Bairon e mulk muqeem Pakistanio ke Pakistan main rehny waly rishty daro ka jawab e Shikwa
پاکستانیوں کا وطیرہ ہے کہ تھوڑی تھوڑی باتوں پر ہائے وائے کا ورد کرتے رہتے ہیں اور تازہ ترین وقوعہ جس پر ہر بیرون ملک رہنے والے پاکستانی کو شدت سے تکلیف کا احساس ہے وہ یہ ہے کہ ملک میں رہنے والے ان کے رشتہ دار و لواحقین ان کی بجائے ان کے پیسے سے محبت کرتے ہیں اور ان کےلاکھ منتوں ترلوں کے باوجود ان کے وطن واپسی پر رضامند نہیں ہوتے اور وہ پردیس میں خوار ہو رہے ہیں جب کہ پاکستان میں بسنے والے ان کے بال بچے عیاشیاں کر رہے ہیں۔
حالانکہ ہمیں باہر رہنے والوں سے پوری ہمدردی ہے کہ ہم خود ملک فرنگ میں دھکے کھاتے پھر رہے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہمیں پاکستان میں بسنے والے ان پاکستانیوں سے جن کے رشتہ دار باہر کمانے گئے ہیں سے کوئی ہمدردی نہیں لہذا بے ادبِ بلاگریہ میں ہم ان کی آواز شامل کرتے ہوئے آج کا بلاگ ان ملک میں بسنے والے پاکستانیوں کے نام کرتے ہیں جو اپنے بیرون ملک مقیم اقارب کی امداد کے محتاج ہیں اور جن کی ترجمانی کرنے والا کوئی نہیں۔
بیرون ملک مقیم ہمارے والد، چاچا، ماما، رشتے دار کہتے ہیں کہ ہم سے محبت نہیں کرتے۔ اب کوئی بتائے ان کو کہ بھائی ہم تو کسی سے محبت نہیں کرتے ۔ کیا کبھی کسی پاکستانی کو لڑکیوں کے علاوہ کسی سے محبت کرتے دیکھا ہے؟ اب ہم آپ کے لیے دوہرا معیار کہاں سے لائیں۔ اب ان کو پاکستان چھوڑے سالوں بیت گئے ان کو کیا پتہ پاکستان میں اب معاشرہ کیسا ہے۔ یہاں تو قیامت مچی ہے اور ان کو اپنی محبت کی پڑی ہے۔ یہاں تو والدین بچوں کے نہیں، میاں بیوی کا نہیں، محبوب محب کا نہیں اور لڑکیوں سے محبت بھی کوئی مفت نہیں ایزی لوڈ لگتا ہے بھائی۔لیکن اس میں ان کا اتنا قصور بھی نہیں کہ وہ باہر رہ رہ کر تھوڑی جذباتی ہو جاتے ہیں اور وہ یہ سوچتے ہیں کہ ان کو وی آئی پی VIP کا درجہ ملے ان کے آنسو بہیں تو ہم دھاڑیں مار کر رونے لگ جائیں وہ مسکرائیں تو ہم ہنس ہنس کر پاگل ہوجائیں لیکن ایسا کہاں ممکن ہے دنیا بدل گئی پاکستان بدل گیا آج کا نوجوان منافقت کا عادی نہیں اور ویسے بھی ہمارا نعرہ ہے کہ زبان پر کچھ بھی ہو عزت دل میں ہونی چاہیے لہذا ہمارے پردیسی بڑوں کو ایک بار ہمارے دل میں ضرور جھانک لینا چاہیے کہ خواہ ہم منہ پر گالیاں بک رہے ہوں دل سے ہم ان کی عزت ہی کرتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ ہم تو واپس آنا چاہتے ہیں لیکن ہمارے پچھلے واپس آنے نہیں دیتے۔ اب آپ ہی بتائیں کیا جب وہ گئے تھے تو ہم سے پوچھ کر گئے تھے؟ اب جو وہ ہم سے پوچھیں تو ہم کیسے کہیں کہ واپس آ جائیں کہ ہم تو عقل کی بات کریں گے کہ اگر واپس آگئے تو گھر کیسے چلے گا؟ اتنی مہنگائی ہوگئی ہے پاکستان میں ۔ پہلے مہینے کا بجلی کا بل ہی ان کی طبعیت درست کر دے گا پھر کہیں گے کاش نہ آیا ہوتا۔ ہم ان کی آسانی کا سوچتے ہیں اور پھر بھی ہم مورد الزام۔ ویسے تو ہمارے دوست گئے ہیں امریکہ، برطانیہ، دبئی وغیرہ وہ بتاتے ہیں کہ وہاں پر اچھی خاصی عیاشی ہوتی ہے لیکن ہمیں یہ یقین نہیں آتا کہ اصل میں یہ خود ہی نہیں آنا چاہتے کہ باہر جا کر اب یہ پاکستان کے قابل ہی نہیں رہے اور نام ہمارا بدنام کر رہے ہیں کہ بدگمانی بری بات ہے کیا پتہ واقعی آنا ہی چاہتے ہوں واپس پاکستان۔
یہ بات لکھ لیں یہ واپس بھی گئے تو ہوائی اڈے پر اترتے ہی ان کی بس ہو جانی ہے آگے کی منزل تو آگے رہ گئی۔ ہوائی اڈے پر جو سلوک ان کے ہم وطنوں نے ان کے ساتھ کرنا ہے ان کا دل کرے گا پہلی پرواز لیکر واپس چلے جائیں۔ پھر آگے ہر آتا جاتا ان کو باہر کی جنت چھوڑ کر ملکی دوزخ میں آنے پر سرزنش کرے گا۔ پھر جب گرمیاں آئیں پھر ان کو احساس ہوگا۔ ہم تو یہاں پر پتھر کے زمانے میں رہ رہے ہیں نہ بجلی نہ پانی نہ گیس نہ پیٹرول کجا زیرزمین ٹرانسپورٹ کے جھولے کجا لو اور مٹی کے جھونکے۔ اور جب مال ختم ہو گا تو رشتے دار، دوست، یار بھی منہ لگانا چھوڑ دیں گے اور تو اور گلی کی نکڑ والا چاچا بھی ادھار ایک پاؤ دال نہیں دے گا تو ان کو پتہ چلے گا۔ ۔ ویسے بھی پاکستان میں تو کتے کو عزت مل جاتی ہے غریب کو نہیں۔
اور کہتے ہیں عیاشی کر رہے ہیں، زیور خرید رہے ہیں، گاڑیاں چلا رہے ہیں، دعوتیں اڑا رہے ہیں اب کوئی جا کر ان کو بتائے کہ نام تو انہی کا ہے۔ کہ فلاں کا بیٹا ہے، فلاں کی بیوی ہے، فلاں کے بچے ہیں، دبئی کا گھر ہے، سعودیہ کا جہیز ہے، امریکہ کا خاندان ہے ہمارا کیا ہے اگر اپنا نام ڈبونا ہے تو بسم اللہ آ جائیں۔ کبھی ہم نے یہ دعوی کیا ہو کہ یہ ہمارا خود کا کمایا مال ہے پھر تو غصہ جائز ہے جب ان کا ہے انہوں نے ہمیں بھیجا ہے تو غصہ کیوںکر
کہتے ہیں وہاں کی زندگی بڑی سخت ہے تو بھائی محنت تو کرنی پڑتی ہے نوکری کرنی کونسی آسان ہے اور پیسہ کمانے کے لیے جان تو لگانی پڑتی ہے درختوں پر تو پیسے نہیں اگتے۔ اور پھر کون سا کام آسان ہے اور یہاں کون سی پھولوں کی سیج ہے زندگی۔ قسم سے ایک چوک سے دوسرے چوک تک جانا کسی خواری سے کم ہے۔ زندگی یہاں بھی کوئی آسان نہیں۔ یقین مانیں اینٹیں ڈھونا اتنا مشکل نہیں جتنا لڑکی پھنسانا مشکل ہے اور وہ اس کو عیاشی کہتے ہیں جبکہ آپ تو جانتے ہیں کہ یہ اب سوشل اسٹیٹس ہے اور جب ہماری باری آئی گی تو ہم کیا محنت نہ کریں گے اور اگر ہمیں وہ کوئی بزنس مزنس چالو کر کے دیں گے تو ہم وعدہ کرتے ہیں دل و جان سے محنت کریں گے اور نہ چل سکتا اللہ کی مرضی سے تو دوسرا کاروبار ہم اس سے بھی زیادہ دلجمعی سے کریں گے اور تیسرے میں اس سے زیادہ۔ والدین ویسے ہی کماتے اولاد کے لیے ہیں ہاں اگر وہ چاہتے ہیں ان کے بچے تنگ ہوں، زندگی غربت میں گزاریں، در در کے دھکے کھائیں تو ایسے سہی ہم تنگ ہو لیں گے وہ خوش ہو لیں کہ وہ تو نئے بچے تلاش کرسکتے ہیں ہم تو نئے والدین تلاش کرنے سے رہے اب۔
وہ کہتے ہیں کہ کبھی ہمارے شکرگزار نہیں ہوئےتو پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ بھی پاکستانی قوم میں شامل ہیں ہم نے کبھی کسی کو بھولے سے بھی شکریہ ، مہربانی جیسے الفاظ بولے ہیں کیا اور دوسری بات یہ کہ کون بے وقوف اپنے والدین کا شکر گزار ہو اب بندہ بات بات پر ابا تیری مہربانی ڈیڈ تھینک ہو ویری مچ کہتا اچھا لگتا ہے کیا؟ اچھا اللہ کرے ہمارے بچے بھی ہمارے شکر گزار نہ ہوں بس اب خوش؟ اب تو اس مہینے موٹر بائیک کے پیسے بھیجیں گے ناں؟