Seh ka shikar
اس سے قبل ہماری شکاری مہمات کا احوال آپ پڑھ چکے ہیں جس سے ہماری حس شکار آپ پر بخوبی آشکار ہو چکی ہو گی لیکن تمام تر بزدلانہ رجحانات و طبعیت رکھنے کے باوجود میں کبھی بھی کہیں بھی کسی بھی نئی جگہ جانے کو تیار رہتا ہوں اور اسی ذہنی آوارہ پسندی نے وہ گل کھلائے جو آپ اکثر میرے بلاگوں میں پڑھتے رہتے ہیں۔
مانا کہ اولاد اللہ کی رحمت ہے لیکن صرف اپنی۔ پرائی تو نری زحمت ہے خواہ وہ آپ کے کزن ہی کیوں نہ ہوں۔ ایک روز چند کزن آئے اور مجھے پیشکش کی کہ آج شکار کا پروگرام ہے چلو گے؟میں نے پوچھا کس کی شامت آئی ہے تو جواب ملا سیہ کے شکار کو جارہے ہیں۔ میں نے سوچا واہ جی واہ۔ نہ مرنے کا خطرہ، نہ زخمی ہونے کا ڈر، نہ تیر اندازی نہ چاند ماری میں نے حامی بھر لی۔
حکم ملا کہ رات کو دس بجے تیار رہنا۔ میں نے تفصیل پوچھی نہیں اور انہوں نے بتائی نہیں۔ میں غلط سمجھا شاید کہیں دور جانا ہے رات کو کزن کے گھر رہیں گے اور صبح تاخیر سے نکلنے کے خوف سے سب ایک جگہ رہیں گے تاکہ صبح سویرے ہی گھر سے نکل جائیں کیوں کہ آج کل کی نوجوان نسل کی طرح ہمیں بھی صبح اٹھنا عذاب لگتا ہے۔ وہ غلط سمجھے شاید مجھ میں ہمت ہو نہ ہو سمجھ تو کم از کم ہو گی اور مجھے سیہ کے شکار کی تفصیل پتہ ہوں گی۔