دوسرے درجے کی مخلوق سمجھتے ہیں، معاشرتی رویے عجیب ہیں وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اللہ جانتا ہے ویزا دینے والوں سے خروج کی مہر لگانے تک ہر جاپانی ہم سے ایسے ملا جیسے ہمارا زر خرید غلام ہو۔ ایسے اخلاق پر کون نہ متاثر ہو کہ مسکرا کر تو کوئی ہمیں تھپڑ مارنے کا پوچھے تو ہمیں انکار کرتے افسوس ہو گا اور پھر ہم تو ویسے ہی اس بات کو ماننے والے ہیں کہ ریشماں جب تک ہمارے ساتھ نہ بھاگے ہم نہ مانیں گے کہ ریشماں بھاگ گئی ہے تو آپ جتنا کہیں جاپانی متعصب ہیں ہم نہ مانیں گے۔