April 14, 2014

میلان اور میلان طبع

Milan aur milan taba

خدا معلوم مجھے میلان Milan سے کیا چڑ تھی کہ اٹلی Italy کے چھوٹے موٹے شہر بریشیا Brescia ، ویچنزا Vicenza، پادواPadova  وغیرہ دیکھنے کے بعد بھی میں میرا میلان جانے کو دل نہ کرتا تھا۔

پہلی بار جب میں اٹلی گیا تو میلان کے سفر کی پیشکش کی گئی لیکن میں نے اس پر جھیل گاردا جانے کو ترجیع دی اور بارش کے تمام مزہ کرکرا کرنے کے باوجود مجھے میلان نہ جانے پر کوئی افسوس نہ تھا۔

اب میرے سامنے چار رستے تھے۔ میں چھوٹے سے شہر بیرگامو Bergamo چلا جاتا جو پہاڑوں کے درمیان واقع ہے ۔میلان چلا جاتا جو فیشن کا دارالحکومت کہلاتا ہے۔ میں جینوا Genoa  (سوئیس Swiss جنیوا Geneva نہیں بلکہ اطالوی جی نوا) جو کہ سمندر کنارے واقع ہے یا تورن Turin چلا جاتا، تورن جانے ایک وجہ یہ تھی کہ وہ مشہور فٹ بال کلب یوونٹوس Juventus کا گھر تھا۔


اب کی بار جب میں اٹلی گیا تو میں اکیلا تھا، فارغ تھا اور آس پاس کے شہر گھوم چکا تھا. ایک دن تھا اور جینوا، تورن، میلان اور بیرگامو کی سہولت میسر تھی۔ تورن سے میلان سے ہوکر جانا پڑتا تھا اس لیے میں نے تورن کو منسوخ کر دیا۔ حالانکہ جینوا سمندری شہر تھا لیکن پتہ نہیں کیوں میں نا چاہتے ہوئے بھی ٹرین سے میلان کی ٹکٹ لے بیٹھا۔ بیرگامو اس لیے چھوڑ دیا کہ ایک تو وہاں ہر بار میں ریان ائیر پر اترا کرتا ہوں دوسرا پہاڑی پر واقع شہر چھوٹا سا شہر تھا اور میں تمام دن گھومنے کے موڈ میں تھا۔ لیکن اس وجہ سے دل راضی ہو گیا کہ اگر کسی نے پوچھا اٹلی گئے ہو؟ میلان دیکھا تو کہیں اگلا یہ نہ کہہ بیٹھے پھر تو اٹلی نہ دیکھا ناں۔ ویسے تو میں میلان شہر کے بیچ سے گزر کر ریلوے اسٹیشن پر جا کر وہاں سے ٹکٹ لیکر ٹرین میں بیٹھا ہوا تھا لیکن میرے خود کے پیمانے کے مطابق اگر میں کسی شہر کی تصاویر نہ اتاروں تو میں خود کو وہاں گیا ہوا نہیں سمجھتا اسی لیے کوئی پوچھ بھی لے تو میں لیتھوانیا Lithuania، سوئیڈن Sweden، یونان Greece  اور روس Russia کا کہہ دیتا ہوں کہ نہیں گیا ہوا۔

المختصر قرعہ فال میلان کے نام نکلا اور میں نہ چاہنے کے باوجود میلان کی ٹکٹ خریدنے بریشیا کے ریلوے اسٹیشن پہنچ گیا۔ 12 یورو کی قربانی دے کر میں اسٹیشن پر ٹہلنے لگا کہ ٹرین نے ڈیڑھ گھنٹے بعد آنا تھا۔ اسٹیشن پر ٹکٹ چیک کرنے والی مشین دیکھ کر دل میں کھٹکا ہوا اور میری معلومات کے مطابق تمام اسٹیشن پر واحد انگریزی جاننے والی خاتون جو اسٹیشن پر دراصل بس کے ٹکٹ بیچ رہی تھی سے جا کر پوچھا اور اس کے اثبات میں سر ہلانے پر ٹکٹ مشین میں ڈال دی جس نے اس روز کی تاریخ ڈال کر ٹکٹ واپس کر دی۔یعنی وہاں گارڈ کا آدھا کام مشینیشں کرتی ہیں اگر آپ نے مشین میں ٹکٹ نہیں ڈالی تو آپ کی خریدی ٹکٹ پر بھی جرمانہ ہوجاتا تھا اور گارڈ کا کام فقط ٹکٹ چیک کرکے مشین سے نہ گرزرنے والی ٹکٹوں پر جرمانہ کرنا ہے۔ یوں تو اسٹیشن پر کئی پاکستانی بھارتی پھر رہے تھے لیکن میرے سابقہ تجربے کی بنا پر میں جانتا تھا کہ وہ اطالوی جانتے ہیں انگریزی نہیں جانتے دوسرا اپنی چھ سالہ غریب الوطنی کی تاریخ میں کبھی میں خود کسی پاکستانی ہندوستانی سے خود سے ہمکلام نہیں ہوا۔

گاڑی آئی اور میں شاید تھکن کی وجہ سے یا شاید نشست نہ ملنے کے خوف کی وجہ سے پہلی خالی نشست پر بیٹھ گیا۔جب گاڑی چل پڑی تو ادھر ادھر کا جائزہ لیا۔ میرے ساتھ والی نشست پر اور سامنے والی نشست پر دو دیسی تھے۔ مجھے شک گزرا کہ وہ بھارتی ہیں اور ایک دوسرے کو نہیں جانتے۔میں نے ایسے ہی کسی موقع کے لیے اپنے موبائل میں انگریزی گانے بھر رکھے ہیں کہ کوئی بھارتی ہم سفر مل جائے تو وہ بھارتی گانے سن کر فخر نہ کر سکے کہ دیکھو پاکستانی بھی بھارتی گانے سنتے ہیں لہذا سمجھ آئے نہ آئے انگریزی گانے سنے جائیں دوسرا کانوں میں رکاوٹ لگی دیکھ کر اکثر لوگ بات نہیں کرتے گویا ایک پنتھ دو کاج۔

تاہم میں بھی پہلی نظر کا اپنا ہی ریکارڈ رکھتا ہوں کہ محض دس فیصد پہلی نظر کی جانچ درست ثابت ہوئی ہے۔ پتہ چلا کہ وہ دونوں پاکستانی ہیں اور ایک دوسرے کو جانتے بھی ہیں۔دونوں میلان پاسپورٹ کی تجدید کرانے جا رہے تھے۔ تاہم میرے کانوں میں لگی ٹونٹیاں دیکھ کر وہ مجھ سے چاہنے کے باوجود بات نہ کرسکے اور میں ان کو انٹرویو دیے بغیر ہی میلان اسٹیشن پر اتر گیا۔ میں نے شکر ادا کیا کہ میں ان کے انٹرویو سے بچ گیا کہ کل ہی میں نے اپنی پی ایچ ڈی کے نخرے کے خود ساختہ غبارے سے ہوا نکلتی دیکھی تھی جب ایک پاکستانی نے انکشاف کیا تھا کہ اس کی بہن پی ایچ ڈی PhD  کر کے کسی پرائیوٹ ہائی اسکول میں پڑھا رہی تھی اور میں پہلی بار اردو لفظ ششدر کے درست معنی سے آگاہ ہوا۔

میلان سے پہلا تعارف اس کے ریلوے اسٹیشن سے ہوا جو ایک قدیم اور عظیم الشان عمارت ہے۔ اونچے اونچے ستون اس عمارت کو کسی بھی دوسرے اسٹیشن کی عمارت سے نمایاں کرتے ہیں تاہم حیرانی کی بات یہ رہی کہ سیاحوں کے دارالحکومت میں معلومات کا مقام یعنی  انفارمیشن سینٹر information center ڈھونڈنے میں آدھا گھنٹا لگ گیا اور جو ملا وہ بھی سرکاری نہ تھا۔ وہاں پر دس یورو کی قربانی کی عوض ایک روز کی پبلک ٹرانسپورٹ کی ٹکٹ لی اور نقشہ لیا اور پہلی منزل سان سیرو San Siro کی طرف نکل پڑا۔
میلان ریلوے اسٹیشن - پلیٹ فارم

