chand chezain jo chand chezon ki yad dilati hain
یاد تو یاد ہے،اس کمبخت کا کیا جائے۔کسی بھی واقعے کسی بھی بات سے دل میں بلا اجازت چلی آتی ہے۔ایسی ہی کچھ باتیں ہیں کچھ واقعات ہیں جو یہاں وارسا میں آکر دل کو کچوکے لگاتی ہیں اور میرے جیسا شخص جو رہتا ہی ماضی میں ہے اس کادل بے اختیار ماضی میں جھانکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
یوں تو ایسی چیزوں کی لمبی فہرست ہے لیکن فی ا لحال صرف چھ چیزوں کا ذکر کروں گا
جو مجھے سب سے زیادہ ماضی میں لے جاتی ہیں۔
ان میں سب سے پہلے ہے
میرے کمرے میں رکھا ہوا ریفریجنریٹر یا فریج۔جو اتنی اونچی آواز میں چلتا ہے کہ جب اس کا کمپریسر بند ہوتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے بجلی چلی گئی ہو۔دن کے وقت تو کمرے میں شور شرابہ رہتا ہے لیکن رات کو جب ہر طرف خاموشی سی ہوتی ہے تو جیسے ہی کمپریسر بند ہو تا ہے بے اختیار دل کہہ اٹھتا ہے ’واپڈا کی تو۔۔۔‘۔
یہاں سردی کی وجہ سے رواج ہے کہ لوگ دو تین سوئیٹر پہنتے ہیں اور اوپر سے جیکٹ یا کوٹ پہنتے ہیں۔تو جب آپ کمرے میں داخل ہوتے ہیں تو وہاں ہینگر ہوتے ہیں جہاں لوگ اپنی جیکٹیں یا کوٹ اتار کر لٹکا دیتے ہیں۔جب بھی میں اپنا کوٹ یا اپنی جیکٹ وہاں لٹکاتا ہوں تو مجھے جمعہ نماز یاد آجاتی ہے ۔پاکستان میں بد قسمتی سے میں کو ئی اتنی باقاعدگی سے مسجد نہیں جاتا تھالیکن جمعہ اکثر مسجد میں ہی پڑھا کرتا تھا ۔جب وہاں اپنی جوتی اتارا کرتا تھا تو اس کو حسرت بھری نگاہ سے دیکھا کرتا تھا کہ پتہ نہیں واپسی پریہ ملے گی یا نہیں۔جبکہ یہاں پر کوٹ کی جیبوں سے کبھی موبائیل اور پرس تک نہیں نکالا۔
ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک لڑکا کچھ لکھ رہا ہو اور اس میں لڑکیوں کا ذکر نہ ہو تو میری اس فہرست میں لڑکیاں بھی ہیں۔یہاں کی لڑکیاں دیکھ کر پاکستان کی لڑکیاں یاد آجاتی ہیں۔ویسے تو یہاں بے تحاشا لڑکیاں ہیں اور ہر قماش کی لڑکیاں ہیں لیکن جب کوئی لڑکی گھاس نہیں ڈالتی تو بے اختیار پاکستانی لڑکیاں یاد آجاتی ہیں جنہوں نے بھی کبھی ہمیں گھاس نہ ڈالی تھی اور دل میں ایک ہوک سی اٹھتی ہے کہ ظالم پردیسیوں کا تو خیال کیا ہوتا۔پر اگر کسرِ نفسی سے کام نہ لوں تو ایسا کم کم ہی ہوتا ہے کیونکہ بھوری رنگت ان لوگوں کے لیے ابھی نئی نئی چیز ہے ابھی یہ ہماری کارستانیوں سے واقف نہیں ہوئے اور لڑکیاں اس رنگت پر جان دیتی ہیں(یہ میں ایک پاکستانی لڑکے کے لفظ نقل کر رہا ہوں)۔