February 18, 2010

استنبول تے کجھ نہ پھول

 Istanbul te kujh na phol


استنبول سے میری وابستہ یادوں میں سب سے پہلی ایک مثال ہے۔اسپغول تے کجھ نہ پھول۔اسپغول کو کافی عرصے تک میں استنبول بولتا رہا ہوں۔دوسرا یہ پتہ چلا کہ استبول کا پرانا نام قستنطنیہ ہے ۔جس کو تاریخ اور اردو املا کے استاد صاحبان یکساں طور پر فیل کر نے کے لیے استعمال کرتے تھے۔اور بے ہودہ لڑکے اپنی مرضی کے زبر زیر پیش لگا کر اس نام کو ایک گندہ سا جملہ بنا دیا کرتے تھے۔اور پھر شمیم آرا نے مشہورِ زمانہ فلم مس استنبول بنا کر استنبول سے تاریخی شہر کو گلی گلی عام کر دیا۔تب احساس ہوا کہ اس شہر کے نام کی تبدیلی نہ صرف تاریخ اور اردو املا کی آسانی کے لیے ضروری تھی بلکہ انٹرٹینمنٹ کی صنعت کے لیے بھی لازم تھی خود سوچیں مس قستنطنیہ کیسا لگتا؟
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

February 9, 2010

پرچہ کہانی

Parcha Kahani


اس بار جب ڈاکٹر کُسی صاحب پرچہ سامنے آیا تو جو پہلی بات میرے دماغ میں آئی وہ یہ تھی کہ وہ آخری موقعہ کب آیا تھا جب مجھے سارے پرچے میں سے ایک سوال بھی نہ آتا ہو۔ایسا تو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے کہ کچھ سوال آتے ہوں اور کچھ نہ آتے ہوں لیکن ایسا بہت ہی کم ہوا ہے کہ سارے سوال آتے ہوں یا کوئی بھی نہ آتا ہو۔میں ڈیڑھ گھنٹہ فضول ضائع کرنے کی بجائے سابقہ زندگی میں دیے گئے امتحانات کو یاد کرنے لگا۔

پڑھاکو اور بہت قابل بچوں کی زندگی عام طور پر بڑی بور ہوتی ہے ۔میرے جیسے درمیانے درجے کے طالب علم ہمیشہ ایک بھرپور زندگی گزارتے ہیں کیونکہ امتحانات سے قبل وہ کتاب اور پڑھائی سے ایسے دور رہتے ہیں جیسے ایڈز کے اشتہار میں کہتے ہیں ’احتیاط واحد علاج‘۔اور پھر امتحانات کے نزدیک شارٹ کٹ کی تلاش میں رہتے ہیں جیسے پانچ سالہ پرچے، گیس، پیپر آؤٹ اور جب کوئی داؤ نہ چلے تو پرچے میں ہی کچھ ہیر پھیر کر کے اللہ میاں سے دعا کرنی جب کہ جانتے ہم بھی بخوبی ہیں کہ پاس ہونا تبھی ممکن ہے اگر ممتحن نشے میں ہو۔پاس ہو گئے تو اپنی دو نمبر قابلیت کے خود بھی قائل ہو جاتے ہیں اور فیل ہوئے تو ہائے ری قسمت۔۔۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad