December 24, 2016
December 20, 2016
اس تحریر کو شیئر کریں;
December 16, 2016
ہماری قوم جیسے بھیڑ چال کی عادی ہے تو جب کوئی ایک شخص کریانے کی دکان کھولتا ہے تو چند ہی دنوں میں اس سے اردگرد کئی کریانے کی دکانیں مزید کھل جاتی ہیں، ایک بندہ بس میں معجون اور چورن بیچنا شروع کرتا ہے تو ساری قوم ہاتھ میں بکسا پکڑے معجون بیچنا چالو کر دیتی ہے، ایک لڑکا ڈاکٹر بنتا ہے تو پیچھے لائن لگ جاتی، ایک ون ویلینگ کرتا ہے تو باقی قوم ایک کیا آدھ ویلنگ کرنے پر تل جاتی ہے ایسے ہی آج کل قوم کو جس چیز کا دورہ پڑا ہے وہ ہے فیس بکی دانشور بننے کا۔
اس تحریر کو شیئر کریں;
December 1, 2016
پچھلے دنوں ایک پروفیسر صاحب کا اخباری مضمون پڑھنے کو ملا جس میں انہوں نے پاکستان میں تعلیمی اداروں میں تحقیق یعنی ریسرچ کے زوال و زبوں حالی کو موضوع بحث بنایا۔ چونکہ ہم خود اب پی ایچ ڈی کر چکے ہیں اور ملکی اور غیر ملکی دونوں نطاموں کی خاک چھان چکے ہیں (ویسے تو چاٹ چکے بھی ٹھیک ہیں) تو اس موضوع پر بھلا کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم اپنی ماہرانہ رائے دینے سے باز رہیں۔
اس تحریر کو شیئر کریں;
November 16, 2016
اس تحریر کو شیئر کریں;
November 1, 2016
پیش لفظ: اس کہانی کے تمام کردار و واقعات فرضی ہیں کسی بھی قسم کی مطابقت محض اتفاقیہ ہو گی۔ اور اگر قمر وزیر خود یہ اردو بلاگ پڑھ لے جو کہ مشکل ہے اور سمجھ لے کہ اس کے بارے لکھا گیا ہے جو کہ ناممکن ہے تو میں اس کو کہنا چاہتا ہوں کہ بھائی ایک تو یہ میں نے لکھا نہیں ، دوسرا یہ جھوٹ ہے ، تیسرا جانے دے ناں دوست نہیں پھر۔۔۔۔
اس تحریر کو شیئر کریں;
October 14, 2016
اس تحریر کو شیئر کریں;
October 1, 2016
اس تحریر کو شیئر کریں;
September 17, 2016
کراچی ہوائی اڈے پر اترا تو لینے آئے میزبان سے تصدیق چاہی کہ کراچی ہی آیا ہوں کہیں جہاز واپس ملتان تو نہیں لے گیا-جواب نفی میں ملا لیکن دل کو تسلی نہ ہوئی گرمی اور تپش ان کی بات کی تردید کرتی تھی۔ تمام دن کا پروگرام شام تک منسوخ کر کے گھر بیٹھے رہے اور ان کے پی ٹی سی ایل سمارٹ ٹی وی PTCL smart TV کی تعریفیں سنتے سنتے فٹ بال کا ایک بور سا میچ دیکھنے لگے-
اس تحریر کو شیئر کریں;
August 12, 2016
پڑھنے سے پہلے نوٹ فرما لیں یہ سیاسی نہیں معاشرتی بلاگ ہے کہ معاشرتی سائنس میں ہم پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھتے
ہیں۔
جس نے ملتان میٹرو کا نقشہ بنایا ہے اس سے بڑا عملی مذاق یعنی پریکٹیل جوک کرنے والا شخص مجھے آج تک نہیں ملا۔ جس کسی کو زیگ زیگ Zig Zag کا مطلب نہیں آتا وہ میٹرو متاثرہ بوسن روڈ پر گاڑی چلا کر دیکھ لے- بل کھاتی سڑک جو پہاڑی علاقوں کی پگڈنڈی کا منظر پیش کرتی ہے کو مزید چار چاند اس کی چوڑا لگا دیتی ہے جو کہیں چالیس فٹ سے تجاوز کر جاتی ہے اور کہیں سکڑ کر دس فٹ سے بھی کم رہ جاتی ہے اور اس پر طرہ یہ ہے کہ دس فٹ کے متوازی مخالف سمت ٹریفک والی سڑک چالیس فٹ چوڑی ہے- لیکن یہاں پر بس نہیں بلکہ اس الٹی سیدھی لکیریں لگانے کا توڑ یہ نکالا گیا کہ کئی جگہوں پر اب سڑک تین رویہ ہے- دو جانے والے ایک آنے والا اور تینوں کے درمیان ڈیوائیڈر منہ چڑا رہا ہے- ادھر بعض جگہوں پر سروس روڈ اصل روڈ سے چوڑا ہے اور بعض جگہوں پر اس کا وجود ہی نہیں- بس ایک انجیرننگ کا شاہکار ہے جس دل کرتا ہے بندہ نقشہ نویس، نقشہ پاس کرنے والوں اور انجینیر صاحبان کے ہاتھ چومے- سنا ہے لاہوری میٹرو کے نتیجے میں درخت کٹنے پر رو رہے ہیں ان کو ملتان آکر ہنسنے کی دعوت ہماری طرف سے۔
اس تحریر کو شیئر کریں;
August 1, 2016
ہم نے اسی (80) کی دہائی میں ہوش سنبھالا تھا اور اس زمانے میں اکثر گھروں کی طرح ہمارے گھر میں بھی میوزک یعنی موسیقی کو میراث پوںڑاں (میراثی پن) ہی سمجھا جاتا تھا۔ ایسا بھی نہیں کہ ہم کوئی کٹر مذہبی گھر میں پیدا ہوئے۔ ہمارے والد خود بعض اوقات ہمیں فلمیں دکھایا کرتے تھے جیسے محمد علی کی آگ کا دریا یا ہندی سنگم- ویسے تو گھر میں ٹیپ ریکارڈر بھی تھا وی سی آر بھی لیکن بے مقصد یا محض ٹائم پاس کے لیے گانے سننا ایک بری بات سمجھی جاتی تھی۔بس شادی بیاہ کے موقع پر اس یار کا بے نقاب دیدار ہوا کرتا تھا۔
اس تحریر کو شیئر کریں;
July 23, 2016
ترکی میں گذشتہ ہفتے ہونے والے ناکام انقلاب کے بعد دنیا جہان کے مبصرین نے سیر حاصل تبصرے کیے جس میں عام آدی کچھ حاصل کرنے میں ناکام رہا لہذا ہم نے سوچا کیوں نہ ہم مختصر مگر جامع قسم کا تبصرہ پیش کریں جس میں ترکی کے ناکام بغاوت سے حاصل شدہ اخلاقی و غیر اخلاقی اسباق کا جائزہ لیا جائے تاکہ متعلقہ افراد لمبے چوڑے بیانوں، تبصروں، کالموں اور اس قسم کی دیگر تکالیف سے بچ سکیں اور تن آسانی مزید پروان چڑھ سکے۔
اس تحریر کو شیئر کریں;
July 11, 2016
چونکہ میں عقل اور وقت دونوں سے فارغ ہوں اس لیے اپنی اس چھوٹی سی عمر میں جو چیز ہتھے چڑھی اس کا پوسٹ مارٹم کیا- آپ اس سے قبل بروج اور ان کے احوال پڑھ چکے ہیں نہ صرف پڑھ چکے ہیں بلکہ پڑھ پڑھ کر رٹ لیے ہیں کہ وہ بلاگ پر پڑھی جانے والی سب سے زیادہ پوسٹ بن گئی ہے۔ اب میں اس سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے آپ کو آج ہاتھوں کی لکیروں بارے باتیں گھڑ گھڑ کر بیان کروں گا ۔ اگر ان پر یقین کرلیں تو اب آپ کی سوچ پر افسوس کے سواۓ کیا کر سکتے ہیں کہ ہمارا کام تو آپ کو گمراہ کرنا تھا آپ ہو گئے تو خود بھگتیں ہمارا کیا ہے ہم تو ان بے تکیوں پر یقین نہیں رکھتے۔ باقی بس اب بھوت اور ہمزاد پکڑنے کے نسخوں کا انتظار کیجیے۔
اس تحریر کو شیئر کریں;
July 1, 2016
دوسری دفعہ کا ذکر ہے (ویسے تو پہلی دفعہ کا ذکر بھی قابل ذکر ہے لیکن وہ پھر کبھی سہی) کہ ترکش ائیرلائن کے تمام
