جسے دیکھو ہمارے ہاں منہ اٹھا کر موبائل کی مخالفت میں بات کرنے لگتا ہے۔ویسےتو سب کے پاس تین تین سمیں Sims ہیں پر جو بولیں گے موبائل کے خلاف۔ ہاتھ میں آئی فون I phone ہو گا جے فون J phone ہو گا اور سنیں تو کہہ رہے ہوں گے کہ یار میں بڑا تنگ ہوں اس موبائل سے ، جان کو آگیا ہے یہ تو۔ بھائی اتنا ہی تنگ ہو تو پھینک دو اور ہمیں بتا دو کہاں پھینک رہے ہو آپکی تو جان چھوٹے ، یا خود ہی ہمیں دے دو ہم آپکی خاطر قربانی دے دیں گے ۔لیکن نہیں ۔
تو آج میں آپکو موبائل کی ایسی خوبیوں کے بارے بتائوں گا جو ہمارے معاشرے میں موبائل کی مہربانی سے رچ بس گئی ہیں اور ان پر کسی کی نظر بھی نہیں پڑتی۔
موبائل فون کتنی بڑی نعمت ہے مجھے تب احساس ہوا جب میں اپنی بہنوں کو خواتین کالج سے لینے جاتا تھااور لڑکیوں کے جھنڈ میں اپنی بہن کو تلاش کرنے پر کتنی شرمندگی ہوتی تھی اور اس سے بڑی شرمندگی اس کو دیکھ کر اشارہ کرتے وقت ہوتی تھی کہ یار باقی لڑکیاں کیا سوچیں گی۔تب ہم نے خود پر نام نہاد شرافت کا غلاف چڑھایا ہوا تھا ورنہ ایسے ہی بہنوں کو لینے کے لیے آنے والے اشاروں اشاروں میں دوسروں کی بہنوں کو لے اڑتے تھے۔
اس مشق سے بچنے کا دوسرا طریقہ تھا کہ آپ کی چوکیدار سے جان پہچان قسم کی یاری ہوجو آپکو دیکھ کر خود ہی آپکی بہن کو بتائے "باجی، بھائی جان لینے آئے کھڑے ہیں"۔یقین مانیے آج بھی حالانکہ میں قطعی متعصب نہیں ہوں اور ہر پیشہ میرے نزدیک محترم ہے لیکن پھر بھی میرے لیے کسی کو بتانا کہ یہ میرے دوست ہیں اور گرلز کالج میں چوکیدار ہیں شرم سے ڈوب مرنے کے برابر ہے کہ سامع نے اور نہیں تو ایک معنی خیز ہنکارہ ضرور بھرنا ہے۔
اب جب میری بہن کالج میں پڑھاتی ہے تو موبائل کی مہربانی سے جا کر مس کال Miss call دی اور بس۔اب یہ الگ بات ہے کہ اکثر کالجوں میں طالبات کے موبائل لانے پر پابندی ہے ۔
لوگ کہتے ہیں انسان کی زندگی سانس چلنے کیوجہ سے ہے جبکہ میں کہتا ہوں پاکستانیوں کی زندگی موبائل چلنے کیوجہ سے ہے۔ آج پاکستان میں موبائل پر پابندی لگ جائے آدھے یہ المناک خبر سن کر ہی کوچ کر جائیں گے جبکہ باقی آدھے موبائل کے ہجر کے صدمے کو سہتے سہتے اللہ میاں کے پاس جا پہنچیں گے۔
سچی پوچھیں تو میں ان لوگوں سے بڑا متاثر ہوں جو کار، موٹر سائیکل، سائیکل چلاتے ہوئے موبائل پر کال call سن لیتے ہیں اور ان لوگوں سے تو باقاعدہ شاگردی اختیار کرنے کی درخواست کا سوچ رہا ہوں جو کار، موٹر سائیکل، سائیکل چلاتے ہوئےموبائل پر پیغام SMS لکھ لیتے ہیں۔لیکن فی الوقت میں ان لوگوں سے صبر کرنا سیکھ رہا ہوں جو یہ دونوں کام نہیں کر سکتے کیونکہ دوران استعمال موبائل سواری کی رفتار ہلکی ہو جاتی ہے اور میں یا کوئی اور جو پیچھے آ رہا ہوتا ہے یا تو ہارن دے دے کر سر میں درد کر دیتا ہے یا پھر اسلامی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے صبر کرتا ہے اور اللہ میاں سے دعا کرتا ہے کہ یا اللہ اگلے بندےکا پیغام یا کال جلدی ختم کروا۔ اس طرح اگر ہم ذرا سی کوشش کریں تو موبائل کی مہربانی سے اللہ سے لو لگا سکتے ہیں۔
