August 21, 2015
August 11, 2015
میرے جانوروں اور پرندوں کے شوق سے تو ہر وہ بچہ بچہ واقف ہو چکا ہے جو کبھی غلطی سے بھی میرے بلاگ کے
پچاس میٹر نزدیک سے گزرا ہو۔ اتنا تو عاشق ناکامی کے بعد شعر کہنے اور آہیں بھرنے پر زور نہیں دیتے جتنا ہم نے بلا وجہ جانوروں پرندوں پر دے ڈالا ہے اور اتنا ڈالا ہے خطرہ ہے کہیں بیچارے ہمارے بوجھ سے دب کر مر ہی نہ جائیں۔ نجانے کونسا لمحہ تھا جب دل اس جانب کھچا گیا اور ایسا گیا کہ کسی نے وہاں ہی باندھ کر ڈال دیا۔ اب آئی بھگتانی تو ہے ہم نے بھی کیمرہ لٹکایا گلے سے اور نعرہ جد آدم بو لگاتے ہوئے جنگلوں کی راہ لی- اللہ پوچھے انگریزوں سے ایک تو جانور پرندے چڑیا گھر میں بند کر دیے اوپر سے لینز کی سیل لگا دی بس وہ وقت جو ہم اس سوچ میں گزارتے کہ کس جنگل جائیں؟ جنگل جائیں تو جانور دل پر نہ لے لیں، دل پر لے کر غصہ ہی نہ کر جائیں لہذا نہیں جاتے وہ وقت ہم چڑیا گھروں کی تلاش اور سیر میں گزارنے لگے۔
اس تحریر کو شیئر کریں;
August 1, 2015
ماسٹرز کے دوران ہی دماغ پر پی ایچ ڈی PhD کا بھوت سوار ہو چکا تھا اور دل ہی دل میں خود کو ڈاکٹر کہلوانا شروع کردیا تھا اور زندگی کی واحد خواہش یہی رہ گئی تھی کہ جلد از جلد پی ایچ ڈی میں داخلہ ہو جائے تاکہ بقیہ زندگی امن و آتشی سے گزر سکے اور لوگ ڈاکٹر بلا سکیں- اصلی ڈاکٹر بننے کے قابل تو نہیں تھے کہ سوئی کی نوک دیکھ کر ہی ہوش جاتا رہتا ہے اور واحد طریقہ ڈاکٹر بننے کا یہی بچتا ہے کہ پی ایچ ڈی کر لیں- ویسے تو اس ڈاکٹر کے لیے بھی پی ایچ ڈی پاس کرنا ہوتی ہے لیکن ہم نے سوچا جیسے مزدور اینٹیں ڈھوتے ڈھوتے ایک دن راج مستری بن ہی جاتا ہے ویسے ہی داخلہ ہو ہی گیا تو ایک دن یونیورسٹی نے خود ہی تنگ آ کر کہنا ہے کہ یار اس کو تو ڈگری ایک نحوست سے تو جان چھوٹے۔
اس تحریر کو شیئر کریں;