تر برے تجربات کے باوجود میں بذریعہ استبول ترکش ائیر لائن سے سفر کررہا ہے- جب پرواز تالِن – استنبول- کراچی تھی اور استنبول میں دو گھنٹے کا انتظار تھا- جب تالن ہوائی اڈے پہنچا تو پتہ چلا کہ پرواز پندہ منٹ تاخیر سے روانہ ہوگی- وہ پندرہ منٹ بڑھ کر پورا گھنٹہ بن گئے لیکن ایسی چھوٹی موٹی تاخیر ہو ہی جاتی ہیں اور بس مجھے اب یہ کرنا تھا کہ استنبول ہوائی اڈے پر اترتے ہی کراچی والے گیٹ کی طرف دوڑ لگانی تھی
تر برے تجربات کے باوجود میں بذریعہ استبول ترکش ائیر لائن سے سفر کررہا ہے- جب پرواز تالِن – استنبول- کراچی تھی اور استنبول میں دو گھنٹے کا انتظار تھا- جب تالن ہوائی اڈے پہنچا تو پتہ چلا کہ پرواز پندہ منٹ تاخیر سے روانہ ہوگی- وہ پندرہ منٹ بڑھ کر پورا گھنٹہ بن گئے لیکن ایسی چھوٹی موٹی تاخیر ہو ہی جاتی ہیں اور بس مجھے اب یہ کرنا تھا کہ استنبول ہوائی اڈے پر اترتے ہی کراچی والے گیٹ کی طرف دوڑ لگانی تھی
اس تحریر کو شیئر کریں;
June 24, 2016
سب سے پہلے تو بتاتا چلوں کہ بریکزٹ brexit برٹش ایگزٹ یعنی برطانوی اخراج کا نعرہ ہے جو کہ برطانوی قوم پرستوں نے یورپی یونین سے اخراج کے لیے مارا اور برطانوی حکومت نے اس پر رائے شماری کرائی جس پر کل برطانوی ووٹرز نے اخراج کے حق میں فیصلہ دے دیا- میں یہ سمجھتا رہا ہے کہ ایسے ہی سیاسی اسٹنٹ ہے جو کہ ووٹنگ کے بعد اپنی موت آپ مر جائے گا لیکن نتائج نے ثابت کیا کہ "انگریز تو واقعی سیریس ہو گئے"۔
اس تحریر کو شیئر کریں;
June 20, 2016
یوں تو میں کوئی ایسا بڑا فوٹو گرافر نہیں بس بندر کے ہاتھ استرا سمجھیں کہ لوگوں کو سمجھا سکوں نصحیت کرسکوں لیکن چونکہ بلاگر ہوں اور دس بارہ لوگ پڑھتے ہیں اس لیے لکھ رہا ہوں کہ شاید کسی کا بھلا ہو جائے۔ تو عرض یہ ہے کہ آپ نے بھی آن لائن طرح طرح کے رنگ برنگ پرندے دیکھ رکھے ہوں گے اور آپ کا بھی دل کرتا ہوگا کہ نت نئے خوبصورت پرندوں کی تصاویر کھینچی جائے- اگر آپ کا دل نہیں کرتا تو بڑی اچھی بات ہے کہ ایک نہیں اور سو سکھ لیکن اگر کرتا ہے تو یہ بلاگ آپ کے لیے ہی لکھا گیا ہے۔
اس تحریر کو شیئر کریں;
June 13, 2016
ایک خاصا مشہور لطیفہ ہے کہ ایک بار ایک شخص کو عدالت میں پیش کیا گیا جس پر الزام تھا کہ اس نے گھونسا مار کر دوسرے شخص کی ناک توڑ دی تھی۔ جج نے پوچھا کہ بھئی کیوں ناک توڑی تو وہ شخص بولا کہ اس نے دو سال قبل مجھے گینڈا کہا تھا۔ جج نے تعجب کا اظہار کیا کہ اس نے تو دو سال قبل کہا تھا ناک تم نے اب توڑی- وہ شخص بولا کہ حضور میں نے پرسوں ہی چڑیا گھر میں پہلی بار گینڈا دیکھا ہے-
اس تحریر کو شیئر کریں;
May 21, 2016
دسمبر 2011میں جب میں وارسا Warsaw میں رہتا تھا تب پہلی بار تالِن Tallinn آیا تھا۔ یہ سفر میں نے بذریعہ بس سے کیا تھا۔ وارسا سے تالِن جس بس میں گیا تھا وہ وارسا سے لیکر تالِن چار ملکوں کے ہر چھوٹے بڑے شہر رکتی گئی تھی۔ تب جوانی تھی گھومنے کا شوق تھا کام وام تھا نہیں اور پیسے جیب میں برائے نام ہوا کرتے تھے تو سفر بڑے شوق سے طے کیا تھا۔ تب ہر شہر بارے سوچتا گیا تھا کہ بس ایک بار سیٹ ہو جاؤں پھر دیکھنا یہ ایک ایک شہر گھوموں گا ویسے یہ ایک ایک شہر تو پاکستان کا بھی سوچا تھا لیکن آج تک وہاں کا خواب پورا نہیں ہوا یہ تو پھر یورپی خواب ہے جو یورو سے ہوروا ہوتا ہے اور پھر سیٹ ہونا بذات خود ایسی مبہم حالت ہے کہ مارک زرگ برگ بھی سوچتا ہے بس ایک بار سیٹ ہوجاؤں پھر فیس بک کی آمدنی خیراتی اداروں کو دے دوں گا۔