موبائل کیوجہ سے ٹریفک حادثات میں بھی کمی واقع ہوسکتی ہے۔جو بندہ موبائل دوران ڈرائیونگ driving استعمال کر رہا ہو وہ چاہے کتنا ہی ماہر کیوں نہ ہو اسکی گاڑی کی رفتار آہستہ ہو جاتی ہے اور گاڑی دو لینوں lanes کے درمیان میں آ جاتی ہے۔اور ایسے حالات میں حادثہ تب ہی ہوتا ہےجب کوئی بے صبرا جو موبائل استعمال نہیں کر رہا ہوتا ایسی گاڑی کو عبور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔گویا اگر سب دوران سفر موبائل استعمال کریں تو حادثات پر خاطر خواہ قابو پایا جا سکتا ہے۔
موبائل نے معاشی رتبہ بھی امیر غریب کا ایک برابر کر دیا ہے گویا موبائل معاشرے میں مساوات پھیلا رہا ہے۔ پچھلے دنوں میرے دوست میاں نعیم صاحب نے ایچ ٹی سیHTC کا موبائل لیا جس کی قمیت پاکستانی 60 ہزار روپے تھی۔وہ لیکر اپنی زمینوں پر گئے تو انکے مزارعے نے پوچھا میاں صاحب کتنے کا لیا ہے تو یہ کسر نفسی سے بولے بس 15 ہزار دا سمجھو۔ انہوں نے کہا دکھائیں جی۔ اس کے بعد انہوں نے اسکا بغور معائنہ کرنے کے بعد پوچھا میاں صاحب اس میں ٹی وی TV تو چلا کر دکھائیں۔میاں صاحب بولے کہ اس میں ٹی وی نہیں چلتا۔مزارعے نے جواب دیا میاں صاحب پھر تو آپ لوٹے گئے۔رحیمے کمہار کا بیٹا 2000 کا موبائل لایا ہے جس میں انٹینے والا ٹی وی بھی چلتا ہے۔اور سمیں بھی چار ڈل سکتی ہیں۔
موبائل فون کا ایک بڑا فائدہ لوگوں کو لوگوں سے ملانا ہے۔نئے نئے دوست بناتا ہے۔ ہم خود گواہ ہیں کہ کئی لڑکے جنہوں نے موبائل پر لڑکیوں کو دوست بنایا ہوا ہے جن سے وہ کبھی ملے نہیں اور ان میں سے کچھ تو ایسی ہیں جو لڑکیاں ہیں ہی نہیں۔پاکستانی تو پاکستانی میں ایک بنگالی کا چشم دید گواہ ہوں جو پاکستان بنگلہ دیش سے فون کیا کرتا تھا تاکہ اگلا اس کی بیوی بن جائے جبکہ وہ اگلا اچھا بھلا مرد تھا۔
موبائل فون کیوجہ سے پاکستان کی آبادی میں اضافہ بھی ذرا کم ہوا ہے کیونکہ سارے تو رات کو نائٹ پیکج پر لگے ہوتے ہیں دوسروں کے ساتھ ۔میں تو کہتا ہوں وزارت بہبود آبادی کو نائٹ پیکج پر سبسڈی دینی چاہیے اور ایک کال سینٹر call centerنانا چاہیے کہ اگر کسی کی ہیلو ہائے نہیں تو وہ رات کو کال سینٹر میں موجود بندے بندیوں سے ہیلو ہائے کر کے گزارہ کر لے۔اس کے علاوہ کسی اور طرح پاکستان کی آبادی نہیں رکنی۔شرط لگا لیں۔
