June 9, 2014

گریس اور گریک کے بیچ

Greece aur Greek ke beech


آپ کا ٹوئیٹر Twitter کے بارے کیا خیال ہے؟
بڑا نیک خیال ہے۔
کیا خیال ہے یہ ٹیکنالوجی کی بھرمار میں چل پائے گا؟
کیوں نہیں ابھی سوشل میڈیا Social Media کا متبادل کوئی نہیں آیا تو ابھی تو اس نے چلنا ہے۔
 تو میں اس کے شئیر Share اپنے پاس رکھوں؟
ضرور ضرور یہ گرا بھی عارضی ہوگا۔
چائینا موبائل China Mobile بارے کیا خیال ہے؟
بہترین ہے۔ اور اس نے کہیں نہیں جانا۔
اچھا آپ کا بہت شکریہ ۔ آپ نے میری مشکل حل کر دی۔


یہ کوئی پیشہ ورانہ میٹنگ Meeting کا احوال نہیں بلکہ سرا رہے ایک یونانی سے میری گفتگو کا احوال ہے جب اس کو پتہ چلا کہ میں مارکیٹنگ Marketing سے منسلک ہوں تو اس نے یہ گفتگو کر ڈالی۔

آپ لوگ پڑھ چکے ہیں کہ ایک بار پہلے بھی میں یونان جاتے جاتے رہ گیا۔ لیکن اس بار کانفرنس کا بہانا تھا، یورپئین یونین European Union کا وظیفہ تھا اب بھلا ہمیں جانے سے کیا روک سکتا ہے اور تمام لٹنے کا پٹنے کا خوف بیگ میں ڈالا اور وہ بیگ لے کر ہم ایتھنز Athens کو چل پڑے۔

انگریزی کے کچھ حروف ایسے رہے ہیں جن کو آج تک میں بھولتا ہوں جیسے پش Push اور پل Pull.۔ جس جس دروازے پر انگریزی میں پش اور پل لکھا ہوتا ہے پہلے سوچتا ہوں کہ پش دھکیلنا ہے یا پل دھکیلنا ہے۔ ایسے ہی الفاظ میں گریک Greek اور گریس Greece بھی شامل ہیں اور میں جہاز میں سوار ہوتے وقت تک ڈکشنری دیکھ دیکھ کر یاد کرتا رہا کہ گریس یونان ہے جبکہ گریک یونانی۔

اب عقلمندی میں بھی ہم سا کوئی ملنا ناممکن ہے میں نے ہوٹل جس تاریخ کا لیا میں اس روز صبح دو بجے ہوائی اڈے پر اترا۔ میں نے سوچا کہ ویسے بھی اندھیرے میں باہر نکلنا مناسب نہیں کیا پتہ سب یونانی چھریاں چاقو لے کر میرے انتظار میں ہوائی اڈے کے باہر کھڑے ہوں لہذا روشنی ہونے کے بعد ہی باہر نکلوں گا لیکن سورج تو پانچ بجے نکل آیا تھا اور میرے ہوٹل میں داخلے کا وقت دو بجے دوپہر لکھا تھا۔ میرے پاس ویسے تو کچھ ایسا نہیں تھا جس کے لٹنے کا غم ہوتا لیکن جان سے پیارا کیمرہ اور عزت سے پیارا پاسپورٹ کا خطرہ تھا پڑا۔ تو اب رات کے دو بجے سو بھی نہیں سکتا تھا ہوائی اڈے پر کہ اتنا ڈرا ہوا تھا کہ احتمال تھا کہ جب اٹھتا جسم کے کپڑے بھی نہ ہوتے جس کے لیے میں ایک کتاب ساتھ لے کر چلا اور جب 500 صفحات سے زائد کی کتاب دوسری بار ختم کی تو دن کے 11 بج چکے تھے اور میں نے سوچا اب چلتا ہوں ہوٹل کیا پتہ وہ میرا اترا چہرہ دیکھ کر کل رات کا افسانہ سمجھ جائے اور ترس کھا کر کہے کوئی نہیں آپ کمرے میں دو بجے سے پہلے چلے جائیں۔ لیکن ایسے خوش قسمت ہم کہاں تھے تو میں نے کہا بھائی یہ بیگ تو رکھ لے کہ یونانیوں کو کم از کم میرے بیگ کے لوٹنے کے علاوہ کوئی اور کام یاد رہے اور اس سے یونان کے امن و امان کی قسمیں لے کر نقشہ اٹھایا اور قدیمی شہر کو چل پڑا۔