اس تحریر کو شیئر کریں;
May 11, 2016
دور سبز اور آتشی رنگ کا زمین سے آسمان تک ایک ہیولا ناچ رہا تھا۔ جس منزل کی خاطر میں دوسری بار فن لینڈ آیا تھا اس کو دیکھ کر مجھ پر کپکپی طاری ہو گئی۔ میں خوفزدہ ہو گیا۔ میں اس اندھیرے میں، رات کے اس لمحے، سمندر کی طرح پھیلے میدان میں اکیلا تھا، میرے ہمراہی دور خیموں میں تھے اور ایک جگنو کی سی روشنی مجھے ان کی سمت کی طرف بتا رہی تھی- میں کل ہی اورا یا شمالی روشنیاں دیکھنے ہیلسنکی سے اس دور دراز قصبے پہنچا تھا کہ یہ قدرت کا ایسا عجوبہ تھا جو کم ہی لوگوں نے دیکھا تھا اور میں بھی ان کم لوگوں میں شمار چاہتا تھا۔
اس تحریر کو شیئر کریں;
May 1, 2016
ایک صاحب نے کچھ عرصہ پہلے فرمائش کی تھی کہ معذوروں کے بارے کچھ لکھوں۔ سنجیدہ موضوعات پر لکھنے سے ہم نے خود ساختہ معذوری اختیار کی ہوئی ہے لہذا ہم چپ رہے تاہم اب معذوروں کی ایسی قسم کے بارے لکھ رہے ہیں جو معاشرے میں تو بڑے اچھے مقام پر ہیں اور ان کی ہر جگہ منہ پر قدر بھی کی جاتی ہے لیکن ان کے بارے میں بہت کم لکھا گیا ہے۔
اس تحریر کو شیئر کریں;
April 11, 2016
پاکستان میں ہمارے ہوش سنبھالنے کے بعد سوزکی مہران کار جو تب آلٹو Alto کہلاتی تھی سے اور جس نے سوزکی ایف ایکس Fx کی جگہ لی تھی سے آشنائی کا سفر شروع ہوا۔ اس زمانے میں کاریں خال خال ہوا کرتی تھیں اور ایف ایکس بھی بڑے رتبے اور اونچے خاندان کی نشانی ہوا کرتی تھی۔ پھر ایف ایکس بدلی مہران آئی اور اس کی وقعت و معیار ہماری اخلاقی قدروں کی طرح گرتے چلے گئے۔ جب مہران جو تب آلٹو کہلاتی تھی کا پہلا ماڈل آیا تو اس میں اور ایف ایکس میں چند ایک تبدیلیاں کی گئیں جیسے مہران کا بونٹ نیچے کو جھکا بنایا گیا، اسٹیرنگ کے ساتھ ہوا پھینکنے کے لیے روائیتی بٹن یا لیور کی بجائے گول پہیے لگائے گئے، ایف ایکس کا خاص بسکٹی رنگ ختم کر کے آلٹو مختلف رنگوں میں آ گئی۔
اس تحریر کو شیئر کریں;
April 1, 2016
ماشااللہ سے ایسی طبعیت پائی ہے کہ روز اول سے بہت کم جگہیں اور عمارتیں ہیں جنہوں نے متاثر کیا ہو۔ 2010 میں جب پہلی بار بارسلونا گئے تھے تو جانتے تھے کہ ایک عام یورپی کی دس سرفہرست خواہشوں میں سے ایک یہ بھی ہوتی ہے کہ پرتگال یا بارسلونا کی سیاحت کی جائے۔ لیکن ہم وہاں چار دن رہے اور کسی بھی شے سے متاثر نہ ہوپائے - بس وہ دن اور
آج کا دن پیسا مینار سے لیکر برج خلیفہ تک ہم اچھاااا کہہ کر گزر گئے۔
اس تحریر کو شیئر کریں;
March 19, 2016