موبائل فون کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ آپ دس چیزیں رکھ کر بھول جائیں جتنی آسانی سے موبائل تلاش کیا جاسکتا ہے کچھ اور نہیں۔اپنے نمبر پر کال ملائی اور کان لگائے سن رہے ہیں کہ کہاں رکھا ہے موبائل۔اب تو بندہ اتنا عادی ہوگیا ہے کہ جب کار کی کنجی اور پرس نہیں مل رہا ہوتا تو غیر ارادی طور پر انکو مس کال Miss call دینے لگ جاتا ہے۔
موبائل پر موصول ہونے والے چھوٹے لکھے ہوئے پیغاماتshort text messages جو اب اتنے چھوٹے نہیں رہے آج کل کے زمانے میں سیاسی ٹاک شوز کے علاوہ واحد تفریح کا زریعہ ہیں۔نہ صرف تفریح بلکہ معلومات کا بھی خزانہ ہیں۔ کل ہی میں قمیص دھو رہا تھا ساتھ کھڑے ایک دوست بولےاس کو سفید کرنے کے لیے ہلدی ملا سرف استعمال کرو۔میں نے کہا ہیں خیر تو ہے بھائی جی۔ کہنے لگے یار قسم سے کل ہی میں ایس ایم ایس میں پڑھا ہے۔
بعض اوقات ایسے اقوال آتے ہیں کہ بندہ حیران ہوجاتا ہے۔ جو آپ رکشے کے پیچھے پڑھتے رہے ہیں وہ موبائل کے پیغام میں ہی پتہ لگے گا کہ اصل میں خلیل جبران کا قول ہے۔مرزا غالب کا ایسا شعر پڑھنے کو مل سکتا ہے جو انکے کسی دیوان کے کسی نسخے میں نہیں ہوگا۔باقی فراز اور زبیدہ آپا سے کون واقف نہیں جنہوں نے اس انڈسٹری کو پروان چڑھانے میں دن رات ایک کیا ہے۔ فراز صاحب تو ہلال امتیاز وصول کرچکے ہیں دیکھیں زیبدہ آپا کو کب ایوارڈ ملتا ہے۔
ایسے ہی افراد کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ معاشرے میں برداشت اور رواداری پھیل رہی ہے۔آپ کسی سرکاری دفتر میں کسی کام کسی کیا ہر کام کے نہ ہونے پر جھگڑ رہے ہیں اور سامنے والاخونخوار نگاہوں سے آپکو گھور رہا ہے اس سے پہلے کہ ہاتھا پائی شروع ہوجائے اسکے پاس سے ہلکی سی ٹوں کی آواز آتی ہے وہ جھگڑا چھوڑ کر موبائل پر پیغام پڑھتا ہےاور پڑھ کر مسکراتا ہوا باآواز بلند سب کو پڑھ کر سناتا ہے۔وہ سن کر آپکی بھی نہ چاہتے ہوئے ہنسی نکل جاتی ہے۔لیں جی موبائل نے کتنی آسانی سے سارا معاملہ سدھار دیا۔
موبائل کے اتنے فائدے سن کر بھی اگر آپ موبائل کے معترف نہیں ہوئے تو بھائی جان اٹھائیں اپنا موبائل اور پھینک آئیں گھر سے باہر۔ہے جرات؟(نوٹ:ایک بار پھر گزارش ہے کہ اگر موبائل اچھا ہے اور واقعی پھینکنے کا موڈ بن جائے تو اس خاکسار کو پھینکنے کی جگہ اور وقت وغیرہ ای میل کر دیجیے گا۔ میں نہیں چاہتا کہ بعد میں آپ جا کر دوبارہ اس لغویت(آپکے بقول) کو اٹھا کر گھر لے آئیں۔)
