August 1, 2015

ریسرچ پرپوزل (تحقیقی مقالے کا خاکہ) بگاڑنے کا آسان طریقہ


ماسٹرز کے دوران ہی دماغ پر پی ایچ ڈی PhD کا بھوت سوار ہو چکا تھا اور دل ہی دل میں خود کو ڈاکٹر کہلوانا شروع کردیا تھا اور زندگی کی واحد خواہش یہی رہ گئی تھی کہ جلد از جلد پی ایچ ڈی میں داخلہ ہو جائے تاکہ بقیہ زندگی امن و آتشی سے گزر سکے اور لوگ ڈاکٹر بلا سکیں- اصلی ڈاکٹر بننے کے قابل تو نہیں تھے کہ سوئی کی نوک دیکھ کر ہی ہوش جاتا رہتا ہے اور واحد طریقہ ڈاکٹر بننے کا یہی بچتا ہے کہ پی ایچ ڈی کر لیں- ویسے تو اس ڈاکٹر کے لیے بھی پی ایچ ڈی پاس کرنا ہوتی ہے لیکن ہم نے سوچا جیسے مزدور اینٹیں ڈھوتے ڈھوتے ایک دن راج مستری بن ہی جاتا ہے ویسے ہی داخلہ ہو ہی گیا تو ایک دن یونیورسٹی نے خود ہی تنگ آ کر کہنا ہے کہ یار اس کو تو ڈگری ایک نحوست سے تو جان چھوٹے۔

لیکن خواب رنگین ہیں حقائق سنگین ہیں تو ماسٹرز کے بعد جب پی ایچ ڈی کے لیے درخواستیں روانہ کرنے لگے تو پتہ چلا پی ایچ ڈی کے لیے اہم ترین چیزوں میں ایک تو تعارفی خطوط ہونے چاہیں دوسرا ریسرچ پرپوزل Research Proposal الغیر معروف مستقبل کی تحقیق کا خاکہ۔ باقی ماسٹرز ڈگری ثانوی شے ہے۔ اب خطوط تو جیسے تیسے حاصل کیے جا سکتے ہیں کہ بندہ کسی کے نام سے دو نمبر بھی بنا سکتا ہے اور دستخط بھی خود کر سکتا ہے وگرنہ دوسری صورت میں منت سماجت یا دعوت طعام سے بھی کام چلایا جا سکتا ہے لیکن ریسرچ پرپوزل ایک ٹیڑھی انگلی سے نکلنے والی کھیر ثابت ہوئی۔

سب سے پہلے پولینڈ میں اپنے پروفیسروں سے مدد مانگی کہ جناب ریسرچ پرپوزل کا کوئی نمونہ کوئی مشورہ کوئی صلاح، ہر طرف سے ایک ہی جواب آیا کہ بھائی یہ آپ کو خود ہی بنانا ہو گا۔ اب بندہ پوچھے کہ آج تک دوسروں نے ہمیں الو کے علاوہ اور کچھ بنایا ہے؟ تو ظاہر ہے یہ تحقیقی پلان ہم ہی بنائیں گے پر بندہ کوئی مشورہ تو دیتا ہے کہ موضوع کیا ہو؟ درمیان میں کیا کیا گرم مصالحہ ڈالنا ہے؟ نمک ہلکا ہو کہ تیز ہو؟ کوئی زیبرا کراسنگ رکھنی ہے کہ کچہری باہر باہر؟ لیکن ہر جا سے ایک ہی رٹ سننے کو ملی کہ آپ کی ریسرچ ہے آپ کو فیصلہ کرنا ہےاب ہم ان کو کیا بتاتے کہ ہم اپنے فیصلے سے پیدا تک نہیں ہوئے آگے کیا خاک فیصلے کرتے۔

