چالیس پچاس سال قبل کسی نے ایک راہ دکھائی اور ملتان و گردنواح کے تمام زمیندار دھڑادھڑ آم کے باغ لگانے لگ گئے۔آم ان نسبتاً کم زرخیز زمینوں کو ایسے راس آئے کہ کسی کا ایک بیگھ بھی تھا تو وہاں بھی آم لگ گئے۔
ہمارے ملک میں زمیندار ایک بڑی بیچاری قسم کی مخلوق ہے ۔کاشتکار یا جاگیردار تو پھر فائدہ میں رہ جاتے ہیں لیکن زمیندار نہ ہی کاشتکار بن سکتا ہے کہ معاشرے میں اپنی عزت اور خاندانیت کا بھرم خاک میں ملتا ہے اور اتنے زرائع اور دہشت نہیں کہ جاگیرداری والا طرہ قائم رہ سکے۔ بس اسی نام نہاد بھرم کی خاطر وہ الیکشن لڑتا ہے، عدالت جاتا ہے، سرکاری اہلکاروں سے تحفے تحائف دے دلا کر بنا کر رکھتا ہے،دس بندوں کو سالانہ گندم دیتا ہے تاکہ وہ اسکے ہاں نوکری کرتے رہیں۔زمین یا تو ٹھیکہ پر دے دیتا ہے یا خود کاشت بھی کرتا ہے تو ڈرائیور، منیجر، منشی راہق (مزدور) کے لاہ لشکر کے ہمراہ کرتا ہے جس میں ہر ایک اپنی اپنی جگہ داؤ لگانے کو تیار ہوتا ہے اور زمیندار جانے انجانے میں یہ سب برداشت کرتا رہتا ہے۔