میلان ریلوے اسٹیشن - پلیٹ فارم

میلان ریلوے اسٹیشن 

میلان ریلوے اسٹیشن

وہاں پر موجود لڑکیوں کی خوش اخلاقی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے اپنی پسند کی جگہوں پر جانے والی میٹرو کا نمبر اور بس کا روٹ نمبر تک معلوم کرلیا وگرنہ عام طور پر ہم نقشہ لے کر وہاں سے کھسک جاتے ہیں کہ کوئی پتہ نہیں نقشے کے پیسے لے لیں۔

جو لوگ فٹ بال سے واقفیت رکھتے ہیں وہ سان سیرو سے بخوبی واقف ہوں گے کہ وہ دو مشہور فٹ بال کلبوں انٹر میلان Inter Milan اور اے سی میلان AC Milan کا گھر ہے۔ اسٹیڈیم بہت خوبصورت تھا اور میچ نہ ہونے کے باوجود سیاحوں سے بھرا ہوا تھا۔ میں نے سوچا دنیا میں ایک میں ہی پاگل نہیں اور اپنی تنہائی کے احساس ختم ہونے پر دل کو خاصی تسکین پہنچی۔
سان سیرو-1

سان سیرو-2

سان سیرو-3

سان سیرو-4

نقشہ دینے والی لڑکی نے بہتیرا سمجھایا کہ اسٹیڈیم میٹرو اسٹیشن سے دور ہے لہذا آپ وہاں سے بس لے لیں لیکن مجھے اپنے پیروں پر اعتبار تھا کہ میں نے پیدل تمام شہر گھومے ہیں میٹرو سے اسٹیڈیم پہنچنا کیا مسئلہ ہے تو بس نمبر کیا پوچھنا۔ اور پہنچنا تو واقعی کوئی مسئلہ نہ تھا لیکن اسٹیڈیم پہنچ کر مجھے احساس ہوا کہ شام ہو رہی ہے اور مجھے باقی جگہیں بھی دیکھنی ہیں لہذا کوئی بس پکڑی جائے۔اب بس نمبر معلوم نہ تھا جگہوں کا نام آتا نہ تھا اور وہاں لوگ یا سیاح تھے یا اطالوی بولنے والے سو چپ کر کے جو پہلی بس آئی اس میں صبر کر کے بیٹھ گیا۔اب بس نے گھمن گھیریاں شروع کیں اور اسی علاقے میں گول گول گھومنے لگی اور میں سوچنے لگا کہ اس سے بہتر تھا کہ پیدل ہی آجاتا۔
سان سیرو کے راستے میں بنی دیوار پر تصاویر

سان سیرو کے راستے میں بنی دیوار پر تصاویر
-بائرن میونخ

سان سیرو کے راستے میں بنی دیوار پر تصاویر
-لیونل میسی

سان سیرو کے راستے میں بنی دیوار پر تصاویر
-وین رونی- مانچسٹر یونائیٹڈ

سان سیرو کے راستے میں بنی دیوار پر تصاویر

آخر میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور میں ایک اسٹیشن پر اتر گیا اور اندازے سے میٹرو کی طرف چلنے لگا۔ پندرہ منٹ چلنے کے بعد جب میٹرو اسٹیشن کی کوئی جھلک نہ دکھائی دی تو ایک چینی جاپانی سے لگنے والے بندے سے آخر پوچھ بیٹھا کہ بھائی صاحب یہ میٹرو کا کوئی اتا پتہ تو بتاؤ۔ اس نے کہا یہ عمارت دیکھ رہے ہو اس کے پیچھے ہے اور مجھے افسوس ہوا کہ اویں ہی پوچھ لیا وہیں تو کھڑا تھا۔

اب اگلی منزل قدیمی شہر تھا۔ وہاں اسٹیشن سے نکلتے ہی میلان کی پہچان دومو دی میلانو  Domo di milano نامی گرجا دکھائی دیا اور میں رومیوں کی عظمت کا قائل ہو گیا۔ دوم یا دومو بہت سی زبانوں میں گھر کے لیے استعمال ہوتا ہے اور گرجے کو دوم بلانے سے مراد ہماری مسجدوں کی طرح اللہ کا گھر بلانا ہوتا ہے۔