فیصلہ یہ ہوا کہ اپنے ہموطنوں کی مدد لی جائے اور اب ہم پہنچے پاکستان ایک ریسرچ پرپوزل حاصل کرنے کے مشن پر۔یہاں کئی پروفیسروں سے ملاقات ہوئی جنہوں نے لمبی چوڑی کہانیاں سنائیں، اپنی یورپ کی واردات قلبی بیان کیں، اپنا پی ایچ ڈی کا 500، 500 صفحوں پر مشتمل تھیسز کا دیدار کرایا ، پاکستان میں پی ایچ ڈی لوگوں کی اہمیت بیان کی، اپنی یورپ جانے کی خواہش بیان کیں اور بس- جب ریسرچ پرپوزل کا سوال آیا تو باتوں کا رخ ایسا مڑا کہ پھر دوبارہ گفتگو میں وہ موڑ نہ آیا۔

اب آخری حربے کے طور پر گوگل انکل کی مدد لینے کا فیصلہ کیا گیا اور چند ایک پرپوزل بطور نمونہ کہیں سے حاصل کر لیں۔ اب مسئلے دو تین یہ تھے کہ ایک تو ریسرچ پرپوزل میں لوگوں نے ریفرنس یعنی حوالہ جات بھی ڈالے ہوئے تھے اور میرا سوال یہ تھا کہ ابھی ریسرچ تو کی نہیں ریفرنس کہاں سے گھس بیٹھیے کی طرح پہلے کیوں پہنچ گئے، دوسرا اب یہ الہام کیوں کر ہو گا کہ یہ موضوع نیا ہے یا پرانا، کیا پہلے کسی کے زیر ستم رہا یا پہلی بار تختہ دار کو جا رہا ہے، تیسرا یہ کہ چونکہ میرا مضمون معاشیات تھا تو معاشیات میں لوگوں نے اکنومیٹرکس econometrics کی جو مساوات ڈال رکھی ہیں وہ کیسے پار کی جائیں۔ لیکن وہ مشکل ہی کیا جو حل نہ ہو

ریسرچ پرپوزل بنائی ایک چھوڑ دو بنائیں، تین بار منظور کرائیں اور ایک بارچوری کرائی – اب چونکہ ہمیں پتہ ہے پاکستانی اعلی تعلیم کے کتنے شوقین ہیں اس لیے ان کی آسانی کے لیے ریسرچ پرپوزل بنانے کے طریقہ لکھے دیتے ہیں تاکہ پاکستانی بھائی بہن اپنی ریسرچ پرپوزل بنا سکیں اور باہر جا کر اعلی تعلیمی اداروں کے ویزے حاصل کرکے باآسانی غائب ہو کر پاکستان کا نام روشن کر سکیں۔

کسی بھی غیر قدرتی سائنسی مضمون جس کو اپنی زبان میں آرٹ مضامیں کہتے ہیں کی ریسرچ پرپوزل کو بنانے کے لیے آپ کو چاہیں
  • اس مضمون کے بڑے جنرلز میں چھپے تازہ آرٹیکل ۔ (جو گوگل سکالر سے بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں اگر آپ کی یونیورسٹی کی لائبریری نے آرٹیکل خریدے نہیں اور خریدے ہیں ایچ ای سی کو دکھانے کے لیے تو آپ کو ان کا استعمال سکھایا نہیں کہ کہیں گھس نہ جائیں)
  • ایک نقل کر سکنے والی عقل۔ (جو اللہ دے تو دے حاصل نہیں کی جاسکتی ، ہاں کسی دوست کی عاریتاً ادھار لی جا سکتی ہے)
  • کاپی پیسٹ ایڈٹ کرنے والا مائیکروسافٹ ورڈ- (جو 50 روپے کی سی ڈی یا مفت کے ٹورنٹ سے حاصل کیا جا سکتاہے)۔ 


سب سے پہلے تازہ آرٹیکل اس لیے کے اب یاد رکھیں کہ یورپ میں کتابوں کا دور گزر گیا ہے اور کتابوں کو با آمر مجبوری ریفرنس میں ڈالا جاتا ہے کیونکہ آرٹیکل چھپوانا جوئے شیر کیا جوئے شعر لانے سے بھی مشکل ہے۔ جب آپ تازہ تازہ آرٹیکل دیکھیں گے تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ آج کل اس مضمون میں کس طرف توجہ دی جا رہی ہے-

یاد رہے کہ بیچلر میں ہم نفسیات پڑھتے ہیں وہی ماسٹرز میں کلینکل اور دیگر شعبوں میں بانٹ کر پڑھائی جاتی ہے جبکہ پی ایچ ڈی میں مزید گہرائی میں جا کر ایک تھیوری پر غور کرنا ہوتا ہے جیسے بی اے میں گھر بنانا سکھاتے ہیں ماسٹرز میں گھر کے ہر پہلو دیوار اٹھانا، چھت بنانا ، بجلی کا کام کرنا سکھاتے ہیں جبکہ پی ایچ ڈی میں آپ پڑھتے ہیں گھر بناتے وقت بلب کیوں لگائے جائیں ٹیوب لائیٹ لگانے میں کیا نقصان ہے اور یوں آپ کی پیش کردہ تھیوری گھر بنانے پڑھاتے وقت بیچلر کے بچوں کو فیل کرنے کے کام آتی ہے۔

ریسرچ پرپوزل میں سب سے پہلے بنانا ہوتا ہے انٹروڈکشن Introduction یعنی تعارف۔ اس میں آپ اپنے موضوع کو متعارف کرائیں گے دو لائیں اپنی اور چار لائیں گوگل کی، ریسرچ پرپوزل سے مل ملا کر لکھ لیں۔ جب آپ نے بتا دیا کہ آپ کیا تحقیق کرنا چاہتے ہیں پھر آپ بتائیں اس تحقیق کی اہمیت۔ اس میں آپ نے بتانا ہوگا کہ یہ تحقیق کیوں ضروری ہے اور اگر یہ تحقیق نہ ہوئی تو آسمان کیسے گر پڑے گا اور دنیا کیسے ایک عمدہ تھیوری سے محروم رہ جائے گی جو نیوٹن کے سیب نہ کھانے کے بعد دوسرا بڑا واقعہ ہو گا۔

اب آپ نے لکھنا ہے لیٹریچر ریویوLiterature Review یعنی سابقہ تحقیق کا خلاصہ، اس میں آپ حاصل کئے گیے آرٹیکل کا موجود لیٹریچر ریویو کا تڑکا لگا کر پانچ سابقہ ریسرچ لکھیں گے تاکہ پڑھنے والے کو پتہ لگ سکے کہ آپ کو تحقیق کی الف بے پے کے علاوہ سب آتا ہے۔

چوتھے نمبر پر آپ لکھتے ہیں ریسرچ سوالات یا مفروضےresearch questions or hypothesis ۔ ریسرچ سوالات کا مقصد ہوتا ہے کہ آپ ریسرچ کیوں کر رہے ہیں ۔ریسرچ سوالات ہمیشہ سوالیہ جملوں میں لکھیں اور یہ غلط صیح چل جاتے ہیں جبکہ اگر آپ اپنے مضمون میں بہت قابل ہیں تو تب ہی مفروضے لکھیں لیکن اگر آپ اتنے اچھے ہی ہیں تو آپ کو اس مضمون کی مدد کی ضرورت ہی کیوں پڑی۔ دو سے چار ریسرچ سوال لکھیں اور آگے چلیں۔ ریسرچ سوال ہوگا کہ کیا سلیکشن کمیٹی کے بغیر پاکستانی کرکٹ ٹیم اچھی ہو جائے گی؟ جبکہ مفروضے میں قطعیت ہوتی ہے کہ سلیکشن کمیٹی ہی پاکستان کرکٹ کے مسائل کی ذمہ دار ہے۔

اب ہے ریسرچ میتھڈ Research Method یا ریسرچ کا طریقہ کار ۔ آپ کو بس یہ کرنا ہے جو آپ کو سب سے آسان آرٹیکل لگے اس کی طریقہ کار کی کاپی کریں اور بس سیمپل میں اس کے ملک کی بجائے پاکستان لکھ دیں بلکہ ہو سکے تو دو ملکوں کا موازنہ کر دیں کہ یہ ریسرچ بیک وقت پاکستان اور جرمنی میں کی جائے گی تاکہ ہم یورپ اور ایشیا کا فرق محسوس کرسکیں۔

آخر میں آپ کا دل کرے تو ریسرچ کا ٹائم فریم لکھ دیں کہ پہلے سال یہ کارنامہ انجام دیا جائے گا دوسرے سال یہ کیا جائے گا وغیرہ وغیرہ۔ اپنے سوچے گئے نتائج لکھ سکتے ہیں کہ کیا کیا نتائج آ سکتے ہیں اور ان کا پرانی ریسرچوں پر کیا اثر ہو گا لیکن یہ پھر آپکے اور میرے بس کا کام نہیں اس کو جانے دیں البتہ اس تحقیق کی عملی حیثیت آپ لکھ سکتے ہیں کہ اس تحقیق کے بعد عام زندگی میں انقلاب آجائے گا اور بہت سے لوگ اس ریسرچ سے فائدہ اٹھا کر مزید دو نمبر پرپوزل بنا کر ایڈمیشنز لے سکیں گے وغیرہ وغیرہ-

آخر میں وہ سارے ریفرنس ڈالیں جو آپ نے اس پرپوزل میں ڈالے ہیں اور آپ کی پرپوزل تیار-

 ایسا نہیں کہ یہ صریح دو نمبری ہے لیکن حقیقت یہ ہے جب انسان پی ایچ ڈی کر کے نکلتا ہے تو اپنی پہلی ریسرچ پرپوزل دیکھ کر ہنستا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ جیسے علم (علم کم پی ایچ ڈی کا تجربہ زیادہ) بڑھتا ہے ویسے ترجیحات بدلتی جاتی ہیں اور تحقیق کا دائرہ مڑتا چلا جاتا ہے اس لیے پی ایچ ڈی کے وقت ساری کوشش داخلے کی ہونے چاہیے اور داخلے کے بعد ایک ڈیڑھ سال میں آپ کی پرپوزل قابل عمل حالت مین پہنچ جاتی ہے جہاں سے آپ اپنی تحقیق کا آغاز کرتے ہیں۔ اگر میری مثال لیں تو مہنگائی یعنی انفلیشن سے شروع ہوا اور اسلامی بنکنگ سے ہوتا ہوا آخر کار اختتام سپورٹ مارکیٹینگ Sport Marketing میں اتھلیٹ برانڈنگ Athlete Branding پر ہوا ہے یعنی پرپوزل بہتر ہی نہین ہوئی بلکہ بدل بھی گئی باقی ہر بندے کی قسمت اور اس کا سپر وائزر۔ کہ مثل مشہور ہے کہ بیوی اور سپر وائزر قسمت والوں کو ہی اچھے ملتے ہیں۔

 آخر میں دو تین باتیں ذہن میں رکھیں کہ  
*ریسرچ پرپوزل ایسا خیالی نہ ہو کہ پاکستان سے کرپشن کا خاتمہ
٭ریسرچ ڈیٹا Research Dataیعنی جن پر تحقیق کہ جائے گی ایسا نہ ہو کہ تمام دنیا کے لوگوں سے پوچھا جائے گا نہ ہی ایسا کہ میں خود سے پوچھ کر جواب تحریر کروں گا

پی ایس: کسی کو ریسرچ پرپوزل کا نمونہ نہیں دیا جائے گا مانگ کر منہ ٹیڑھا نہ کریں۔ '

How to write a research proposal.-- Research proposal(tehqiqi maqaly ka khaka) bigarny ka asan tareqa