December 1, 2010

بحیرہ روم کے کنارے

Bahera rome ke kinary


یوں تو فٹ بال سے میری پہلی واقفیت 90 کے ورلڈ کپ میں ہوئی تھی جب میرا ڈونا کی ارجنٹینا مغربی جرمنی سے فائنل ہار گئی تھی۔وہ دن اور آج کا دن جرمنی سے اللہ واسطے کا بیر ہے۔لیکن کلب فٹ بال سے میرا رومانس تب شروع ہوا جب میدرد (جب اسپینش میدرد بولتے ہیں تو ہم انگریزوں کی نقل میں میڈرڈ کیوں بولیں)نے کلب ٹیم کو ورلڈ الیون بنا ڈالا۔حالانکہ میرا ڈونا بارسلونا کی طرف سے کھیلتا رہا ہے لیکن اس پر میرے بعد کے پسندیدہ کھلاڑی زیڈان،فیگو،رونالڈو،رابرٹو کارلوس،کاسیئس حاوی رہے اور تب کاریال میدرد میرا پسندیدہ کلب رہا ہے۔

یورپ آمد پر میرا ایک ہی خواب رہا ہے کہ ریال میدرید فٹبال کلب دیکھ سکوں لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔پہلی سلام دعا میونخ میں بائرن میونخ سے ہوئی اور اس کے بعد گیا بھی تو کہاں ،بارسلونا فٹ بال کلب،ریال میدرد کا ہمیشہ کا حریف۔اور بارسلونا کے بعد اسپینیول فٹ بال کلب اور پھر ویلنسیا فٹ بال کلب بھی دیکھ ڈالا لیکن ریال میدرد کا ابھی تک نمبر نہیں آیا۔ حالانکہ بحیرہ روم کے کنارے بارسلونا جانے کا مقصد قطعاً فٹ بال کلب دیکھنا نہیں تھا لیکن مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

November 25, 2010

اعزازی ڈگری

aizazi degree


جب کبھی اخبار میں نظر سے گزرتا ہے کہ فلاں شخص کو فلاں یونیورسٹی اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری دے رہی ہے توایسی آگ لگتی ہے کہ بس۔ پہلے تو غالب کا ایک شعر دماغ میں آتا ہے آپ بھی پڑھیے
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
 مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
 اس کے بعد پطرس کے مضامیں میں سے ایک کی طرح دل کرتا ہے کہ دو بم تیار کروں ایک اس یونیورسٹی پر دے ماروں اور دوسراڈاکٹر اشرف کی میز کے نیچے نصب کر آؤں۔لیکن یہ سوچ کر رک جاتا ہوں کہ پہلے ہی مسلمان دہشت گردی کے الزامات تلے دبے ہوئے ہیں دوسرا بم کی آمد ورفت خو د ایک مسئلہ ہے اور تیسرا یہ کہ مجھے بم بنانا آتا ہی نہیں۔

مزید پڑھیے Résuméabuiyad

November 17, 2010

سو میں بھی آدمی ہوں

So main bhe admi hoon


یوں تو ہم ہزارہا بار بے وقوف بنے ہیں کبھی مذہب کے نام پر، کبھی زبان کے نام پر،کبھی صوبائیت کے نام پر،کبھی اس کے نام پر کبھی اُس کے نام پرلیکن ایک چیز ایسی بھی ہے جس کے نام پر ہم انتہائی خلوص اور صدق دل سے بے وقوف بنے اور خوشی خوشی بنے اور بننے کے بعد بھی خوش رہے۔جی ہاں وہ شے صنفِ نازک کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ لیکن اب سوچتا ہوں کہ ایسے دوستوں کے نام تحریر کر دیا جائے کہ بھائی اب میں اس کھیل سے تھک گیا ہوں لہذا آئندہ بے وقوف بنانے سے گریز کیا جائے اور آپ لوگ بھی عبرت پکڑیں اور عقل سے کام لیں۔

