Lithuania jana
ڈاکٹر صاحب جو نام کے اور کام کے ڈاکٹر نہیں بلکہ سند یافتہ استادی والے ڈاکٹر ہیں نے فرمایا ولنیوس Vilnius چلنا ہے؟
کون کون جا رہا ہے؟
دو جرمن لڑکیاں ہوں گی ایک آپ اور ایک میں۔
میں فوراً سے پیشتر راضی ہو گیا۔
دو روز بعد فون پر اطلاع ملی لڑکیاں نہیں جا رہی بس آپ اور میں ہی ہوں گے تو کیا ہوٹل اور بس کی ٹکٹ لے لوں۔ مروت بڑی واہیات شے ہے اور میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی ہاں کر دی اور ہم نو گھنٹے کے سفر پر لیتھوانیا Lithuania کے دارالحکومت ولنیوس کے لیے روانہ ہو گئے۔
یوں تو میں چار بار وارسا Warsaw سے تالن Tallinn آتے جاتے ولنیوس سے گزر چکا ہوں لیکن میرے اپنے پیمانے کے مطابق جب تک میں وہاں کی تصاویر نہ کھینچوں میں خود کو وہاں گیا نہیں سمجھتا۔ بندہ بھی کیا چول شے بنائی ہے اللہ تعالی نے۔ ایک بار پولینڈ Poland میں رہتے جانے کاموقع ملا جانے کا تو میں نے انکار کر دیا کہ اس زمانے میں پیسے اور عقل دونوں کم ہوا کرتی تھیں۔
بس پر ہم نے ولنیوس کے بس اڈے کی بجائے وسطی شہر City Center کی ٹکٹ لی جہاں پینوراما Panorama لکھا تھا۔ ہم سمجھے شاید یہ بھی لاہور کے پینوراما کی طرح مال روڈ پر شہر کے بیچوں بیچ واقع ہو گا اور جو نقشہ ہم نے گوگل صاحب کی مدد سے نکالا اس پر محض پندرہ منٹ چلنے کے بعد ہم نے اپنے ہاسٹل جس کا نام سٹی گیٹ City Gate تھا پہنچ جانا تھا لیکن جب پینوراما یعنی مبینہ وسطی شہر پہنچے تو کچھ سمجھ نہ آئی کے مشرق کہاں ہے اور مغرب کہاں ہے۔ شہر کہاں ہے؟ اور اگر یہی شہر ہے تو ویرانہ کسے کہتے ہیں؟ نقشے میں موجود یہ عمارت کس جگہ ہے اور ہم کس طرف چلنا شروع کریں تو ایک نیک بی بی سے استفسار کیا کہ عام طور پر تو ہم نقشہ دیکھ کر تکا لگا سکتے ہیں کیا وجہ ہے کہ آج نقشہ اوپر اوپر سے گزرا جا رہا ہے کیا یہ شہر کی خوبی ہے یا نو گھنٹے سفر کی تکان۔ وہ مسکرائی اور نقشے کے کاغذ سے دو فٹ اوپر انگلی کا اشارہ کر کے بولی آپ یہاں کہیں ہیں۔ اب ہمیں اس بی بی کے نیک ہونے پر شک محسوس ہوا کہ ہم پولینڈ کے انتہائی ہمسائے ملک میں موجود تھے لہذا یہاں پر بھی امید واثق تھی کہ لوگ پانی کی بجائے الکحول ہی استعمال کرتے ہوں اور ہم اپنی سادہ طبعیت کی بنا پر اس بی بی کو بھی ہر خاتون کی طرح نیک سمجھے ہوں تو ہم نے نقشے میں موجود پینوراما پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا مانا ہماری انگریزی گلابی ہے مگر ہماری لاکھ کوشش کے باوجود ہمیں تو یہ پینوراما ہی لگ رہا ہے۔ وہ یہ بات سن کر مسکرائی اور اس نے ہماری جان نکال لی ۔ مسکراہٹ کے ذریعے نہیں بلکہ اس انکشاف کے ذریعے کہ یہ پینوراما ہوٹل ہے اور آپ پینوراما شاپنگ سینٹر میں موجود ہیں۔