پس تحریر: یہ تحریر اپریل یا مئی میں لکھی تھی اور بغیر کسی وجہ کے پوسٹ نہیں کی اب لیٹ نائٹ پیکجز پر پابندی لگ گئی ہے اور گاہے بگاہے اہم دنوں پر موبائل پر بھی پابندی لگ جاتی ہے تو اس سے پہلے ہمارے وزیر داخلہ صیب مکمل پابندی لگا دیں کہ کوئی موبائل نہیں آج کے بعد اس سے پہلے یہ پوسٹ کر رہا ہوں شاید ان تک پہنچ جائے اور پاکستانیوں کو موبائل استعمال کرنے کی پابندی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
تو آج میں آپکو موبائل کی ایسی خوبیوں کے بارے بتائوں گا جو ہمارے معاشرے میں موبائل کی مہربانی سے رچ بس گئی ہیں اور ان پر کسی کی نظر بھی نہیں پڑتی۔
موبائل فون کتنی بڑی نعمت ہے مجھے تب احساس ہوا جب میں اپنی بہنوں کو خواتین کالج سے لینے جاتا تھااور لڑکیوں کے جھنڈ میں اپنی بہن کو تلاش کرنے پر کتنی شرمندگی ہوتی تھی اور اس سے بڑی شرمندگی اس کو دیکھ کر اشارہ کرتے وقت ہوتی تھی کہ یار باقی لڑکیاں کیا سوچیں گی۔تب ہم نے خود پر نام نہاد شرافت کا غلاف چڑھایا ہوا تھا ورنہ ایسے ہی بہنوں کو لینے کے لیے آنے والے اشاروں اشاروں میں دوسروں کی بہنوں کو لے اڑتے تھے۔
اس مشق سے بچنے کا دوسرا طریقہ تھا کہ آپ کی چوکیدار سے جان پہچان قسم کی یاری ہوجو آپکو دیکھ کر خود ہی آپکی بہن کو بتائے "باجی، بھائی جان لینے آئے کھڑے ہیں"۔یقین مانیے آج بھی حالانکہ میں قطعی متعصب نہیں ہوں اور ہر پیشہ میرے نزدیک محترم ہے لیکن پھر بھی میرے لیے کسی کو بتانا کہ یہ میرے دوست ہیں اور گرلز کالج میں چوکیدار ہیں شرم سے ڈوب مرنے کے برابر ہے کہ سامع نے اور نہیں تو ایک معنی خیز ہنکارہ ضرور بھرنا ہے۔
اب جب میری بہن کالج میں پڑھاتی ہے تو موبائل کی مہربانی سے جا کر مس کال Miss call دی اور بس۔اب یہ الگ بات ہے کہ اکثر کالجوں میں طالبات کے موبائل لانے پر پابندی ہے ۔
لوگ کہتے ہیں انسان کی زندگی سانس چلنے کیوجہ سے ہے جبکہ میں کہتا ہوں پاکستانیوں کی زندگی موبائل چلنے کیوجہ سے ہے۔ آج پاکستان میں موبائل پر پابندی لگ جائے آدھے یہ المناک خبر سن کر ہی کوچ کر جائیں گے جبکہ باقی آدھے موبائل کے ہجر کے صدمے کو سہتے سہتے اللہ میاں کے پاس جا پہنچیں گے۔
سچی پوچھیں تو میں ان لوگوں سے بڑا متاثر ہوں جو کار، موٹر سائیکل، سائیکل چلاتے ہوئے موبائل پر کال call سن لیتے ہیں اور ان لوگوں سے تو باقاعدہ شاگردی اختیار کرنے کی درخواست کا سوچ رہا ہوں جو کار، موٹر سائیکل، سائیکل چلاتے ہوئےموبائل پر پیغام SMS لکھ لیتے ہیں۔لیکن فی الوقت میں ان لوگوں سے صبر کرنا سیکھ رہا ہوں جو یہ دونوں کام نہیں کر سکتے کیونکہ دوران استعمال موبائل سواری کی رفتار ہلکی ہو جاتی ہے اور میں یا کوئی اور جو پیچھے آ رہا ہوتا ہے یا تو ہارن دے دے کر سر میں درد کر دیتا ہے یا پھر اسلامی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے صبر کرتا ہے اور اللہ میاں سے دعا کرتا ہے کہ یا اللہ اگلے بندےکا پیغام یا کال جلدی ختم کروا۔ اس طرح اگر ہم ذرا سی کوشش کریں تو موبائل کی مہربانی سے اللہ سے لو لگا سکتے ہیں۔