کیا آپ نے کبھی سنا ہے کسی نے ناخن تراش سے ناخن کاٹتے وقت اپنی انگلیاں زخمی کر بیٹھا ہو؟ اگر نہیں تو آج ہی مجھ سے مل کر پرانے زمانے کی سگھڑ خواتین کی یاد تازہ کریں اور اگر مل چکے ہیں تو جگر تھام کر بیٹھیے اور ہماری داستان سنیں کہ ایسی داستان نہ ہو گی داستانوں میں (اس مصرع کو تنبیہ کی بجائے ترجیع کے معنوں میں پڑھا جاوے)۔
اس تحریر کو شیئر کریں;
March 5, 2016
جب میں نے پہلی بار 'شہاب نامہ' پڑھی تھی تو میں اتنا چھوٹا تھا کہ سمجھ بوجھ کے بغیر بس اردو پڑھ لیتا تھا۔ کتاب کے ٹائیٹل صفحے پر قدرت اللہ شہاب کی باریش تصویر اور آخری باب میں وظیفے دیکھ کر جب کتاب کے درمیان میں ان کی جوانی کی بے ریش اور پتلون کوٹ والی تصویر دیکھی تو دل کو دھچکا سا لگا کہ ایک سیدھے سادے دین دار گھرانے میں اس وقت پتلون صرف خاص مواقع پر پہنی جاتی تھی۔ میں رہ نہ سکا اور والدہ سے پوچھ بیٹھا کہ شہاب صاحب پینٹ بھی پہنا کرتے تھے۔؟
اس تحریر کو شیئر کریں;
February 11, 2016
سلووینیا Slovenia جانے کا سودا دماغ میں تب کا سمایا تھا جب کا پہلی بار اٹلی گیا تھا۔ اس میں زیادہ قصور میرے دماغ سے نقشہ نویسوں کا تھا جنہوں نے ایسے نقشے بنائے کہ تمام یورپ ایک بالشت میں سما جاتا ہے اور سلووینیا تو گویا وینس سے ایک پور دور تھا۔ لیکن جانا جب تک لکھا نہ ہو تب تک کیسے ہو تو اٹلی کے چکر لگا لگا کر جہاز گھس گئے یہاں تک کہ ایدریا ہوائی کمپنی نے لیوبلیانا سے براہ راست تالن کے لیے فضائی سروس شروع کر دی لیکن ہم جہاں نقد پر آدھا ادا کرنا ہو کو ادھار پر دوگنا ادا کرنا پڑے کو ترجیع دیتے ہیں اس ارادے پر قائم رہے کہ جائیں گے تو اٹلی سے براستہ سڑک جائیں گے کہ اتنے اچھے ہم بھی نہیں کہ براہ راست ٹکٹ خریدیں، ہوٹل بک کرائیں اور جائیں بھی کہاں؟ لوبییانا۔
اس تحریر کو شیئر کریں;
January 11, 2016
لیں جی، یہ بیچارہ سا بلاگ چھ سال کا بوڑھا ہو گیاہے۔ ان چھ سالوں میں یہ دو سو ساتویں پوسٹ ہے جبکہ پھیرے مار یعنی وزیٹر تقریباً ایک لاکھ نوے ہزار تک جا پہنچے ہیں۔ یوں تو کسی بھی بلاگ کی کامیابی کو جانچنے کے کئی ایک نسخے ہیں جن میں سے ہمارے نزدیک سب ناکام ہیں اور بس کامیابی یہ ہے کہ چھ سال سے مسلسل لکھے جا رہا ہوں-
اس تحریر کو شیئر کریں;
January 1, 2016
جس دور میں ہم پیدا ہوئے تب نیا سال منانے کا رواج نہ تھا- اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ پاکستان میں کسی کو روٹھے رشتہ داروں کو منانے سے فرصت ملے تو کچھ اور منائے- جب نیا سال آنے لگتا تو ہم صرف اس لیے پرجوش ہوجاتے کہ کاپیوں پر سال کے ہندسے بھی تبدیل ہوں گے اور ہم جو سارا سال محض دن اور ماہ لکھ کر کام چلایا کرتے تھے دسمبر میں سال بھی لکھنا شروع کردیتے۔ لیکن ہائے ری ہماری سادگی کہ جس بے تابی سے انتظار کیا کرتے اسی شدت سے فراموش بھی کر دیتے اور نئے سال کے پہلے پندرہ دن بدستور پچھلا سال ہی لکھے جاتے اور آخر تنگ آ کر دوبارہ دن اور ماہ پر لوٹ آتے۔
اس تحریر کو شیئر کریں;