بس آپ پہل کریں لیکن اگر اتنی ہی قابلیت ہوتی تو پاکستانی لڑکیاں نہ پوچھ لیتیں کہ ’میاں تمھارے منہ میں کتنے دانت ہیں‘چلو میاں کو مشتبہ لفظ سمجھ کو چھوڑ بھی دیں تو باقی جملہ تو پوچھ ہی لیتیں۔سرائیکی میں ایک کہاوت ہے ’جیڑا اتھاں چندرا او مدینے چندرا‘(اس کی تشریح یوں کی جاسکتی ہے جو یہاں نکما وہ وارسا بھی نکما)۔
جب جب میں نوڈلز کھاتا ہوں تو مجھے گھر یاد آجاتا ہے جہاں جب مما مہینے بھر کا راشن لینے یوٹیلیٹی اسٹور جایا کرتی تھیں تو بڑی منتوں اور ترلوں کے بعد ا ن کو اس بات پر آمادہ کرتے تھے کہ نوڈلز کے پیکٹ بھی لیتی آئیں۔لیکن اب یہ یاد کم ہوتی جا رہی ہے تب تو نوڈلز کھانا ایسا لگتا تھا جیسے عیاشی ہو گئی ہو لیکن اب حلال خوراک اور تن آسانی کے چکر میں ہر دوسرے دن نوڈلز ہی زہر مار کرنے پڑتے ہیں۔
ویسے تو یہاں ٹرانسپورٹ کے لیے شہر میں بسیں ،ٹرام ،میٹرو اور لوکل ٹرینیں چلتی ہیں جن سب کا ایک ہی کارڈ بنتا ہے جس کی ماہانہ فیس یہاں کے تقریباً ۸۰ زووتی (یہاں کی کرنسی جس کو انگریزی میں زلوٹی کہتے ہیں)بنتے ہیں۔ ہم جہاں رہتے ہیں وہاں سے یونیورسٹی آنے جانے کے لیے لوکل ٹرین استعمال کرتے ہیں۔حالانکہ تقریباً روز ہی میں ان پر سوار ہوتا ہوں پر جب بھی سفر کرتا ہوں سالوں پرانی پاکستان میں پڑھی ایک خبر یاد آجاتی ہے’چلتی ٹرین میں ایک بوگی کا فرش گر گیا،آٹھ افراد ہلاک اور تیس زخمی‘۔
یہاں آج کل موسم خاصاسرد ہے۔درجہ حرارت منفی بیس تک پہنچ جاتا ہے۔گھروں میں تو ہیٹینگ سسٹم لگے ہوئے ہیں لیکن باہر نکلتے وقت ایسے تیاری ہوتی ہے جیسے دولہا بارات میں جانے لگا ہو۔تین سوئیٹر اوپر جیکٹ یا کوٹ گلے میں مفلر،سر پر ٹوپی،ہاتھوں میں دستانے، پتلون کے نیچے اونی پاجامہ، دو دو جرابیں اور جوتے بھی کوئی عام نہیں ان کے اندر بھی فر لگی ہوتی ہے گویا ہم کلاس پڑھنے نہیں کوئی آسٹروناٹ چاند کے سفر پر جا رہا ہو ۔لیکن اس ساری تمہید کا مقصد یہ تھا کہ جب بھی باہر نکلنے لگتا ہوں تو مما بہت یاد آتی ہیں۔وہاں سردیوں میں جب میں موٹر سائیکل پر اسکول جایا کرتا تھا تو مما کہا کرتی تھیں کہ بیٹا سر پر ٹوپی پہن لو گلے میں مفلر ڈال لو تو تب کچھ فیشن اور کچھ جوانی کے شوق میں کسی دن مما کے اصرار پر گھر سے پہن بھی لیتا تو گھر سے نکلتے ہی ٹوپی اور مفلر بستے میں ڈال لیتا تھا ۔اب جب گھر سے نکلتا ہوں تو سوچتا ہوں تو مما دیکھیں تو کتنا خوش ہوں گی ۔