موبائل کیوجہ سے ٹریفک حادثات میں بھی کمی واقع ہوسکتی ہے۔جو بندہ موبائل دوران ڈرائیونگ driving استعمال کر رہا ہو وہ چاہے کتنا ہی ماہر کیوں نہ ہو اسکی گاڑی کی رفتار آہستہ ہو جاتی ہے اور گاڑی دو لینوں lanes کے درمیان میں آ جاتی ہے۔اور ایسے حالات میں حادثہ تب ہی ہوتا ہےجب کوئی بے صبرا جو موبائل استعمال نہیں کر رہا ہوتا ایسی گاڑی کو عبور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔گویا اگر سب دوران سفر موبائل استعمال کریں تو حادثات پر خاطر خواہ قابو پایا جا سکتا ہے۔
موبائل نے معاشی رتبہ بھی امیر غریب کا ایک برابر کر دیا ہے گویا موبائل معاشرے میں مساوات پھیلا رہا ہے۔ پچھلے دنوں میرے دوست میاں نعیم صاحب نے ایچ ٹی سیHTC کا موبائل لیا جس کی قمیت پاکستانی 60 ہزار روپے تھی۔وہ لیکر اپنی زمینوں پر گئے تو انکے مزارعے نے پوچھا میاں صاحب کتنے کا لیا ہے تو یہ کسر نفسی سے بولے بس 15 ہزار دا سمجھو۔ انہوں نے کہا دکھائیں جی۔ اس کے بعد انہوں نے اسکا بغور معائنہ کرنے کے بعد پوچھا میاں صاحب اس میں ٹی وی TV تو چلا کر دکھائیں۔میاں صاحب بولے کہ اس میں ٹی وی نہیں چلتا۔مزارعے نے جواب دیا میاں صاحب پھر تو آپ لوٹے گئے۔رحیمے کمہار کا بیٹا 2000 کا موبائل لایا ہے جس میں انٹینے والا ٹی وی بھی چلتا ہے۔اور سمیں بھی چار ڈل سکتی ہیں۔
موبائل فون کا ایک بڑا فائدہ لوگوں کو لوگوں سے ملانا ہے۔نئے نئے دوست بناتا ہے۔ ہم خود گواہ ہیں کہ کئی لڑکے جنہوں نے موبائل پر لڑکیوں کو دوست بنایا ہوا ہے جن سے وہ کبھی ملے نہیں اور ان میں سے کچھ تو ایسی ہیں جو لڑکیاں ہیں ہی نہیں۔پاکستانی تو پاکستانی میں ایک بنگالی کا چشم دید گواہ ہوں جو پاکستان بنگلہ دیش سے فون کیا کرتا تھا تاکہ اگلا اس کی بیوی بن جائے جبکہ وہ اگلا اچھا بھلا مرد تھا۔
موبائل فون کیوجہ سے پاکستان کی آبادی میں اضافہ بھی ذرا کم ہوا ہے کیونکہ سارے تو رات کو نائٹ پیکج پر لگے ہوتے ہیں دوسروں کے ساتھ ۔میں تو کہتا ہوں وزارت بہبود آبادی کو نائٹ پیکج پر سبسڈی دینی چاہیے اور ایک کال سینٹر call centerنانا چاہیے کہ اگر کسی کی ہیلو ہائے نہیں تو وہ رات کو کال سینٹر میں موجود بندے بندیوں سے ہیلو ہائے کر کے گزارہ کر لے۔اس کے علاوہ کسی اور طرح پاکستان کی آبادی نہیں رکنی۔شرط لگا لیں۔
موبائل فون کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ آپ دس چیزیں رکھ کر بھول جائیں جتنی آسانی سے موبائل تلاش کیا جاسکتا ہے کچھ اور نہیں۔اپنے نمبر پر کال ملائی اور کان لگائے سن رہے ہیں کہ کہاں رکھا ہے موبائل۔اب تو بندہ اتنا عادی ہوگیا ہے کہ جب کار کی کنجی اور پرس نہیں مل رہا ہوتا تو غیر ارادی طور پر انکو مس کال Miss call دینے لگ جاتا ہے۔