تو یہ ان تمام دوستوں کے نام ہے جنہوں نے ہمیں صنف مخالف کے نام پرحسب توفیق بے وقوف بنایا۔ اس بات کو صیغہ راز میں رکھنے کی خاطر کہ کس کس نے ہمارے جذبات سے کھیلا یہ لکھ رہا ہوں کہ کہانی کے سب کردار فرضی ہیں اگر کوئی اپنی مطابقت بے وقوف بنانے والوں سے پائے تو لازم ہے وہ شرم کرے اور دوسروں کو گدھا بنانے سے باز آئے اور کسی کی بے وقوف بننے والے سے ہو تو وہ اس کہانی سے پڑھ کر صبر کرے کہ وہ تنہا نہیں اس جیسے اور بھی گدھے ہیں۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

November 6, 2010

ایک اقتصادی کانفرنس کی روئیداد

aik iqtasadi confrence ki ruidad


پچھلے دنوں (پچھلے دن اب تو خاصے پچھلے ہو گئے ہیں کیونکہ کانفرنس مارچ 2010 میں ہوئی تھی) وارسا میں ایک کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا۔ویسے تو ہم خاصے رنگین مزاج واقع ہوئے ہیں اور ایسی بلیک ایند وائیٹ مجلسوں سے پرہیز کرتے ہیں ہیں لیکن ہماری اکنامکس کی استانی کو اس زمانے میں گمان تھا کہ ہم اکنامکس میں کچھ کمال رکھتے ہیں اور باقی لوگوں کی نسبت کچھ ذہانت کے مالک بھی ہیں ۔اب تو یہ فعل ماضی بعید کی باتیں لگتی ہیں خیر بات ہو رہی تھی کانفرنس کی تو ہم اتنے ڈرپوک ثابت ہوئے ہیں کہ استادوں کو منہ پر نہ نہیں کہہ سکے کجا استانی۔

حکم حاکمہ مرگِ مفاجات اپنے قیمتی فارغ وقت سے ہاتھ دھو کر ہم اس کانفرنس میں چلے گئے۔ کانفرنس پولینڈ کی مشہور ترین یونیورسٹیوں میں سے ایک وارسا اسکول آف اکنامکس میں تھی۔وارسا اسکول آف اکنامکس کو پولش میں SGH ایس گے ہا بولتے ہیں۔  جہاں جب میں پہنچا تو پتہ چلا کہ کانفرنس کسی اور بلاک میں ہورہی ہے جو اس عمارت سے کچھ فاصلے پر ہے۔استقبالیے پر موجود لڑکی نے اگرچہ وہاں کا پتہ خاصی تفصیل سے سمجھایا لیکن کچھ اس کی انگریزی سے پوری صوری واقفیت اور کچھ اس کی خوبصورتی کی وجہ سے میں راستہ بالکل نہ سمجھ پایا اور راستے میں دس بارہ لوگوں سے پوچھنے کے بعد جب وہاں پہنچا تو کانفرنس شروع ہو چکی تھی۔

مزید پڑھیے Résuméabuiyad

May 1, 2010

میرا دوست سلیمان عمر

mera dost- Salman Omer


یوں تو ملتان پبلک اسکول کی تاریخ میں ایک سے بڑھ کر ایک طالب علم گزرا ہے لیکن ان میں سے کچھ ایسے تھے جو اپنے وقت میں صرف کلاس میں میں ہی نہیں بلکہ تمام اسکول میں یکساں طور پر مشہور تھے۔عمرسعید جب میں نہم جماعت میں تھا تو ہیڈ بوائے تھے اور ان پر پر یہ عہدہ خوب جچتا تھا اور تمام اسکول ان کو اچھی طرح جانتا تھا اس وقت اسکول ہیڈ بوائے کی بڑی اہمیت ہوا کرتی تھی۔اوپر سے ان کی پر جوش تقریریں۔ذیشان قادر سے آگاہی ہوئی تو پتہ چلا کہ آگ جوش کے علاوہ پیار سے بھی لگائی جاسکتی بشرط یہ کہ مقرر ذیشان قادر ہو۔اویس امین صاحب جنہوں نے بورڈ میں پوزیشن لی اور تمام اسکول میں مشہور ہو گئے کیونکہ اس کے بعد تمام اسکول کو اس روز چھٹی تک کھیلنے کی اجازت دے دی گئی تھی اور ہم دعا مانگتے کہ اللہ کرے اس بار بھی کوئی بورڈ میں پوزیشن لے لے۔کچھ لوگ اور وجوہات کی بنا پر مشہور ہوئے۔محمد علی ملک صاحب پرنسپل کی اختتامی تقریب میں سیٹیاں بجانے کے باعث مشہور ہوگئے ۔ مہر منیر خیر رہنے دیں ان کی وجہ شہرت تو بہت سے لوگ جانتے ہیں۔نظام الدین جنہوں نے ایف ایس سی میں لافانی شہرت حاصل کی تھی۔فہیم چغتائی کو عارف صاحب،لیاقت صاحب اور ہارون صاحب کے علاوہ اس وقت کے پریپ اسکول کے تمام طلبہ بھی بھولے نہ ہوں گے۔نعمان خان جنکو آج بھی لوگ دادا کے نام سے جانتے ہیں۔لیکن آج میں جس نابغہ روزگار ہستی کا ذکر کرنے لگا ہوں وہ اپنے وقتوں میں ہر خاص و عام میں یکساں مقبول میٹرک کے بیچ ۹۹ اور ایف ایس سی کے بیچ ۲۰۰۱ کے اپنی نوعیت کے واحد سلیمان عمر کے بارے میں ہے۔

