November 9, 2012

مرغوں کی لڑائی کا آنکھوں دیکھا حال

Murgho ki lrai ka ankho dekha haal

اگر آپ نے مرغوں کی لڑائی کبھی نہیں دیکھی تو کسی اچھی ریٹنگ والے میزبان کا سیاسی ٹاک شو دیکھ لیں انیس بیس کا ہی فرق ہوتا ہے۔البتہ ہم نہ صرف سیاسی ٹاک شو بھی دیکھ چکے ہیں بلکہ مرغوں کی لڑائی کے چشم دید بھی ہیں تو تماشبینی کا حال درج ذیل ہے۔

 گاؤں میں رہنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپکو اکثر غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا موقع ملتا رہتا ہے جو شہر میں رہتے ہوئے تقریباً ناممکن ہے۔مثلاً کتوں اور ریچھوں کی لڑائی، مرغوں کی لڑائی، تاش اور جوا، سیہ کا شکار ،سور کا شکار وغیرہ وغیرہ-ویسے تو ہم نصابی و غیرنصابی دونوں طرح کی سرگرمیوں سے پرھیز کرتے ہیں لیکن غیر نصابی میں انکار کرنا ذرا مشکل ہوجاتا ہے لیکن جب ہمیں کتوں اور ریچھوں کی لڑائی کا دعوت نامہ ملا تو ہم نے صاف انکار کردیا۔دوستوں 
کے نزدیک ہم بزدل
 جبکہ اپنی نظر میں آج تک کوئی معقول توجیہ پیش نہ کر سکنے کے باوجود کتوں سے شدید قسم کا خوف کھاتے ہیں۔کتا کیا کوئی چھوٹا سا پلا بھی ہماری راہ میں آ جائے تو ہم واپس لوٹ جاتے ہیں اور کجا کتا ہو غصے میں اور بغیر بندھا ہو تو ایسی جگہ کے قریب بھی نہ جائیں کہ کب وہ ریچھ کو چھوڑ کر ہم پر حملہ آور ہو جائے البتہ جب مرغوں کی لڑائی پر بلایا گیا تو ہم انکار نہ کر سکےکہ ہم بھی پاکستانیوں کی طرح مرغے کے خاصے شوقین ہیں۔

لڑائی شروع ہونے پر مرغوں کا تعارف کرایا گیا کہ اس مرغے کا نام یہ ہے اور اس مرغے کا یہ لیکن گھٹیا کوالٹی کے لاؤڈ اسپیکر اور عوام کے بے ہنگم شور و غوغے کی وجہ سے ہمیں کچھ سمجھ نہ آیا۔ہم نے اپنی آسانی کے لیے دونوں کو اپنی طرف سے نام دے ڈالا کہ داہنی طرف والے مٹیالے رنگ کے پروں میں ملبوس چوہدری ککڑ صیب ہں اور باہنی طرف مٹیالے رنگ کے پروں میں ہی ملبوس جناب میاں مُرگے صیب ہیں۔چونکہ ایک پہلوان کے مالک چوہدری صاحب تھے لہذا اسی وجہ سے انکو چوہدری جبکہ دوسرے پہلوان کو ان کے مالک میاں صاحب کی وجہ سے میاں کا نام دے دیا۔

 لڑائی شروع ہوتے ہی پہلے ہی ہلے میں چوہدری ککڑ اور میاں مرگے نے ایسے ایسے پینترے بدلے کے ہم سر پکڑ کر رہ گئے اور ہمارے لیے اب مزید ممکن نہ تھا کہ دونوں میں تمیز کرسکتے کہ کون کس کا ہے اور کون کون ہے۔مجھ پر پہلی بار یہ عقدہ کھلا کہ کھیلوں میں مختلف رنگوں کے کپڑےاس لیے پہنائے جاتے ہیں کہ مرغا کریسی کو روکا جا سکے۔بہرحال ہم اقوام متحدہ بن چکے تھے جو محض جنگوں کا تماشبین ہے اور وجہ جانے بغیر کسی کو داد دیتا ہے کسی پر تنقید کرتا ہے کہ میرا پیغام تماشبینی ہے جہاں تک پہنچے۔

 جب مرغوں نے چونچیں لڑانا شروع کیں تو ہم پر راز آشکار ہوا کہ ہمارے والدین ہمیں چونچیں لڑانے سے کیوں منع کرتے رہے ہیں۔تین چار ملاقاتوں میں ہی زخم آنے شروع ہوجاتے ہیں۔اور یہاں تو مرغے ذاتی چونچیں لڑا رہے تھے اور خون بہہ رہا تھاہماری طرف تو زخم لگانے والا سارا تماشبین مجمع ہوتا ہے جو آپکی چونچیں لڑانے سے جتنا جلا ہوا ہوتا ہے وہ اتنی آگ آپ پر نکالتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آپ چونچیں لڑانے والےشیر دل مرغے کی بجائےاپنے وجود سے تنگ فارمی مرغی سے حلال ہو کر تڑپ رہے ہوتے ہیں۔ 

