سوئیٹزرلینڈ
جب میں بہا الدین زکریا یونیورسٹی میں شعبہ ماس کمیونیکیشن کے رسالے کا ایڈیٹر تھا تو میں نے رسالے کا پیٹ بھرنے کے لیے اپنے ایک ہم جماعت اور دوست فیہم احمد کو ایک فرضی سفر نامہ لکھنے کا منصوبہ دیا اور اس نے بڑے ہی مزے کا سوئٹزر لینڈ کا ایک سفر نامہ لکھ دیا تھا جس کے آخر میں فہیم کے والد صاحب فہیم کو نیند سے جگا کر کہتے ہیں کہ پتر بھوری (بھینس کا نام) رسہ تڑا کے نس گئی اے اور وہ یہ سوچتا رہتا ہے کہ یہ سوئٹزر لینڈ سے بھوری میں کہا ں آپھنسا اور اس کو اور پڑھنے والوں کو افسوس ہوتا ہے کہ یہ خواب تھا۔لیکن میرا سوئٹزر لینڈ کے سفر کے بعد یہ افسوس تھا یہ کہ خواب کیوں نہ تھا۔اچھا ہوتا کوئی مجھے بھی جگا کر کہتا کہ پتر بھوری ۔۔۔۔۔رسہ۔۔۔۔۔
سوئٹزرلینڈ جائیں اور گائے نہ دیکھیں ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ وہ ساحل پر بھی گیا ہے اور اس نے ننگی لڑکیاں بھی نہیں دیکھیں۔پر شکر ہے کہ میں یہ دعویٰ کر سکتا ہوں کہ میں ساحل پر بھی گیا ہوں اورننگی لڑکیاں میرا مطلب ہے سوئٹزرلینڈ بھی گیا ہوں اورگائے دیکھ آیا ہوں