اس بی بی کے نیک ہونے کا ہمیں دوبارہ یقین آگیا اور مزید یقین اس کی اس عرق ریز کوشش سے آگیا جس طرح اس نے ہمیں راستہ سمھانے کی کوشش کی۔ راستہ یوں تھا کہ یہاں سے اس طرف چلنا شروع کردیں جس کے الٹ جانے کا ہم سوچ رہے تھے اور جب آپ کو یقین ہو جائے کہ آپ پیدل ہی تالن پہنچ گئے ہیں تو ایک عمارت آئے گی اس کا نام یورپا Europa ہے وہاں سے آپ دائیں ہاتھ ہو جائیں۔ آگے جا کر ایک پل آئے گا اس کے بعد ایک چوک آئے گا پھر مزید آئے جا کر بائیں ہاتھ مڑ جائیں اور وہاں کہیں ہوٹل ہو گا۔ ہمارا ہوٹل نہیں بلکہ پینوراما۔ آگے کا نقشہ ہمارے پاس تھا اور نقشہ نہ بھی ہوتا منصوبہ تو تھا ہی پڑا کہ ہر دوسرے موڑ پر لڑکیوں کو روک روک کر راستہ پوچھتے جائیں گے کہ پیش بندی مصیبت کو ٹالتی ہے۔
|
ہوٹل جاتے راستے میں آنے والی چند عمارات |
منصوبہ بندی میں تو آپ ہم پاکستانیوں کی قابلیت جانتے ہی ہیں اور یہ قابلیت ہم نے لیتھوانیا جانے میں دکھائی اور جانے سے دو روز قبل تک ہم شش و پنج میں تھی کس وقت جائیں، کب واپس آئیں، کس ہوٹل میں رہیں، کس کس شہر میں جائیں اور آخر تنگ آ کر جو جو شے پہلے نظر آتی گئی اس پر کلک کرتے چلے گئے اور پتہ چلا منصوبہ یہ بنا ہے کہ جمعے صبح آٹھ بجے تالن سے چلیں گے اور شام سات بجے ولنیوس پہنچ جائیں گے جس میں راستے میں دو گھنٹے
ریگا Riga (لیٹویا Latvia ) جہاں مزید لاتیں نہیں چلتیں بلکہ یورو Euro چلتا ہے میں بھی آوارہ گردی کریں گے اور ہفتے کی رات/اتوار کی صبح تین بجے ولنیوس سے واپسی ہوگی۔
ہوٹل جس کو آخر کار ہم نے تلاش کر لیا میں سامان رکھ کر ہم نے کیمرہ سنبھالا اور نکلے شہر گردی کو۔ اتنی دیر میں ڈاکٹر صاحب جو کہ ایسٹونیا Estonia میں اتنے مشہور ہیں کہ امید واثق ہے کہ آپ تالن آئیں اور کوئی پوچھے کہاں سے ہیں تو پاکستان سننے پر وہ کہے گا اچھا ڈاکٹر صاحب کے ملک سے ہیں کو فون آیا کہ ان کی جاننے والی جرمن لڑکیاں جنہوں نے ہمارے ساتھ جانا تھا لیکن نہ گئیں اب آ رہی ہیں اور وہ رات گیارہ بجے پہنچیں گی اور ان سے ملنا بس اڈے پر قرار پایا ہے۔ میں نے دل میں سوچا کہ ہمیں تو مغرب کے بعد اپنے شہر میں باہر نکلنے کی اجازت نہیں ملتی کجا کسی غیر ملک میں آدھی رات کو بس اڈے پر جانا۔ لیکن چونکہ اس سفر کے لیے ہم ڈاکٹر صاحب کی بیعت کر چکے تھے اس لیے نہ صرف حامی بھری بلکہ جھوٹ موٹ کا کہہ بھی دیا واہ یار یہ تو بہت اچھا ہے وغیرہ وغیرہ۔
|
آوارہ گردی بمعہ ہاسٹل کی تلاش |