موبائل پر موصول ہونے والے چھوٹے لکھے ہوئے پیغاماتshort text messages جو اب اتنے چھوٹے نہیں رہے آج کل کے زمانے میں سیاسی ٹاک شوز کے علاوہ واحد تفریح کا زریعہ ہیں۔نہ صرف تفریح بلکہ معلومات کا بھی خزانہ ہیں۔ کل ہی میں قمیص دھو رہا تھا ساتھ کھڑے ایک دوست بولےاس کو سفید کرنے کے لیے ہلدی ملا سرف استعمال کرو۔میں نے کہا ہیں خیر تو ہے بھائی جی۔ کہنے لگے یار قسم سے کل ہی میں ایس ایم ایس میں پڑھا ہے۔
بعض اوقات ایسے اقوال آتے ہیں کہ بندہ حیران ہوجاتا ہے۔ جو آپ رکشے کے پیچھے پڑھتے رہے ہیں وہ موبائل کے پیغام میں ہی پتہ لگے گا کہ اصل میں خلیل جبران کا قول ہے۔مرزا غالب کا ایسا شعر پڑھنے کو مل سکتا ہے جو انکے کسی دیوان کے کسی نسخے میں نہیں ہوگا۔باقی فراز اور زبیدہ آپا سے کون واقف نہیں جنہوں نے اس انڈسٹری کو پروان چڑھانے میں دن رات ایک کیا ہے۔ فراز صاحب تو ہلال امتیاز وصول کرچکے ہیں دیکھیں زیبدہ آپا کو کب ایوارڈ ملتا ہے۔
ایسے ہی افراد کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ معاشرے میں برداشت اور رواداری پھیل رہی ہے۔آپ کسی سرکاری دفتر میں کسی کام کسی کیا ہر کام کے نہ ہونے پر جھگڑ رہے ہیں اور سامنے والاخونخوار نگاہوں سے آپکو گھور رہا ہے اس سے پہلے کہ ہاتھا پائی شروع ہوجائے اسکے پاس سے ہلکی سی ٹوں کی آواز آتی ہے وہ جھگڑا چھوڑ کر موبائل پر پیغام پڑھتا ہےاور پڑھ کر مسکراتا ہوا باآواز بلند سب کو پڑھ کر سناتا ہے۔وہ سن کر آپکی بھی نہ چاہتے ہوئے ہنسی نکل جاتی ہے۔لیں جی موبائل نے کتنی آسانی سے سارا معاملہ سدھار دیا۔
موبائل کے اتنے فائدے سن کر بھی اگر آپ موبائل کے معترف نہیں ہوئے تو بھائی جان اٹھائیں اپنا موبائل اور پھینک آئیں گھر سے باہر۔ہے جرات؟(نوٹ:ایک بار پھر گزارش ہے کہ اگر موبائل اچھا ہے اور واقعی پھینکنے کا موڈ بن جائے تو اس خاکسار کو پھینکنے کی جگہ اور وقت وغیرہ ای میل کر دیجیے گا۔ میں نہیں چاہتا کہ بعد میں آپ جا کر دوبارہ اس لغویت(آپکے بقول) کو اٹھا کر گھر لے آئیں۔)
پس تحریر: یہ تحریر اپریل یا مئی میں لکھی تھی اور بغیر کسی وجہ کے پوسٹ نہیں کی اب لیٹ نائٹ پیکجز پر پابندی لگ گئی ہے اور گاہے بگاہے اہم دنوں پر موبائل پر بھی پابندی لگ جاتی ہے تو اس سے پہلے ہمارے وزیر داخلہ صیب مکمل پابندی لگا دیں کہ کوئی موبائل نہیں آج کے بعد اس سے پہلے یہ پوسٹ کر رہا ہوں شاید ان تک پہنچ جائے اور پاکستانیوں کو موبائل استعمال کرنے کی پابندی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