مزید پڑھیے Résuméabuiyad

April 25, 2010

پولینڈ کا اچھا اچھا

Poland ka acha acha


بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ہمیشہ پولینڈ کے خلاف لکھتے ہو۔میاں یہ عادت اچھی نہیں ہے۔جس تھالی میں کھاتے ہو اسی میں چھید کرتے ہو۔تو آج کی تحریر میں پولینڈ کے حق میں سب اچھا اچھا لکھ کر ان لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں ہر وقت پولینڈ کے خلاف نہیں لکھتا بلکہ جو باتیں تعریف کرنے کے قابل ہیں وہ بھی مانتا ہوں۔ لگے بندھے طریقوں پر سوچنے والوں نے جتنی افواہیں پھیلائیں ہیں اتنی تو شام کے اخباروں نے بھی نہیں پھیلائیں۔سکاٹش بے وقوف ہیں،عربی دہشت گرد ہیں، پاکستان غصیلے ہیں وغیرہ وغیرہ ایسے ہی پولینڈ کے بارے میں لوگوں نے بہت سی افواہیں پھیلا رکھی ہیں مثلاً جب ہم پہلی بار پولینڈ آئے تھے تو ہمیں بتایا گیا کہ تیار ہوجاؤ۔سردیوں میں طبعیت سیٹ ہو جائے گی۔جب درجہ حرارت منفی بیس کو چھوتا ہے تو ہر چیز جم جاتی ہے ۔ہر چیز حتیٰ کہ  پیشاب بھی۔میں یہاں پر یہ تردید کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ بے فکر ہو کر پولینڈ آئیں۔سب جھوٹ ہے ۔اس سال درجہ حرارت منفی تیس تک جا پہنچا تھا ۔لہذا چشم دید ہونے کے باعث میں کہنا چاہتا ہوں کہ پیشاب نہیں جمتا۔بالکل نہیں جمتا۔

مزید پڑھیے Résuméabuiyad

April 14, 2010

صبح کی سیر-اردو مضمون-نظر ثانی شدہ

Subuh ki sair-urdu mazmon-nazar sani shuda


جب ہم اسکول میں پڑھا کر تے تھے تو ٹریڈ مارک رٹا مضامین میں سے ایک صبح کی سیر بھی ہوا کرتا تھا جو امتحان میں آنا متوقع ہوتا تھا اور میرا بہترین دوست کے بعد دوسرے نمبر کے آسان کیٹیگری میں پڑنے کے باعث خاصا مقبول تھا۔کل اتفاق سے ایک کتاب نظر سے گزری جس میں صبح کی سیر کا مضمون بھی تھا تو لگا کہ یہ تو اس کا پرانا ورژن ہے آج کل کے حالات کے مطابق اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔میری بساط میں جو نظر ثانی کی جا سکتی تھی وہ پیشِ خدمت ہے باقی اپنے اپنے تخیل کا گھوڑا دوڑائیے ویسے کبھی کسی استاد نے آج تک ایک ہی گائیڈ سے مضمون رٹا مار کر من و عن لکھنے پر نمبر تو نہیں کاٹے۔

مضمون کچھ یوں شروع ہوا کرتا تھا کہ کسی عظیم مفکر کا کہنا ہے کہ اگر لمبی زندگی چاہتے ہو تو سبزے کو دیکھو، بہتے پانی کو دیکھو،دنیا گھومو وغیرہ وغیرہ۔لیکن  یہ ٹریڈ سینٹر کے حملوں سے قبل تک تو ٹھیک تھا پر اب تو بات کچھ یوں نظر آتی ہے کہ اگر لمبی زندگی چاہتے ہو تو گھر سے باہر نہ نکلو،ٹی۔وی دیکھو،بال بچوں کے ساتھ دن گزارو وغیرہ وغیرہ۔

مزید پڑھیے Résuméabuiyad

April 7, 2010

بنام ہاسٹل

banam hostel


چونکہ میرے پاس کیمرہ ہے اور بہت سا فارغ وقت بھی ہے اس لیے میں اکثر تصاویر کھینچتا رہتا ہوں۔ایسے میں ہی کھینچی گئی میرے ہاسٹل کی تصاویر دیکھ کر بہت سے لوگوں نے کہا اچھا عیاشی ہو رہی ہے اور جو نہ کہہ سکے دل میں انکے بھی یہی بات تھی۔حالانکہ ان سب کہ بہتیرا سمجھایا کہ بھائیو،بندو مانا کہ جگہ خوبصورت ہے پر ایسی بھی نہیں کہ عیاشی کا گمان ہونےلگے۔اصل کمال نائیکون کے D3000 کا ہے لیکن وہ بندہ ہی کیا جو کسی کی بات مان لے۔آخر یہی سمجھ آئی کہ ولائیت کی عیاشی کا لیبل اپنے ماتھے سے اتارنے کے لیے ہاسٹل کے اندرونی حالات بھی بیان کیے جائیں تاکہ یار لوگوں کو یقین آ جائے کہ نہیں عیاشی نہیں کر رہے۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

March 21, 2010

انسان معاشرتی جانور

Insan muasharti janwar


کل کسی سے ڈارون اور خدا کے وجود پر گفتگو کرتے ہوئے اپنا لکھا ہوا ایک پرانا مضمون یاد آگیا، آپ بھی پڑھیے۔ ارسطو نے کہا تھا کہ انسان ایک معاشرتی جانور ہے man is a social animal ہو سکتا ہے اس زمانے میں معاشرہ نام کی کوئی چیز پائی جاتی ہو دنیا میں مگر آج اس قول میں سے لفط معاشرتی اوردنیا سے معاشرہ غائب ہو چکا ہے اور باقی جو بچتا ہے وہ انسان اور جانور ہیں۔

کسی زمانے میں اسی سوشل کو سوشلسٹ ( کمیونسٹ)سمجھتا رہا اور حیران ہوتا رہا کہ آخر انکوامریکہ نے چھوٹ کیوں دی ہوئی ہے وہ تو سوشلسٹ کو ویسے ہی جانور سمجھتے ہیں۔چین اور روس کی مثال ہمارے سامنے ہیں۔آخر جو بات میں تب سوچتا تھا وہ امریکہ کی سمجھ میں اب آئی ہے لہذا سب سے پہلے امریکہ سے معاشرہ ختم کر کے انکو سوشلسٹ ہونے سے بچایا گیا اور پھر باقی دنیا کے انسانوں کے ساتھ جانوروں والا سلوک کرنا شروع کیا۔لیکن سچ تو یہ ہے کہ اگر آج بھی امریکہ کا ویزا ملے تو لینے والوں کی قطار میں میں بھی ہوں گاظاہر ہے جانوروں کے معاشرے میں بقا کے لیے طاقتور کے گروپ میں ہی رہنا پڑتا ہے چاہے وہ گیدڑوں کا ہی کیوں نہ ہو۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