جب رات کو ان کو وصول کیا تو میری ان لڑکیوں سے گپ شپ اور کہانیاں سنانے پر ڈاکٹر صاحب حیران رہ گئے لیکن میں ان کی حیرانی دور نہ کر سکا کہ بتا سکتا کہ بھائی کوئی لڑکیوں کی محبت ہمیں نہیں ماری جا رہی بلکہ یہ محض سردی سے کانپتے دانتوں کی کٹ کٹ کی آواز چھپانے کا طریقہ ہے۔ ہم ایسے اور بھی کئی طریقوں میں مہارت رکھتے ہیں مثلاً ٹانگیں کانپیں تو چلنا شروع کر دیں یا ٹانگیں ہلاتے رہیں جیسے کسی دھن پر ہلکا ہلکا تھرک رہے ہوں، دانتوں کی کٹ کٹ کےلیے باتیں کرنا شروع کردیں، جمائیاں چھپانے کے لیے رومال منہ پر رکھ کر جتنی جمائی روک سکیں روک کر ہلکا سا کھنگورا بھر لیں ۔
اب پتہ لگا کہ منصوبہ بندی میں پاکستانیوں کا نام بدنام ہے کہ وہ جرمن لڑکیاں ہم سے بھی آگے نکلیں کہ بغیر ہوٹل بک کرائے ولنیوس آن پہنچیں۔ اور آدھی رات کو خوف اور سردی سے کانپتی ٹانگوں کے ساتھ ہم ان کے لیے ہاسٹل ڈھونڈتے پھر رہے تھے لیکن بھلا ایسے بھی سستے ہوٹل ملتے ہیں لہذا ان کے لیے اور کوئی چارہ نہ بچا وہ ہمارے مہنگے ہوٹل جس کا کرایہ 15 یورو تھا میں ہی قسمت آزمائی کو تیار ہو گئیں اور میں نےسکھ کا سانس لیا کہ ان نیک بختوں کو نہ عزت کا خیال تھا نا مال کے لٹنے کا ڈر لیکن مجھے اپنے کیمرے کی فکر کھائے جارہی تھی کہ اس کو کچھ نہ ہو۔ ہمارے ہوٹل والوں نے رات کے اس پہر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ پیسے بھی 15 یورو لیں گے اور رہنا بھی آپ کے کمرے میں پڑے گا یعنی پہلے جو کمرہ انہوں نے 30 یورو میں بیچا تھا وہ اب اس کے 60 یورو کما رہے تھے اور یوں میری نیند بھی خراب ہوئی کہ اکیلے سونے کا اپنا ہی مزہ ہے کہ جوتوں سمیت بستر میں گھس جائیں ، اونچی اونچی آواز میں گپیں ہانکیں لیکن دوسروں کی موجودگی میں خیال کرنا پڑتا ہے کہ آپ خراٹے نہ لیں، جرابوں سے بو نہ آئے، سوتے وقت کے کپڑے پہنیں، دانتوں میں برش کریں اور ایک بار پھر وغیرہ وغیرہ۔
اب اگلی صبح ہم نے لسٹ نکالی کہ جہاں جہاں گھومنا تھا اور چل پڑے لیکن اس سے پہلے ان لڑکیوں نے اپنا ہاسٹل ڈھونڈ لیا اور ہم نے سوچا پہلے ان کو ان کے ہاسٹل چھوڑ آئیں۔ ان کا ہاسٹل کوئی شہر کے پچھواڑے تھا اور جب میں وہاں پہنچا تو دل کیا کہ بندہ یہیں سو جائے اب۔ تاہم جیسے تیسے کر کے ہم چل پڑے اور ہماری منزل تین صلیبوں والی پہاڑی تھی۔ ایک پہاڑی نظر آئی اور ہم اس امید پر اس پر چڑھنے لگے کہ یہ ہمیں اپنی منزل پر پہنچا دے گی لیکن جب وہاں پہنچے تو پتہ چلا کہ یہ کوئی اور پہاڑی تھی اور یہاں سے تین صلیبوں والی پہاڑی کا نام و نشان بھی نہ دکھتا تھا۔ ہم نے دونوں پہاڑیوں پر تین حرف بھیجے اور اگلی منزل جو کسی پیٹر صاحب کا کلیسا تھا کی طرف چل دیے۔
|
شہر گردی |
|
سائیکلیں کرائے پر |
|
پہاڑی والا قلعہ نیچے سے |
|
گھنٹی والا مینار المعروف بیل ٹاور |
|
گھنٹی والا مینار المعروف بیل ٹاور |
|
پہاڑی والا قلعہ |
|
شہر گردی |
|
پیٹر صاحب کا چرچ |
|
شہر گردی |
|
گھنٹی والا مینار المعروف بیل ٹاور |
|
تانکا جھانکی |
|
شہر گردی |
|
ٹھیٹر |
|
فنا ہوں سبھی دوریاں |
|
موسم بہار میں |
|
ایک قلعہ کم محل |
|
جہاں پر ماڈلنگ ہو رہی تھی |
راستے میں ایک جرمن لڑکی نے کہا اس کی ایک منہ بولی بہن یہاں رہتی ہے اس نے ہم سب کو اپنی خاندان کے ساتھ کھانے کی دعوت دی ہے۔ خاندان کے نام پر ہم نے معافی مانگی اور دونوں لڑکیوں کو بس میں سوار کرکے میں نے اور ڈاکٹر صاحب نے شہر گردی جاری رکھی۔
راستے میں ایک جگہ ماڈلنگ ہو رہی تھی اور ہم بھی وہاں تھکن کا بہانہ کر بیٹھ گئے۔ ایک خاتون ماڈل نے پہلے چادر اتار کر تصاویر کھینچوائیں پھر جیکٹ اتار کر پھر سکارف اتار کر۔ اسی دوران بہت کچھ اترنے کی آس پر لوگ وہاں جمع ہونے لگے تاہم دیکھنے ہم بھی گئے تھے پر تماشہ نہ ہوا اور کچھ ایسے ویسے سے پہلی ہی کھیل ختم ہوگیا اور ہم پیسہ ہضم کرنے کو پھر چلنے لگے۔
تین صلیبوں والی پہاڑی پر تو نہ جاسکے لیکن ہم نے پہاڑی والے قلعے پر جانے کا فیصلہ کر لیا حالانکہ ڈاکٹر صاحب تھک چکے تھے لیکن اب مروت میں وہ مارے گئے اور چل پڑے البتہ اوپر پہنچ کر وہ تو بنچ پر لیٹ گئے اور میں تصویریں کھینچتا پھرتا رہا اور تین صلیبوں والی پہاڑی کی تصویر بھی دور سے کھینچ کر گویا نہ جانے کا کفارہ ادا کر دیا۔
شام کو اس جرمن بی بی کے منہ بولے رشتے دار خود آ گئے اور ہم ایک بار Bar میں لیتھوانین کے شراب و بئیر کے مقابلے کافی اور کوکا کولا سے داد عیش دینے لگے۔ وہاں پر میں نے اپنے ساتھ بیٹھے لڑکے سے خیال ظاہر کیا کہ لیتھوانین لوگ پولش لوگوں جیسے ہی ہیں جس پر میرے ساتھ بیٹھے لڑکے نے جس کا حال ہی میں امریکی یونیورسٹی ایم آئی ٹی میں داخلہ ہوا تھا بولا لیتھوانین کو یہ بات بری لگتی ہے لہذا ایسا مت کہیں۔ ہمارے اور پولوں کے درمیان کوئی ایسے اچھے تعلقات نہیں۔ میں نے ایسے سر ہلایا جیسے میں سمجھ گیا ہوں۔
رات ہو گئی اور ہماری بس نے 2 بجے جانا تھا جبکہ ہوٹل ہم پہلے ہی چھوڑ چکے تھے اب کہاں بیٹھیں کہ بس نے اڈے کی بجائے اسی ویرانے سے چلنا تھا۔ منہ بولے رشتے دار پہلے ہی بتا چکے تھے کہ بھائی وہاں رات کو مت جانا۔ چوری ہو سکتی ہے، چکاری ہو سکتی ہے، شرابیوں سے بحث اور مارکٹائی ہو سکتی ہے۔