دومو دی میلانو

دومو دی میلانو

دومو دی میلانو

دومو دی میلانو- رات میں

دومو دی میلانو- رات کو
میلان کا قدیمی شہر واقعی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔اعلی قسم کی عمارتیں ہیں اور ہر عمارت دوسری سے خوبصورت۔ جیسا کہ ہر یورپی شہر کے قدیم علاقے میں ہوتا ہے کہ بیچوں بیچ ایک چوکور میدان ہوتا ہے کہیں بڑا کہیں چھوٹا۔ تو میلان میں بھی خاصا بڑا میدان ہے لیکن اتنے سیاح تھے کہ وہ بھی چھوٹا لگتا تھا۔
قدیمی شہر

سائیکلیں کرایے پر

قدیمی شہر اور شاپنگ سنٹر

قدیمی شہر

قدیمی شہر

قدیمی شہر

قدیمی شہر

قدیمی شہر

قدیمی شہر

قدیمی شہر


 ہر عمارت میں کسی برانڈ کی دکان تھی گویا لٹنے کے تمام سامان میسر تھے لیکن ہم ابھی تک اپنے ٹکٹ والےبارہ اور نقشے والے دس یورو کو رو رہے لہذا ہم نے اترتے ہی دل میں کہہ دیا کہ میلانی ہم سے ٹکے کی امید نہ رکھیں۔ لہذا میں نے تمام توجہ تصاویر کھینچنے اور پیدل چلنے پر رکھی اور قدیم شہر کی خوب سیر کی۔ تاہم شاید میلان والوں کو ہمارے پیسے نہ خرچنے کے ارادے کی بھنک پڑ چکی تھی لہذا انہوں نے ایک چال چلی کہ ایک افریقی نے مجھے بلایا۔ میں ایسی آوازوں پر کان نہیں دھرتا لہذا وہ اٹھ کر آیا اور پوچھا کہاں سے ہو۔ میں نے جواب دیا پاکستان تو سلام شلام کیا اور بتایا کہ وہ افریقی ملک صومالیہ Somalia کا ہے اور مسلمان ہے۔ میرے دل میں مسلمانی جذبات جاگ اٹھے اور میں نے اس سے پرجوش لہجے میں گفتگو شروع  کردی۔ جاتے وقت اس نے مجھے ایک بینڈ band تھما دیا ہاتھ میں پہننے والا اون سے بنا ہوا۔ میں نے انکار کیا (اس لیے نہیں کہ مجھے خطرہ تھا کہ یہ مجھ سے پیسے لے گا بلکہ اس وجہ سے کہ میں ایسی چیزیں پہنتا ہی نہیں) تاہم اس کے اصرار پر لینا پڑ گیا جب میں جانے کے لیے مڑا تو وہ بولا بھائی اگر آپ برا نہ مانیں تو دو یورو دے دیں اس بینڈ کے۔ ویسے یہ ہے ہمارے اسلامی رشتے کے لیے۔ میرے تمام اسلامی جذبات جھاگ کی طرح بیٹھ گئے اور میں نے صاف کہا کہ بھائی میں تو خود پردیسی ہوں میرے پاس ٹکہ آنہ نہیں یہ رہا آپ کا بینڈ۔ شاید اس کو اپنے مسلمان بھائی سے ایسے کافرانہ کردار کی توقع نہیں تھی لہذا وہ کھسیانہ ہو کر بولا نہیں نہیں بینڈ رکھیں اپنے پاس۔ میں چل پڑا اور واپسی پر اس جگہ کی بجائے لمبا چکر لگا کر واپس گیا۔

دبئی میں رہنے والے ایکسپو 2020 سے بخوبی واقف ہوں گے۔ یہ ایکسپو ہر پانچ سال بعد ہوتی ہیں اور 2015 کی نمائش میلان میں ہی ہونا ہے جس کا پتہ مجھے ایک آدھ ٹرام پر لگے لوگو سے ہوا۔ مجھے احساس ہوا کہ ترقی یافتہ ممالک کے لیے یہ چیزیں ثانوی ہیں ناکہ دبئی کی طرح جہاں جہاز سے اترتے ہی آپ کو 2020 کی گردان گھیر لیتی ہے۔