February 18, 2010

استنبول تے کجھ نہ پھول

 Istanbul te kujh na phol


استنبول سے میری وابستہ یادوں میں سب سے پہلی ایک مثال ہے۔اسپغول تے کجھ نہ پھول۔اسپغول کو کافی عرصے تک میں استنبول بولتا رہا ہوں۔دوسرا یہ پتہ چلا کہ استبول کا پرانا نام قستنطنیہ ہے ۔جس کو تاریخ اور اردو املا کے استاد صاحبان یکساں طور پر فیل کر نے کے لیے استعمال کرتے تھے۔اور بے ہودہ لڑکے اپنی مرضی کے زبر زیر پیش لگا کر اس نام کو ایک گندہ سا جملہ بنا دیا کرتے تھے۔اور پھر شمیم آرا نے مشہورِ زمانہ فلم مس استنبول بنا کر استنبول سے تاریخی شہر کو گلی گلی عام کر دیا۔تب احساس ہوا کہ اس شہر کے نام کی تبدیلی نہ صرف تاریخ اور اردو املا کی آسانی کے لیے ضروری تھی بلکہ انٹرٹینمنٹ کی صنعت کے لیے بھی لازم تھی خود سوچیں مس قستنطنیہ کیسا لگتا؟
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

February 9, 2010

پرچہ کہانی

Parcha Kahani


اس بار جب ڈاکٹر کُسی صاحب پرچہ سامنے آیا تو جو پہلی بات میرے دماغ میں آئی وہ یہ تھی کہ وہ آخری موقعہ کب آیا تھا جب مجھے سارے پرچے میں سے ایک سوال بھی نہ آتا ہو۔ایسا تو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے کہ کچھ سوال آتے ہوں اور کچھ نہ آتے ہوں لیکن ایسا بہت ہی کم ہوا ہے کہ سارے سوال آتے ہوں یا کوئی بھی نہ آتا ہو۔میں ڈیڑھ گھنٹہ فضول ضائع کرنے کی بجائے سابقہ زندگی میں دیے گئے امتحانات کو یاد کرنے لگا۔

پڑھاکو اور بہت قابل بچوں کی زندگی عام طور پر بڑی بور ہوتی ہے ۔میرے جیسے درمیانے درجے کے طالب علم ہمیشہ ایک بھرپور زندگی گزارتے ہیں کیونکہ امتحانات سے قبل وہ کتاب اور پڑھائی سے ایسے دور رہتے ہیں جیسے ایڈز کے اشتہار میں کہتے ہیں ’احتیاط واحد علاج‘۔اور پھر امتحانات کے نزدیک شارٹ کٹ کی تلاش میں رہتے ہیں جیسے پانچ سالہ پرچے، گیس، پیپر آؤٹ اور جب کوئی داؤ نہ چلے تو پرچے میں ہی کچھ ہیر پھیر کر کے اللہ میاں سے دعا کرنی جب کہ جانتے ہم بھی بخوبی ہیں کہ پاس ہونا تبھی ممکن ہے اگر ممتحن نشے میں ہو۔پاس ہو گئے تو اپنی دو نمبر قابلیت کے خود بھی قائل ہو جاتے ہیں اور فیل ہوئے تو ہائے ری قسمت۔۔۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

January 31, 2010

میں اور گوریاں

Main aur Gorian


عمر کے پچیسویں سال میں میری بھی قسمت کھلی اور میں گوریوں کے دیس پہنچ گیا۔وہ پہلی گوری جس کے روبرو مجھے جانے کااور گفتگو کرنے کا اعزاز حاصل ہوا اس سے کچھ زیادہ ہی انکساری اور خوش اخلاقی سے بات کرنے کی وجہ یہ نہ تھی کہ وہ پہلی گوری تھی جس سے میں بات کر رہا تھا بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ فرینکفرٹ ایر پورٹ پر امیگریشن کا کام کر رہی تھی اور میرا یورپ میں داخلہ اس کے ہاتھ میں تھامی مہر پر منحصر تھااور میں ایسا نہیں کرنا چاہ رہا تھا جس سے وہ برا منا جائے اور مجھے واپسی پاکستان جانے والے جہاز پر سوار کرا دے۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

January 22, 2010

الو کا پٹھہ

Ullo ka Patha

 میرے ایک دوست واصف محمود صاحب نے شکوہ کیا ہے کہ جب بھی لڑکی کا معاملہ آتا ہے میں پہلو تہی کر لیتا ہوں، انکا
 شکوہ دور کرتے ہوئے یہ مضمون زیرِخدمت ہے اور اس سے اگلا بلاگ وارسا کی لڑکیوں کے بارے میں ہوگا۔ امید ہے کہ واصف صاحب کا شکوہ دور ہو جائے گا۔ 