ہم نے ایک اور بندے سے پیدل جانے بارے رائے طلب کی تو اس نے پوچھا کہاں سے ہو؟ جواب دیا ہاکستان تو ہنس پڑا اور بولا آپ کو ڈرنے کی کیا ضرورت ہے۔ حالانکہ وہ خود پییے ہوا تھا لیکن اس کی بات میں وزن تھا۔ بولا انہوں نے جرائم دیکھے کہاں ہیں ان کو کیا پتہ قتل کیا ہوتا ہے ڈکیتی کیا ہوتی ہے۔
ہم نے اس جان چھڑائی اور اس کی باتوں کو شرابی کی بڑ سمجھ کر ٹیکسی پر جانے پر ہی اتفاق کیا۔ ایک ہوٹل ہاس برگر Hus Burger جو تمام بالٹک ممالک اور سکینڈے نیوین ممالک میں ہے نے صبح چھ بجے تک کھلا رہنا تھا کو ہم دعاعیں دیتے ہوئے اس میں گھس گئے اور صبح دو بجنے تک کے لیے تین تین بار کافی پی۔
خدا خدا کرکے جانے کا وقت ہوا اور ہم ٹیکسی کی تلاش میں گھومنے لگے۔ شکل سے اچھا لگتا ہو، انگریزی جانتا ہو، پیسے کم لے اور آخر ایک لڑکے سے دس یورو پر معاملہ طے ہوا اور ہم چل پڑے راستے میں سڑک پر روشنیاں دیکھ کر ہم منہ بولوں سے زیادہ شرابی کی بات کو سچ جاننے لگے کہ شرابی تو مشرقی یورپی ممالک کا حسن ہیں ہم تو اس لیے ڈر گئے کہیں اندھیرے میں کوئی لوٹ نہ لے لیکن یہاں تو ایسے روشنی ایسے وافر تھی جیسے بجلی شراب سے پیدا ہوتی ہے۔
بس میں سوار ہوئے تو وہ سفید روس المعروف بیلاروس Belarus کے دارالحکومت منسک Minsk سے آ رہی تھی۔ اور اس میں داخل ہوتے ہوئے دماغ بھک سے اڑ گیا۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کو کہا پتہ نہیں کس واہیات نے جرابیں اتاری ہیں کہ سانس لینا مشکل ہوگیا ہے۔ انہوں نے معمہ حل کرتے ہوئے کہا کہ یہ جرابیں نہیں بلکہ قے کی بو ہے اور اس نے ختم نہیں ہونا۔ میں نے ناک ڈھانپا اور پہلی بار سفر میں سونے کی کوشش کرنے لگا۔ اللہ نے رحمت کی اور نیند بھی آگئی اور سفر خیروعافیت سے گزر گیا ورنہ نشہ دو آتشہ بھی ہوسکتا تھا کہ الٹی میں الٹی ملنے کا خدشہ تھا۔
ریگا سے آگے بس میں ڈرائنگ روم والی نشستیں تھیں اور پانچ گھنٹے ایک منٹ میں گزر گئے اور ہم اہنی عزت، جان، مال اورسب سے بڑھ کر کیمرہ بچا کر تالن واپس لوٹ آئے لیکن اس نوجوان کو کہنا چاہتا ہوں میاں لیتھوانیا کسی طور بھی پولینڈ سے مختلف نہیں نہ عمارتوں سے نہ لوگوں کی حرکات و سکنات سے۔ جو مرضی آئے کر لو۔
|
انتظار فرمائیے |
|
شہر گردی |
|
شہر گردی |
|
ٹاؤن ہال |
|
آرٹ برائے فروخت |
|
آرٹ برائے فروخت |
|
پہاڑی والے قلعے پر |
|
شہر کا بلندی سے نظارہ |
|
شہر کا بلندی سے نظارہ |
|
تین صلیبوں والی پہاڑی |
|
ایک بار پھر گھنٹی والا مینار المعروف بیل ٹاور |
|
تین چڑیلیں |
|
شہر گردی |
|
رات کو بس کا انتظار |
|
ٹاؤن ہال رات کو |
|
بس کا انتظار |