 ادھر ہمارا یہ حال تھا کہ دیدے پھاڑے مرغوں کی شناخت پریڈ میں لگے تھے کہ کسی طور تو پہچانے جائیں ادھر مرغ مالکان اپنے اپنے مرغوں کو ایسے پہچان رہے تھے جیسے جڑواں بچوں کی ماں اپنی دانست میں بچوں کو پہچاننے کا دعویٰ رکھتی ہے لیکن ہم کو یقین تھا کہ جمالے کی کمالے کو ہی بھگتنی ہوگی اور آخر میں چوہدری جیتے یا میاں جو طاقتور ہوگا فتح اس کی ہونی ہےتو اس نیتجے پر پہنچنے کے بعد ہم نے مقابلے سے لطف اندوز ہونا شروع کر دیا کہ ہماری بلا سے جو جیتے جو ہارے تماشہ تو دیکھیں۔

 لڑتےلڑتے ایک کی چونچ ایک کی دم غائب ہو گئ لیکن مقابلہ جاری رہا کیوں کہ یہ تادم مرگ قِسمی لڑائی تھی۔جلد ہی مرغے بھی لڑائی سے بور ہو گئے اور مقابلہ ایک آدھ ٹھونگے تک محدود ہو گیالیکن مرغے کی وہی ایک ٹانگ حالانکہ یہاں تو دونوں ٹانگیں سلامت تھیں کہ مقابلہ ایک کے ٹُرجِعون ہونے تک چلے گا ۔پاکستانیوں کی ویسے ہی دو کمزوریاں ہیں مرغا اور سیاست۔حالانکہ ہم نے دبے لفظوں سمجھایا کہ بس کردودو مرغے ہیں کوئی دیگ ویگ پکا کر ہمارا بھلا ہی کردو لیکن انہوں نے طے کیا تھا کہ دو ملاؤں میں مرغا حرام کر کے ہی چھوڑیں گے۔ 

کہیں پڑھا تھا جیسے جیسے مرغا موٹا ہوتا ہے اس کی دم سکڑتی ہے لیکن یہاں تو جیسے جیسے جوئے کی رقم موٹی ہوتی جارہی تھی ویسے ویسے مرغوں کے دَم اور دُم سکڑی جا رہی تھیں۔بے دَم و بے دُم مرغ دوسرے پر جھپٹتا تھا تو میرے ساتھ والا بندہ چیختا "اللہ سائیں دس روپے کی مٹھائی،چوہدری جیتنے نہ پائیں"،جب معاملہ الٹ ہوتا تو وہ چلاتا"اساڈا میاں شیر ہے"۔میں نے شور سے تنگ آکر پوچھا "کیوں جی چوہدریوں نے کیا بگاڑا ہے جو وہ نہ جیتیں"۔وہ بولا "میاں پر پیسے لگائے ہیں ناں"۔میں بولا "جا او تو بھی عوام کی طرح اپنا بھلا سوچ رہا ہے صرف"۔وہ بولا" تو چوہدریوں کا مفاد سوچوں؟"،میں لاجواب ہونے لگا تو بولا "یہ تو وہی بات ہوئی کہ مرغی چوری کر کے اللہ کی راہ میں انڈا خیرات کرنا"۔اب وہ لاجواب ہوگیا اور آپکو پتہ ہی ہے جب بندہ لاجواب ہونے لگتا ہے تو وہ بونگیوں پر اتر آتا ہےتو وہ بولا"وہ وقت بھول گئے جب کرکٹ میچ پر پیسے لگا کر ساری ٹیم کے ساتھ عصر کی نماز باجماعت دعا مانگتے تھے کہ اللہ میاں شرط جیتوا دے"۔اب بونگی کی باری میری تھی تو میں بولا "نماز میرا فرض ہے اور شرط میرا پیشہ"۔

 اب ہم بھی اس مرغ باز مجمعے میں شامل تھے اس لیے ہم خود کو بھی مرغوں کی بربادی کا مجرم سمجھ رہے تھے۔ہم جو ٹی وی پر ریسلنگ نہیں دیکھ پاتے اس دلخراش منظر کی تاب نہ لاپائے اور میچ ادھورا چھوڑ کر سیدھا پپو تکے والے کی دکان جا پہنچے اور غم غلط کرنے کو آواز لگائی" استاد پپو دو پلیٹ چکن تکہ"۔ اگلے دن اسی ساتھ والے بندے سے ملاقات ہوئی تو اس سے پوچھا کیا بنا۔میرے خیال میں تو وہ ہار گیا تھا اسی لیے ایسی بات کررہا تھا ورنہ بھلا یہ ممکن ہے کہ "چوہدری اور میاں ایک بار پھر مل گئے"آپ ہی بتائیں؟ عام بندے کو بس الزام لگانا ہی آتے ہیں۔کیا کہتے ہیں۔