niya saal eesvi bhe or umer ka bhe
کسی نے کہا تھا نیا سال محض ایک ہندسے کی تبدیلی ہے لیکن اس سال تو کم از کم یہ تبدیلی دو ہندسوں پر مشتمل تھی۔نیا سال اور میری سالگرہ تقریباً ساتھ ساتھ ہی آتے ہیں اور دونوں کے ساتھ ہی میرا کوئی خاص تعلق نہیں رہا۔نیا سال ہمیشہ میرے لیے اس طرح مشکل لایا ہے کہ کچھ عرصہ نئے ہندسے کے ساتھ ہم آہنگ ہونے میں لگ جاتا ہے
اور ایسے
ہی سالگرہ بھی کہ مجھے پھر سے گنتی کرنی پڑتی ہے کہ اب میں کتنے سال کا ہو گیا ہوں۔لیکن اس بار دونوں دن مجھے نیا قسم کا تجربہ ہوا۔
یہاں پولینڈ میں لوگ نئے سال کی مبارکباد ان الفاظ میں دیتے ہیں ’نیا سال نئی خوشیاں‘۔پر کوئی ہم سے پوچھے کہاں کا نیا سال کہاں کی خوشیاں۔
یہ الگ بات ہے کہ اپنی یونیورسٹی کے چند لوگوں کے ہمراہ میں بھی نئے سال کی تقریب میں شرکت کرنے کے لیے وارسا سے تقریباً ۱۵۰ کلو میٹر دور ایک چھوٹے سے گاؤں دوبروودا گیاتھا۔دوبرا اچھے کو اور وودا پانی کو کہتے ہیں ۔اس گاؤں میں آنے کی واحد وجہ یہ تھی کہ جس نے یہ سفر ترتیب دیا تھا وہ پہلے ہی اس گاؤں میں آ چکے تھے۔اور میرے آنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ سب یہاں آرہے تھے تو میرے پاس دو ہی راستے تھے یا ان کے ساتھ چلا جاتا یا کمرے میں بیٹھا بیٹھا تمام چھٹیاں گزار دیتا۔تو دوسرا کام چونکہ میں پچھلے چھ ماہ سے پولینڈ میں کرتا آرہا تھا اس لیے میں نے بھی جانے کا فیصلہ کر لیا۔
پولینڈ تقریباً دو سو سال تک دنیا کے نقشے کے غائب رہا ہے۔آدھا جرمنی اور آدھا روس نے بانٹ رکھا تھا۔لہذا پولینڈ کا وہ حصہ جو جرمنی کے قبضے میں رہا ہے روسی حصے سے ہر طرح سے بہتر ہے چاہے وہ لوگوں کا معیارِ زندگی ہو یا مواصلات کے زرائع۔یہ گاؤں جہاں ہم نے جانا تھا ایک اور روسی قبضے سے ہی آزاد ہو ا ہے میں بیلاروس کی بات کررہاہوں۔یہ گاؤں بیلا روس کی سرحد سے پانچ کلو میٹر دور واقع ہے ۔ایک وقت بیلاروس اور یوکراین پولینڈ کا حصہ ہوا کرتے تھے لیکن بعد میں خود پولینڈ روس اور جرمنی کی توسیع پسندی کا حصہ بن گئے اور یہ گاؤں روسی قبضے میں آگیا جس کا پہلا ثبوت تب ملا جب وہاں کوئی ایکسپریس ٹرین نہ جانے کی خبر ملی۔
لیکن یہ سن کر مجھے خوشی ہی ہوئی کہ یہ کیا تفریح ہوئی کہ ٹرین پر بیٹھ گئے اور منزل پر جا کر اتر گئے۔ٹرین جو بذاتِ خود ایک کلاسیکل چیز ہے ایکسپریس نے اس کو بھی جہاز نما بنا دیا۔کم از کم میں نے تو اس پسینجر نما ٹرین کا خوب لطف اٹھا یا جو نہ صرف سٹیشنوں پر رکتی گئی بلکہ منزل تک پہنچنے کے لیے ہمیں ٹرین تبدیل بھی کرنی پڑی لیکن برا ہو اس سرد موسم کا اور پولینڈ میں قلفیاں نہ بکنے کا ورنہ ابرار کے بلو گانے کے مطابق آتے جاتے ٹیشنوں سے قلفیاں بھی لازم کھائی جاتیں۔
قصہ مختصر پچھلے سال کی آخری رات ہم برف باری میں ایک جنگل میں آگ کے گرد ہاتھ سینک رہے تھے اور ہمارے پولش ہم سفر جام ہاتھ میں تھامے الٹی گنتی گن رہے تھے اور جب تین،دو،ایک،زیرو ہوا تو ہم بھی ہاتھوں میں جوس کے گلاس لیے شہیدوں میں نام لکھواچکے تھے۔
جب دو تاریخ کو نئے سال کی تقریبات میں حصہ لیکر واپس لوٹے تو زبان پر ابھی تک پولش میزبانوں کے خاص طور پر ہمارے لیے تیار کردہ کھانوں کا ذائقہ مچل رہا تھا۔لیکن ہاسٹل کے کمرے میں لوٹتے ہی وہی پرانی ڈبل روٹی کھا کر خوشی سے پھولنے کی کوشش کرنے کی عادت ڈالنے کی کوشش دوبارہ سے شروع کردی ہے۔
پس ثابت ہوا نیا سال سوائے ہندسے بدلنے کے علاوہ کچھ نہ تھا وہی ہم ہیں وہی کمرہ وہی تنہائی اور وہی فضولیات۔
جب میری سالگرہ نزدیک آئی تو میں بڑا خوش تھا کہ اس بار کسی کو نہیں پتہ کہ میری سالگرہ ہے سکون سے دن گزرے گا۔پیسے بچیں گے اور دوستوں سے گلہ الگ۔ لیکن خوش فہمی پوری ہونے کے لیے انسان کی قسمت سے پہلے بھی خوش لکھا ہونا چاہیے۔تو سالگرہ کے روز پکڑے گئے اور بہت برے پکڑے گئے۔صرف دو سو زووتی جو کہ پاکستانی چھ ہزار روپے بنتے ہیں پیدا ہونے کا تاوان بھرنا پڑنا۔میرے خیال میں اتنا تو پیدا ہونے پر خرچ نہ ہوا ہوگا پس اب یہ پالیسی سوچی ہے کہ آئندہ یا تو کسی کو ہوا نہیں لگنی دینی کہ سالگرہ کب ہے اگر پتہ چل جائے کسی طرح دوستوں کو تو سالگرہ والے دن وہاں سے غائب ہونے کی کوشش کرنی ہے اور پھر بھی پھنس جائیں تو تمام دوست جو خرچ کروانے میں پیش پیش تھے ان کی سالگرہ یاد رکھنا ہے اور بدلہ خوب لینا ہے۔اور پھر بھی دل خوش نہ ہوا تو انتظار کریں اس وقت کا جب میرا بلاگ میرے دوستوں کی مذمت میں ہوگا۔