میں اپنی زندگی سے اچھا خاصا مطمئن تھا جب ایک دن تصور نے(تصور میں نہیں تصور نے کیونکہ تصور میرے دوست کا نام ہے)مجھے ایک قول زریں کی طرف توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی۔میں تو اس کو بکواس سے زیادہ درجہ دینے کو
 تیا ر نہ تھا لیکن تصور کے اصرار پر اس پر سنجیدگی سے غور کیا۔لکھا تھا " جب لڑکا لڑکی اکیلے ہوں اور ان کے ساتھ کوئی نہ ہو تو وہ تیسرا شیطان ہوتا ہے لیکن جب لڑکا لڑکی اکیلے ہوں اور ان کے ساتھ کوئی ہو تو وہ تیسرا الو کا پٹھہ ہوتا ہے"۔

مزید پڑھیے Résuméabuiyad

January 16, 2010

جب مجھے انجمنِ شبانہ جانا پڑا۔


 کچھ لوگوں کو عجیب عادتیں ہوتی ہیں جیسے مجھے اگر آپ کہیں نہ لے کر جانا چاہتے ہوں اور صاف انکار بھی نہ کرنا چاہتے ہوں تو مجھے اتنا ہی کہہ دیں کہ "وہاں بہت سے لوگ ہوں گے"۔میں خود ہی جانے سے منع کر دوں گا۔مجھے جن چیزوں کا کبھی شوق نہیں رہا ان میں انگریزی فلموں سے رغبت کے باوجود نائیٹ کلب جانا بھی ہے۔ 

 میں کوئی ایسا حاجی یا ملا نہیں ہوں۔ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ اس کے پیچھے بھی وہی وجہ رہی ہو کہ وہاں بہت سے لوگ ہوں گے۔پاکستان میں تو خیر یہ ویسے ہی ممکن نہیں ہے کیونکہ وہاں ایسے چھوڑیں ویسے کلب بھی نہیں بنتےلیکن کچھ دوست جو لاہور،اسلام آباد مزیدپڑھنے کے لیے چلے گئے تھے بتاتے ہیں کہ وہاں پر ایسے کلب نیم خفیہ طور پر کام کرتے ہیں اب سچ جھوٹ انکا ۔پر دبئی جا کر بھی اور بابا کے اصرار پر بھی کبھی میرے دل میں یہ خیال بھی نہیں آیا کہ جا کر دیکھنا تو چاہیے کہ آخر یہ ہے کیا بلا۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

January 12, 2010

نیا سال،عیسوی بھی اور عمرکا بھی

niya saal eesvi bhe or umer ka bhe

کسی نے کہا تھا نیا سال محض ایک ہندسے کی تبدیلی ہے لیکن اس سال تو کم از کم یہ تبدیلی دو ہندسوں پر مشتمل تھی۔نیا سال اور میری سالگرہ تقریباً ساتھ ساتھ ہی آتے ہیں اور دونوں کے ساتھ ہی میرا کوئی خاص تعلق نہیں رہا۔نیا سال ہمیشہ میرے لیے اس طرح مشکل لایا ہے کہ کچھ عرصہ نئے ہندسے کے ساتھ ہم آہنگ ہونے میں لگ جاتا ہے اور ایسے ہی سالگرہ بھی کہ مجھے پھر سے گنتی کرنی پڑتی ہے کہ اب میں کتنے سال کا ہو گیا ہوں۔لیکن اس بار دونوں دن مجھے نیا قسم کا تجربہ ہوا۔ یہاں پولینڈ میں لوگ نئے سال کی مبارکباد ان الفاظ میں دیتے ہیں ’نیا سال نئی خوشیاں‘۔پر کوئی ہم سے پوچھے کہاں کا نیا سال کہاں کی خوشیاں۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

January 8, 2010

چند چیزیں جو چند چیزوں کی یاد دلاتی ہیں

chand chezain jo chand chezon ki yad dilati hain

یاد تو یاد ہے،اس کمبخت کا کیا جائے۔کسی بھی واقعے کسی بھی بات سے دل میں بلا اجازت چلی آتی ہے۔ایسی ہی کچھ باتیں ہیں کچھ واقعات ہیں جو یہاں وارسا میں آکر دل کو کچوکے لگاتی ہیں اور میرے جیسا شخص جو رہتا ہی ماضی میں ہے اس کادل بے اختیار ماضی میں جھانکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ یوں تو ایسی چیزوں کی لمبی فہرست ہے لیکن فی ا لحال صرف چھ چیزوں کا ذکر کروں گا جو مجھے سب سے زیادہ ماضی میں لے جاتی ہیں۔

