Vaasa aur aasa paasa
ایسٹونیاEstonia میں جس پاکستانی سے ملیں اس نے ہر تیسرے جملے کے بعد گھوما پھرا کہ یہ ضرور پوچھ لینا ہے کہ کبھی ہیلسنکی Helsinki گئے ہو؟ اب اللہ جانے پاکستانیوں کو فن لینڈ Finland کے دارالحکومت ہیلسنکی سے اتنا پیار کیوں ہے کہ ہر آئے گئے کو ہیلسنکی کی تاکید کرتے ہیں اور مجھے سے بھی جب چارپانچ لوگوں نے پوچھ لیا تو میں بھی غصہ کھا کر ہیلسنکی کی بحری جہاز کے ذریعے ٹکٹ بک کرا بیٹھا۔ لیکن ان دنوں میں اٹلی Italy تھا اور وہیں پر ہی ای میل کے ذریعے بحری جہاز کی کمپنی لنڈالائن Linda Line نے پیغام بھیج دیا تکلف نہ کریں آنے کا ہم نے موسم کی خرابی کی وجہ سے ہیلسنکی- تالن بحری لائن بند کر دی ہے۔ جان چھوٹی ہم نے اڑتیس یورو واپس وصول کیے اور ڈبل روٹی ہمراہ دودھ کے اڑا کر عیاشی کر لی۔ اور ساتھ ہی دل کو تسلی دی کہ ویسے ہی دن چھوٹے ہیں اصل مزہ تو گرمیوں میں جانے میں ہے جب رات ہی نہیں ہوتی اور بندہ سارا دن خواری کے بعد بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ سارا دن خوار ہوئے ہیں کہ دن ہی اتنا بڑا ہے۔
لیکن جب جاپان گئے تو ٹکٹ میں اس بات کا خاص التزام رکھا کہ ہیلسنکی میں رکا جائے تاکہ ماتھے پر ہیلسنکی نہ جانے کے بدنما دھبے کو مٹایا جا سکے۔ حالانکہ ہیلسنکی جانا بھی اتنا ہی اہم سمجھا جاتا ہے جتنا بذریعہ کشتی لیکن میں نے سوچا پہلا مرحلہ پاس ہو گیا تو آگے بندہ کوئی بھی بات بنا سکتا ہے۔
چونکہ آن لائن چیک ان کی یعنی گھر بیٹھے ہی نشست مخصوص کرانے کی سہولت موجود نہ تھی لہذا جب بورڈنگ کرانے پہنچا تو مجھے میری پسند کھڑکی والی طرف کی بجائے دوسری طرف کی ٹکٹ دے دی تو میں نے کہا کہ بھائی یہ کیا بات ہوئی میں تو کھڑکی والی طرف بیٹھوں گا۔ جواب ملا تھوڑا سا سفر ہے خیر ہے۔ غصہ تو بڑا آیا لیکن اس جواب دینے والی بندی کی جسامت دیکھ کر یاد آیا غصہ پینا کتنا ثواب کا کام ہے اور ثواب کماتے کماتے میں ہوائی جہاز میں آن بیٹھا۔
جہاز اڑا سیٹ بیلٹ کی بتیاں بجھیں ، میں نے موبائل نکالا، کانوں میں ٹونٹیاں لگائیں اور ابھی پہلا گانا ختم نہ ہوا تھا کہ فضائی میزبان نے آ کر کہا کہ بھائی بند کرو یہ کنجر خانہ ہم اترنے والے ہیں۔ پتہ چلا کل سفر بیس منٹ کا ہے جس میں دس منٹ اترتے اور دس منٹ چڑھتے کے بعد ایک گانا سننے کا وقت بھی نہیں ملتا اور مجھے اس بی بی کے تھوڑے سے سفر کی سمجھ آ گئی ۔
باہر نکلے اور پہلی منزل حسب معمول سیاحوں کا معلوماتی مرکز تھا اور وہاں پر موجود لڑکی کا رویہ دیکھ کر اگر مجھے تصاویر کھینچنے کا خبط نہ ہوتا تو میں کہتا رکھو سنبھال کر اپنا فن لینڈ میں نہیں جاتا شہر میں۔ لیکن گندی عادات کے گندے نتائج اور نتائج بھگتنے میں پانچ یورو کی ٹکٹ لیکر وسطی شہر کی بس میں سوار ہوگیا۔
بس نے مرکزی ریلوے اسٹیشن کے بالکل سامنے اتارا اور وہاں اتر کر کچھ سمجھ نہ آئی کہ بندہ کس طرف جائے اور کس طرف نہ جائے۔ بہرحال میں نے نقشہ نکالا اور اندازے سے ایک طرف چلنا شروع کیا لیکن ہر طرف سے اسٹیشن ہی آگے نکل آتا میں نے تنگ آ کر نقشہ تہہ کر کے جینز کی پچھلی جیب میں ڈالا اور اس انداز میں ڈالا کہ کوئی جیب کترا ہی نکال کر لے جائے۔
میں نے اندازے سے اسٹیشن کو مرکز بنایا اور چوکور گلیوں میں چلنا شروع کر دیا کہ پہلا چکر سب سے نزدیک والی گلی میں اگلا اس سے ذرا دور اگلا اس سے اگلی گلی اور اس طرح ۔ پہلے چکر کے بعد مجھے احساس ہوا کہ چھ گھنٹے کا وقت بہت زیادہ ہے اور ہیلسنکی میں دیکھنے لائق بہت کم۔
ریلوے اسٹیشن کے اطراف |
لیکن پہلی نظر کا ریکارڈ برقرار رہا اور جیسے جیسے ہیلسنکی کھلتا گیا ویسے ویسے میرا دل ہیلسینکی کے لیے کشادہ ہوتا چلا گیا۔ عمارتیں انتہائی خوبصورت تھیں۔ تالن کی طرح قدیمی شہر سے ذرا ہی فاصلے پر سمندر تھا اور سمندر کے کنارے عمارتیں تھیں۔ ادھر شہر کے اندر خوبصورت عمارات کے شاپنگ سنٹر بنا کر ان کی مت مارنے کی پوری کوشش کی گئی لیکن اس کے باوجود وہ خوبصورت لگ رہی تھیں۔
ہیلسنکی خود دیکھیں |
ہیلسنکی میں البتہ دو خرابیاں نظر آئیں کہ ایک تو دیسیوں کی بہتات تھی ایسے لگتا تھا کہ بندہ ہیلسنکی میں نہیں دبئی میں پھر رہا ہے کہ پاکستانی بھارتیوں کے بیچ کوئی کوئی گورا بھی ہے دوسرا شاید ہیلسنکی کے رہائیشیوں کو اسکول سے ہی بد اخلاقی کی تربیت دی جاتی ہے ۔ کہ کیا گورا کیا کالا، کیا بڑا کیا چھوٹا سب ایک سے بڑھ کر ایک اخلاق کے لحاظ سے عمدہ تھے۔ ادھر ہمارا بھی اصول رہا ہے کہ جو آپ کو نہ جانے آپ اس کے ابا جی کو نہ جانو تو ہیلسنکی والے بد اخلاق تو ہم بد تر اخلاق کے حامل اور ویسے بھی ہم تو پاکستانی ہیں کہ اس معاملے میں ہم ہی جیتیں گے بھئی جیتیں گے۔
لیکن ہیسنکی کی خوبصورتی کم نہ ہوئی کہ ہر عمارت کو دیکھ کر سوچتا اس کی تصویر اتار لوں بس پھر واپسی لیکن وہاں سے ایک اور عمارت نظر آجاتی اور میں آگے چل پڑتا آخر کار جبر کرکے واپسی کو چل پڑا کہ ویسے ہی چڑیا گھر کی سیر کو تو ایک دن آنا ہی ہے جو ایک الگ جزیرے پر بنا ہے تو باقی شہر پھر سہی۔
چڑیا گھر تو ابھی فہرست میں ہی تھا کہ ایک دن ایک ای میل آئی جس میں پولینڈ Poland کے شہر وارسا Warsaw نہیں بلکہ فن لینڈ کے وسطی مغربی شہر واسا Vaasa میں قائم یونیورسٹی آف واسا University of Vaasa میں ایک کورس پڑھنے کی پیشکش کی گئی تھی۔ میں ان دنوں ایک کورس جس کا نام انسٹیٹوشنل اکنامکس Institutional Economics ہے سے انتہائی تنگ تھا اور مجھے اس سے بچنے کی یہی ایک سبیل نظر آئی اور میں نے اپنے سپر وائزر کو وہ ای میل بھیج کر کیا کہا خیال ہے میں یہ والا کورس نہ کر لوں کہ یہ میرے پی ایچ ڈی کے مقالے سے خاصی مطابقت کھاتا ہے۔ وہ راضی ہو گئی اور میں نے لکھا کہ مسئلہ تواریخ کا ہے کہ ادارتی معیشت اور اس کورس کی تاریخیں ایک ہی ہیں۔ اس نے چار گھنٹے بعد مجھے اوقات کار بنا کر بھیج دیا کہ یہ دیکھو اس طرح تم دونوں کورس کر سکتے ہو۔ یک نہ شد دو شد اور رضا مندی کا تو سوال ہی نہیں تھا کہ پی ایچ ڈی کا سپر وائزر تو ایسے خاوند کی طرح ہے جو وقت نکاح بندوق بھی ساتھ لیتا آئے کہ لڑکی نے تو نہ کرنی نہیں اس کی اتنی جرات نہیں کہیں قاضی لڑکی کی نابالغی کا سوال نہ اٹھا بیٹھے۔
بہرحال تیاری پکڑی ،تیاری کیا پکڑی بستے میں تین شرٹیں ڈالیں، کیمرہ رکھا ، لیپ ٹاپ ڈالا اور چل بھائی پہنچ گئے واسا۔ ہوائی اڈے پر پہنچ کر پتہ چلا کہ گرمیوں میں ویسے ہی ہوائی اڈے کی طرف آنے والی بس بند ہوجاتی ہے اور آج تو اتوار ہے کہ اتوار کو کوئی بھی بس نہیں چلتی۔ اتوار کی تو چلو خیر ہے پر یہ کونسی گرمیاں ہیں بھائی کہ جس روز واپس لوٹا اس روز درجہ حرارت تین سینٹی گریڈ تھا اور ہوا چالیس کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہی تھی۔ ٹیکسی میں نے لی اور چالیس یورو ٹیکسی والے نے لیے اور مجھے ہوٹل اتار گیا اور میں سوچنے لگا کہ مجھے ہوائی اڈے کے دو چکر لگ جائیں تو تالن واسا ٹکٹ کے پیسے ایک برابر ہو جائیں لیکن میں نے دل کو سمجھایا کہ یہ ادھر ادھر سے ہوکر آیا ہے اور میرے سے زیادہ پیسے ماٹھ لیے ہیں لہذا برداشت کرو۔
ادھر ہوٹل میں وہی پرانی کہانی تھی کہ چیک ان کا وقت دو بجے تھا اور میری آمد کا وقت نو بجے تھے۔ میں نے کہا بی بی یہ بستہ سنبھال بس تو کمرے کی فکر نہ کر اور شہر کیسے جا سکتے ہیں۔ وہ بولی کہ اتوار کو تو کوئی بس نہیں چلتی ٹیکسی پر جانا ہوگا میں نے ٹیکسی سے ابھی ابھی توبہ کی تھی لہذا اس سے پوچھا کتنا دور ہے شہر؟ جواب ملا پانچ کلومیٹر۔ بسم اللہ پانچ کلو میٹر تو میں آنکھیں بند کر کے چل سکتا ہوں اور میں نے نقشہ سنبھالا اور شہر کو چل دیا۔ ہوٹل شہر سے باہر بالکل ویرانے میں تھا اور جون کے مہینے کی خوبصورتی پھیلی تھی۔ ان ممالک میں جون کو گرمی کا مہینہ کہا جاتا ہے لیکن جہاں درجہ حرارت تیس سے اوپر نہ جائے اس کو کیا گرمی کہنا۔ ہر طرف سبزہ تھا پھول تھے سائیکلوں پر آتے جاتے لوگ تھے اور میں تصویریں کھینچتا ایک آوارہ منش۔ اکثر سڑک کنارے خرگوش کھیلتے نظر آ جاتے تھے اور میں سوچنے لگتا کسی دن کوئی ریچھ مل گیا تو کیا ہوگا؟ لیکن شکر ہے معاملہ جنگلی خرگوشوں تک محدود رہا وگرنہ پتہ نہیں عالم بالا میں انٹرنیٹ ہے کہ نہیں پتہ نہیں یہ بلاگ پوسٹ کر سکتا کہ نہ؟
واسا شہر میں |
Vaasa city |
میرا پسندیدہ ترین مجسمہ۔ اسکو دیکھ کر مجھے ہمیشہ "خواب مرتے نہیں" یاد آجاتا تھا |
ویسے بھی جنگل میں ، ٹرین کی پٹری کے ساتھ یا دریا کنارے رہنا مجھے ہمیشہ سے لبھاتا ہے اور یہاں جنگل تقریباً جنگل تھا جس میں سے ایک گھنٹہ چل کر شہر پہنچا جا سکتا تھا۔ میں شہر پہنچا اور وہاں تصاویر کھینچنا شروع کیں اور ایک گھنٹے میں احساس ہوا کہ شہر ختم ہو گیا ہے۔ مجھے احساس ہوا کہ واقعی اتوار کو بسیں نہ چلانے میں کیا مصلحت ہے اور ویسے بھی جہاں ہر دوسرے بندے کے پاس سائیکل ہو تو کیا پرواہ بس چلے نہ چلے۔ بس سائیکلوں سے شکایت یہ رہی کہ اکثر سائیکل ایسے تھے جن کی گدی سے آگے نہ ڈنڈے تھے اور نہ پیچھے کیرئر۔ چلو مجھے نہ گنیں پر اب کسی کو لفٹ دینی بھی پڑ سکتی ہے لیکن بس اس مادی دنیا نے لوگوں کی کسی کی مدد کے قابل نہیں چھوڑا کہ پانچ روز تک ایک بیچارہ پردیسی گھنٹہ صبح گھنٹہ شام کو پیدل چلتا رہا ہے مجال ہے کسی کی غیرت مہمان داری جاگی ہو۔
واسا پہنچ کر امید تھی کہ شاید یہ وہ علاقہ ہو جہاں سورج گرمیوں میں غروب نہیں ہوتا اور سردیوں میں شمالی روشنیاں نظر آتی ہیں لیکن پتہ چلا اس کے لیے مزید اوپر یعنی مزید شمال میں جانا پڑے گا اور پہلے میں نے سوچا اور کتنا اوپر جائیں پھر خیال آیا یہاں تک آن پہنچے ہیں تو کسی دن ادھر بھی پہنچ ہی جائیں گے۔
واسا پہنچ کر امید تھی کہ شاید یہ وہ علاقہ ہو جہاں سورج گرمیوں میں غروب نہیں ہوتا اور سردیوں میں شمالی روشنیاں نظر آتی ہیں لیکن پتہ چلا اس کے لیے مزید اوپر یعنی مزید شمال میں جانا پڑے گا اور پہلے میں نے سوچا اور کتنا اوپر جائیں پھر خیال آیا یہاں تک آن پہنچے ہیں تو کسی دن ادھر بھی پہنچ ہی جائیں گے۔
پہنچا اتوار کو اور پہلا لیکچر پیر کو تھا۔ پیر کو جب گیارہ بجے ہوٹل کے استقبالیے سے پوچھا کہ شہر کیسے جاؤں تو جواب ملا کہ بھائی صبح کے تین گھنٹے اور شام کے تین گھنٹے ، گھنٹے گھنٹے بعد ایک ویگن آتی ہے۔ میں نے جواب دیا، "بھا چا لاؤ" (بھاڑ میں جائے) اور زور ٹانگوں پر بھروسہ کر کے پیدل نکل گیا اور سوا گھنٹے بعد عین وقت پر واسا یونیورسٹی پہنچ گیا ۔ پتہ چلا آنے سے چند روز قبل واسا یونیورسٹی میں آگ لگ گئی تھی جس کی وجہ مرمت کا کام چل رہا ہے اور لیکچر کے کمرے تبدیل کر دیے گئے ہیں۔ ابھی یونان کے زلزلے کی گونج میرے ذہن میں باقی تھی جس سے مجھے اپنے سبز قدم ہونے کا ایک بار پھر اندازہ ہوا۔
منگل سے کلاس صبح نو بجے سے شام چھ بجے ہونی تھی جس میں چھ آرٹیکل روز پڑھنے تھے۔ پہلا آرٹیکل نیند کے غلبے کی وجہ سے سمجھ نہ آتا جبکہ چوتھا کھانے کے وقفے کے بعد ہوتا اور میں ایک وقت کھانے والا بندہ وہاں ملنے والے ایک بہاولپوری دوست کی وجہ سے مجبوری میں دوپہر کو ان کے ہمراہ کھا لیتا اور وہ لیکچر کھانے کے نشے میں گزرتا۔ آخری لیکچر چھٹی کے انتظار میں گزر جاتا جبکہ تیسرا کھانے کے وقفے کے انتظار میں گزرتا باقی دوسرا اور پانچواں آرٹیکل بچتے اور اب ہم نے فیس بک بھی استعمال کرنی تھی، ای میلز کا جواب بھی دینا ہوتا تھا کبھی کوئی کہانی بھی دماغ میں آجاتی اور بلاگ تو ویسے ہی فقط ٹائیپنگ کا محتاج ہے تو وہ وقت یوں گزر جاتا۔
اچھی بات یہ رہی کہ آتے ساتھ ہی ایک پاکستانی سے ملاقات ہوگئی جن کا تعلق بہاولپور سے تھا۔ اور وہ بھی پی ایچ ڈی کر رہے تھے لہذا ان کے ساتھ اچھی گفتگو رہی اور ویسے بھی کافی دنوں بعد سرائیکی بلکہ ریاستی بولنے کا موقع ملا تو ایسا موقع کون گنواتا۔
واسا آکر احساس ہوا کہ فن لینڈ کتنا مہنگا ہے۔ اتنا ایسٹونیا میں ہم نے آج تک دو سالوں میں ٹیکسی والوں کو نہہیں ادا کیا ہو گیا جتنا ہوائی اڈے سے ہوٹل اور واپسی پر ٹیکسی والوں نے پیسے لے لیے۔ اور تو اور کوکا کولا دو یورو کی ہے۔ پتہ لگا 20 سینٹ بوتل کے ہیں کہ بوتل واپس کریں اور بیس سینٹ حاصل کریں پہلی بات پھر بھی ایک یورو اسی سینٹ کی بنی جبکہ تالن میں کوکا کولا کی وہی بوتل اسی سینٹ میں ملتی ہے جبکہ دوسرا پاکستانی بیچارے جو بوتلیں چن کر کباڑیوں کو بیچتے ہیں اگر فن لینڈ آ جائیں تو اچھی خاصی کمائی کر لیں۔ ہمارا حال تو یہ ہے کہ پیپسی پینا چھوڑ دی کہ کون شیشے کی بوتل واپس کرے۔ دفع کرو۔
آخری دن جب کلاس ختم ہوئی تو میں نے سوچا واسا میں تو دیکھنے قابل جو تھا سو تھا کیوں نہ واسا کا آسا پاسا (ادھر ادھر) بھی دیکھ لیا جائے اور میں نے واپسی پر جان بوجھ کر لمبا راستہ اختیار کیا اور اندازے سے چلتا رہا اور تھوڑی دیر بعد مجھے احساس ہو گیا کہ میں راستہ بھول چکا ہوں۔ بڑی خوشی ہوئی اور میں اندازے سے علاقے کی خوبصورتی میں کھویا چلتا رہا، میں نے سوچ لیا کہ کوئی بندہ جب تک فارغ کھڑا نہیں ملے گا تب تک راستہ نہیں پہنچنا۔ تاہم راستے میں ایک بار نقشے پر راستہ مل گیا لیکن تھوڑی دیر بعد پھر احساس ہوا کہ اب پھر کوئی پتہ نہیں کہاں ہوں۔ آخر کوئی دو گھنٹے بعد چلنے کے دو لڑکیاں سائیکلیں سڑک کنارے کھڑی کر کے گپ شپ کر رہی تھیں میں نے ان کو نقشہ دکھایا اور پتہ چلا کہ میں کوئی ایسا خاص دور نہ تھا اور ٹھیک سمت میں جارہا تھا تاہم انہوں نے دونوں نے خشوع و خصوع سے مجھے راستہ سمجھایا اور مجھے افسوس ہوا کہ بس پہنچ بھی گیا؟
واسا کا آسا پاسا |
؎جب ہوٹل کے پاس پہنچا تو ان میں سے ایک لڑکی سائیکل پر پاس سے گزری تو ہاتھ ہلایا تو مجھے ہیلسنکی کے لوگ یاد آ گئے کہ کیا سکینڈے نیوئن Scandinavian اور کیا ہیلو ہائے کرے۔ بجائے چھوٹے سے شہر ہونے سے جہاں کے پورے صوبے کی آبادی ساٹھ ہزار ہے یہ مزید تنک مزاج اور تنگ نظر ہوتے یہ لوگ خوش اخلاق نکلے تھے حالانکہ وہ سکینڈے نیوئن ہی نہیں سمجھا جاتا جو ٹھنڈے مزاج کا نہ ہو جبکہ مجھے تو ٹیکسی ڈارئیور، یونیورسٹی والے، دکانوں پر کام کرنے والے لڑکے لڑکیاں سب خوش اخلاق ملے۔ پتہ نہیں یہ علاقہ سکینڈے نیویا میں آتا بھی ہے کہ نہیں وکیپڈیا Wikipedia میں دیکھتا ہوں۔ لیکن وکیپیڈیا کا کیا ہے پاکستانی شہروں بارے پڑھ کر دیکھیں جس میں شہر کی معلومات کے علاوہ سب کچھ ملے گا۔