واپسی کے لیے میں میلان اسٹیشن پر پہنچا اور پیاس لگ رہی تھی تو میں نے سوچا کہ چلو ایک آدھ کوک Coke پی جائے۔ اب دکان پر پہنچا تو تمام پیاس اور شوق ہوا ہو گئے کہ قیمت پانچ یورو لکھی تھی۔ مجھے لگا شاید نقاہت سے مجھے صیح قیمتیں نظر نہیں آ رہیں لہذا جب قیمت کو مزید غور سے اور مزید دکانوں پر دیکھا تو پانچ یورو ہی ملی جبکہ ادھر تالن میں تو ہم ستر سینٹ (یورو کے پیسے) میں بھی لیتے وقت دو بار سوچتے ہیں۔ میں نے سوچا اکثر اسٹیشن پر قیمتیں زیادہ ہوتی ہیں لہذا مجھے اسٹیشن سے باہر دکانوں پر دیکھنا چاہیے۔ باہر جا کر اسٹیشن والی دکانیں اچھی لگنے لگیں کہ باہر قیمت چھ یورو تھی۔ میں نےدل ہی دل میں خود کو کوک کے نقصانات سمجھائے اور دو یورو کی ایک پانی کی بوتل لی اور ٹرین کا انتظار کرنے لگا۔

واپسی کے سفر میں ایک بار پھر نشست چننے کا مرحلہ درپیش تھا۔ اب کی بار میں نے اچھا خاصا ڈھونڈ کر ایک اکیلی نشست ڈھونڈی جس کے سامنے دو نشستیں تھیں لیکن میری نشست اکیلی ہی تھی۔ سامنے ایک اطالوی لڑکی بیٹھی تھی اور دوسری پر چھوٹا سا بیگ رکھا تھا۔ میں سمجھا کہ کوئی نہ کوئی اس کا ہم سفر ہوگا لیکن ایک بار پھر اندازہ غلط ثابت ہوا اور وہ لڑکی اکیلی ہی نکلی اور میری شامت نکلی۔ میں نے شروع میں ہی کانوں میں ٹونٹیاں لگائیں اور لا تعلق ہو کر بیٹھ گیا۔لیکن اللہ معلوم اس لڑکی کو کیا تکلیف تھی کہ تھوڑی دیر بعد اس نے مجھے گھورنا شروع کر دیا میں نے اچھی طرح تسلی کر لی کہ میرے منہ پر کچھ نہیں لگا کپڑے بھی پھٹے نہیں، ناک بھی صاف ہے دانتوں سے کوئی شے باہر نہیں جھانک رہی لیکن معاملہ جوں کا توں رہا۔ ایسے نازک مواقع پر میں اکثر بس سے اتر جایا کرتا ہوں لیکن یہ تو ٹرین کا سفر تھا جو دو گھنٹے چلنا تھا۔ اس نے تھوڑی دیر کوئی لکھنے والا پیڈ نکالا اور کچھ لکھنا شروع کر دیا۔ اور میں جو عام طور پر لکھنے کا کچھ نہ کچھ سامان اپنے پاس رکھتا ہوں اس روز کسی کاپی، پیڈ یا کمپیوٹر کے نہ ہونے کا شدید احساس ہوا کہ اگر آج کوئی کاغذ ہوتا میرے پاس تو اس کو دکھاتا کہ "ایڈی تو لکھاری" ۔ "ہمیں چیلنج۔۔۔۔ " تاہم اچھی بات یہ رہی کہ اسی واقعے پر ایک افسانہ دماغ میں آگیا جس کو میں نے واپس تالن پہنچ کر بحفاظت کمپیوٹر میں اتار لیا۔

رات کے گیارہ بجے جب میں واپس پہنچا تو مجھے آگاہ کیا گیا تھا کہ مراکشی تارکین وطن نشے میں دھت ہو کر کچھ چھین بھی سکتے ہیں اور لڑائ بھڑائی بھی کر سکتے ہیں مگر کافروں کے پرامن ملک کے پرتشدد مسلمانوں کو اللہ میاں نے لحاظ دیا اور میں ڈرتا ڈرتا اپنی رہائش گاہ بخیریت پہنچ گیا وگرنہ اور نہیں تو اپنےناپسندیدہ شہر کی سیاحت کے بدلے اپنے اکلوتے کیمرے سے تو ہاتھ دھو ہی بیٹھتا۔

میلان کی مزید تصاویر