ہوٹل کا کمرہ اپنے نام کراتے وقت لوگوں نے عجیب باتیں لکھی تھیں کہ بڑا گندہ علاقہ تھا ہم بس جان بچا کر بھاگے ہیں لیکن پچاس قدموں پر میٹرو اسٹیشن کے علاوہ میں اس علاقے میں گلیوں میں گھومتا رہا لیکن کچھ ایسا نہ نظر آیا۔ بس وہی سیدھے سادے لوگ گھروں کے باہر گپ شپ میں مصروف ہیں، فارغ بیٹھے دھوپ سینک رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ میں نے سوچا میرے سے بھی بڑے چول دنیا میں پائے جاتے ہیں۔

میرے ہوٹل سے قدیمی شہر میٹرو کے تین اسٹیشن دور تھا اور میں اتنا فاصلہ عام طور پر پیدل ہی طے کر لیتا ہوں لیکن میں نے بہتر سمجھا کہ ایک طرف کی ڈیڑھ یورو کی ٹکٹ ضائع کر کے ہی جاؤں۔ لیکن اپنے پیدل چلنے کی عادت سے بھی مجبور ہوں کہ تمام خوف کے باوجود، تمام ڈر کے ہوتے، میں نے پھر بھی گھومنا نہ چھوڑا البتہ احتیاط یہ کرتا کہ جہاں دو تین یونانی دیکھتا اور وہاں رش بھی ذرا کم ہوتا تو جلدی جلدی وہاں سے گزر جاتا چاہے وہاں کیسا ہی منظر کیوں نہ ہو تصویر کھینچنے سے احتراز کرتا۔ ہوٹل میں جانے سے پہلے پہلے ہی میں نے آدھے سے زیادہ قدیمی شہر گھوم لیا اور ہوٹل جا کر نہا دھو کر سیدھا نیند کو پیارا ہو گیا کہ کبھی کبھی تو مجھے لگتا کہ ابھی بھی جہاز میں ہی بیٹھا ہوں۔

پہلے دن کی شہر گردی

اللہ جانے کیا بنایا ہے

ایسے چھوٹے کلیسے خاصے ہیں

شہر گردی

یہ گلی ختم ہوگئی دوسری طرف چلنا چاہیے

کھنڈر بتا رہے ہیں کہ عمارت حسین تھی

عثمانی دور کی مسجد

ایتھنز میں دیکھنے لائق کھنڈر ہیں

مزید کھنڈرات

عمارت کی لش پش ہوتے ہوئے

ہم تو پودا لگاتے جائیں مچھر ہی سکون نہیں لینے دیتے

شہر کے بیچوں بیچ

رومن طرز تعمیر

وسطی شہر میں سب سے اہم عمارت






یہ لائبریری ہے۔ یورپئیوں کو بھی عجیب شوق ہیں۔ پتہ نہیں ان کے صدر وزیر اعظم یہاں کیوں نہیں رہتے


رقص میں ہے سارا جہاں


نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں

سفید ستونوں کے پیچھے سرخ رنگ

سورج صاحب بھی موڈ میں۔ سارے پاغلوں کی طرح اس کی تصویر کھینچ رہے تھے میں نے سوچا میں بھی

باغات عالم۔ جہاں عالم تو تھا باغ بس پورا سورا نکلا



جہاں سے چلے تھے۔




مشہور علاقے پالکا میں








اکرولیپس کے نیچے




دوسرے روز پھر اسی بے وفا کا شہر تھا اور میں تھا اور کل کے بعد تھوڑا حوصلہ آ چکا تھا لہذا نقشے کے بغیر ہی گلیوں در گلیوں گھومتا رہا اور ایک ایسی گلی میں پہنچا جس کو پاکستانی گلی کہنا زیادہ مناسب تھا جہاں سب بورڈ اردو میں لکھے تھے سب اردو بول رہے تھے لیکن بیرون ملک پاکستانیوں سے نہ ملنے کا فیصلہ آڑے آیا اور میں چپ چاپ کر کے اگلی گلی مڑ گیا۔ اسی دوران وہاں پر عثمانی دور کی مسجد کا بھی دیدار ہوا لیکن نقشے کے بغیر گھومنے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ آپ کو پتہ نہیں کہ یہ عمارت کس چیز کی ہے لیکن فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ نقشے کے پابند نہیں رہتے بلکہ نئی نئی اشیا دیکھ پاتے ہیں اور اپنی خود کی نقشوں سے آزاد سیر کر پاتے ہیں۔


اسی دوران ایک تصویر لیتے ایک یونانی میرے پاس آگیا اور آکر بولا کہاں سے ہو؟
 پاکستان۔
کیا کرتے ہو؟
پروفیسر ہوں
کہاں؟
ایسٹونیا Estonia
میں نے اس کی انگریزی کے پیش نظر اس کو پی ایچ ڈی کا طالب علم ہونے کی تفصیل میں جانے کی بجائے آسان سی بڑھک ماردی۔
کیا پڑھاتے ہو؟
مارکیٹنگ۔
اچھا۔۔
میں بھی سٹاک ہولم Stockholm میں رہتا تھا آپ کے تالن Tallinn کے پاس۔
اچھااچھا
بڑی خوشی ہوئی آپ سے مل کر اور میں نے کیمرے والا بستہ مزید مضبوطی سے پکڑ لیا۔ اس کے بعد اس کی اور میری یہ گفتگو ہوئی جس کو آپ شروع میں پڑھ چکے ہیں ۔ اس کو تو کوئی فائدہ ہوا ہو نہ ہوا مجھے فائدہ ضرور ہو گیا کہ ڈر ختم ہو گیا اور میں مزید شیر ہو گیا۔ لیکن شیر پھر بھی سرکس والا رہا ہے کہ اس نے اصرار کیا کہ چلو بار میں چل کر اس کے ساتھ کوئی مشروب پیوں اور غپ لڑاؤں لیکن میں بہانے بازی کر کے اس کو ٹالتا رہا وہ جوں اصرار کرتا میری کیمرے پر گرفت اتنی مضبوط ہو جاتی آخر اس نے اپنا کارڈ دیا کہ جب دل کرے میری بار ہے اس میں آ جانا۔

دن دو- کانفرنس کے ہوٹل سے شہر کو دیکھو

ہوٹل سے شہر کا نظارہ

اکروپلیس

شہر گردی

ہتھ بدھے ڈیکھ چا!

ایتھنز میں یوم پاکستان

ایک اور چھوٹا کلیسا








ماضی کی عظمت اکثر حال کی تباہی کا باعث بنتی ہے


پھر پالکا

Add caption





دیواری آرٹ بھی یہاں خاصا مقبول ہے




ہندا ففٹی :)

رج کے پیو تے جم کے لڑو




شہر کے خوبصورت علاقے پالکا میں








یورپ میں میٹرو کم ٹرامیں


مقام یوریکا۔ یعنی ایتھنز کا قدیم حمام




اگلے دن میں کانفرنس کے ساتھ ہی ایتھنز کے قدیم کھنڈرات دیکھنے گیا اور ان کو ڈر سے جو پیسے بھرے تھے کہ ساروں کے ساتھ ہوں گا تو کوئی نہیں تنگ کرے گا کہ فیصلے پر افسوس ہونے لگا لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔لیکن خوشی یہ ہوئی کہ اکیلا ہوتا تو کبھی میوزیم والوں کو پیسے بھر کر ٹکٹ لیکر ایکروپولیس Acropolis اندر سے دیکھنے نہ جاتا۔


آوارہ گردی بمعہ شرکا کانفرنس

ایک اور چھوٹا کلیسا

وسطی شہر و قدیمی شہر


چلے تھے جہاں سے

سیاحوں کی بس

کسی نے آنٹی کو پھول پکڑا دیے

کھنڈر کھنڈر کھنڈر

بقول کانفرنس کے گائیڈ کے یہ بی بی کوئی وزیر تھیں مجھے تو وہ خاتون یاد آ رہی ہے جس کے بال سانپ بن جاتے ہیں

یہ کہتے ہیں کہ ان کی دکان کا چکر لگایا جائے




ایکروپولیس کے عین نیچے

آگیا بھائی آگیا ایکروپولیس آ گیا























واپسی





میں اور دو برازیلی لڑکیاں میرے دو روزہ تجربے پر انحصار کرتے ہوئے مجھے گائیڈ بنا کر سیر کو نکلیں کہ کھنڈرات میں تین گھنٹے بعد جانا تھا کانفرنس ختم ہو چکی تھی اور تین گھنٹے کرنے کو کچھ نہ تھا اور پتہ نہیں وہ کانفرنس میں میرے پڑھے مقالے سے متاثر ہو گئیں تھیں یا انہیں مقالے سے پتہ چل گیا تھا کہ میں چول ہوں مجھے کچھ نہیں آتا جاتا بہرحال ہم چل پڑے اور ایک دکان پر جہاں ایک یونانی یونان کی یادگاریں مثلاً شرٹ، بیچ، فریج پر لگانے والے مقناطیس جن پر یونانی اشیا بنی تھیں، سپارٹا کی شبیہ وغیرہ بیچ رہا تھا پہنچ گئے۔ میں نے بھی حال ہی میں جب بیس ملک گھوم چکا ہوں تب خیال آیا ہے اور یہ مقناطیس والی یادگاریں جمع کرنا شروع کی ہیں تو مجھے بھی اس دکان میں دلچسپی تھی۔ وہ یونانی بھی پورا حضرت تھا اور ہر زبان تھوڑی بہت جاتنا تھا اور اس نے ان لڑکیوں سے پرتگالی میں بات شروع کر دی اور بہانے نہانے سے ان کے گالوں پر چٹاک چٹاک بوسے بھی لے لیتا۔ میں اس کی حرکات سے خاصا محضوض ہوا۔ اس نے ان سے فارغ ہو کر مجھ سے پوچھا کہ کہاں سے ہو یونانی ہو؟ مجھے یونانی کی الف ب نہ آتی تھی میں پاگلوں کی طرح منہ پھاڑے کھڑا تھا۔ اس نے انگریزی میں جملہ دوہرایا اور میں نے کہا پاکستان۔ اچھا اچھا۔ بولا میرے پاس دو پاکستانی لڑکے کام کرتے ہیں بڑے سخت جان اور کام کرنے والے ہیں پاکستانی۔ میں سوچنے لگا یہ مار کٹائی کون کرتا ہے پاکستانیوں کے ساتھ جو اخبارات میں آتا ہے لیکن پھر میں نے دل کو سمجھایا یہ محض مارکیٹنگ کا حیلہ ہے۔ تو میں نے کہا کہ بھائی میں آیا ایسٹونیا سے ہوں۔ وہ ایسٹونیا کو بھی جانتا تھا مجھے بولا ناگیمیست Nägemist۔ جو ایستی Eesti یعنی ایسٹونین Estonian زبان میں خدا حافظ کے لیے رائج ہے۔ اس کے بعد اس نے ہم تینوں کو ایک ایک سینٹ کا سکہ بطور خوش بختی کی علامت دیا جس کے ساتھ اس نے دعا دی کہ برازیلی لڑکیوں کو شادی کے لیے مجھ سا گبھرو ، سوہنا جوان ملے اور مجھے دعا کی بجائے پشین گوئی عطا کی ایک تو آپ بالکل یونانی لگتے ہو دوسرا آپ پر یونانی لڑکیاں مرمر جائیں گی۔ البتہ اخبارات میں میرے باقی دو دنوں میں لڑکیوں کے مرنے کی وبا بارے کوئی خبر نہ تھی۔ تاہم میرے تالن واپس پہنچنے پر بحیرہ ایجئین Aegean Sea کے جزائر میں زلزلہ آ گیا تاہم اخبارات میں یہ تفصیل نہ پڑھ سکا کہ کتنی لڑکیاں مریں۔

جاتے وقت اس نے ایک ایک یادگار بھی ہمیں مفت دے دی اور بدلے میں لڑکیوں کے گالوں کو ایک بار پھر اپنے بوسے سے نوازا البتہ شکر ہے میں اس عناعیت سے محروم رہا کہ اس نے خود ہی کہہ دیا میں تم سے صرف گلے ملوں گا کہ چوما تو بات دوسرے پاسے بھی جا سکتی ہے۔

یونانی چاچے کے تحفے


اگلے روز کانفرس کے شرکا کے ہمراہ میں بحیرہ ایجئین کے جزائر کی سیر کو گیا۔ ہلکی ہلکی گرمی، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا، سمندری سفر گویا سفر کے تمام لوازمات پورے تھے اور نتیجے میں بہترین تصاویر اور یادگاروں سے بھرپور سفر طے پایا۔ سب سے پہلے ھیدرا Hydra پہنچے جہاں آج بھی کاروں کا داخلہ ممنوع ہے اور وہاں رہنے والے لوگ جانوروں پر ہی سفر کرتے ہیں ویسے جزیرے کی تنگ گلیوں کو دیکھتے ہوئے کاروں کا وہاں چلنا ممکن بھی نہیں اوپر سے جزیرہ پہاڑی ڈھلوان پر مشتمل ہے۔

سمندری سفر







جزیرہ ھیدرا

سواری تیار ہے، آپ کا انتظار ہے

جزایر کی بھول بھلیوں میں






















اگلی منزل پورس Poros کا جزیرہ تھی جو اپنا دیسی پورس نہیں بلکہ پوروس سمجھا جائے۔جہاں کا گھنٹہ گھر خاصا مشہور تھا اور خاصی بلندی پر تھا۔ میں نے البتہ سب کے ساتھ جانے کو خود سے گھومتے گھوماتے جانے کو ترجیع دی۔ گھنٹہ گھر تو نہ مل سکا البتہ خوبصورت گلیوں میں جو پہاڑی پر بھول بھلیاں سی تھیں میں پھرتے میں تقریباً بحری جہاز پر چڑھنے سے رہ ہی گیا تھا۔

جزیرہ پوروس


















اب ہم ایجینا Aígina پہنچے۔ یہ پچھلے تمام جزائر سے بڑا تھا۔ یہاں اترتے ہی آگے ایک پرانی سی عمارت تھی جس کے ساتھ ایک شیڈ سا بنا تھا جو تانگوں گھوڑوں کا اڈا تھا جس کو دیکھ کر مجھے بہاولپور ریلوے اسٹیشن کی یاد آگئی۔ جزیرہ بھی آج سے دس پندرہ سال پرانے پاکستانی شہروں سا تھا۔ کیسے ؟ اب یہ نہ پوچھیں بس مجھے لگا میں اپنے بچپن میں کسی شہر میں گھوم رہا ہوں۔ وہاں پر اپالو کا ایک معبد بھی تھا لیکن ہمارے آنے کی خبر سن کر وہ پہلے ہی بند ہو چکا تھا لہذا جنگلے کی باڑ کے باہر سے دیدار کر کے ہم شکر ادا کرتے چل دیے کہ اگر کھلا ہوتا تو ٹکٹ کے پیسے بھرنے پڑتے۔

جزیرہ ایجینا پر

تانگہ اسٹینڈ



اپالو کا مندر





















اب ذرا مجھے یہ بتائیں نہ وہ کون تھے جنہوں نے کہا تھا کہ یونان کے حالات اچھے نہیں؟ یونان میں پاکستانیوں کو پکڑ کر مارتے ہیں، یونانی چور ہیں۔ ان تمام لوگوں سے گزارش ہے کہ براہ مہربانی میرے دس یورو واپس کر دیں جو میں ان کی باتوں میں آ کر میٹرو سے سفر کرنے پر خرچ کیے وگرنہ میں باآسانی یہ سارا کچھ پیدل کر سکتا تھا۔

ان تمام احباب کا شکریہ جنہوں نے یونان کا ناسفرنامہ پڑھ کا دعا کی تھی کہ میں یونان جاؤں تو انکی خدمت میں جانے کا سفرنامہ بھی پیش خدمت ہے اور تصویریں بھی۔