 ان میں سب سے پہلے ہے میرے کمرے میں رکھا ہوا ریفریجنریٹر یا فریج۔جو اتنی اونچی آواز میں چلتا ہے کہ جب اس کا کمپریسر بند ہوتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے بجلی چلی گئی ہو۔دن کے وقت تو کمرے میں شور شرابہ رہتا ہے لیکن رات کو جب ہر طرف خاموشی سی ہوتی ہے تو جیسے ہی کمپریسر بند ہو تا ہے بے اختیار دل کہہ اٹھتا ہے ’واپڈا کی تو۔۔۔‘۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

January 4, 2010

وارشاوا سے

warshawa (warsaw) se
جب میں نے پہلی باروارسا دیکھا تو مجھے پہلی نظر میں ہی اس سے پیار ہو گیا تھا۔ ملتان جہاں کے لوگوں نے مشہور کر رکھا ہے کہ دوزخ میں کچھ لوگ کمبل لی کر سردی سے کانپ رہے تھے تو ایک شخص نے جو وہاں نیا آیا تھا ایک پرانے شخص سے پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے تو وہ بولا یہ ملتان کے رہنے والے ہیں۔اگر آپ اس بات کو مقامی لوگوں کا گھڑا ہوا افسانہ سمجھتے ہیں تو ملتان کے چار تحفے فارسی میں بھی مشہور ہیں جو کہ گرد،گرما،گدا وگورستان ہیں۔

باقی متحدہ عرب امارات تو ویسے ہی صحرا ہے وہاں کے بارے میں کچھ لکھنا ہی بیکار ہے۔تو وارسا پہنچنے پر جون میں
جب درجہ حرارت تیس سینٹی گریڈ تک پایا تو ہم گرمی کے ماروں کے لیے ویسے ہی وارسا ایک جنت سی تھی۔لیکن اب چھ ماہ بعد اس کی تمام تر خامیاں دیکھ چکنے کے بعد بھی مجھے اس سے ویسا ہی پیار ہے جیسا پہلی نظر میں ہوا تھا،حالانکہ میرا ریکارڈ رہا ہے جو شے مجھے پہلی نظر میں ہی بھا جائے وہ بعد ازاں کچھ اتنی خاص نہیں رہتی لیکن وارسا اس اصول سے ابھی تک تو بالاتر ہی رہا ہے۔

مزید پڑھیے Résuméabuiyad

ذات,short story

zaat

   تیرہ سال چھ مہینے اور نو دن کے بعد محمد افضل نے فیصلہ کیا کہ اب وطن کی یاد ناقابلِ برداشت ہے اور اب وقت آگیا ہے جب واپس مڑ جانا چاہیے۔لندن میں محمد افضل کے نام سے جانا جانے والا اپنے وطن میں فضلی نائی کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔پر یہ تو تیرہ سال چھ ماہ قبل کی بات تھی اب پتہ نہیں وہ اس کو پہچانتے بھی ہیں کہ نہیں۔نجانے اس کے من میں کیا سمائی تھی کہ سب کچھ چھوڑ کر دو کپڑوں میں ہی گاؤں کو چھوڑ آیا۔گاؤں میں تو خیر تھا کیا ایسا جس کو چھوڑنے میں مشکل ہوتی ،ایک بوڑھا باپ جس کا پسندیدہ مشغلہ فضلی کو گالیا ں نکالنا اور مارنا تھا، ایک کچا گھر اور وہ بھی چوہدریوں کی مہربانی،چند دوست جو کہیں بھی بنائے جا سکتے ہیں ، ایک ماں اور ایک شمو جو ہر جمعرات شاہوں کے مزار پر اس کے نام کا دیا جلانے کے بعد اس سے ملنے آیا کرتی تھی۔گاؤں چھوڑنا کوئی ایسا گھاٹے کا سودا تونہ تھا ،پر چھوٹنے پر آیا تو پہلے گاؤں چھوٹا پھر شہر اور آخر میں ملک۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad